Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

ریاستی  اختیارات  کی تقسیم اور احتساب

منعم احمد - پاکستان

 

انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کی کمزوریوں میں سے سب سے بڑی کمزوری ان نظاموں کا  خطاکار عقلِ انسانی پر مبنی ہونا ہے۔ یہ وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے انسان اس نظام کو ارتقاء کے عمل سے گزارنے پر مجبور ہوتا ہے تاکہ انسانوں کے بنائے گئے قوانین کے تجربات کا یہ عمل اس نظام کی کمی کوتاہیوں کو واضح کرے، جنھیں پھر  عقلِ انسانی سے اخذشدہ قوانین کے ذریعے  پیوند لگا کر پہلے سے بہتر کی امید کے ساتھ دوبارہ ارتقاء کے سفر پر گامزن کر دیا جاتا ہے اور یوں یہ لامتناہی سفر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔اسی عمل کے دوران جہاں ریاست کے  بیشتر آئینی اور قانونی معاملات پر بحث کی جاتی ہے ، ان میں ایک اہم  اور بنیادی موضوع  ریاستی  طاقت کی تقسیم کا تصور ہے جسے جمہوریت میں حکومت کے  احتساب کی مضبوطی کی  بنیاد سمجھا جاتا ہے۔اس تصور کے مطابق ریاست کی تمام طاقت اور تمام اختیارات ایک  ہی شخص یا ادارے کے پاس نہیں ہونے چاہیے تاکہ وہ شخص یا ادارہ اس  ریاست میں مختارِ کل نہ بن جائے ،کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو اس کے نتیجے میں تمام ریاست ، رعایا اور معاشرہ اس ایک شخص یا ادارے ہی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اگر وہ شخص یا ادارہ اچھائی پر قائم رہے گا تو سب اچھا رہے گا لیکن صرف  اس  ایک شخص یا ادارے کی نیت خراب ہونے   کی وجہ سے عظیم ظلم ، ناانصافی اور کرپشن جنم لے سکتے ہیں جسے پھر روکنے والا کوئی نہ ہو گا۔

 

طاقت کی تقسیم کے جدید تصور کی جڑیں سولویں  صدی میں ملتی ہیں  جب جان کیلوِن نے جمہوریت کو اشرافیہ سے الگ کرنے کا تصور دیا۔اسی تصور کی کچھ جھلکیاں سترویں صدی میں شمالی امریکہ میں بھی نظر آتی ہیں جہاں  کچھ ریاستوں میں ریاستی طاقت کو دو اداروں میں تقسیم کیا گیا جہاں ایک ادارہ مقننہ اور عدلیہ دونوں کا کردار ادا کرتا تھا جوحکومتی معاملات چلانے کیلئے ایک انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر ایک  گورنر منتخب کرتا تھا جو پھر  اپنے معاونین کے ساتھ انتظامیہ کو چلاتا تھا۔یورپ میں انقلاب کے بعد یہ تصور باقاعدہ طور پر  یورپی ریاستوں کے جمہوری ڈھانچوں میں نظر آیا جہاں قانون سازی کو حکومتی اختیارات سے الگ کیا گیا۔ جب یورپ کی خدائی بادشاہت سے تنگ آ کر عیسائیت نے خدا اور بادشاہت کو الگ الگ کر دیا، تو اس کے نتیجے میں انسان کے بنائے نظام نے جنم لیا جو خدا سے آزادی پر مبنی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تجربات سے گزر کر انسان نے یہ سیکھا کہ چونکہ اس نظام میں اختیارِ کل انسان ہی کے پاس ہے ، اس لیے تمام اختیارات ایک ہی ادارے یا انسان کو دینا درست نہیں، تاکہ وہ ہر معاملے میں اپنی مرضی نہ کر سکے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ طاقت کی تقسیم کے تصور پر مبنی  اس جمہوری نظام میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان طاقت کو تقسیم کیا جاتا ہے اور مقننہ کو عموماً مزید تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ نظام اس وقت دنیا کی بڑی  اور فکری قیادت کرنے والی  ریاستوں کا نظام ہے، اس لیے کوئی جامع فکری نظریہ (آئیڈیالوجی) نہ رکھنے والی اقوام بھی  لامحالہ اسی کو اپناتی ہیں اور ان کے سامنے بھی اس کی وہی توجیہ رکھی جاتی ہے جو ان مغربی طاقتوں نے خود کیلئے استعمال کی ، یعنی حکمران کے  احتساب کی مضبوطی اور اختیارات کے غلط استعمال سے بچاؤ۔اسی سوچ کی بنا پر اختیارات کو اداروں میں تقسیم کر دیا گیا جس کی ایک نمایاں مثال امریکہ کا حالیہ صدارتی نظام ہے، جہاں قانون بنانے کی طاقت اس کو نافذ کرنے والے کے پاس نہیں بلکہ کچھ اور لوگوں کے پاس ہے اورصدر کے خلاف عدالتی کاروائی کا اختیار کسی اور کے پاس ہے۔اٹھارویں صدی میں بننے والے اسی  امریکی آئین میں بھی ریاستی طاقت کی تقسیم کو اس سوچ کے ساتھ شامل کیا گیا کہ احتساب کےایک مؤثر  نظام کوریاست کا حصہ بنایا جائے، جہاں ریاست کا ایک حصہ دوسرے کو قابو میں رکھ سکے تاکہ طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال  نہ ہو۔آج کی جدید جمہوری ریاستوں میں ریاستی طاقت کی تقسیم کو  ایک بنیادی عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے بغیر ریاست میں اختیارات کا درست استعمال تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں آمریت اور بادشاہت کو اسی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہاں ایک ہی شخص تمام کے تمام اختیارات اور طاقت کا مالک  ہونے کی وجہ سے عوام پر ظلم و ستم کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ ذاتی اور اپنےخاندان کے مفادات کو عوام کے مفادات پر فوقیت دینےکا اختیار رکھتا ہے۔جمہوریت کے حامی اس بات کے قائل ہیں کہ آمریت میں اس  مطلق اختیار کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ حکمران  کا احتساب کیا جا سکے کیونکہ حکمران کا عادل ہونا غیر یقینی ہے۔اسی لیے ان کے نزدیک بری سے بری جمہوریت بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہے۔

 

احتساب کی مضبوطی کی خواہش نے  طاقت کے توازن کے تصور کو جنم تو دے دیا  لیکن جس حکمران  کی کارکردگی پر اس کا احتساب کیا جانا تھا، اسی کارکردگی کی راہ میں روڑے بھی اٹکا دیے۔ اس تصور نے طاقت کو پے درپے تقسیم کر کے اداروں کو کمزور کر دیا ۔ معاملات کو چلانے کیلئے طریقہ کار تو وضع کر لیے گئے لیکن تمام اداروں کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے ان طریقوں پر عمل درآمد کرنےمیں وقت صرف ہونے لگا اور معاملات کی رفتار نسبتاً سست ہو گئی۔ طاقت کی تقسیم کے باعث  ایک ادارے کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے جو اختیارات درکار ہیں، اگر ان اختیارات کو استعمال کرنے کیلئے کسی دوسرے ادارے سے اجازت لینی پڑے تو دوسرے ادارے پر انحصار اس ادارے کی کارکردگی کو سست کر دیتا ہے۔ اب جب تک دوسرے ادارے سے یہ اجازت مجوزہ طور پر نہیں آجاتی، یہ ادارہ اپنی ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر امریکی قوانین کے مطابق امریکی انتظامیہ ملکی معاملات چلانے  کیلئے ذمہ دار ہے۔ ان معاملات  کے اخراجات کو چلانے کیلئے درکار  پیسے کو خرچ کرنا بھی اسی ذمہ داری میں شامل ہے، لیکن اگلے مالی سال کیلئے درکار ان پیسوں (بجٹ) کی منظوری  کا اختیار انتظامیہ کے پاس نہیں بلکہ کانگرس(مقننہ) کے پاس ہے۔لہٰذا امریکہ میں   ماضی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب متعدد بار  امریکی انتظامیہ کئی دنوں کیلئے کانگرس کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گئی جس سے معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انتظامیہ کے پیش کیے گئے بجٹ کو کانگرس نے مقررہ مدت میں منظور نہیں کیا اور امریکی ریاست کے پاس اپنے اخراجات اور  ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے پیسے ختم ہو گئے جس کی وجہ سے متعدد حکومتی معاملات رک گئے  ۔امریکہ کی جدید تاریخ میں دس بار امریکی انتظامیہ ریاستی طاقت کی تقسیم کی وجہ سے بندش کا شکار ہو چکی ہے جس میں سے  تازہ ترین بندش صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں  22 دسمبر 2018 سے 25 جنوری 2019 تک ہوئی جو ابھی(2020)  تک کی امریکی تاریخ کی طویل ترین بندش تھی جس کی وجہ سے امریکہ کو 5 ارب ڈالر کا تاریخی نقصان  اٹھانا پڑا۔

 

طاقت کی تقسیم کا ایک  اورنتیجہ یہ نکلا کہ کئی معاملات میں  احتساب مضبوط ہونے کی بجائے کمزور پڑ گیا جس کی وجہ ذمہ داری کا تقسیم ہو جانا تھا۔اگر ایک معاملے کو انجام تک پہنچانے کیلئے جن اختیارات کا استعمال درکار ہے،ریاست صرف ان اختیارات کے ہی استعمال پر اس متعلقہ ادارے کو ذمہ دار بھی ٹہرا سکتی ہے اور کسی دوسرے ادارے کے اختیارات کے عدم استعمال یا غلط استعمال پر اِسے موردِ الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا۔لہٰذا طاقت کی تقسیم کے ساتھ ذمہ داری بھی تقسیم ہو گی جس کے نتیجے میں کسی ایک شخص یا ادارے کو مسئلے کے حل میں ناکامی پر ذمہ دار نہیں ٹہرایا جا سکتا کیونکہ وہ ذمہ داری اس اکیلے کی نہیں بلکہ مختلف اداروں میں تقسیم ہے۔یہ عمل ریاستی ناکامی کی صورت میں کسی ایک ادارے پر انگلی نہیں اٹھنے دیتا جو کہ اداروں کی ناکامی کومؤثر احتساب کے بغیر برداشت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جیسے کراچی میں 2020 کی مون سون بارشوں سے ہونے والی تباہی اور شدید نقصان کی مکمل ذمہ داری نہ تو وفاقی حکومت نے قبول کی، نہ ہی صوبائی حکومت  نے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ طاقت اور اختیارات کی تقسیم کی وجہ سے مسئلے کو حل کرنے کیلئے جن اختیارات کا  جس جگہ استعمال درکار ہے، وہ تمام کے تمام ان میں سے کسی کے پاس نہیں جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی مسائل کو پوری طرح حل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسی وجہ سے ان کا احتساب بھی نہیں کیا جا سکا۔ لہٰذا طاقت کے توازن کو قائم کرنے کیلئے طاقت کی تقسیم حقیقت میں احتساب کو کمزور کرتی ہے نہ کہ اسے مضبوط کرتی ہے۔

 

اسلام ریاست میں طاقت کی تقسیم کی جگہ طاقت کی مرکزیت کا تصور دیتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ خلافت میں بھی خلیفہ کے پاس اپنی من مانی کی قانون سازی کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ، وہ صرف وحی میں موجود قوانین کا نفاذ ہی کر سکتا ہے لیکن قوانین کو نافذ کرنے کے تمام اختیارات واحد خلیفہ ہی کے پاس ہوتے ہیں۔اگرچہ خلیفہ حسبِ ضرورت اپنی مدد کیلئے معاونین یا وزراء مقرر کر سکتا ہے جو ریاستی معاملات میں اس کی مدد کرتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی اور فیصلوں کی ذمہ داری صرف خلیفہ ہی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ یہ فیصلے اپنے اختیارات کے بل بوتے پر نہیں کرتے بلکہ خلیفہ ہی کے تفویض کیے ہوئے اختیارات کے بل بوتے پر کرتے ہیں، یعنی ان کو یہ ذمہ داری خلیفہ ہی کی طرف سے سونپی جاتی ہے جو انھیں مقرر بھی کرتا ہے اور معزول بھی کرتا ہے۔اسی طرح دیگر والی اور عاملین کا بھی معاملہ ہے جو اپنے دائرہ اختیار میں خلیفہ ہی کی وکالت کرتے ہیں اور اسی کی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں۔جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے  تو اس کے اختیارات بھی خلیفہ ہی کے پاس ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ امت خلیفہ کو مکمل اسلام کے نفاذ پر بیعت دیتی ہے یعنی اسلام کے نظام کے مطابق لوگوں کے  تمام امور کی دیکھ بھال کرنے پر بیعت دیتی ہے، جس میں لوگوں کے باہمی تنازعات اور حکمران کے خلاف شکایات وغیرہ بھی شامل ہیں، اسی لیے عدلیہ کا یہ پہلو اور اس سے متعلق احکامات کا نفاذ بھی اسی بیعت میں شامل ہے جو خلیفہ کو ذاتی طور پر دی جاتی ہے۔اس لیے جہاں اسلام کے حکمرانی سے متعلق احکامات کو جاری کرنا خلیفہ ہی کا اختیار ہے وہاں عدلیہ سے متعلق احکامات کو جاری کرنا بھی خلیفہ ہی کا اختیار ہے۔ لہٰذا اسلامی ریاستِ خلافت میں خلیفہ تمام اختیارات کا مرکز ہے جو انتظامیہ اور عدلیہ دونوں اختیارات پر مشتمل ہے، یعنی تمام ریاستی اختیارات خلیفہ ہی کی ذات  میں ہیں۔

 

ریاستِ خلافت میں تمام اختیارات کا خلیفہ ہی کے پاس موجود ہونے سے وہ  تمام تر فیصلے خود لینے کا مجاز ہوتا ہے جو کہ نظام کو چلانے میں کسی ریاستی  ادارے کو رکاوٹ نہیں بننے  دیتا، کیونکہ خلیفہ خود تمام ریاستی  اداروں پر مختار ہے۔خلیفہ کو کسی معاملے پر کوئی فیصلہ لینے کیلئے کسی دوسرے شخص یا ادارے سے منظوری نہیں لینی پڑتی جس کی وجہ سے معاملات پر فیصلے بروقت میسر ہوتے ہیں۔اسی لیے محاسل اور اخراجات سے متعلق فیصلے کرنا، فوج کی حرکات اور حکومتی معاملات کے درمیان اخراجات میں توازن یا ترجیحات رکھنا، لوگوں اور معاشرے کی ضروریات سے متعلق بروقت فیصلے کرنا اور ان تمام فیصلوں کو نافذ کروانے جیسے تمام معاملات کیلئے خلیفہ کو کسی منظوری یا اجازت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان تمام معاملات کے اختیارات خود اسی کے پاس ہیں۔ اسی طرح اختیارات کی مرکزیت کا یہ تصور احتساب کو بھی ایک ہی شخص پر مرکوز کر دیتا ہے جو  خلیفہ  خودہے۔ لہٰذا تمام تر ذمہ داری بھی  خلیفہ ہی کی ہوتی ہے اور جوابدہ بھی خلیفہ ہی ہوتا ہے، وہ یہ ذمہ داری کسی دوسرے سے بانٹ کر اس جوابدہی سے  فرار نہیں ہو سکتا۔لہٰذا تمام انگلیوں کا رخ خلیفہ ہی  کی جانب ہوتا ہے جو اس پر عوام  ، مجلس امت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دباؤ قائم رکھتا ہے۔ قانون نافذ کرنے کے تمام اختیارات کی خلیفہ  میں مرکزیت ایک خلیفہ کو تن تنھا ذمہ داری کے کٹھرے میں کھڑا کر دیتی ہے جس کے پاس پھر تقویٰ اور عوامی دباؤ کے پیشِ نظر اس کے علاوہ  دوسراکوئی راستہ نہیں کہ وہ ذمہ داری سے اسلام کے احکامات  کا نفاذ کرے، جس پر اس کو بیعت کے ذریعے خلیفہ بنایا گیا ہے ۔

 

مندرجہ بالا مسائل کے علاوہ طاقت کی تقسیم ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کو جنم دیتی ہے جو ریاست میں عدم استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں فوج ، عدلیہ، حکومت اور اپوزیشن اکثر سیاسی اثرورسوخ اور اختیارات کی کھینچا تانی میں نظر آتے ہیں اور اپنے اختیارات کے بل بوتے پر دوسرے اداروں پر اپنی طاقت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔مشرف دورمیں کی گئی سترہویں ترمیم  میں  مقننہ کی تحلیل سے متعلق اہم اختیارکا   صدر کو دیا جانا جسے اٹھارویں ترمیم میں پھر ختم کر دیاگیااور اس کے علاوہ  آئینِ پاکستان میں کی گئی متعدد ترامیم اسی طاقت کی تقسیم کی رسا کشی کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ معاملہ خلافت میں نہیں  ہوتاکیونکہ تمام اختیارات پہلے ہی خلیفہ کے پاس موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اختیارات کے مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،لہٰذا خلیفہ کی تمام تر توجہ صرف عوامی مسائل ہی کے حل کرنے پرمرکوزہوتی ہے۔

 

ریاست میں طاقت کی تقسیم کا مغربی تصور اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ مغرب کے نزدیک انسان بحیثیت حکمران کی اصل شخصیت مفاد پرستی، کرپشن اور خودغرضی پر مبنی ہے  اور اس کا عادل  اورعوام پرست ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ لہٰذاانسان کو جب بھی حکومتی اختیارات دیے جائیں گے تو وہ لازمی طورپر ان کا غلط استعمال کرے گا۔مغربی سوچ کے مطابق اسی وجہ سے حکومتی معاملات چلانے کیلئے اختیارات کو تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ اس "مفاد پرست" حکمران کو تمام کے تمام اختیارات نہ مل جائیں جس کی بنا پر وہ من مانی کرسکے۔ حکمرانی میں سست روی اس کی قیمت ہے لیکن  خود غرضی اور کرپشن سے بچاؤ اس کا مقصد ہے۔ایسے حکمران کے لیے لازمی طور پر ایک مضبو ط احتساب کی ضرورت  پڑتی ہے جو اسے سیدھا رکھ سکے اور ضرورت پڑنے پر اسے قانونی طور پر معزول بھی کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ جمہوری ریاستوں کے آئین میں ایسے قوانین(عدم اعتماد، پارلیمنٹ  کی تحلیل وغیرہ) موجود ہیں جو حکمران کے احتساب کو صرف سیاسی یا عوامی  دباؤ تک محدود نہیں کرتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قانونی سطح پر اسے معزول کرنے تک لیجاتے ہیں۔ لہٰذا حکومتی رفتار اور احتساب کے اس ترازو میں  مغربی سوچ کے مطابق احتساب  کا پلڑا بھاری ہے۔

 

اس کے مقابلے میں اسلامی ریاستِ خلافت میں طاقت کی مرکزیت کا تصور اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ خلیفہ بحیثیت حکمران کی اصل شخصیت عدل اور انصاف پرمبنی ہے جو تقویٰ کی بنیاد پر حکومت کرے گا۔لہٰذا اس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا، بدیانتی نہیں کرے گا، کرپشن نہیں کرے گا وغیرہ۔اگرچہ ہمیں ایسی احادیث ملتی ہیں جس میں حکمران کے ناپسندیدہ  ہونے، لعنتی ہونے اور لوگوں کا حق چھیننے کا ذکر ہے لیکن یہ غیر معمولی صورتحال سے متعلق ہیں جو کہ ایک انتہا ہے،جبکہ حکمران کی اصل شخصیت عدل اور انصاف پر ہی مبنی ہے۔اس  کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ شرعی حکم کے مطابق کسی شخص کے خلیفہ منتخب ہونے کیلئے یہ قانونی طور پر  ضروری ہے کہ وہ عادل ہو یعنی فاسق نہ ہو۔ریاستِ خلافت کے آئین میں موجود یہ شق قانونی طور پر کسی فاسق شخص کیلئے خلافت کے منصب کا دروازہ بند کر دیتی ہے اور اس کی یقین دہانی کرتی ہے کہ حکمران لازمی طور پر عادل ہی ہو۔علاوہ ازیں، حکمران کی معزولی کو ایک انتہائی قدم کے طور پررکھا گیا ہے یعنی حکمران کو صرف تب ہی معزول کیا جا سکتا ہے جب اس میں عقدِ خلافت یعنی بیعتِ انعقاد کی شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو جائے جو ناقابلِ واپسی ہو یا پھر خلیفہ کفرِ بواح کے نفاذ پر بضد ہو، ان دونوں انتہائی صورتوں میں خلیفہ کی معزولی واجب ہے۔ان دونوں معاملات کے علاوہ کسی بھی دیگر اختلافی معاملے میں قانونی طور پر خلیفہ کو معزول نہیں کیا جا سکتا اگرچہ سیاسی اور عوامی دباؤ کے ذریعے اس کا احتساب کیا جا سکتاہے۔اس سے یہ واضح ہے کہ تقریباً تمام ریاستی فیصلوں کے درست  نفاذ کا انحصار خلیفہ کے تقوی پر ہی ہے ۔ اسی وجہ سے خلیفہ اپنے اختیارات کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کو فوراً نافذ کر سکتا ہے جو حکمرانی کو  مضبوط کرتا ہے اور معاملات کو نمٹانے میں تیزی لاتا ہے۔لہٰذا حکوتی رفتار اور احتساب کے اس ترازو میں اسلام کی فکر کے مطابق حکومتی رفتار کا پلڑا بھاری ہے۔

 

احتساب کے حوالے سے اس نقطے کا ادراک بھی ضروری ہے کہ قانون کے ماخذ کا حکمران کے احتساب کے مؤثر ہونے سے گہرا تعلق ہے۔جمہوریت میں آئین اور قانون  کے احکامات کا ماخذ انسانی عقل ہے اور اسی انسانی عقل ہی  کی بنیاد پر اس اخذ شدہ آئین و قانون کیلئے صحیح اور غلط کا پیمانہ بھی  طے پاتا ہے۔لہٰذا جمہوریت میں انسان کے پاس آئین و قانون کو وضع کرنے کا اختیار حکمران کو وہ چور دروازہ مہیا کر دیتا ہے  جہاں سے وہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کے قوانین بنا کراحتساب سے فرار ہو سکتا ہے۔قوانین وضع کرنے کی یہ طاقت اور اختیار حکمران کو  اس قابل بناتا ہے کہ وہ  عوام اور ریاستی اداروں کیلئے اپنے احتساب کو قانونی طور پر مشکل بنا سکے۔مثال کے طور پر پاکستان  کے آئین   کی دفعہ 248 کے تحت صدر، گورنر، وزیراعظم، صوبائی وزراء، وفاقی وزراء   اور ریاستی وزراءاپنے قانونی اختیارات کے استعمال اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں   ۔اکثر وبیشتر عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ حکمران کی غلطیوں  پر ان کا احتساب کرنے کیلئے ان کی حکومت ختم ہونے کا انتظار کریں، تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور تباہی و بربادی عیاں ہو چکی ہوتی ہے۔پاکستان کے کئی سابقہ حکمرانوں پر حکومتی دور کے بعد  عائد کیے جانے والے   سخت مقدمات دورانِ حکومت احتساب کی کمزوری کی عکاسی کرتے ہیں۔

 

اس کے برخلاف خلافت میں خلیفہ اپنی مرضی کی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ تمام ریاستی قوانین اور ریاست کے آئین کو وحی سے اخذ کیا جاتا ہے۔چونکہ عقلِ انسانی کے مقابلے میں وحی ایک حتمی اور قطعی  پیمانہ ہے جو انسانی سوچ، حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتا، اس لیے خلیفہ کیلئے  یہ گنجائش نہیں رہتی کہ وہ ریاستی اختیارات اور قوانین میں اپنی من مانی کر سکے۔اس کے علاوہ تمام ریاستی اداروں، عدلیہ ، مجلسِ امت، سیاستی جماعتوں اور عوام کیلئے بھی وحی ایک قطعی  اور حتمی پیمانہ مہیا کر دیتی ہے جس کے ریاستِ خلافت  میں حکمرانی  کے احتساب کی بنیاد ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔لہٰذا آئین و قانون کے ماخذ کا حتمی اور انسانی عقل کے اثر سے آزاد ہونا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ خلیفہ قانون اخذ کرنےکیلئے ایک مخصوص ماخذ  ہی کا پابند ہو جو سب کیلئے قابلِ قبول ہو اور جس کے قانونی ماخذ ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔لہٰذا اسی ماخذ ہی کی بنیاد پر احتساب کے قوانین بھی ترتیب دیے جاتے ہیں جن میں تبدیلی خلیفہ کی مرضی پر منحصر نہیں کیونکہ وہ قوانین کی تبدیلی کیلئے بھی  وحی  کو بنیاد بنانے کا پابند ہے۔اسی وجہ سے ریاستِ خلافت میں خلیفہ اپنے احتساب کو کمزور بنانے یا اس سے بچنے کی خاطر اپنی مرضی کے قوانین بنا کر اپنے احتساب کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی نہیں کر سکتا اور یہ امر خلافت میں حکمران کے احتساب کو وحی کی بنیاد پر مضبوط کرتا ہے۔مثال کے طورپر کفرِ بواح  کے نفاذ کی صورت میں خلیفہ کو بزورِ شمشیر رجوع کرنے پر مجبور کرنا، بصورتِ دیگر خلافت کے منصب سے معزول کر دینا،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا، فاسق ہو جانے کی صورت میں خلیفہ کی معزولی، خلیفہ کے خلاف مقدمے کی صورت میں  متعلقہ قاضی کو برطرف کرنے کے اختیار کا ختم ہوجانا  وغیرہ جیسے احکامات   وحی ہی کی بنیاد پر موجود ہیں، جنھیں خلیفہ اپنی مرضی سے یا مجلسِ امت کی مرضی سے یا عوام کی مرضی سے تبدیل نہیں کرسکتا، یہ اور ان جیسے دیگر قوانین اسلامی ریاستِ خلافت میں خلیفہ کے کڑے احتساب   کو یقینی  بناتے ہیں۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر ریاستِ خلافت میں  آئین  اور تمام قوانین  وحی ہی کی بنیاد پر ہوں  اورخلیفہ بھی عادل ہو  لیکن حکمرانی ملنے بعد وہ  اسلام کے تنفیذی احکامات میں مفاد پرستی یا کرپشن  کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے لگے تو اس کا احتساب کیسے ہو گا؟ تو یہ سوال اس ذہن کی پیداوار ہے جو آج کے  جمہوری حکمرانوں پر خلیفہ کو قیاس کر رہا ہے۔جمہوریت میں حکمرانوں کا عیاش ہونا، کرپٹ ہونا، مفاد پرست ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہ ایک عام بات ہے  اور اس کی بنیادی وجہ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جا سکتا ہے۔اسی طاقت کو حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کا کرپٹ اور خودغرض انسان آ موجود ہوتا ہے اور اپنے پیسے کو کئی گنا منافع سے واپس ملنے کی ضمانت کے ساتھ پانی کی طرح بہاتا ہے۔اس کےعلاوہ اسی قانون سازی کی طاقت کے حامل افراد کی سرمایہ دارانہ منڈی میں قیمت لگتی ہے جو سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر ان کی مرضی کے قوانین بناتے ہیں اور اس طرح وہ سرمایہ دار ان حکمرانوں اور حکومتوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔یہی قانون سازی کی طاقت کے متمنی ہر آنے والے انتخابات میں مفادات کی بنیاد پر اپنی سیاسی حمایت تبدیل کر لیتے ہیں تاکہ بدلتے سیاسی ماحول سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ اسمبلیوں میں جگہ بنا سکیں۔اس کرپٹ اشرافیہ میں موجود خودغرض حکمرانوں کو اسلامی ریاستِ خلافت کےعادل اور اہل خلیفہ پر قیاس کرنا سراسر حماقت ہو گی۔اسلامی ریاستِ خلافت میں من مانی کی قانون سازی کے اختیار  کا نہ ہونا خلیفہ کو اپنے مفادات کو قانونی شکل دینے اور تحفظ دینے سے روک دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جو خلافت کی ذمہ داری کیلئےاپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، وہ اسی سوچ کے ساتھ آگے آتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کے احکامات ہی کو نافذ کرنا ہے جس پر انھیں بیعت دی جاتی ہے اور جو ریاستِ خلافت کا آئین ان سے قانوناً  تقاضا کرتا ہے۔اسلامی ریاست قانونی زور کی بنیاد پر نہیں بلکہ   لوگوں کی اسلامی شخصیت پر مبنی تربیت کے ذریعے تقوی کو اسلام پر چلنے کی بنیاد بناتی ہے۔ اگرچہ انتہائی صورتحال  کیلئے ریاستی قوانین اور سزائیں موجود ہیں لیکن عوام اور حکمران ان کے ڈر سے نہیں بلکہ حتی الامکان اللہ کے خوف سے شرعی احکامات پر عمل کرتے ہیں۔یہی  وہ بنیاد ہے جو اسلامی ریاست کو دیگر غیر اسلامی ریاستوں اور معاشروں سے ممتاز کرتی ہے اور حکمران اور عوام کی سوچ کو آپس میں ہم آہنگ کر دیتی ہے۔ یقیناً آج کے دور میں ظلم پر مبنی جمہوری حکومتوں اور مغربی مفادات کیلئے مسلمانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھانے والے حکمرانوں کی موجودگی میں یہ گمان کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اسلام کا ایک ایسا نظام جو حکمران کے تقویٰ کے بل بوتے پر نافذ ہو تا ہے اور جہاں عمر فاروقؓ جیسا  خدا خوفی رکھنے والا خلیفہ بھی  اپنے  ہی خلاف شکایات سن کر  خود ہی مدعی کے حق میں فیصلہ سنا تا ہے وہاں اس نظام کو آج دوبارہ چلانے کیلئے ایک اور عمرؓ جیسا خلیفہ مل جائے، یہ ناممکنات میں سے ہے۔لیکن قرونِ اواخر کے مسلمانوں کیلئے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث اندھیرے میں اجالے کا پیغام دیتی ہے جب رسول اللہ ﷺ نے نبوت کے فوراً بعد آنے والی خلافت کے بارے میں فرمایا:

(ثُمّ تكونُ خِلافةً على مِنهاج النبوَّة)

"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" (مسندِ احمد)

اور اسی حدیثِ مبارکہ میں  آپ ﷺ نے ظلم و جبر کے دور کے بعد آنے والی خلافت کے بارے میں  بھی یہی فرمایا:

(ثُمّ تكونُ خِلافةً على مِنهاج النُّبُوَّة)

"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر(دوبارہ) خلافت قائم ہو گی"(مسندِ احمد)

 

لہٰذا ان شاءاللہ دوبارہ قائم ہونے والی خلافت بالکل ویسی ہی ہو گی جیسی نبوت کے بعد قائم ہو نے والی خلافتِ راشدہ تھی۔ اس آنے والی خلافتِ راشدہ ثانی   کی قیادت بھی ایک راشد خلیفہ ہی کرے گا جو اسلام کے مکمل نفاذ، اپنے  مثالی تقویٰ اور  خوفِ خدا سے وہ ایمانی فضا ء قائم کر دے گا جو نہ صرف مسلمانوں کےدلوں سےاس  دنیا کی محبت اور موت کا ڈر نکال دے گی بلکہ مغربی جمہوریت کے طاغوتی بت کو بھی، ان شاء اللہ، ہمیشہ کیلئے دفن کر دے گی۔(ختم شد)

 

Last modified onبدھ, 23 دسمبر 2020 20:04

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.