الخميس، 08 شوال 1445| 2024/04/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 28 جون 2019

۔ جمہوریت اسلام کے احکامات کو تبدیل کردیتی ہے

- ایسا نظام پاکستان کو قرضوں سے کیسے نجات دلا سکتا ہے جو قرضوں کے حصول کو مسئلہ نہ سمجھتا ہو

- صرف خلافت کا قیام ہی پاکستان میں  بھاری اور دفاعی صنعت کی ترقی کاباعث بنے گا

 

تفصیلات:

جمہوریت اسلام کے احکامات کو تبدیل کردیتی ہے

24 جون 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوسری شادی کےلیےمصالحتی کونسل کی اجازت ضروری قرار دے دی اور کہا کہ بیوی کی اجازت کے باوجود مصالحتی کونسل انکار کر دے تو دوسری شادی پر سزا ہو گی۔

جمہوریت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات انسانوں کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتے بلکہ یہ نظام انسانوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو تبدیل تک کرسکتے ہیں یعنی جن چیزوں اور اعمال  کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے جمہوریت انہیں حرام قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں اور اعمال کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے جمہوریت انہیں حلال قرار دے سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ملک میں  سود کا حلال ہونا ہے جس کے گناہِ عظیم ہونے کو واضح کرنے کے لیے اسلام نے اس کے ارتکاب کو اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیا ۔  کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ جمہوریت نہیں جس نے سود کو حلال قرار دیا ہے بلکہ  عالمی نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہم سود ی نظام کو ختم کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں کم سے کم شادی کے عمر 18 سال ہے اور اگر کوئی اس سے کم عمر میں شادی کرلے تو اسے سزا دی جاتی ہے ، تو کیا یہ قانون بنانا   بھی کسی عالمی نظام کا حصہ ہونے کی مجبوری کی وجہ  سے ہے؟  اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ  حکم دیا ہے جس کے تحت نہ صرف پہلی بیوی کی رضامندی بلکہ مصالحتی کونسل کی رضامندی بھی لازمی ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اس کو سزا دی جائے گئی، تو کیا یہ فیصلہ  بھی کسی عالمی نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں دیا گیا ہے؟

  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ

"مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا"(المائدہ 5:87)۔

 

تو جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوسری شادی کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی تو کوئی انسان کیسے یہ ہمت کرسکتا ہے کہ وہ کوئی شرط لگادے؟  لیکن یہ جمہوریت  ہے جو انسانوں کو یہ ہمت اور اختیار فراہم کرتی ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فیصلوں پر اپنے فیصلے جاری کریں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِيۡنًا‏

"اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کردیں تو کسی مومن مرد اور عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں ۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا"(الاحزاب 33:36)۔

 

اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کے احکامات کو تبدیل کیا جارہا ہے اور ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہورہا ہے کیونکہ جمہوریت کا نظام ہے جہاں یہ پابندی نہیں کہ قوانین صرف اور صرف قرآن و سنت سے ہی لیے جاسکتے ہیں بلکہ انسان جو چاہے ویسا قانون بنا لے۔ اس گناہ ِ عظیم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے جہاں قوانین صرف اور صرف قرآن و سنت سے ہی لیے جاسکتے ہیں۔

 

ایسا نظام پاکستان کو قرضوں سے کیسے نجات دلا سکتا ہے جو قرضوں کے حصول کو مسئلہ نہ سمجھتا ہو

11اور 12 جون 2019کی درمیانی شب پاکستان کے عوام سےخطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک اعلیٰ طاقتی کمیشن بنانےکا اعلان کیا جو اس بات کی تحقیق کرے گا کہ پچھلے دس سال یعنی پاکستان مسلم لیگ -ن(پی ایم ایل-ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں بیرونی قرض 41 ارب سے 97 ارب ڈالر تک کیسے پہنچ گیا۔ وزیر اعظم نےیہ کمیشن بنانے کا اعلان اُس وقت کیا جبکہ پی ٹی آئی حکومت کی اپنی صورتِ حال یہ ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے پہلے دن سے مسلسل قرض لے رہی ہے  اور حال ہی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے تباہ کن شرائط پر آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کا معاہدہ کیا ہے۔ عمران خان کے اس اعلان کے بعد پی ایم ایل-ن کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ ان قرضوں کے استعمال میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی اور وہ تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ یہ صورتِ حال  اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عمران خان سمیت پاکستان کے جمہوری سیاست دانوں کے نزدیک بنیادی مسئلہ قرضوں کا حصول نہیں بلکہ یہ ہے کہ آیا یہ قرضے ملکی معیشت  پر خرچ کیے گئے یا پھر یہ سابقہ حکمرانوں کی جیبوں میں چلے گئے۔  اورسرمایہ داریت پر مبنی یہی سوچ پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا سبب ہے۔ سرمایہ داریت  کے نزدیک معیشت کو بہتر بنانےکا طریقہ پیداوار کی شرح میں اضافہ کرنا ہے ۔ ایک "مقروض معیشت" کہ جس کی پیداوار کی شرح بلند ہے ایک ایسی معیشت سے بہتر ہے کہ جس کی پیداوار کی شرح بلند نہیں مگر اس پر کوئی قرض نہیں۔  پس ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی طاقتور ترین معیشتیں بھی گردن تک قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ National Debt Clockکے 2015کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ کا قومی قرض 21.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے جس میں ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ 38 ہزارڈالر کااضافہ ہو رہا ہے۔

 

سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس اسلام میں ریاست کے لیے بنیادی مسئلہ پیداوار میں اضافہ نہیں بلکہ دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے روکنا اور معاشرے میں دولت کی  تقسیم اور گردش ہے، اگرچہ اسلام کے احکامات پیداوار میں اضافے کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اسلام کے متعدد احکامات خود بخود دولت کی تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔ اسلام کا محصولات کا نظام بھی اس میں معاون ثابت ہو تا ہے جس میں امیروں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ نیز اسلام میں ریاست کا انحصار بڑ ے پیمانے پر ٹیکس عائد کرنے پر نہیں ہوتا بلکہ ریاست خودایسے اثاثہ جات کی مالک ہوتی ہے جو بڑے پیمانے پر آمدنی کا ذریعہ ہوتے ہیں ،جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ اثاثہ جات  سرمایہ دار کمپنیوں اور افراد کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ، جو ان اثاثوں سے ارب ہا ارب منافع کماتے ہیں۔  نیز اسلام بیرونی قرضوں کے حصول کے دروازے کو سرے سے بند کر دیتا ہے کیونکہ بیرونی قرضے سود پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ اسلام میں سودی لین دین کی سختی سے ممانعت ہے ۔ اللہ کا خوف رکھنے والے مسلمانوں کا حکمران خلیفہ قرض کے حصول کو ایک بھاری ذمہ داری سمجھتا ہے کیونکہ اس کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث ہوتی ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،

 

يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلاَّ الدَّيْنَ

"اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ، مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا" (مسلم)۔

 

صرف خلافت کا قیام ہی پاکستان میں  بھاری اور دفاعی صنعت کی ترقی کاباعث بنے گا

ڈان اخبار کی 24 جون 2019 کی خبر کے مطابق پاکستان میں تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر طیاروں نے پیرس میں ہونے والے ائر شو میں مداحوں کے دل جیت لیے۔ جے ایف - 17 تھنڈر طیارہ  پاکستان اور چین   نے مشترکہ طور پر بنایا ہے ، اس کا ائر فریم 58 فیصد پاکستان  اور  بقیہ 42 فیصد چینی اور روس ساختہ ہے جبکہ اس کا انجن چین کا تیار کردہ ہے۔ 

پیرس شو میں جے ایف -17 تھنڈر طیارے کی کامیاب نمائش پاکستان کی دفاعی طاقت اور صنعتی قابلیت کا مظہر ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہےکہ حکمرانوں   کی بھاری صنعتوں میں عدم توجہ کی وجہ سے پاکستان آج بھی ان طیاروں کا انجن درآمد کر رہا ہے بلکہ پاکستان میں بننے والی بیشتر گاڑیوں کے انجن بھی  جاپان سے درآمد ہوتے ہیں۔ ٹیکسٹائل جیسی صنعت ،جس کا پاکستان کی برآمدات میں بہت بڑا حصہ ہے، کی مشینیں بھی  یورپ سے درآمد کی جاتی ہیں جس کی  وجہ سے پاکستان کے درآمدی بل پر ایک بھاری بوجھ درآمدی مشینری کا ہوتا ہے۔  بھاری مشینری کی صنعت کی عدم موجودگی استعماری پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے مطابق پاکستان کے حکمران پاکستان کی صنعت کو برآمدات کی بنیاد پر ترتیب دینے کی پالیسی اپناتے ہیں اور بھاری صنعت پر توجہ کی  ضرورت کونظرانداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم صنعتی طور پر خود کفیل نہیں ہو پاتے۔ ہم پورے امریکہ اور یورپ کو کپڑا سپلائی کرتے ہیں لیکن وہ چند انجن ، طیارے اور آبدوزیں فروخت کر کے اس سے کہیں زیادہ  زرِ مبادلہ لے جاتے ہیں۔پاکستان کی ہر حکومت نے بھاری مشینری کی صنعت کی ترقی کو نجی شعبے کے مرہونِ منت رکھا جبکہ نجی شعبے میں  اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ بھاری مشینری کی صنعت لگا سکیں۔ اور اگر کسی طرح بھاری مشینری کی  صنعت لگا بھی لیں تو وہ بھاری مشینری کی صنعت کی ترقی کے لیے درکار تحقیق پر  سرمایہ نہیں لگا سکتے کیونکہ سرمایہ دار کی نظر فوری منافع پر ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی ہو یا جہاز سازی کی صنعت ، آج جہاں تک بھی پاکستان پہنچا ہے وہ سب ریاستی سطح پر ہے۔پاکستان ہی نہیں ، چین اور امریکہ نے بھی ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی وہ سب ریاستی سطح پر ہی کی۔امریکہ نے لیزر اور انٹرنیٹ کی ایجاد فوجی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کی اور چین میں آج بھی بیشتر بھاری صنعت  براہِ راست ریاستی کنٹرول میں ہے ۔ اس کے بر عکس ہمارے حکمرانوں نے بھاری صنعت کو نہ صرف نجی شعبے کے سہارے چھوڑا ہو اہے بلکہ حالیہ بجٹ میں دفاعی بجٹ کو منجمد رکھ کر دفاع کے لیے ضروری بھاری صنعت کو بھی استعماری منصوبے کے تحت نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

 

صرف اسلامی خلافت کے قیام کے بعد ہی پاکستا ن میں بھاری مشینری کی صنعت  ترقی کرے گی   کیونکہ وہ کارخانے جو بھاری صنعتوں ، اسلحہ سازی ، انجن سازی اور مشین سازی کی قابلیت رکھتے ہوں، انہیں ریاست خودقائم کرے گی۔ صرف بھاری صنعتوں کی موجودگی میں ہی ایک فوج مضبوط اور طاقت ور ہو سکتی ہے ۔  آج پاکستان کی فوج درآمد کردہ ٹیکنالوجی کی محتاج ہے۔پس خلافت کی خود مختار ی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عسکری میدان میں بھی دیگر ریاستوں کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو اور خود اپنا اسلحہ تیار کرے اور اس میں بہتری لائے۔خلافت کے پاس وہ تمام ہتھیار موجود ہوں گےجو دشمنوں پر رعب ڈالنے کے لیے ضروری ہیں، خواہ یہ کھلم کھلادشمن ہوں یا ایسی اقوام جو ممکنہ طور پر دشمن ثابت ہو سکتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

((وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ))

”اورتم اپنی مقدور بھر قوت اور گھوڑوں کو ان کے لیےتیاررکھو، تا کہ اس سے تم اللہ کے اور اپنےدشمنوں کو خوف زدہ کرو اور اس کے سوا اُن کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہی“(الانفال:60)۔

 

Last modified onجمعہ, 28 جون 2019 21:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک