الثلاثاء، 06 شوال 1445| 2024/04/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سیکولر قانون پر تعمیر کی گئی ریاست کبھی بھی

ناموس رسالت ﷺ کا انتقام لینے کا اسلامی فرض پورا نہیں کرے گی

 

خبر:

          17 اپریل2021، بروز ہفتہ، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو توہین رسالت کرنےوالوں کے خلاف بھی ویسا ہی رویہ اپنانا چاہیے جیسا کہ وہ ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والوں کے خلاف اپناتے ہیں۔ فرانس کے صدر کی جانب سے توہین آمیز کارٹون بنانے والوں کی حمایت کرنے پر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنےکا مطالبہ کرنے والی ایک مذہبی جماعت کو حکومت کی جانب سے کلعدم کرنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی توہین دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا، "ہم مسلمان اپنے نبیﷺ سے بہت زیادہ محبت اور عزت کرتے ہیں۔۔۔ہم اس قسم کی کسی بے عزتی اور توہین کو برداشت نہیں کرسکتے۔" 

 

 تبصرہ:

         باجوہ-عمران حکومت یہ دعوی مسلسل کرتی چلی آرہی ہے کہ اس کے لیے نمونہ ریاست مدینہ ہے لیکن جس نبیﷺ نے ریاست مدینہ کو قائم فرمایا تھا اس کی توہین کا بدلا لینے کے لیے  ٹوئٹس اور تقریروں سے زیادہ کوئی عملی  قدم نہیں اٹھاتی۔ انتہائی افسوسناک بلکہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ تقریروں اور ٹوئٹس میں بھی یہ حکومت انہی صلیبیوں سے التجائیں اور درخواستیں کرتی ہے جو رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی حمایت کرتے ہیں اور جنہوں نے رسول اللہﷺ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔  یہ  التجائی اور درخواستی تقریریں اور ٹوئٹس بھی پاکستان کےمسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کی جارہی ہیں جن کا خون جوش غیرت سے اُبل رہا ہے کیونکہ اس حکومت نے وعدہ کرنے کے باوجود اب تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کیا ہے۔ جب پاکستان کے مسلمانوں نے اِس حکومت کو اپنا وعدہ یاد کرایا تو حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہ کرنے کا یہ فضول  جواز پیش کیا کہ اس طرح نہ صرف فرانس سے بلکہ پوری یورپی یونین سے  تعلقات خراب ہوجائیں گے، اور پاکستان یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔  لیکن پاکستان کے مسلمانوں نے باجوہ-عمران حکومت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔

 

         پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ حکومت جو اپنی نسبت ریاست مدینہ سے جوڑتی ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں ہونے والی توہین کا بدلا لینے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن درحقیقت یہ بے عملی کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ پاکستان کی ریاست اسلام کے نام پر بنائی ضرور گئی تھی لیکن اس کی بنیاد اسلام کے قانون پر نہیں رکھی گئی کہ قرآن و سنت ہی ملک کے آئین و قانون کا واحد ماخذ بن جاتا۔ حکمران اُس آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا ہر صورت اور ہر قیمت بدلا لینے کو فرض قرار نہیں دیتا۔ یہ آئین اسلام کے مفاد کو ریاست کا سب سے بڑا مفاد قرار نہیں دیتا بلکہ قومی مفاد کو سب سے بڑا مفاد قرار دیتا ہے۔ لہٰذا جب پاکستان کے مسلمان حکمرانوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں ہونے والی گستاخی کے خلاف عملی اور موثر قدم اٹھائیں جائیں تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اکیلا صلیبیوں کے غضب کا سامنا نہیں کرسکتا۔ مسلم دنیا میں موجود ہر ریاست کی بنیاد اسلام کے قانون پر نہیں بلکہ سیکولر قانون پر کھڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک بھی مسلم ریاست نظر نہیں آتی جو باجوہ-عمران حکومت  کی طرح درخواستوں اور التجاؤں سے بڑھ کر اس معاملے میں کوئی عملی کردار ادا کرتی ہو۔  اور اگر کوئی مسلم ریاست کچھ سخت بیان جاری بھی کرتی ہے تو وہ بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتی۔

 

         جب مسلمانوں کی خلافت ، اسلامی ریاست، موجود تھی، تو ان صلیبیوں کو کبھی ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اور اگر کبھی ان صلیبیوں نے حد پار کرنے کی کوشش کی بھی تو انہوں نے امت کے غیض و غضب کا سامنا ریاستِ خلافت کی افواج کے مارچ کی صورت میں کیا۔ آج امت موجودہ حکمرانوں سے بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ خلفاء جیسا طرز عمل اختیار کریں ، لیکن امت کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اُن کی یہ خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوگی جب تک موجودہ سیکولر حکومتی ڈھانچے کو گرا کر اس کے کھنڈرات پر خلافت کی ریاست کی شاندار عمارت کھڑی نہیں کی جاتی۔ ریاست ِخلافت میں حکمران یعنی خلیفہ اس بات پر بیعت لیتا ہے کہ وہ صرف اور صرف قرآن و سنت کو نافذ کرے گااور اس کا احتساب اسی بیعت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف قدم اٹھانا قومی مفاد میں نہیں کیو نکہ اسلام میں کوئی قومی مفاد نہیں ہوتا  بلکہ صرف اور صرف اسلام کا مفاد ہوتا ہے۔ پاکستان  اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو افواج میں موجود اپنے بھائیوں اور بیٹوں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں تا کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے آپ ﷺ کے شایان شان بدلا لیا جاسکے۔

 

وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَخۡشَ اللّٰهَ وَيَتَّقۡهِ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ

"اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں" (النور، 24:52)

            

حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔

Last modified onجمعرات, 29 اپریل 2021 23:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک