Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

عبد الحمید دوئم

 

ان دنوں عالمِ اسلام عبد الحمید ثانی کی وفات کی  103ویں برسی یاد کررہا ہے،جو اس اسلامی خلافت کے آخری حکمرانوں میں سے تھے جسے انگریزوں نے گراکر ختم کیا تھا ۔ 103 سال قبل انہی دنوں(فروری 1918ء) میں جلاوطن بیمارخلیفہ  عبد الحمید دوئم نے ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس غسل کرنے پر اصرار کیا،چنانچہ غسل کے  بعد ابھی  بستر تک پہنچنے نہیں پائے تھے کہ  ڈاکٹروں نےان کے بیٹوں کو بلایا، تاکہ وہ اپنے والد کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری لمحات میں ملاقات کرسکیں،مگر اُن کے آنے سے پہلے  ہی وہ جان کی بازی ہار بیٹھے، یوں تاریخ اسلام کے حقیقی آخری خلیفہ کی زندگی کا صفحہ پلٹ گیا۔

 

عبد الحمید دوئم (21 ستمبر 1842 سے 10فروری 1918)نے 75 سال عمر پائی ،تین دہائیوں تک اس وسیع و عریض ریاست کے حکمران رہے ،جو اسلام کے ذریعے حکومت کرتی تھی ،اس پورے عرصے میں ان کا ایک ہی کام تھا،مسلم معاشرہ کی حفاظت اور" یورپ کےمردِ بیمار" کی صحت کی بحالی،ترکی کو’’ مرد ِبیمار‘‘ کا یہ لقب مغربی دشمنوں نے دیا، جو عثمانی ریاست کے سقوط کے انتظار میں تھے ۔

 

ان کی وفات کی خبر پاتے ہی شعرائے عرب اور دیگر اسلامی شعرا ءنے ان کے مرثیے پڑھے، سوگ منائے۔عراقی شاعر جمیل صدقی الزہاوی نے شعر کہا

 

سلام علی العھدی الحمیدی انہ   لاسعد عھد  فی الزمان و  انعم
حمیدی دور پر سلام ہو بلا شبہ وہ زمانے میں بہترین دور تھا اور رحمتوں سے بھر پور تھا
 
 

امیر الشعرا ءاحمد شوقی نے عالم اسلام کی طرف سے اس سانحہ کا  لب لباب بیان کرتے ہوئے یوں تعبیر کیا                                                                        

 
ضجت علیک   مآذن و منابر و بکت علیک ممالک و نواح
آپ کی موت پر منبر اور مینار دھاڑیں مار کر روئے اور تجھ پر ممالک روئے ، علاقے روئے
 

ان مرثیوں اور نوحوں سے قبل خلیفہ نے ایسے حالات   اور چیلنجز کا سامنا کیا، جوبے حد بوجھ والے تھے اور خلیفہ نے یہ بوجھ کماحقہ اٹھایا، اور وہ ان مشکلات سے نمٹتے ہوئے چٹان بن  کرمقابلہ کرنے کی وجہ سے  ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگئے ،جس کا اثر اب تک محسوس کیا جاتا ہے، ہم یہاں اس کے کچھ نمونوں کاذکر کرتے ہیں۔

 

یہودیوں کی فلسطین میں سکونت پر پابندی سے متعلق قرارداد :

سلطان عبد الحمید دوئم کے حکم سے ،21 جنوری1883ء کو استنبول میں سفارتی  وفود کے سربراہوں کوسرکاری یاداشت روانہ کی گئی ،عثمانی کابینہ کے مجوزہ متن پر مشتمل اس سرکاری یاداشت میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ روسی یہودیوں کو فلسطین میں سکونت سے روکا جائے۔اس قرار داد کی بنا پر سلطان نے یورپ کی طرف سے سخت قسم کے دباؤ کا سامنا کیا۔ اس پس منظر میں باب ِعالی(خلیفہ ہاؤس) نے 1884ء میں   یہودیوں کے لیے فقط  مقدس مقامات کی زیارت  کے لیےفلسطین میں داخلے کی اجازت سے متعلق ہدایات جاری کیں،اس شرط پر کہ ان کا وہاں  قیام تیس دن سے زیادہ  نہ ہو۔ یہودیوں کی ہمدرد یورپی ریاستوں کی طرف  سےباب ِ عالی  (خلیفہ ہاؤس)پر  دباؤ  بڑھنے اور فلسطین کے حوالے سے  صہیونی تحریک (Zionist movement) کے اَہداف و مقاصد سامنے آنے کے بعد ،توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سلطان عبد الحمیددوئم نے القدس کی انتظامی  حیثیت میں تبدیلیاں  کیں،چنانچہ اُنہوں نے القدس کو باب عالی کےذاتی کنٹرول  کے تحت لا کر اس کو خود مختار  ادارہ بنادیا۔ یہ 1887ء میں ہوا،اس سے قبل القدس (یروشلم)  شام کے گورنر کے اختیارات کے تحت ایک انتظامی یونٹ تھا ، جسے سنجک کہتے تھے۔

اس قرار داد کی بدولت القدس ،جس پر صیہونیوں کی بھوکی اور لالچی نظریں لگی ہوئی تھیں،ایک مستقل انتظامی یونٹ بن گیا  جو بلاواسطہ بابِ عالی کے ماتحت تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی نقل مکانی پر نگرانی  سخت کرنے کےلیے دار الخلافہ استنبول کے سرکاری محکموں کو مستحکم کیا جائے  ۔

 

سلطان عبد الحمید دوئم نے القدس  کے امور کے لیے محمد شریف رؤوف باشا نامی  ایک مضبوط شخص تعینات کیا جو اسلام کی محبت اور یورپیوں کی عداوت میں مشہور تھا۔ وہ1877ء سے1889ء تک القدس میں رہا۔ اور یہودی آبادکاری کا سخت ترین مخالف تھا اور غیر قانونی طورپریروشلم میں مقیم یہودیوں کے تعاقب میں  مسلسل فوجی بھیجتا رہتاتھا،اور عثمانی شہری بننے والے غیر ملکی یہودیوں کےراستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا تھا تاکہ وہ   رہائشگاہوں کی تعمیر کے لیے اراضی نہ خریدسکیں۔

 

عبد الحمید کی پالیسی اور منصوبے:

         عبد الحمید دوئم اسلامی قوتوں کو  متحد کرنے پر کام کرنے کی  ضرورت کو سمجھتے تھے ، تاکہ عثمانی ریاست پر لالچی نظر رکھنے والی استعماری ریاستوں کا مقابلہ کیا جاسکے؛ چنانچہ انہوں نےاسلامی کمیٹی (الجامعۃ الاسلامیۃ) کا نعرہ پیش کیا اور اسی کوریاستِ خلافت کی سپریم پالیسی قرار دیا۔اُنہوں نے چین، ہندوستان اور افریقہ کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارےکے رشتے کومضبوط کرنےپر کام  کیا۔اُنہوں نے اپنےاس  نعرے کو اپنے اور اپنی ریاست کے گرد اندرونی اور بیرونی  صفوں کی وحدت کا ذریعہ سمجھا، اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے مختلف شخصیات ،داعیوں  اور وسائل  کا سہارا لیا اورکئی کالج اوراسکول قائم کیے ۔ انھوں نے ریاست کے علاقوں کو تیس ہزار کلومیٹر  ٹیلی گراف اور ٹیلی فون لائنز کے ساتھ جوڑ دیا،آب دوزیں بنائیں اور فوج کو مسلح کرنے کے لیےاپنے آپ کووقف کیا۔

 

مگر ان کا سب سے بڑا عوامی منصوبہ حجاز ریلوے لائن تھاجس کو انہوں نے نہایت شاندار طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا تاکہ مسلمان بسہولت فریضہ حج ادا کرسکیں،بجائے  اس کے کہ  قافلوں کے ذریعے یہ سفر طے کیا جائےجو چالیس دن کاہوا کرتا تھا۔ ریلوے لائن بننے کے بعد یہ دورانیہ نہایت کم ہوا اورصرف چار دن رہ گیا۔اس وسیع منصوبے نے مسلمانوں میں بڑا دینی جوش وجذبہ پیدا کیا،جب سلطان عبد الحمیددوئم نےاس منصوبے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی اورانہیں اس کار خیر میں عطیات دینے کا کہا  اورخلافت کے خزانے سے بھی بڑی مقدار میں اس کے لیےخاصی رقم مختص کی گئی، تو ہندوستان ، چین اور باقی دنیا کے مسلمان  یہ سوچ کر اپنے عطیات دینے کے لیے اُمڈ آئے کہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا منصوبہ ہے۔ آٹھ سالہ سخت محنت اور بھر پور جوش و جذبے سے کام کے بعد رجب 1326ھ بمطابق اگست 1908ء  میں پہلی ٹرین   مدینہ منورہ پہنچی۔

 

عبد الحمید دوئم اور بڑی طاقتیں:

سلطان ذاتی طور پر استعماری  یورپی ریاستوں سے دبتے نہیں تھے، کیونکہ ایک تو لاکھوں مسیحی سلطان کے زیرِ اختیار تھے، دوسرا مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کی وجہ سے یورپ کی مسلم ریاستوں پر بھی ان کواثر و نفوذ حاصل تھا۔ عبد الحمید دوئم کی زندگی میں  یورپ کے بڑے ممالک میں سے کوئی بھی ملک  اس قابل نہ تھا کہ   یورپ یا بالخصوص بلقان میں موجود اسلامی ریاست کے علاقوں کو کاٹ  سکے ۔ یہی وجہ تھی  کہ عبد الحمید دوئم کی سلطنت کو گرانا، پیرس اور لندن کے لیے ایک بارِ گراں بنا ہوا تھا۔

 

عبد الحمید اور یہود:

’’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عرب عنصر کی بالا تری باقی رہے، تو ہمیں فلسطین میں یہودی تارکین وطن کی آباد کاری کی سوچ کولازماً مسترد کرنا ہوگا،ورنہ یہودی جب کسی زمین کو اپنا وطن بنالیتے ہیں تو وہاں کے اکثر وسائل کو جلد ہی اپنی ملکیت میں لے لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس قسم کا فیصلہ اپنے دینی بھائیوں کے بارے میں یقینی موت کا فیصلہ ثابت ہوگا۔‘‘ یہ تھا عثمانی سلطان عبد الحمیددوئم کا اپنے عرب اور مسلمان بھائیوں کے حوالے سے نقطۂ نظر، اور یہ تھا فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری سے متعلق  ان کا نقطۂ نظر جوانہوں نے اپنی سیاسی ڈائری میں لکھ کر محفوظ کردیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا:’’ فلسطین میں صیہونی منصوبے کے قائد تھیوڈور ہرٹزلTheodore Herzl کو نصیحت کرو کہ اس معاملے سے متعلق کوئی نیا قدم اٹھانے سے گریز کرے، کیونکہ میں یہ نہیں کرسکتا کہ  مقدس سرزمین کے ایک بالشت بھرٹکرے سے بھی دستبردار ہوجاؤں، کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں بلکہ یہ میری قوم کی ملکیت ہے ،میرے آباؤ اجداد نے اس زمین کے لیے جنگیں لڑیں اور اس کو اپنے خون سے سیراب کیا۔ یہودی اپنے لاکھوں اپنے پاس رکھیں، اگر(خدانخواستہ) مستقبل میں  خلافت کے ٹکڑے ہوجائیں تو پھر وہ فلسطین کو مفت حاصل کر لیں،بہر حال جب تک میں زندہ ہوں  میں اپنے جسم میں خنجر  گھونپنے کو ترجیح دوں گا بجائے یہ کہ  فلسطین کی زمین ہاتھ سے نکلتی دیکھ لوں‘‘۔

 

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ  یہ تاریخی موقف جس کی وجہ سے سلطان عبد الحمید دوئم    یہودی قائد تھیوڈور ہرٹزل  کی پرکشش   پیش کشوں کے سامنے ثابت قدمی کی   مجسم مثال بنا،ان کے خیال میں یہ موقف ان کی فلسطین اور اس کے تحفظ کی  فکر مندی  کی واحد مثال ہے۔حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے  کہ اس موقف سے قبل اور بعد  بھی  فلسطین کی حفاظت کے لیےعبد الحمید دوئم  کی طرف سے  بے مثال  جد و جہد  ایک تاریخی حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ اہم ترین واقعہ جس نے یورپ کو سلطان کے خلاف  مشتعل کردیا ،فلسطین میں یہودی تارکین وطن کی آباد کاری کو مسترد کرنا تھا، کیونکہ مسیحی یورپ یہ چاہتا تھا کہ یہودی شر کو مسلمانوں کی ریاست کی طرف دھکیل دے ۔ یہودی  صیہونی گروپ کے رہنما تھیوڈور ہرٹزل   اور سلطان عبد الحمید دوئم کے درمیان  پہلا رابطہ  آسٹرین سفیر کی وساطت سے محرم1319ھ بمطابق مئی1901 ء کو استنبول میں ہوا۔ اس موقع پر ہر ٹزل نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا مطالبہ سامنے رکھا، اور یہ کہ  یہودی اس کے بدلے فی الفورلاکھوں عثمانی سونے کے لیرے سلطان کو بطور تحفہ دیں گے، اس کے ساتھ  عثمانی ریاست کے خزانے کو مبلغ بیس لاکھ لیرے مزید قرض بھی دیں گے۔

 

عبد الحمید دوئم نے بھانپ لیا کہ ہر ٹزل فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن قائم کرنے کے لیے رشوت دینا چاہتا ہے، اور یہ کہ یہودیاپنے آپ کو محض اکثریتی آبادی ثابت کرکےیورپی اقوام کی حمایت سے ذاتی خود مختارحکومت کا مطالبہ کریں گے۔چنانچہ سلطان نے ہرٹزل کو ذلیل کر کے نکال دیا۔سلطان عبد الحمید دوئم نے  اپنی ڈائری میں اس قرار داد پر دستخط نہ کرنے  کے اسباب  کے بارے میں بیان کیا ہے،’’(ایسا کر کے) ہم اپنے دینی بھائیوں کی موت کے فیصلے پر دستخط کردیتے‘‘ ، ہرٹزل نے زور دیا کہ   فلسطین  کے حوالے سے یہودیوں کی اُمیدیں دم توڑ گئیں،اور یہ کہ جب تک عبد الحمید دوئم کی حکمرانی رہے گی، وہ فلسطین میں ہر گز داخل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ تھی کہ عبدالحمیددوئم کی سخت گیر پالیسی صیہونی ریاست  کے منصوبے  کی تاخیر  میں اصل  سبب بنی رہی، جس کے لیے یہودی قومی وطن کے قیام کے ذریعے کوشش کررہے تھے؛ چنانچہ یہودیوں نے سلطان پر تہمتیں لگانے اور دوران حکومت  ان کا تاثر مسخ کرنے کی کوششیں کیں ۔کچھ یہودی یونین اینڈ پروگریس(Union & Progress)گروپ میں گھس گئے ،اسی گروپ نے بعد میں سلطان کی حکومت کا خاتمہ کیا، ان کی سربراہی عمانوئیل کراسو کر رہا تھا۔

 

خلیفہ کو قتل کرنے کی سازش:

القدس  میں یہودی آباد کاری کے سامنے عثمانی خلیفہ کےڈٹ جانے کا نتیجہ تھا کہ ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی،انگلینڈ کے بادشاہ  کارل ایڈورڈ ،جومیسونک لاج سے وابستہ اور یہود یوں کا گرم جوش حامی تھا، اس نےآرمینی تنظیموں کے لیےقصرِ یلدزکو دھماکے سے اُڑانے، سلطان کو قتل کرنےاور عثمانی بینک کو تباہ کرنے کے عوض 13 ہزار سونے  کے لیرے دینے کی پیش کش کی،مگر عثمانی افواج نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔  ایڈورڈ کی طرف سے فنڈنگ کے سہارے یہود یوں نے سویزرلینڈ میں بھی  عبد الحمید دوئم کی بگھی کو پھنسا کر ان کو قتل کردینے کی کوششں کی، مگر وہ اس حادثے میں بھی محفوظ رہے،جبکہ اس واقعے میں متعدد عثمانی فوجی ہلاک ہوئے۔  عبد الحمید کی سبکدوشی میں صہیونی منصوبے کے حوالے سے ان کےموقف کو نمایاں ترین وجہ شمار کیا جاتا ہے۔

 

عبد الحمید اور یونین اینڈ پروگریس (Union & Progress):

یونین اینڈ پروگریس عثمانی ریاست کی پہلی سیاسی پارٹی تھی  ،جو 1308ء بمطابق 1890 ء کو ایک خفیہ تنظیم کی شکل میں وجود میں آئی، جس کے مقاصد عبد الحمید دوئم کی حکومت کا تختہ الٹنا  اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ سلطان نے اس پارٹی کے بارے 1315ھ بمطابق1897ء کو تفتیش کر کے اس کے کئی  ممبرز کو ملک بدر کردیاجبکہ کچھ پیرس بھاگ گئے۔ اس کے بعد سلطان کی حکومت کے مخالفین  نے ذی القعدہ1319 ھ بمطابق اپریل 1902ءکو پیرس میں ایک کانفرنس منعقد کی ، اس کانفرنس کا نام عثمانی حزبِ اختلاف کی پہلی کانگریس  رکھا گیا۔ اس موقع پراہم قرار دادیں پاس کی گئیں۔ ایک قرار داد   قومیتی بنیادوں پر آزادانہ مقامی  انتظامیہ قائم کرنے کی تھی، جس کا مطلب عثمانی ریاست کے ٹکڑے کرنا تھا، مگر اس قرار داد پر بعض حاضرین کی طرف سے کانفرنس کے دوران اعتراض کیا گیا، پھر کانفرنس کے شرکاء نے سلطان عبد الحمید دوئم کی حکومت کے خاتمے اور ان کو برطرف کرنے کے لیےیورپی ممالک سے مداخلت کی اپیل کی۔

 

یونین اینڈ پراگریس گروپ نے  عثمانی ریاست میں اپنی کئی شاخیں کھولیں،اورچھوٹے نوجوان فوجی افسران    کی بڑی تعداد نے اس  میں شمولیت اختیار کی ۔ اس کے  بعد افسران کی تعداد بڑھتی گئی، یہاں تک کہ یہ کہا جاتا تھا کہ 1326 ھ بمطابق 1908 ء کو بلقان میں تیسری عثمانی فوج کے تمام افسران یونین کے ساتھ منسلک تھے۔یونین نے بلقان میں انقلابیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، اور بلغاری و یونانی  گروپوں نے یونین کے لوگوں   کے ساتھ مل کرمسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا تاکہ خلافت کو گرایا جائے۔اتحادیوں نےان عثمانی ملازمین کو بھی قتل کرنا شروع کیا جو ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ شدید ہلچل، ہنگاموں اور حادثات  کے بعد خلیفہ عبد الحمید دوئم نے جمادی الثانی1326ھ بمطابق اگست 1908 کو دستور کےنفاذ کا از سر نو فیصلہ کیا۔یونین اینڈ پراگریس تنظیم نے  حکومت ہاتھ میں لے لی اور  فرانسیسی  انقلاب  کے اصول نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔

 

یونین اینڈ پراگریس پارٹی کے حکومت ہاتھ میں لینے سے حکومتی نظام ایک پارٹی کی آمریت میں تبدیل ہو گیا جو ریاست کی شکست و ریخت کے خواہشمند عناصر پر  مشتمل تھی۔ ایک تاریخ دان کے بقول  :" اگر دوسری  مشروطیت(سلطنت جو شرائط و ضوابط کی پابند ہو) ایک عوامی تحریک کا نتیجہ ہوتی،تو  پہلا قدم جمہوریت کی طرف ہی اُٹھتا"۔ یونین اینڈ پراگرس کے افسران کہا کرتے تھے کہ اِس دوسری حکومت    میں صرف ان کا اختیار چلے گا ،کسی اور کا نہیں۔ دستور کے نفاذ کا اعلان ریاست عثمانی کو پیش آنے والے بعض المناک حادثوں کے وقت کیا گیا۔ یعنی ایسے وقت میں جبکہ بلغاریہ اور کریٹ نے ریاست عثمانی سے علیحدگی اور یونان  کےساتھ الحاق کا اعلان کیا، جبکہ بوسنیا اور ہرزیگووینا نے بھی آزادی حاصل کرلی۔

 

۳۱ مارچ کا واقعہ:

یونین کے لوگوں  نے دیکھا کہ عبد الحمید دوئم سے چھٹکارا پانا اور اس کی حکومت گرانا ضروری ہے۔ ان کی یہ خواہش یورپ کے بڑے ممالک بالخصوص برطانیہ کی خواہش کے موافق تھی ، جو اس کو عثمانی سلطنت کے خاتمے کے لیے اولین قدم سمجھتے تھے۔ یہود اور آرمینیا کے باشندوں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب وہ اپنے اہداف کے قریب پہنچ گئے ہیں، یہی وجہ تھی کہ 31 مارچ کا واقعہ ہوا۔مارچ رومی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے  ، جو18 دن کے فرق کے ساتھ گریگوری کیلنڈر (جنوری تا دسمبر) کے اپریل کے مہینے کے مطابق ہے ۔ یہ واقعہ 21 ربیع الاول 1327 ھ بمطابق 13 اپریل1909ء کو ہوا۔ اس دن استنبول میں بڑے ہنگامےہوئے ، جن میں یونین اینڈ پراگریس  پارٹی کے بعض فوجی قتل ہوئے۔

 

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونین اینڈ پراگریس کی وفادار افواج نے ہسلنکی Thessalonikiسے پیشقدمی کرتے ہوئےاستنبول کی طرف حرکت کی۔  بلغاریہ اور سربیاکے بعض گروپ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ان افواج نے دعویٰ کیا کہ وہ سلطان کو  استنبول کے انقلابیوں سے بچانے آئے ہیں۔ عبد الحمید دوئم کی وفادار اولین فوجی دستے کے سپہ سالار چاہتے تھے کہ ان افواج کو استنبول میں داخل ہونے سے روکا جائے ،بصورت دیگر ان کو کچل دیا جائے،لیکن سلطان نے اس تجویز کو مسترد کیا اوراولین فوجی دستے کے سپہ سالار سے ان کے خلاف اسلحہ استعمال نہ کرنے کا حلف لیا ۔ اس کے بعد محمد شوکت پاشا  کی قیادت میں افواج استنبول میں داخل ہوئیں اور مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کردیا ۔انھوں نے سلطان کے محل پر  ہلہ بول دیا اورریاست کے سرکاری مفتی سے سلطان کو معزول کرنے  کا فتویٰ لینے کی کوشش کی  لیکن اس نے فتویٰ دینے سے انکار کیا۔ تب انہوں نے اسلحہ کے ذریعے ڈرا دھمکا کر یہ فتویٰ حاصل کر لیا۔سازشی باغیوں نے سلطان پر الزام لگایا کہ31 مارچ  کے ہنگامے اور قتل کے پیچھے ان کا ہاتھ تھااور اس نے ہی قرآنی مصاحف جلا ئےاوراسی نے مسلمانوں کو باہمی قتل و غارت گری پر اکسایا۔ اس قسم کے تمام جھوٹے الزامات کا مقصد فقط سلطان  عبد الحمید دوئم کو بر طرف کرنا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کی معزولی کا اعلان کردیا۔

 

     باغیوں نے چار  سرکاری ملازمین کو سلطان کو معزولی کا فیصلہ   پہنچانے کے لیے نامزد کیا۔ان میں ایک یہودی، ایک آرمینی ، ایک البانوی اور ایک  جارجین تھا۔ اس طرح یہودیوں اور آرمینیوں نے عبد الحمید دوئم سے اپنا   انتقام لیا۔ اس کے بعد یونین کے لوگوں نے اعتراف کیا کہ اس گروہ کے انتخاب میں ان سے غلطی ہوئی ۔6 ربیع الثانی1327ھ ،بمطابق27 اپریل 1909ء کو سلطان عبد الحمیددوئم اپنے بھائی محمد رشاد کے حق میں مسندِسلطنت سے دستبردار ہوئے ،ا ور اپنے 38ساتھیوں کے ساتھ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہسلنکی منتقل ہوئے ،اور وہاں یہودی طرز کے شہر میں ایک محل نما مکان میں رہنے لگے جس کا مالک ایک یہودی تھا ، جبکہ ان کی ساری جائیداد اور رقوم بحق سر کار ضبط کی گئیں۔ہسلنکی میں اس محل میں کڑی نگرانی کے تحت انہوں نے اپنے آخری سال انتہائی تکلیف دہ اورکسمپرسی کے عالم میں گزارے ،حتیٰ کہ وہ نہ کوئی خبریں سن سکتے تھے نہ اخبار پڑھنے کی اجازت تھی۔

 

وفات:

سلطان عبد الحمید دوئم 28 ربیع الثانی 1336 ھ بمطابق 10فروری 1918ء کو 76 سال کی عمر میں وفات پائے۔ان کے جنازے میں مسلمانوں کے جم غفیر نے شرکت کی اور کئی شعراء نے ان کے مرثیہ پڑھے۔ان شعراء میں سے سلطان کا مخالف رضا توفیق بھی تھا، جس نے لکھا ،" جب تاریخ تیرا نام لے گی،اے سلطان معظم ! حق تیری جانب اور تیرے ساتھ ہوگا ۔ہم نے بے شرمی سے وقت کے عظیم ترین سیاستدان پر تہمتیں لگائیں، ہم نے کہا تھا:سلطان ظالم ہے،سلطان پاگل ہے۔ ہم نے کہا تھا، سلطان کے خلاف انقلاب ضروری ہے اور ہم نے وہ سب کچھ سچ جانا جو ہمیں شیطان  نے کہا"۔

 

  aH

Last modified onجمعرات, 29 اپریل 2021 22:56

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.