الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ٹیکس لگانے کا طریقہ کار ظالمانہ حد تک غیر منصفانہ (Regressive)

ہوتا ہے جو ضرورت مند اور قرضدار کی کمر توڑ دیتا ہے

 

         خبر:ا

گلے مالی سال 22-2021 کے لیے محصولات کا ہدف 5.829کھرب روپے رکھا گیا ہے جبکہ ختم ہونے والے مالی سال 21-2020 میں یہ ہدف 4.691کھرب روپے تھا، اس طرح محصولات میں 1.138کھرب روپے (24 فیصد) کے اضافے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے مالی سال 25-2024 کے لیے محصولات کا ہدف 10 کھرب روپے رکھا ہے۔

 

       تبصرہ:

ٹیکس کے حوالے سے حالیہ بجٹ گزرے ہر سال کے بجٹ سے قطعی طور پر مختلف نہیں ہے جبکہ حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے نمونے پر نئے پاکستان کی تعمیر کررہی ہے۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں؛ براہ راست ٹیکس اور بلواسطہ ٹیکس۔ براہ راست ٹیکس میں انکم ٹیکس، ورکرز ویلفئیر فنڈ ٹیکس اور کیپیٹل ویلیو ٹیکس شامل ہیں۔ بلواسطہ ٹیکس میں جنرل سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور پیٹرولیم لیوی شامل ہیں۔ بلواسطہ ٹیکس غریب اور قرضدار کو براہ راست متاثر کرتے ہیں  کیونکہ بلواسطہ ٹیکس کو لیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دینے والا اس کو ادا کرنے کی سکت رکھتا بھی ہے یا  نہیں ۔ موجودہ بجٹ 22-2021 میں حکومت نے ٹیکس وصولی کا ہدف 5.83کھرب روپے رکھا ہے جس کا 62.6فیصد حصہ بلواسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا محصولات کا بڑا حصہ غیر منصفانہ(Regressive) ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ غیر منصفانہ (Regressive ) ٹیکس وہ ہوتا ہے جو سب پر ایک ہی شرح سے لاگو کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں امیر آدمی کے مقابلے میں غریب کی آمدن کا بڑا حصہ ٹیکس کے نام پر لے لیا جاتا ہے۔

 

         باقی ماندہ 37.4فیصد براہ راست ٹیکس کو بھی کسی صورت منصفانہ (Progressive)ٹیکس قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے تحت بھی غریب اور قرضدار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ براہ راست ٹیکس کا بہت بڑا حصہ انکم ٹیکس اور ورکرز ویلفئیر فنڈ ٹیکس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں جو شخص ماہانہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کماتا ہے اُسے انکم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ چار افراد پر مشتمل  شہری خاندان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا۔ ورکرز کےویلفئیر فنڈ پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جبکہ اُن کی کم سے کم اجرت حالیہ بجٹ میں 20 ہزار روپے ماہا نہ رکھی گئی ہے۔

 

         دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ٹیکس غریبوں پر لاگو کیا جاتا ہے جبکہ امیر افراد کو اِن ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بہت سے مواقع (لوپ ہولز)فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 64 فیصد امریکی کہتے ہیں کہ وہ اس احساس  سے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ کارپویشنز فیڈرل ٹیکسوں کی مد میں اپنا حصہ پورا نہیں ڈالتے ، جبکہ 61 فیصد یہی بات امیر افراد کے متعلق کہتے ہیں۔(https://www.pewresearch.org/fact-tank/2015/04/10/5-facts-on-how-americans-view-taxes/

 

  دنیا بھر میں جمہوریت امیر کارپوریشنز  اور افراد کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ قانون سازوں پر اثرانداز  ہوسکیں اور اُن سے ایسے قوانین بنوائیں جو امیر کارپوریشنز اور افراد کے لیے فائندہ مند ہوں۔ مشکلات کے شکار لوگوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اگر امیروں پر کم ٹیکس لاگو کیا جائے گا تو وہ کاروبار اور پیداواری عمل میں مزید سرمایہ کاری  کریں گے اور ٹریکل ڈاون ایفیکٹ کے تحت اس کے ثمرات غریبوں تک بھی پہنچیں گے۔ لیکن  اس کے باوجودامیر اور غریب کے درمیان فرق میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے، یہاں تک کہ معاشی بحرانوں اور لاک ڈاؤنز کے دوران بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

 

         یہ بہترین وقت ہے کہ سرمایہ داریت کو ختم اور اسلام کو نافذ کیا جائے۔ اسلام میں صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کس پر ٹیکس لگے اور کس طرح سے محصولات جمع کیے جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ غریب اور قرضدار پر کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں ٹیکس نہیں لگ سکتا، بلکہ وہ زکوۃ کے حقدار ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا کہ کسی کی بھی انکم یعنی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگے گا اور اس طرح آمدنی کو ایک ایسی نجی ملکیت قرار دیا جس کی حرمت کو پامال نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کا حکم نہ دیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ جن کے پاس بچت اور تجارتی سامان  نصاب سے زائد ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو وہ زکوۃ ادا کریں گے، جبکہ جو زرعی زمین کے مالک ہیں وہ خراج ادا کریں گے۔  مزید محصولات کے لیے اسلام نے تیل، گیس، بجلی اور معدنی دولت کو عوامی ملکیت قرار دیا۔ اس طرح ریاست ان سے حاصل ہونے والے عظیم محصولات کو لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے  اور انہیں سہولیات فراہم کرنےکے لیے خرچ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خلافت بڑی اور بھاری صنعتوں  اور خدمات کے شعبے میں کلیدی  اور بڑا کردار ادا کرے گی، اور ان سے حاصل ہونے والے محصولات کو اسلامی فرائض کی ادائیگی پر خرچ کرے گی۔

 

#KhilafahEndsSlaveryToIMF

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے

انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔

Last modified onاتوار, 20 جون 2021 16:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک