الخميس، 08 شوال 1445| 2024/04/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال و جواب : ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے کچھ عمومی حقائق

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال و جواب

ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے کچھ عمومی حقائق

 

سوال:

اگرچہ ابھی صرف ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ ہی گزرا ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کوشش کی وضاحت ملے گئی چاہے وہ کچھ عمومی حقائق ہی کیوں نہ ہوں۔ اس بغاوت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کیا واقعی گولن  تحریک  نےاس بغاوت کو برپا کیا؟ یا فوج میں موجود برطانیہ کے وفادار اس کے ذمہ دار ہیں؟ اور اب اس ناکام بغاوت کے بعد کیا متوقع ہے؟۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔

 

جواب:

جو کچھ 15 اور 16 جولائی کو ہوا اس کا تجزیہ کرنے کے بعد اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ جنہوں نے بغاوت کی کوشش کی وہ برطانیہ کے وفادار افسران تھے جو خود کو خطرے میں گھرا محسوس کررہے تھے۔ اس  تجزیے کی وجوہات مندرجہ ذیل حقائق ہیں:

 

1۔ کیا وہ افسران خطرے میں تھے کیونکہ اعلیٰ ترکی فوجی کونسل(YAS) ایک عرصے سے جولائی کےمہینے کے آخری دنوں یا اگست کے شروع کے دنوں میں اپنا اجلاس کرتی چلی آئی ہے۔ اس کونسل میں کئی حکام موجود  ہیں اور ان کا فوج  پر بہت اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کے اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں انقرہ کے جنرل سٹاف  ہیڈ کواٹر میں ہوتے ہیں، جس میں وزیر دفاع، چیف آف سٹاف، زمینی افواج کے کمانڈر، فضائی فوج کے کمانڈر، بحری فوج کے کمانڈر، جینڈرمریا فورس کے کمانڈر، ڈپٹی چیف آف سٹاف اور اس کے ساتھ ساتھ ترک افواج کےاعلیٰ افسران جو اس کونسل کے رکن ہوتے ہیں، شرکت کرتے ہیں۔        اس کونسل کے سالانہ اجلاس میں جو معاملات زیر بحث آتے ہیں وہ یہ ہیں: اعلیٰ فوجی افسران کی ترقیاں، کچھ کمانڈروں کی مدت ملازمت میں توسیع، پینشن اور ترک افواج سے متعلق کئی امور کے ساتھ ساتھ فوجی افسران کو نامناسب طرز عمل پر فوجی ملازمت سے سبکدوش کرنے کے امور زیر بحث آتے ہیں۔  یہ اجلاس کئی زور جاری رہتا ہے اور اس کے فیصلوں کا اعلان  مملکت کے صدر کو اس کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ عموماً  اس کونسل کے اجلاس کے اختتام کے بعد کئی اعلیٰ فوجی افسران کو سبکدوش کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر  2 اگست 2015 کو ہونے والےپچھلے اجلاس کے بعد جن لوگوں کی ملازمت ختم کردی گئی تھے ان میں اس وقت کےترک فضائیہ کے سربراہ ایکن اوزترک بھی شامل تھے جن کے متعلق میڈیا میں یہ خبرے آرہی ہیں کہ وہ بھی   دیگر سینئر فوجی کمانڈروں کے ساتھ  موجودہ بغاوت کی سربراہی کررہے تھے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن افسران نے بغاوت کی کوشش کی وہ جانتے تھے کہ ان کی فوجی ملازمت کو خطرہ لاحق ہے اور  ان کے خلاف فیصلہ لیا جانے والے ہے یا انہیں یہ خبر "پہنچا(لیک)" کردی گئی تھی اور  انہوں نے کونسل کی جانب سے فیصلہ لیے جانے سے قبل ہی اس کو روکنے کی کوشش کی۔

 

2۔ بغاوت کرنے والے خطرہ مول لینے والے   برطانیہ کے وفادار افسران تھے   ، یہ بات مشہور و معروف ہے کہ برطانیہ کے حامی افسران فوج کا مرکز ہیں اور امریکہ  اس صورتحال کو ختم کرنے کی کوشش اوزل کی صدارت کے وقت سے کررہا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی تھی۔  لہٰذا امریکہ نے اپنی توجہ کا مرکز پولیس اور داخلی سیکیورٹی کی فورسز کو بنایا اور اس کے بعد اردگان کے دور میں فوج میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب رہا۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی وفادار موجود رہے، اگرچہ اردگان نے ان کے پَر کاٹ دیے لیکن انہیں  ختم نہیں کیا اور اس میں وہ افسران بھی شامل تھے جنہوں نے موجود بغاوت کی کوشش میں حصہ لیا۔

لیکن کیا ان افسران کو برطانیہ کی مددو حمایت حاصل تھی ، تو اگر بغاوت کی اس  کوشش کے منصوبے کا جائزہ لیں تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہےکہ  برطانیہ نے خود اس منصوبے کو نہیں بنایا  بلکہ اس بات کے شواہد زیادہ سامنے آتے ہیں کہ افسران نے منصوبہ بنایا اور برطانیہ نے انہیں اس سے روکا نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر اس منصوبے کا قریب سے مشاہدہ کیا جائےتو نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ  برطانیہ کی چالاکی اورتدبیر سے خالی تھا۔ مثال کے طور پر بغاوت کرنے والوں نے    اپنے بیان میں سیکولرازم کو اپنا محور و مرکز قرار دیا  اور یہ انتہائی بے وقوفی تھی، اس لیے کہ اس وقت ترکوں میں اسلامی احساسات و جذبات پھیل رہے ہیں۔ لہٰذا سیکولرازم کا ذکر کر کے انہوں نے لوگوں کو متنفر کردیا اور انہیں کمال اتاترک اور اس کے ساتھیوں  کی یاد دلادی کہ کس طرح ان کے ادوار میں   اسلام اور مسلمان جبر کے ماحول میں رہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید کینہ پروری کا مظاہرہ کیا گیا۔ لہٰذا بغاوت کی کوشش کرنے والوں کی جانب سے سیکولر ازم کا ذکر ایک انتہائی بے وقوفانہ عمل تھا جس نے لوگوں کو  کمال اتا ترک کی نفرت  میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کردیا  نہ کہ اردگان کی محبت میں۔  اس کے علاوہ بغاوت کی کوشش کرنے والوں نے  بغاوت کے پہلے چند منٹوں میں بغاوت کے اعلان سے قبل اس بات کو یقینی نہیں بنایا  کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو گرفتار کر لیں جیسا کہ صدر اور حکومت، بلکہ بغاوت کا اس وقت اعلان کردیا گیا جب حکمران اپنے منصبوں پر بیٹھے تھے۔  یہ اعمال ایسے ہی تھے جیسے  ہنگامہ آرائی ہوجائے  یا عوام کی حمایت کی بغیر اپنے شدید جذبات کا اظہار کردیا جائے۔

بارحال یہ تمام حالات و واقعات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بغاوت کو شروع کرنے والے خطرہ مول لینے والے برطانیہ کے وفادار افسران تھے  اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرنے پر مجبور ہوئے کہ وہ فوجی کونسل کی جانب سے اپنے خلاف فیصلے کو یقینی سمجھتے تھے۔ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ بغاوت کی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور تھی کیونکہ ایسی معلومات کا حصول انتہائی مشکل ہے۔

 

3۔ جہاں تک اس بغاوت کا الزام گولن پر لگانے کا تعلق ہے تو شاید ایسا کہنا درست نہیں کیونکہ گولن تحریک سول، عدلیہ اور رفاہی اداروں میں زیادہ متحرل اور وجود رکھتی ہے اور اس میں اس بات کی صلاحیت موجود نہیں کہ وہ بغیر استعماری حمایت کے بغاوت کی کوشش کرسکے۔ اس کے علاوہ یہ تحریک امریکہ کے احکامات کے مطابق چلتی ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی عمل نہیں کرتی۔ امریکہ اردگان پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ وہی اس کے مفادات کو پورا کرنے کی مکمل اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے خصوصاً خطے کی موجودہ صورتحال میں۔  شام کے مسئلے کے حل کے لئے ترکی امریکی ترکش کا آخری تیر ہےا ور اردگان نے اپنی وہ خدمات پیش کی ہیں جو موجودہ صورتحال میں کوئی دوسرا نہیں کرسکتا جیسا کہ موجودہ شامی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا  جب ترک وزیر اعظم نے یہ کہا کہ، "ترکی شام کے ساتھ اپنے معمول کے تعلقات بحال کرلے گا"۔   

امریکہ کے لئے گولن ایک فاضل پرزہ ہے جسے ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر گولن نے 2002 سے 2013 تک ہونے والے تین انتخابات میں اردگان کی جسٹس جماعت کی حمایت کی۔ ان کے درمیان مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب گولن تحریک نے اردگان کی بدعنوانیوں کو اچھالنا شروع کیا اور اردگان نے گولن تحریک کے ایک حصے کو بند کردیا۔  لہٰذا گولن ایک فاضل پرزہ ہے جسے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب اس کی ضرورت ہو۔ استعماری طاقتوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا  اگر ایک مقام پر ایک سے زائد ایجنٹ ہوں اور اگر وہ ایجنٹ آپس میں اختلاف کریں یہاں تک کہ آپس میں  لڑ بھی پڑیں۔ اس کی مثال  مصر کے سادات کی علی صابری گروہ کے ساتھ جھگڑے کی ہے۔ دونوں ہی امریکہ کے وفادار تھے لیکن سادات نے علی صابری گروہ کو گرفتار اور ختم کردیا۔

لہٰذا گولن تحریک    اس بغاوت میں ملوث نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس تحریک سے منسلک افراد نے اپنی ذاتی حیثیت میں اس بغاوت میں حصہ نہ لیا ہو خصوصاً ججوں نے جبکہ اردگان نے ان کے خلاف بہت سخت اقدامات اٹھائے تھے اور انہیں شدید خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

 

4۔  یقیناً اردگان اس بات سے باخبر تھا کہ فوج میں برطانیہ کا اثرو رسوخ موجود ہے اگرچہ وہ پہلے سے کم ہوچکا ہے اور یہ کہ بغاوت کی کوشش کے پیچھے برطانیہ کے وفاداروں کاہاتھ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے گولن پر اس کی ذمہ داری ڈالی کیونکہ اردگان برطانیہ کے وفاداروں کو خاموشی سے ختم کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اس کے خلاف کھڑے نہ ہوں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی کھڑا ہو۔  اور اس طرح اردگان ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے کہ گولن کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اپنے ایک سیاسی مخالف کو اور ساتھ ہی ساتھ فوج میں موجود برطانوی وفاداروں کو بھی ختم کردے جو گولن سے زیادہ طاقتور ہیں۔ 

   تو اس بغاوت کے متعلق یہ ہے ہمارا تجزیہ۔۔۔ بغاوت کو کامیاب بنانے کے لئے اچھا منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا  اور نہ ہی اس کا کوئی  اچھا مقصد تھا بلکہ خود کو درپیش خطرے کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کی گئی۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہی رُک جائیں کہ کیا ہوا تھا بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد کیا متوقع ہے۔

 

5۔ جو متوقع ہے وہ یہ کہ بغاوت کی اس کوشش کے اثرات دونوں فریقوں پر پڑیں گے:

جہاں تک امریکہ اور اردگان کا تعلق ہے تو وہ اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے اور فوج میں موجود برطانوی عناصر کو ختم یا کم ازکم ان کے اثرات کو انتہائی کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی لیے انہوں نے بغاوت کی کوشش کو جس حد تک ہوسکتا تھا بڑھا چڑھا کر پیش کیا تا کہ برطانوی عناصر کو بھر پور طریقے سےختم کرنے کی کوششوں کا جواز موجود ہو۔ اور یقیناً اردگان  بھی جس حد تک ممکن ہوا اس موقع کو اپنے مدمقابل گولن کو  ختم کرنے کے لئے استعمال کرے گا یعنی جس حد تک امریکہ اجازت دے گا اور ہزاروں افراد کی گرفتاری سے یہ بات واضح بھی ہوچکی ہے۔

 

جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو اس نے مبینہ طور پر اس کی حمایت کی اور اگر اس نے بغاوت کے منصوبے کو بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے میں براہ راست کردار ادا نہ بھی کیا ہو لیکن  اس نے اپنے لوگوں کو روکا بھی نہیں۔ لہٰذا اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ برطانیہ صورتحال کا قریب سے انتہائی غور و فکر سے جائزہ لے رہا ہو تا کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے وہ اپنے لوگوں کی عزت کو بحال کرواسکے۔۔۔۔ اور اس بات کی امریکہ اور اردگان کو توقع ہے۔ لہٰذا اوباما نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس  ترکی کی صورتحال پر بحث  اور آنے والے بین الاقوامی ردعمل سے قبل اس کی تیاری کرنے کے لئے بلایا یعنی یہ معاملہ امریکی نیشنل سیکیورٹی کے لئے بہت اہم ہے ۔ اردگان نے بھی لوگوں کو میدانوں، ہوائی اڈوں اور مساجد میں رہنے کی تلقین کی تا کہ کسی بھی ممکنہ برطانوی حمایت یافتہ افراد اور ان کے حمایتیوں کے ردعمل کا مقابلہ کیا جاسکے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جو خون بہا وہ ہمارا خون ہے ناکہ برطانوی یا امریکی خون۔۔۔۔۔ اور جو عمارتیں، ہوائی اڈے اور دیگر املاک تباہ ہوئیں وہ ہمارے ملک میں ہوئیں ناکہ امریکہ یا برطانیہ میں ۔۔۔۔اور اس لئے بغاوت کی کوشش کے دوران جو کچھ ہوا وہ ہمارے ملک کے لئے اندھیرے پر اندھیرے کے مترادف تھا۔۔۔۔اور یہ افسوسناک اور تکلیف دہ ہے۔۔۔لیکن  اس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی ہے  اور وہ یہ کہ لوگ سڑکوں پر اے اللہ،اے اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے لگاتے نکل آئے۔ اور ایسا اس لیے ہوا کیونکہ کہ بغاوت کا اعلان کرنے والوں نے اپنے سیکولر نظریات کا برملا اظہار کردیا جس نے ترکی میں مسلمانوں کے جذبات کو  مجروع کیا اور ٹینکوں کے سامنے سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے دین کی کامیابی کے لئے نعرے لگانے لگے۔ لہٰذا لوگوں نے فوجی بغاوت کی کوشش کا مقابلہ  اردگان یا اس کی حکومت کی محبت میں نہیں بلکہ سیکولر ازم اور اسکے  سرخیلوں کی نفرت میں کیا۔  لوگ بھر پور جذبات کے ساتھ سیکولر ازم کے خلاف نکل آئے اگر چہ  حکومت اور بغاوت کرنے والے دونوں ہی سیکولر ہیں۔  لیکن انہوں نے  بغاوت کرنے والوں کے سیکولر ازم کو اپنے اسلامی جذبات کے مخالف سمجھا کیونکہ بغاوت کرنے والے کمال اتا ترک کے پیرو کار تھے اور لوگ ان کی اسلام سے دشمنی کا خوب تجربہ رکھتے تھے۔  جبکہ حکومت کا سیکولر ازم اسلام کے لبادے میں لپٹا ہوا ہے جو ان کے جذبات کو تسکین پہنچاتا ہے، تو تصور کریں جب مسلمانوں کو حق اور انصاف پر قائم ریاست، نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت راشدہ ملے گی، جو انصاف اور محبت سے حکمرانی کرے گی، ان پر اللہ کے احکامات کو نافذ کرے گی اور اللہ کے لئے لوگوں کی جہاد میں رہنمائی کرے گی تا کہ اس دنیا  میں عزت اور آخرت میں کامیابی ملے، تو ایسی ریاست کا وہ کیسے اپنے مال ، جان ، افکار و احساسات  اور ہر اس چیز سے دفاع کریں گے  جو اس کام کو انجام دینے کے لئے ضروری ہو؟ مسلم امہ خیر کی امہ ہے ، لوگوں کے لئے بہترین امت:

 

 

   كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے واسطے پیدا کی گئی کیونکہ تم خیر کا حکم کرتے ہو ، منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"(آل عمران:110)۔

 

 

 اور اللہ کے حکم سے مسلمانوں کو جلد ہی نبوت کے طریقے پر خلافت ملے گی جو صرف اس کو نافذ کرے گی  جو اللہ نے نازل کیا ہے، جو مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرے گی۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں۔

 

12 شوال 1437 ہجری

17 جولائی 2016 

 

Last modified onپیر, 29 اگست 2016 01:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک