الثلاثاء، 08 رمضان 1445| 2024/03/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 15 جون 2018  

 

 

۔ کرنسی کی قدرمیں تیزی سے کمی رکنے والی نہیں جب تک اسلام کے حکم کے مطابق سونے اور چاندی کی بنیاد پر کرنسی جاری نہیں کی جاتی

- جمہوریت کے کمر توڑ اقدامات سے صرف خلافت ہی امت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلائے گی

- قرضے معاف کر کے جمہوریت کرپشن کو قانونی بنا دیتی ہے

تفصیلات: 

 

کرنسی کی قدرمیں تیزی سے کمی رکنے والی نہیں جب تک اسلام کے حکم کے مطابق

سونے اور چاندی کی بنیاد پر کرنسی جاری نہیں کی جاتی

سابق وزیر خزانہ نے ملک کو یہ  یقین دہانی کرائی تھی  کہ "انہیں مزید (روپےکی) قدرمیں کمی کی ضرورت نظر نہیں آتی"۔ لیکن ان کی یقین دہانی کے صرف ایک  ہفتے بعد ہی مارکیٹ نے انہیں غلط ثابت کردیا۔ پیر 11 جون 2018 کو  انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کی قدرمیں 3.8 فیصد یعنی 4.40 روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے بعد ایک ڈالر 119.8روپے کا ہوگیا۔  پیر کی صبح جیسے ہی لین دین شروع ہوا روپے کی قدر میں کمی ہونا شروع ہو گئی  اور صرف چند ہی گھنٹوں میں مارکیٹ سے تمام زرمبادلہ ختم ہوگیا۔ ڈان اخبار نے دوپہر کے لگ بھگ کئی کرنسی کے تاجروں کے دفاتر کادورہ کیا اور انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی بھی غیر ملکی کرنسی اس وقت فروخت کرنے کے لیے نہیں ہے لیکن وہ ڈالر 119 سے 121 روپے کے درمیان خریدنے کے لیے تیار ہیں جس کا انحصار وقت اور جگہ پر ہے۔ 

 

قیمتوں میں مسلسل اور بڑے اضافے کی وجہ کرنسی ہے جس کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے کیونکہ ان کی بنیاد سونا اور چاندی نہیں ہے۔ کبھی دوسری کرنسیوں کی طرح ، جیسا کہ ڈالر، پونڈ اور فرانک، روپے کی قدر کا تعین حقیقی دولت  یعنی قیمتی دھات کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ ڈالر کی بنیاد سونا اور روپے کی بنیاد چاندی ہوا کرتی تھی۔  یہ نظام اندرون ملک اور بین الاقوامی تجارت میں  کرنسی میں استحکام کا باعث ہوتا تھا۔  اس کا ثبوت یہ ہے  کہ 1910 میں  سونے کی قیمت تقریباً اسی سطح پر تھی جو 1890 میں تھی۔ حقیقی معیشت یعنی لین دین، خوراک ، کپڑے، گھروں،مشینری اور ٹینالوجی اور دیگر اشیا کی خریدو فروخت، کو سہارا فراہم کرنے کے لیے آج دنیا میں وافر مقدار میں سونا اور چاندی   موجود ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ معیشت نے کرنسی کی طلب میں اس قدرمصنوعی اضافہ کردیا ہے  کہ سونے اور چاندی کی رسد اس طلب کوپورا کرنے سے قاصر ہے۔ ریاستوں نے قیمتی دھاتوں کے نظام کو چھوڑ دیا ہے  اور اس طرح کرنسی کی پشت پر صرف ریاست کی طاقت ہی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ریاست بغیر کسی سونے اور چاندی کے ذخائر کےمزید نوٹ پر نوٹ چھاپتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر نیا آنے والا نوٹ قدر میں پچھلے نوٹ سے کم ہوتا ہے۔  چونکہ کرنسی اشیاء اور خدمات کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہے  لہٰذا اس کی قدر اگر مکمل طور پر ختم نہیںہوتی  تو کم تو ضرورہوتی چلی جاتی ہے۔ خریدنے کے لیے پہلے سے زیادہ کرنسی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح اشیاء اور سہولیات کا حصول مہنگا ہوتا چلاجاتا ہے۔ 

 

قیمتوں میں مسلسل اضافہ اب نظام کا مستقل حصہ ہے اور افراط زر  وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا روپیہ جس کی کبھی قدر برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر ہوتی تھی، اب دو سو سال کے سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ایک روپے کی قدر ایک گرام چاندی کے نو سو ویں حصے یعنی 1/900 کے برابر ہوگئی ہے۔ افغانستان میں امریکی جنگ سے قبل ایک امریکی ڈالر 30.97روپے کے برابر تھا اور مشرف-عزیز حکومت کے دور میں 15 اگست 2008 کو اس کے قیمت 76.9 روپے تک پہنچ گئی اور اس طرح پاکستان میں افراط زر پچھلے تیس سال کے دوران بلند ترین مقام پر پہنچ گئی۔  پھر جنوری 2013 میں  کیانی-زرداری حکومت کے دور میں ایک ڈالر 98 روپے کا ہوگیا اور اب یہ 119 روپے سے بھی زیادہ کا ہوگیا ہے۔ 

 

مسلمانوں کے لیے سونے اور چاندی کے نظام پر واپس جانا بالکل ممکن ہے۔ مسلمانوں کے علاقوں، جہاں سے ریاست خلافت ایک بار پھر دنیا کے افق پرنمودار ہو گی، میں زبردست سونے اور چاندی کے ذخائر موجود ہیں جیسا کہ پاکستان میں سیندک اور ریکو ڈک۔ امت کے پاس زبردست وسائل ہیں جن کی دوسری اقوام کو انتہائی ضرورت ہے جیسا کہ تیل، گیس، کوئلہ، معدنیات، زرعی اجناس،کہ جن کی فروخت سونے اور چاندی کے بدلے کی جائے گی۔ مسلم علاقوں میں میں موجودبینکوں کے پاس بین الاقوامی کرنسیاں جیسا کہ ڈالر، یورو اور پونڈ موجود ہیں، اور انہیں بھی اشیاء  کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مسلم علاقے  بنیادی ضروری اشیا میں خود کفیل ہیں لہٰذا  جب ایک بار طفیلی معیشت کا خاتمہ کردیا جائے گا تو حقیقی معیشت مستحکم ہو گی اور  وہ قیاس آرائیوں اور ساز باز سے محفوظ ہو گی۔ 

 

اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات پر ہونی چاہیے اور اس طرح افراط زر کی جڑ کو ہی ختم کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو سونے کے دینار بنانے کا حکم دیا جن کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کے درہم بنانے کا حکم دیا جن کا وزن 2.975 گرام ہوتا ہے اور یہ ریاست کی کرنسی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال کے طویل عرصے تک خلافت میں قیمتوں میں استحکام رہا۔ آج خلافت اشیاء  اور غیر ملکی زرمبادلہ کا تبادلہ  سونے اور چاندی کے عوض کرے گی اور اس بات کو مد نظر رکھے گی کہ بین الاقوامی تجارت کے لیے کتنا سونا اور چاندی باہر جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت  کو دوبارہ سونے اور چاندی سے جوڑ دینے سے  امریکہ کو حاصل امتیازی حیثیت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس وقت بین الاقوامی تجارت ڈالر میں ہورہی ہے۔ حزب التحریر نے مقدمہ دستور کی شق نمبر 166 میں یہ تبنی کیا ہے کہ، "ریاست اپنی ایک خاص کرنسی ،آزادانہ طور پر جاری کرے گی اور اس کو کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنا جائز نہیں"۔  اسی طرح شق نمبر 167 میں تبنی کیا کہ "  ریاست کی کرنسی سونے اور چاندی کی ہو گی خواہ اسے کرنسی کی شکل میں ڈھالا گیا ہو یا نہ ڈھالا گیا ہو۔ ریاست کے لیے سونے چاندی کے علاوہ کوئی کرنسی جائز نہیں۔ تاہم ریاست کے لیے سونے چاندی کے بدل کے طور پر کوئی اور چیز  جاری کرنا جائز ہے بشرطیہ کہ  ریاست کی خزانے میں اتنی مالیت کا سونا چاندی موجود ہو"۔ اور شق نمبر 168 میں تبنی کیا ہے کہ، "اسلامی ریاست اور دوسری ریاستوں کی کرنسیوں کے مابین تبادلہ جائز ہے جیسا کہ اپنی کرنسی کا آپس میں تبادلہ جائز ہے"۔

 

جمہوریت کے کمر توڑ اقدامات سے صرف خلافت ہی

امت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلائے گی 

11 جون 2018 کو نگران حکومت نے جون کے باقی ماندہ دنوں کے لیے تیل کی مصنوعات  کی قیمتوں میں قابل ذکر اضافہ کردیا۔ پیٹرول کی قیمت میں 4.26روپے فی لیٹر اضافہ (4.9%) کیا گیا جس کے بعد اس کی قیمت 91.96روپے فی لیٹر ہو گئی۔ اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت میں 4.46روپے فی لیٹر اضافہ (5.6%) جس کے بعد اس کی قیمت 84.34 روپے فی لیٹر ہو گئی۔ قیمتوں میں ان اضافوں کا اعلان مالیاتی ڈویژن نے ایک اعلامیے کے ذریعے کیا۔

 

اس سے قبل مئی کے مہینے میں پاکستان مسلم لیگ-ن کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے سمری بھیجی تھی جس میں موجودہ ٹیکس کی شرح، روپے کی گرتی قدر اور درآمدی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اوگرا نے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 12.50 روپے اضافے اور پیٹرول کی قیمت میں 8.37روپے فی لیٹر اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔  یہ بات  قابل ذکر ہے کہ اس اضافے میں پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافہ شامل نہیں ہے جس کی منظوری 2018 کے بجٹ میں دی گئی ہے جس کے تحت مختلف پیٹرولیم مصنوعات پر  لیوی کی شرح 6  اور 10 روپے سے بڑا کر 30 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے اور جو یکم جولائی سے نافذ العمل ہوگا جس کے بعد تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں مزید 20 سے 25 فیصد تک اضافہ ہوجائے گا۔ 

 

جمہوریت کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں تیل کی مصنوعات  پر بھاری ٹیکسوں کے ذریعے  عام آدمی کی کمر توڑ رہی ہے۔  ان ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ڈیلرز زبردست منافع کمارہے ہیں جبکہ عام آدمی کو تیل کی مصنوعات کی اصل قیمت سے 35سے 50 فیصد تک زائد قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔  تیل کی مصنوعات کی زیادہ قیمتیں نہ صرف ایک عام آدمی کے تیل کے بجٹ کومتاثر کرتی ہے بلکہ یہ مقامی سطح پر افراط زر  کا بھی باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

 

اسلام نے تیل کی مصنوعات اور توانائی کے تمام ذرائع کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ: الْمَاءِ وَالْكَلإِ وَالنَّار

"مسلما ن تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ" (احمد)۔ 

 

ان چیزوں سے حاصل ہونے والا فائدہ عوام کے لیے ہے اور اس لیے  ریاست کو صرف یہ حق دیا گیا ہے کہ ان سے حاصل ہونے والی وسیع دولت کو لوگوں کے امور پر خرچ کرے۔ اس کے علاوہ تیل کی مصنوعات پر عائد ٹیکس ہٹا دینے سے یہ سستی ہوجائیں گی  اور عام آدمی اور صنعت و رزاعت دونوں کے لیے زبردست فائدے کا باعث ہوگا۔        

 

قرضے معاف کر کے جمہوریت کرپشن کو قانونی بنا دیتی ہے

9 جون 2018 کو ڈان نے رپورٹ شائع کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 222 کمپنیوں اور اداروں کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتے میں اُن اربوں روپوں کے قرضوں کی معافی کی وضاحت پیش کریں جو انہوں نے تجارتی بینکوں سےلیے تھے اور انہوں نے واپس نہیں کیے تھے۔  یہ احکامات تین رکنی بینچ نے جاری کیے جس کی سربراہی چیف جسٹس ثاقب نصار کررہے تھے جنہوں نے پریس رپورٹس کی بنیاد پر  2008  میں شروع ہونے والی تحقیقات پر ازخود نوٹس  لیا تھا کہ مرکزی بینک نے خاموشی سے تجارتی بینکوں نے 'نان پرفارمنگ' قرضوں  کو  صدر مشرف کی جانب سے پیش کی گئی ایک اسکیم کے تحت  معاف کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اکتوبر 2002 کے انتخابات کے فوراً بعد اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز اور  اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ان کی مالیاتی ٹیم نے  قرضے معاف کرنے کی ایک اسکیم متعارف کرائی تھی  اور اس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے بی پی ڈی سرکیولر29 برائے 2002 جاری کیا جس میں ایسے قرضوں کے حوالے سے ہدایات دیں گئی تھیں جو واپس نہیں کیے جارہے تھے۔  بجائے اس کے کہ ان قرضوں کی واپسی کے لیے بھر پور مہم  چلائی جاتی ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ اسکیم متعارف کرادی کہ جوکمپنیاں تین سال سے "نقصان"میں جارہی ہیں تو بینک  ان کے قرضے معاف کرسکتے ہیں۔ 

 

ارپوں روپوں کے ایسے قرضوں کی معافی جنہیں ادا نہیں کیاجاتا ان کی معافی  ان چند مثالوں میں سے ایک ہے کہ جمہوریت کرپٹ طور طریقوں کے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ جمہوریت میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے فائدے مند ہوں،جن میں سے ایک ان کے ذمہ قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری سے دستبرداری بھی شامل ہے۔  جمہوریت میں بننے والے قوانین یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر ایک کمپنی اپنی مالیاتی ذمہ داریاں ادا نہیں کرپاتی اور اس کے اثاثے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو اس کمپنی  کے مالکوں سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اپنی ذاتی دولت سے ان ادائیگیوں کو مکمل  کریں ۔  جمہوری قوانین کمپنی کو ان کے مالکان سے الگ ایک  ہستی قرار دیتے ہیں  کیونکہ کمپنی مالکان کی دولت پرقائم ہوتی ہے نہ کہ  اس دولت کے مالکان کی ذات پر قائم ہوتی ہے۔  تو اگر  ایک کمپنی اپنی مالیاتی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو  مالیاتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیےاس کے مالکان کی ذاتی دولت کو ہاتھ پھر بھی نہیں لگایا جاسکتا جو اسی کمپنی کے ذریعے ہی حاصل کی گئی ہوتی ہے۔ اور اگر اس قانون کے ذریعے مالکان کے مفادات پورے نہ ہورہے ہوں  تو ان کے مالیاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے نئی قانون سازی  کردی جاتی ہے۔ اس معاملے میں بجائے اس کے کہ ان کمپنیوں کوبند کیا جاتا جو اپنے ذمہ قرضے ادا نہیں کرسکیں تھیں، الٹا  ان کے قرضے ہی معاف کردیے گئے اور انہیں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ 

 

اس طرح سے قرضوں کی ادائیگی سے دستبردار ہوجانا سرمایہ دارانہ اسٹاک شیئر کمپنی  کا خاصہ ہے۔ اس طرح کے کمپنی ڈھانچے کی وجہ سے سرمایہ داروں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان شعبوں میں بھی کام کرسکیں  جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہےجیسا کہ بھاری صنعتیں، ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ۔  اس طرح ان کمپنیوں کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہوجاتا ہے جو ایک فرد یا چند افراد مل کر جمع ہی نہیں کرسکتے اور اس طرح اس بات کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں کہ چند افراد کی دولت اس کمپنی کے ذمہ مالیاتی ادائیگیوں  کا بوجھ اٹھا سکیں۔ لہٰذا اس خرابی  کو اس طرح صحیح کیا جاتا ہے  کہ وہ یا تو ڈیفالٹ کرجاتے ہیں یا پھر قرضے معاف کرواتے ہیں اور یہ دونوں معاملات سرمایہ دارانہ نظام میں ایک معمول ہیں۔ 

 

اس کے برخلاف اسلام میں یہ اعلان کرتا ہے کہ کمپنی مالکان کی ذات پر بنتی ہے اور اس طرح سرمایہ دارانہ اسٹاک شیئر کمپنی کا خاتمہ کرتا ہے جو صرف دولت کی بنیاد پر بنتی ہیں اور اس کا مالکان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  اس طرح اسلام  نے نجی کمپنیوں کوان شعبے میں بالادست کردار ادا کرنے سے روک دیا جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے،اور اس طرح اس شعبے میں ریاستی کمپنیوں کی بالادستی قائم ہو جاتی ہے  اور ریاست لوگوں کے امور کی زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ بھال کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا آج کی بڑی بڑی سرمایہ دارانہ کمپنیوں  کے مقابلے میں  اسلام میں عموماً نجی کمپنیاں چھوٹی ہوں گی۔ 

 

اسلامی ریاست میں اگر ایک کمپنی کے اثاثے اس کی مالیاتی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں تو مالکان کی ذاتی دولت کو کمپنی کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ درحقیقت کمپنی کی ذمہ داری اس کے مالکان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسلام قرضے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتا ہے کہ اگر ایک شخص اس حالت میں انتقال کرجائے کہ اس کے ذمہ قرض ہو تو اس کی وراثت اس وقت تک اس کے وارثین میں تقسیم نہیں کی جاتی جب تک اس میں سے وہ قرضہ ادا نہ کردیا جائے۔  النسائی (4605)نے محمد ابن جحشؓ سے روایت کیا  کہ انہوں نے کہا، 

 

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ وَضَعَ رَاحَتَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نُزِّلَ مِنَ التَّشْدِيدِ ‏"‏ ‏.‏ فَسَكَتْنَا وَفَزِعْنَا فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ سَأَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نُزِّلَ فَقَالَ ‏"‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلاً قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ ‏"،

"ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے اپنا سر آسمان کی جانب اٹھایا پھر انہوں  نے اپنی ہتھیلی اپنے ماتھے  پر رکھی اور کہا :'سبحانہ  اللہ! کس قدر سخت حکم مجھ پر وحی کیا گیا ہے!' ہم خاموش رہے اور ہم ڈرے ہوئے تھے۔ اگلی صبح میں نے آپ ﷺ سے پوچھا،'اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ سخت حکم کیا ہے جو آپ ﷺ پروحی کیا گیا ہے؟' آپ ﷺ نے فرمایا، 'قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر آدمی جنگ میں اللہ کے لیے مارا جائے اور پھر اسے دوبارہ زندہ کیا جائے،  پھر مارا جائے اور دوبارہ زندہ کیا جائے، پھر مارا جائے، اور اس پر قرض ہو، تو وہ جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوگا جب تک اس کا قرض نہ اتار دیا جائے"۔  

                    

واضح طور پر مالیاتی کرپشن اور قرضوں کی معافی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک جمہوریت کا خاتمہ اور نبوت کے طریقے پر خلافت  قائم نہیں کی جاتی۔  

 

Last modified onپیر, 18 جون 2018 01:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک