Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان اور بھارت میں ہونے والی جھڑپیں

 

30 06 2017 Art Pak Urdu

 

مسئلہ کشمیر برطانوی راج کے ہاتھوں برِصغیر پاک و ہند کےبٹوارے اور پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا سیاسی تنازعہ ہے۔اس کے باوجود کہ پاکستان اور بھارت دونوں کا سیاسی موقف مسئلہ کشمیر پرتقریباً ایک جیسا ہی ہے،اور وہ یہ کہ کشمیر کو دو حصے میں تقسیم کردیا جائے؛ پہلا، بھارت کے لیے "جموں، وادیِ کشمیر اور لداخ" اور دوسرا کچھ حصہ پاکستان کے لیے یعنی" آزاد کشمیر" اور" گلگت "۔موقف میں یہ مرکوزیت بھارتی سیاسی منطر نامے میں نسبتاً استحکام آنے کے بعد آئی جب 1996 میں بھارتی جنتا پارٹی  کےاقتدار میں آئی، کیونکہ یہ جماعت  اپنی پالیسیوں میں امریکہ کی ماتحت ہے۔

 

17 جولائی 1947 میں برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور ہونے والے بھارتی آزادی ایکٹ کے بعد سے، جس نے برطانوی راج کو ختم کردیا تھا، دونوں ممالک کے موقف میں مماثلت اوران کے درمیان ہونے والی کئی سیاسی ملاقاتوں کے باوجود، جن کا مقصد کسی عملی حل پر پہنچنا تھا، دشمنی ختم نہیں ہوئی۔ خبیث برطانیہ کی  عادت ہے،کہ وہ ان پڑوسی ممالک کو ،جوکہ اس کے عسکری قبضہ میں تھے،  نام نہاد آزادی دے  کر سلگتے ہوئے تنازعات میں چھوڑ جاتا ہے۔

 

برطانیہ نے راجہ مہاراجاؤں کی اُن ریاستوں سے، جو کہ برطانوی راج کا حصہ تھیں ، دستبرداری کے بعد عوامی خواہشات کے مطابق ان علاقوں کا پاکستان یا بھارت سےالحاق کا حکم نامہ جاری کیا، اور ہر ریاست کے جغرافیائی بٹوارے کومدِ نظر رکھا گیا ۔اسی بنیاد پر دونوں ممالک  پاکستان اور بھارت کا قیام ہوا۔مگر تین ریاستوں حیدرآباد دکن، جوناگڑھ اور کشمیر کا بٹوارہ  یا الحاق  اختلاف کی نظر ہوگیا۔

 

جہاں تک کشمیر کی بات ہے تو اس کا سکھ حکمران راجہ ہری سنگھ جب ریاست کشمیر کو آزاد رکھنے میں ناکام ہوگیا، تو اس سے قطعِ نظر کے  کشمیر کی مسلم اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی تھی، اس نے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا اور ایسا کرنے میں برطانیہ کے تقسیم کے سابقہ فارمولے کو بھی نظرانداز کردیا۔ بھارت نے کشمیر کے الحاق کو بھی تسلیم کرلیا  اور باقی دوریاستوں کے حکمرانوں کے پاکستان سے الحاق کے  فیصلےکو  بھی ماننے سے انکار کردیا۔حالات نے بہت تیزی سے کروٹ بدلی اور کشمیر ی مسلمانوں اور بھارتی افواج میں 1947 میں  مصلح لڑائی کا آغاز ہوگیا، جس کے نتیجے میں دو تہائی ریاست پر بھارتی قبضہ ہو گیا۔لیکن  پھر اقوامِ متحدہ نے تنازع میں مداخلت  کی اور سلامتی کونسل نے13 اگست 1948  کو قرارداد منظور کی جس کے نتیجے میں جنگ بندی  عمل میں آئی اور ریاست ِکشمیر کے حل کے لیے عوامی ریفرینڈم کا فیصلہ ہوا۔

 

پاکستانی اور بھارتی حکام کے مطابق یکم جون کو ہونے والی دونوں ملکوں کے مابین سرحدی جھڑپوں میں دو افراد ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے جن میں چار عورتیں بھی شامل تھیں، جس نے دونوں ممالک میں کشیدگی کو مزید ہوا دی۔اس سے ایک ہفتے قبل، پاکستانی افوج نے بھارتی  افواج پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرحدی دیہاتوں پر حملوں کا الزام لگایا۔جبکہ بھارتی افواج نے دعوی کیا کہ انہوں نے کشمیر میں پاکستانی افواج کے ٹھکانوں پر حملہ کر کے اسے تباہ کیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں کی مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کو روکا جا سکے لیکن اس دعوے کو پاکستان نے یکسر مسترد کر دیا۔محمد عثمان،  جو کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ضلع پونچھ  کے  پولیس افسر ہیں، نے بتایا کہ بمباری صبح کے وقت شروع ہوئی جس میں دو شہری لقمہِ اجل بنے جبکہ 6 زخمی ہوئے۔ایک اور جھڑپ میں  بھارتی مقبوضہ کشمیر کے پولیس ترجمان نے بتایا کہ یکم جون کو سوپور کے علاقےمیں دو عسکریت پسند شہید ہوئے۔

 

حالیہ ہفتوں میں کنٹرول لائن کے دونو ں اطراف کشمیر میں پاکستانی اور بھارتی افواج میں کئی جھڑپیں ہوئیں جن میں دونو ں ہی جانب عام عوام اور افواج  لقمہ اجل بنے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صوبائی حکومت نے اتوار 28 مئی کو حزب المجاہدین، جو کہ مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی حامی ہے، کے مجاہد کمانڈر سبزار احمد بٹ کی شہادت کے سبب وادی کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر کرفیو نافذکر دیا۔    

 

لہٰذا جتنی مقبو ضہ کشمیر میں سیکیورٹی صورتحال مستحکم ہوگی اتنا ہی  امن دونوں ممالک کے درمیان کنٹرول لائن کے محاذ پر ہو گا۔ اسی طرح جتنی چڑھائی اور قتلِ عام  بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کرے گی اتنا ہی  دونوں ممالک کے درمیان محاذ پر جھڑپیں بڑھکتی رہیں گی۔یہ سب کو معلوم ہے کہ بھارت اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل  کی قرارداد، جس کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے، کے مطابق  کشمیریوں کو حقِ خودِرادیت نہیں دینا چاہتا ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس کو نافذ کیا گیا تو کشمیری عوام پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے، کیونکہ پاکستان کی جانب سے اسلام کے نعرے لگانے وجہ سے وہ اسے اپنی ریاست سمجھتے ہیں۔جس طرح مشرکین اور یہود و نصاریٰ  کے لیے ویسے ہی ہندؤں کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ ارشاد حق ہے،

 

أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا

    " کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر  یہ کسی کو ایک کھجورکی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے "(النساء:53)

 

دوسری جانب، وہ جو مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کو مدد فراہم کر رہے ہیں، پاکستان کی  انٹیلی جنس  ایجنسی آی-ایس-آئی ہے،جو کہ فوج کا ماتحت ادارہ ہے۔اس ادارے کا قیام پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ایک اسلامی ادارے کے طور پر ہوا اور اس کا بیشتر کام دشمن بھارت کی جاسوسی کرنا تھا۔ لہٰذا،مسلم دنیا کی دیگر خفیہ ایجنسیوں کے برخلاف یہ بات آئی –ایس-آئی کے سیاسی نظرئیے کا حصہ ہے کہ اندرونی طور پر موجود اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ مزید براں کیونکہ دونوں ملکوں میں  کوئی سیاسی معاہدہ موجود نہیں، آئی-ایس-آئی اپنے سیاسی نظرئے، بلخصوص مسئلہ کشمیر پر قائم ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی مسائل پر اس کے تحفظات ہیں، جس میں ان مخلص پاکستانیوں کا تعاقب بھی شامل ہے، جن میں وہ بھی ہیں جو موجودہ سول حکومتوں کو منہجِ نبوی پر چلتے ہوئے خلافت سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں   اور وہ مجاہدین بھی ہیں جو افغانستان یا کشمیر میں مصلح جدوجہد کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت کی ملک میں موجود رائے عامہ میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ وہ اس قابل ہے کہ اس کو جس طرح چاہے گمراہ اور استعمال کرے، خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے، جو کہ حکومت کے ہاتھوں میں جھوٹ اور گمراہی پھیلانے لے لیے کٹھ پتلی بن چکا ہے ۔ تاہم ، حکومت کا مسئلہ آرمی بحیثیت ادارے سے ہے جو دو گروہوں، یعنی تابع داروں اور حکومتی حمایتیوں یعنی امریکہ اور امریکی نواز فوجی قیادت کے حامی ہیں اور فوج میں موجود مخلص عناصر جو کہ اکثریت میں ہیں، میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ اکثریت کشمیر میں سیاسی کامیابیوں کے حصول اور اس کے لیے کوششیں چاہتی ہے، اس وقت تک جب تک بھارت کے خلاف جنگی نظرئیے میں  تبدیلی نہ آجائے۔ مزید برآں، کیونکہ  امریکہ کی موجودہ  حکومت کمزور ہے اور دوسرا یہ کہ ہنگامی عالمی معاملات نے اس کو مصروف رکھا ہواہے، اور امریکہ کی سابقہ حکومت بھی ان ہی مسئلوں میں مصروف رہنے کے باوجود ان مسائل میں سے کسی ایک کو بھی حل نہ کرسکی، اور امریکہ کی  بگڑتی ہوئی  اقتصادی صوتحال، یہ سب اسباب مسئلہ کشمیر پر پڑی گرد کا سبب ہیں، اس کے باوجود کہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتیں اس کے "سازشی حل "پر متفق ہیں۔

مسئلہ کشمیر فلسطین کے مسئلے کے مانند ہے کہ جتنے چاہے دشمن  حربے تراشے، کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے۔ مسلمان اُن کے انتظار میں ہیں جو انہیں آزاد کرائیں، جو کہ صرف مسلم افواج ہی ہوسکتیں ہیں جو خلیفہ راشد کی قیادت میں اسے آزاد کرائیں جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ،  

 

يغزو قوم من أمتي الهند، فيفتح الله عليهم، حتى يلقوا بملوك الهند مغلولين في السلاسل، يغفر الله لهم ذنوبهم، فينصرفون إلى الشام فيجدون عيسى بن مريم بالشام

"تمہاری ایک فوج ہند کو کھولے گی اور اللہ اسے فتح عطا کرے گا، یہاں تک کہ اس کے بادشاہ کو زنجیروں میں لایا جائے گااور اللہ اس (فوج) کے سارے گناہ معاف کردے گا، اور جب یہ واپس ہوں گے تو شام میں عیسی ابنِ مریم سے میلیں گے"

 

بلال المہاجر- پاکستان

Last modified onجمعہ, 30 جون 2017 21:55

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.