Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ    9 من محرم 1440هـ شمارہ نمبر: PR18059
عیسوی تاریخ     منگل, 18 ستمبر 2018 م

منی بجٹ نے پاکستان کی معیشت کو جکڑ دیا ہے تا کہ

آئی ایم ایف کی چھری سےاسےآسانی سے ذبح کیا جاسکے

 

18 ستمبر 2018 کو نئی حکومت نے منی بجٹ پیش کردیا۔ تبدیلی کے نام پر آنے والی اس حکومت نے ٹیکس سہولیات اور ڈیوٹیوں سے استثنا واپس لے کر ٹیکسوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے۔ یہ کاوش آئی ایم ایف کی ٹیم کے طے شدہ دورے سے قبل کی گئی ہے  جو ان اقدامات کے علاوہ مزید نجکاری کا مطالبہ بھی کرے گا۔  دیکھا جائے تو پاکستان کے نئے حکمرانوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ پرانے سرمایہ دارانہ نسخے کوہی  نئے کاغذپرلکھ کر قوم کے منہ پر مار دیا گیا ہے۔  نئے حکمرانوں کے آنے کے باوجود تبدیلی اس لیے نہیں آئی  کیونکہ پاکستان کی موجودہ معیشت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہی ہے اور  پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوےداروں نے اسلام کے معاشی نظام کی جگہ اسی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو ہی جاری و ساری رکھا ہے۔ سرمایہ داریت  اس بات کو یقینی  بناتی ہے کہ جن اثاثوں سے ریاست کو زبردست وسائل  حاصل ہوسکتے ہیں ان کی نجکاری کردی جائے جس کے بعد ریاست اپنے خالی خزانے کو بھرنے کے لیے عوام کی غربت اور ان کی مشکلات  کو نظر انداز کرتے ہوئے ان پر بھاری ٹیکس عائد کرتی ہے۔ اس قسم کا ٹیکس کا نظام زرعی اور صنعتی پیداوار کو مفلوج کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن ان کمر توڑ ٹیکسوں کے باوجود خرچوں کے لیے درکار رقم پوری نہیں پڑتی اور حکمران پھر استعماری مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرتے ہیں جو سود کی وجہ سے کبھی مکمل طور پر ادا ہی نہیں ہوپاتے۔  یقیناً پاکستان نے قرضوں کی اصل رقم کئی بار ادا کردی ہے لیکن اس کے باوجود پچھلے قرضے ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔  اور اس پر مزید ظلم یہ کہ ان استعماری قرضوں کے ساتھ سود،  نجکاری اور ٹیکسوں کی چھری  بھی ہوتی ہے جس سے تباہی کا تسلسل خود کو دہراتا رہتا ہے۔ 

 

جب تک ہم اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کرتے ، جسے نبوت کے طریقے پر قائم خلافت نے نافذ کیا تھا تو غربت کا خاتمہ، کشکول کا ٹوٹنا اور معاشی ترقی ایک سراب اور خواب ہی رہیں گئے۔ یہ صرف ہمارا دین ہی ہے جس نے ایسا منفرد معاشی زاویہ دیا  ہےکہ  عام افراد پر بوجھ ڈالے بغیر بھی ریاست کے پاس زیادہ سے زیادہ  وسائل  جمع  ہوتے  ہیں۔ اسلام منفرد طریقے سے دولت کی ملکیت کو تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے: نجی، سرکاری اور عوامی  ملکیت۔ توانائی اور معدنیات جیسا کہ تیل، گیس، بجلی، تانبہ اور لوہا عوامی ملکیت ہیں اور ان کی مالیت  عموماًاربوں  ڈالرز  میں ہوتی ہے۔ عوامی ملکیت کی نہ تو نجکاری ہوسکتی ہے اور نہ ہی ریاست اس کی مالک بن سکتی ہے۔ لہٰذا ریاست اپنی نگرانی میں ان وسائل  سے حاصل ہونے والی زبردست دولت کو  لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی پابند ہے۔  کمپنیوں کے قوانین کے حوالے سے اسلام کے منفرد قوانین  جوائنٹ اسٹاک شئیرکمپنی کوممنوع قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے نجی شعبہ معیشت کے ان شعبوں، جیسا کہ ٹیلی کمیونیکیشن، مواصلات، بڑی بڑی تعمیرات اور بھاری صنعتوں وغیرہ،   میں محدود کردار ادا کرتا ہے جہاں بے تہاشا سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح اسلامی ریاست ان شعبوں میں فعال کردار ادا کر کے اور ان شعبوں سے زبردست دولت حاصل کرکے لوگوں کے امور پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا ٹیکس  کانظام منفرد ہے جس میں تجارتی اشیا پر زکوۃ اور زرعی زمین پر خراج شامل ہے، جبکہ  ہنگامی ضرورت کے لیے ٹیکس صرف معاشرے کے دولت مند طبقے پر لگانے کی اجازت ہے۔ اسلام سود اور ہمارے امور پر کفار کے غلبے کی ممانعت کرتا ہے اور اس طرح تبا ہ کن استعماری اداروں کے قرضوں کے سلسلے کو توڑ  دیتا ہے۔  یہ بات واضح ہے کہ معاشی بدحالی کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کولازمی   طور پرموجودہ نظام سے حل ڈھونڈنے کی لاحاصل کوشش کو ترک کردینا چاہیے  اور اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی  کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔ قرآن میں  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ  ،

 

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏

اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے(طہ:124)

 

               ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.