Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    10 من جمادى الثانية 1442هـ شمارہ نمبر: 43 / 1442
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 23 جنوری 2021 م

پریس ریلیز

امریکہ نے افغانستان پر اس لئے حملہ نہیں کیا

کہ وہ محض انخلاء کی درخواست پر افغانستان چھوڑ جائے

 

الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جو 21 جنوری 2021 کو شائع ہوا، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کا ملک نئی امریکی حکومت کے ساتھ پہلے سے زیادہ بہترتعلقات کی امید کرتا ہے، جبکہ جو بائیڈن انتظامیہ نے افغان امن عمل اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء پر نظر ثانی کا اعلان کر رکھا ہے۔ قریشی نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "مجھے لگتا ہے کہ انہیں [بائیڈن انتظامیہ] اس کا احساس کرنا چاہئے کہ افغانستان میں ایک موقع موجود ہے اور جن اقدامات کا آغاز کیا گیا تھا، انہیں ان پر قائم رہنا چاہئے، اور ان اقدامات کے الٹ نہیں جانا چاہئے"۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ، "ان (اقدامات کو)  آگے بڑھائیں، کیونکہ ایک طویل عرصے کے بعد ہم نے درست سمت میں گامزن ہونا شروع کیا ہے۔"  انہوں نے استدعا کی کہ "پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے ، ہم واقعتا الٹی سمت جھکے ہیں تاکہ امن عمل میں سہولت  پیدا کرنے کے لئے ایسا ماحول پیدا کیا جاسکے۔"

 

امریکہ نے 11 ستمبر کے واقعات، جو کہ یا تو خود ساختہ تھے یا انھیں استعمال کیا گیا تھا، کے بعد افغانستان پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کیا، وہ محض حملہ آور بن کر نہیں آیا، جو قریشی یا کسی اور کی درخواست پر انخلاء کرے گا ۔ امریکہ براہ راست اپنے فوجیوں یا بالواسطہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہاں مستقل  رہنے کے لئے آیا ہے، اس نے افغان مسلمانوں  کی مرضی کے برخلاف یہاں قدم جمائے جہاں اس نے لوگوں کو شہید، زخمی اور بے گھر کیا ، جن کی حتمی تعداد کا علم بھی نہیں۔ جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ (اس) ملک اور خطے سے اپنے مفادات کا تحفظ کیے بغیر چلا جائے گا وہ ضعف عقل اور استعماری ریاستوں، جن کا سرغنہ امریکہ ہے، کے جرائم، حرص اور طمع سے نا واقف ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ قریشی امریکہ کے ساتھ اور زیادہ تعاون کی اس انداز میں امید کر رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے اور وہاں امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کی مضبوط فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو امریکہ سے تعاون کے نام پر پیش کر رہا ہے۔

 

مزید برآں، جو شخص بھی یہ سوچتا ہے کہ امریکی صدر کی تبدیلی کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کے مفاد میں ہوگی، وہ بھی ضعف عقل ہے اور اللہ کے ارشاد پر غور و فکر نہیں کررہا،

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ

"وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں" [سورہ الانفال 8:73]۔

 

کسی باشعور شخص کے لئے یہ سمجھنا درست نہیں کہ نیا امریکی صدر بائیڈن بہرحال بہتر ہے۔ درحقیقت، سابق امریکی صدر باراک اوباما کے نائب صدر کی حیثیت سے بائیڈن نے افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی پر زور دیا اور بارہا طالبان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا،اور انھیں مسلسل "دہشت گرد" قرار دے کران کی  مذمت کرتا رہا۔ لہٰذا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ فروری 2020 میں طالبان تحریک کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر نظرثانی کرے گا۔ اس معاہدے کے مطابق تمام امریکی افواج کو اپریل 2021 تک افغانستان سے چلے جانا ہے۔ تاہم ، حال ہی میں پینٹاگون نے اشارہ دیا ہے کہ اگر تشدد کے واقعات کم نہ ہوئے تو وہ انخلاء مؤخر کر سکتا ہے۔

 

وہ نام نہاد "امن" جس کے بارے میں قریشی اور ٹرمپ انتظامیہ بات کر رہے ہیں، درحقیقت امریکہ کا طالبان مذاکرات کاروں کو اپنے جال میں پھنسانا تھا۔ اس مبینہ "امن" کی حقیقت کابل کے گرین زون میں کٹھ پتلی حکومت کو بااختیار بنانا ہے، جس کے نتیجے میں افغانستان اور باقی خطے میں امریکہ کے مفادات اور اثرورسوخ کا تحفظ ہوگا۔ طالبان کی صفوں میں موجود کچھ لوگوں کی طرف سے اس (معاہدے) کی قبولیت جو کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ اقتدار بانٹنے کے خواہشمند ہیں، دو دہائیوں کے دوران ظالمانہ امریکی جنگی ڈھانچےکے ذریعہ شہید ہونے والوں کے خون سے خیانت اور غداری ہے۔ یہ ایک پاک ملک پر کفر اور امریکہ کی تابعداری پر مبنی امریکی ایجنٹوں کی حکمرانی کو قبول کرنا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے "امن" عمل کی راہ ہموار کرنے کے لئے جو کچھ کیا، وہ پاکیزہ  خون کی قیمت پر اور افغانستان اور پاکستان کے عوام کی قیمت پر محض امریکی سٹریٹیجی اور مفادات کا تحفظ ہے۔

 

شکست خوردہ اور بے آبرو امریکہ کبھی بھی طاقت کے استعمال کے بغیر افغانستان کو نہیں چھوڑے گا، وہ افغانستان طاقت کے ذریعہ آیا اور یہی طریقہ ہی اس کو یہاں سے نکالے گا۔ ایسے کسی سمجھوتے کی اسلام میں اجازت نہیں جس کے تحت امریکی افواج کا تو انخلاء ہو لیکن اس کے بدلے میں پاکستانی حکمرانوں کی حمایت سے ایک ایجنٹ افغان حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو امریکہ کے مفادات کی حفاظت کرے۔ اب یہ پاک فوج کی گردن پر ذمہ داری ہے کہ وہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم کرنے کے لئے اقتدار کی باگ ڈور حزب التحریر کے حوالے کریں اور قریشی سمیت اس امریکہ نواز حکومت کو اکھاڑ پھینکیں۔ یہ خلیفہ راشد ہی ہو گا جو افغانستان اور پاکستان سے امریکہ کی ہر شکل میں موجودگی کو ختم کرنے میں پاک فوج کی قیادت کرے گا۔ اے پاک فوج میں موجود مخلص افسران،  یہ ہے وہ امر جس کی ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.