Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

ریاست کی طرف سے صحت کی اعلیٰ درجے کی سہولیات کی مفت فراہمی  کا اسلامی فرض

 

مصعب عمیر، پاکستان

 

تعارف: بیماری کا علاج تلاش کرنا

                  گزشتہ تین دہائیوں میں اسلام کے عظیم دین میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے ساتھ ساتھ، صحت کی دیکھ بھال سے متعلق اسلام کے رہنما اصولوں میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اسلام کے دیگر موضوعات جیسے تعلیم، مالیات ، اور مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں  مسلمانوں کی دلچسپی میں ہونے والے اضافے کے علاوہ ہے ۔ اللہ کے اذن سے قائم ہونے والی  خلافت کے دَور میں صحت کی دیکھ بھال میں مسلمانوں کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہو گی بلکہ یہ اپنی پرانی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا؛ طب اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں سینکڑوں سال کی بے پناہ اور شاندارکارناموں پر مبنی اسلامی تہذیب کی کامیابیوں کو ایک بار پھر جاننے کا عمل ۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم صحت کے شعبوں میں اسلام کی ہدایت و رہنمائی کا تفصیلی جائزہ لیں ۔

 

سنتِ مبارکہ ﷺیہ حکم دیتی ہے کہ ریاست صحت کی دیکھ بھال کی سرپرستی کرے

                  اسلام صحت کی نجی سہولیات کی اجازت دیتے کے ساتھ ساتھ ریاست کودوا اور جراحت ( سرجری) دونوں کی سرپرستی کا پابند بناتا ہے۔ریاست کی طرف سے صحت کی سہولیات خلافت کے تمام شہریوں ، مسلم اور غیر مسلم، کیلئے مفت مہیا کی جانی چاہیے۔صحت کی یہ سہولیات سب کی پہنچ میں ہوں، فوری اور مستقل میسر ہوں اور اعلیٰ درجے کی ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ کو ایک ڈاکٹر بطور تحفہ دیا گیا جو آپ ﷺ نے اپنے لیے مخصوص نہیں کیا اور اسے تمام مسلمانوں کیلئے میسر کر دیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صحت کی سہولیات کی دستیابی لوگوں کے مفادات میں سے ایک مفاد ہے۔ ہمیں شدید زخمیوں کی سرجری کے حوالے سے بھی اسی طرح کے ثبوت (دلیل) ملتے ہیں۔ عائشہؓ سے ایک  صحیح روایت ہے کہ ، 

أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْعَرِقَةِ رَمَاهُ فِي الأَكْحَلِ فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ يَعُودُهُ مِنْ قَرِيبٍ

"سعدبن معاذؓ خندق کی لڑائی کے دن زخمی ہوگئے تھے ، ایک قریشی شخص ابنِعریقہکا تیر اُن کے بازو کی درمیانی شریان میں لگا ، چنانچہ رسول اللہﷺ نےاُن کی دیکھ بھال کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا"(بخاری و مسلم)۔ 

 

اسلامی ریاست کے  سربراہ کی حیثیت سے رسول اللہﷺکی سعد کے لیے تشویش ،جب وہ بیمار تھے اور اُن کا علاج مسجد کی حدود میں کرانا ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جراحی (سرجری) مسلمانوں کے مفادات میں سے ایک مفاد ہے،اور ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔ جراحی کے متحرک یونٹس  رسول اللہﷺ کی افواج کا لازمی حصہ ہوتے تھے جن کا بنیادی کام ہڈیوں کو جوڑنا ، زخم کو بند کرنے کے لیے جلد کو جلانااور حجامہ ہوتا تھا اور یہ سلسلہ اسلامی فتوحات کے ذریعے پھیلتا گیا۔

 

                  خلفاء راشدین نے سنتِ مبارکہ پر عمل کیا اور صحت کی دیکھ بھال کی سرکاری سرپرستی کو یقینی بنایا۔ حاکم نے مستدرک میں زید بن اسلام سے، انھوں نے اپنے والدسے روایت کیا ہے، جنہوں نے کہا، مرضت في زمان عمر بن الخطاب مرضاً شديداً فدعا لي عمر طبيباً فحماني حتى كنت أمص النواة من شدة الحمية "میں عمر بن خطابؓ کے زمانے میں شدید بیمار ہوا،تو عمرؓ نے میرے لیے ایک معالج کو بلایا۔ اس نے مجھے اس حد تک گرمائش دلائی  کہ میں گرمی کی شدت کی وجہ سے کھجوروں کی گٹھلیوں کو چوسنے لگا"۔ خلافت کے بعد والے ادوار میں ، ہسپتالوں کو خیراتی مذہبی اوقاف کے ذریعے پیسے دیے جاتے تھے ، جسے وقف کہا جاتا ہے ، اگرچہ سرکاری خزانے سے بھی پیسہ کچھ ہسپتالوں کی دیکھ بھال کے لیے  استعمال ہوتا تھا۔ ایک ہسپتال کو بیمارستان کہا جاتا تھا ، جو فارسی لفظ 'بیمار' اور' ستان ،یعنی جگہ سے مل کر بنا ہے۔ اس کے عملے میں ماہرِ ادویات (فارماسسٹ) اور معالجین کا ایک پورا گروپ شامل ہوتا تھا، جن کے فرائض میں مقررہ اوقات میں حاضری کو یقینی بنانا اور مریضوں کو دیکھنے کے لیےچکر لگانا ، مریضوں  اور ان کے مرض کی تاریخ ریکارڈ کرنا ، طبی معائنہ کرنا اور ادویات تجویز کرنا شامل تھا۔

 

                  پہلا منظم ہسپتال قاہرہ میں 872 اور 874 عیسوی کے درمیان بنایا گیا تھا۔ 'احمد بن طولون ہسپتال 'میں تمام مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا اور انہیں مفت ادویات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کا نام صوبے کے والی (گورنر) کے نام پر رکھا گیا تھا جسے خلیفہ نے صوبے کے حکمران کے طور پر مقرر کیا تھا ۔ مرد و خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ  غسل خانے، ایک شاندار لائبریری اور ذہنی امراض کے شعبہ کا حامل یہ ہسپتال اس وقت کے معیار کے لحاظ سے ایک انتہائی جدید ادارہ تھا۔ مریض اپنے  کپڑے اور اپنا قیمتی سامان ہسپتال کے حکام کے پاس محفوظ رکھنے کے لیے جمع کروایاکرتے تاکہ وہ ہسپتال کا خصوصی لباس پہن سکیں اور انہیں الگ الگ بستر فراہم کیے جاتے تھے۔

 

                  نویں صدی کا ٱلْقَيْرَوَان ہسپتال بھی اس وقت کا ایک جدید ترین ادارہ تھا۔ اس کا نام مراکش (مغرب) میں قیروان کی ولایہ کے دارالحکومت کے نام پر رکھا گیا تھا جو کہ خلافت کی انتظامی اکائی تھی۔اس میں اچھے منظم ہال تھے جن میں آنے والوں کے لیے انتظار گاہ ، خواتین مریضوں کے لیے خواتین نرسیں ، مریضوں کے نماز پڑھنے اور مطالعے کے لیے مسجد ، باقاعدہ معالجین اور فقہ البدن کی ٹیمیں شامل تھیں۔ مؤخر الذکر فقہاء کا ایک گروہ تھا جو طبیب بھی  تھے اور جن کی طبی خدمات میں حجامہ ، ہڈیوں کو جوڑنا اور زخموں کو بند کرنے اور انفیکشن سے بچانے کے لیے انہیں گرم لوہے سے داغنا شامل تھا۔

 

                  العضدی ہسپتال 981 عیسوی میں بغداد کے اس وقت کے حکمران عضود الدولہ نے قائم کیا تھا اوراس ہسپتال کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسے مشہور منتظم ابوبکر الرازی چلایا کرتے تھے۔ قاہرہ میں 1284 عیسوی میں المنصوری ہسپتال چار داخلی دروازوں کے ساتھ بنایا گیا تھا ، ہر ایک کے مرکز میں ایک فوارہ تھا۔مملوک سلطان قلاوون نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس میں معالجین کا مناسب عملہ موجود ہو اور بیماروں کی دیکھ بھال کے لیے درکار ضروری لوازمات سے مکمل طور پر لیس ہو۔ اس نے مرداور خواتین نرسوں کو مریضوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا جنہیں الگ الگ وارڈز میں رکھا گیا تھا۔ بستروں پر گدے تھے اور مخصوص وارڈز بنائے گئے تھے۔ ہسپتال کے تمام حصوں میں پانی فراہم کیا گیا تھا۔

 

                  ریاستِ خلافت نے عدلیہ کے ذریعے ہسپتالوں کے چلانے کی کڑی نگرانی کی۔ صحت کی دیکھ بھال میں غفلت کو نجی مقدمہ بازی پر نہیں چھوڑا گیا تھا۔  اُن تنازعات کو حل کرنے کی ذمہ داری عدلیہ کی ہے جو معاشرے کے حقوق کو خطرے میں ڈالتے ہیں ، جہاں جج کو محتسب کہا جاتا ہے، اور اس کے لیے درج ذیل ثبوت ہیں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

  لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ

"وہ جو دھوکہ دیتا ہے ، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں "(احمد اور ابنِ ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا)۔

 

آپﷺ دھوکہ دینے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے اور انہیں سزا دیتے۔   صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے قاضی محتسب کی ذمہ داریوں میں یہ یقین دہانی کرنا شامل ہے کہ ادویات کی مقدار میں صحیح وزن اور پیمانوں کو استعمال کیا جائے ، مناسب حفظانِ صحت پر عمل کرایا جائے ، عمارتوں میں صفائی کو یقینی بنایا جائے ، کمزور عمارتوں کو ٹھیک کرایا جائےاور صاف پانی اور دیگر متعلقہ امور کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

 

نبوی روایت کے مطابقتعلیم اور تربیت

                  اسلامی معالج یا سرجن کی تعلیم کے دو پہلو ہیں۔ مریضوں کا علاج ایک عبادت ہے جس کے لیے اسلامی شرعی احکامات ہیں اور انہیں میڈیکل کالج میں پڑھایا جائے۔ اس کے علاوہ ، طب تکنیکی مہارت کا ایک موضوع ہے جس میں بنیادی طبی علوم کے ساتھ ساتھ طبی ادویات بھی شامل ہیں۔

 

                  اپنے کام سے متعلق قانونی احکامات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا مسلمان معالج پر لازم ہے کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جسے ضرورت کے مطابق اسلام سے حاصل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پرسر پر چوٹ لگنے کے معاملے میں سر پر غسل سے رخصت (رُخْصَةً) کے معاملے کو دیکھیں، ابو داؤد نے روایت کیا کہ جابر ؓ نے فرمایا،

 

رَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلاً مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِي رَأْسِهِ ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ فَقَالَ هَلْ تَجِدُونَ لِي رُخْصَةً فِي التَّيَمُّمِ فَقَالُوا مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أُخْبِرَ بِذَلِكَ فَقَالَ ‏"‏ قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَلاَّ سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ"‏ ‏.‏ أَوْ ‏"‏ يَعْصِبَ ‏"‏ ‏.‏ شَكَّ مُوسَى ‏"‏ عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ

"ہم سفر پر نکلے ۔ ہمارے ایک ساتھی کو پتھر سے چوٹ لگ گئی جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔  پھر انہیں سوتے ہوئے احتلام ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو ایسی کوئی رخصت  کہ میں (نہانے کی جگہ) تیمم کرلوں؟ ساتھیوں نے کہا: ہم ایسی کوئی رخصت نہیں جانتے جبکہ تم پانی استعمال کرنے کی قدرت رکھتے ہو۔تو انہوں نے غسل کیا اور ان کا انتقال ہوگیا۔ جب ہم واپس رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے تو ہم نے انہیں اس واقع سے آگاہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: انہوں نے قتل کردیا ، اللہ اُنہیں ہلاک کرے! جب وہ نہیں جانتے تھے تو کیا وہ پوچھ نہیں سکتے تھے۔ لاعلمی کا علاج پوچھنا ہے۔ اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا اور کچھ قطرے پانی کے ڈال لیتا یا زخم پر پٹی باندھ لیتا(راوی کو شک ہے کہ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی فرمایاکہ ) پھر وہ اس پر مسح کر لیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا "۔

 

اسلامی فقہ میں ، تیمم کے لیے رخصت میں سے ایک صورت زخم کی موجودگی ہے جو بہتے ہوئے پانی سے دوبارہ کھل سکتا ہے ، جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مریضوں کی دیکھ بھال سے متعلق بہت سے اسلامی احکامات ہیں جیسے طبی معائنے کیلئے ستر کو دیکھنے کی اجازت، مرد ڈاکٹر کے ساتھ عورت مریضہ کی اکیلے میں موجودگی کی ممانعت اور ادویات میں شراب (خمر) کے استعمال کی حوصلہ شکنی۔ اس طرح ، خلافت میں طبی تعلیم اور تربیت کے ایک حصے کے طور پر ، معالجین اور سرجن متعلقہ فقہ میں تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔

 

                  یہ مخصوص فقہ علم کے اس پہلو سے متعلق تھا جس کو دین نے حاصل کرنا لازم قرار دیا ہے۔ جہاں تک تکنیکی مہارت کا تعلق ہے ، مسلم معالجین اور سرجنوں نے اسلامی ریاست کے ہسپتالوں کے متحرک ماحول میں تعلیم اور تربیت حاصل کی۔ مریض کا علاج کرنا ، تکلیف کو دور کرنا اور راحت دینا بڑے ثواب کا باعث ہیں۔  اپنے فرائض کی تکمیل کے لیے ، مسلم ڈاکٹروں پر لازم ہے کہ وہ سببیہ (نتائج کے مادی  اسباب سے تعلق) کو ذہن میں رکھیں ، اسباب اور ان کے اثرات کا بغور جائزہ لیں ، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ نے تکنیکی مہارت سےمتعلق تمام معاملات میں کیا۔ اس طرح ، طب کے شعبے میں ، مسلم ڈاکٹروں نے غذائی کنٹرول ، غذائیت کے ذریعے علاج  کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں اور معدنیات کے ذریعے علاج کو استعمال کیا۔ انہوں نے طبی دیکھ بھال کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مریضوں اور ان کے امراض کا جائزہ لیا اور ان کا تجزیہ کیا۔ یہ ایک مکمل سائنسی روایت تھی جو صدیوں پر محیط تھی۔

 

منصوری ہسپتال کی عمارت کے ایک حصے میں چیف معالج کو پڑھانے اور خطاب کیلئے ایک کمرہ دیا گیا تھا۔ ان مریضوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی جن کا علاج کیا جا سکتا تھا اور ہسپتال کی ڈسپنسری مریضوں کو گھر لے جانے کے لیے ادویات فراہم کرتی تھی۔ ٹیچنگ ہسپتال طب کے نئے طلباکی تربیت کی بنیاد تھے جیسا کہ آج کل بھی ہیں۔ آٹھ سو سال پہلے ، یہ تدریسی ہسپتال طلباء کو علمی اور عملی سبق فراہم کرتے تھے۔آج کی طرح  تعلیم کئی طلباء کو ایک ساتھ گروہوں  کی صورت میں اور اکیلے اکیلے بھی دی جاتی تھی۔ ہسپتال کے ایک بڑے ہال میں لیکچرز کا انعقاد کیا جاتا تھا اور کوئی معالج کسی طبی جریدے سے  کسی بھی ایک  موضوع کو پڑھتا تھا ۔ لیکچر کے بعد چیف معالج یا سرجن سوالات کا جواب دیتا تھا۔  بہت سے طالب علموں نے معروف معالجین کے ساتھ طبی تحریروں کا مطالعہ کیا اور چونکہ مسلم دنیا میں کاغذ بہت زیادہ تھا ، اس لیے ذاتی استعمال کے لیے لکھے گئے نسخے بھی محفوظ تھے۔  جبکہ اسی دور میں یورپ میں ایسے نسخے بہت کم ہی ملتے تھے اور شاذونادر ہی کسی طالب علم کے پاس ہوتے تھے۔

 

                  طبی تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی تربیت (کلینیکل ٹریننگ) کو انتظام بھی قائم کیا گیا تھا، طلباء کے گروپس وارڈ کا دورہ کرنے والے معالج یا سرجن کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ مزید اعلیٰ درجے کے طلباء شعبہ بیرونی مریض (OPD)میں موجود ڈاکٹر کا مشاہدہ کرتے تھے جو مریض کی تاریخ مرتب کرتا اور مریض کا معائنہ کرتا تھا اور ساتھ ہی اس کے لیے دوائی تجویز کرتا تھا۔ ان طبی سکولوں میں سے ایک دمشق کا نوری ہسپتال تھا۔ معالج ابو الماجد الباھیلی کی ہدایت پر بارہویں صدی کے حکمران نورالدین بن زنگی (1174-1118) نے ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی۔ اس میڈیکل سکول کا نام ان کے نام پر رکھا گیا اور انہوں نے یہاں خوراک اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا اور بڑی تعداد میں طبی کتابیں بھی عطیہ کیں جو ایک خاص ہال میں رکھی گئی تھیں۔

 

                  گریجویشن اور اسپیشلائزیشن کا بھی ایک نظام موجود تھا۔ مثال کے طور پر ، آنکھوں کے ماہرین کو حنین ابن اسحاق کی لکھی ہوئی کتاب "آنکھ کے دس مقالہ جات"(كتاب الأطروحات العشر للعين) کی بنیاد پر جانچا جاتا تھا ، جس میں آنکھوں کی فنکشنل اناٹومی (علم الاعضاء) اور فزیالوجی کے ساتھ ساتھ علاج کے طریقوں کی وضاحت موجود تھی۔ اسلامی دنیا کے ایک معالج کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد لائسنس (اجازۃ) دیا جاتا تھا۔ ایک مثال کے طور پر، ابنِ نفیس (متوفی687/1288)کا ایک دستخط شدہ بیان ہے، کہ اس کے طالب علم ، ایک عیسائی جس کا نام شمس الدولہ ابو الفضل ابن ابی الحسن المسیحی تھا ، اُس نے ابنِ نفیس کے ایک مقالے کو پڑھا اور اس میں مہارت حاصل کی ۔  یہ سند خود ابنِ نفیس کے ہاتھ کی لکھائی میں ہے اور اس کی تاریخ 29 جمادی اول 668 ھ (25 جنوری 1270)  ہے۔ ابن نفیس نے کتب "تشریح القانون "کی شرح تصنیف کی اور ولیم ہاروے سے بہت عرصہ قبل ہی دل اور پھیپڑے کے درمیان خون کی گردش کو دریافت کیا ۔

 

ہر بیماری کی ایک شفا بخش دوا ہے ، سوائے بڑھاپے کے

                  ابو داؤد نے اپنی صحیح میں روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، 

تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلاَّ وَضَعَ لَهُ دَوَاءً غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ ‏

"علاج کرو اس لیے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی ہے کہ جس کی دوا  پیدا نہ کی ہو، سوائے ایک بیماری کے، اور وہ بڑھاپا ہے

 

امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

إِنَّ الله لم ينزل داء إلّا أنزل شِفَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ

"اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اُتاری سوائے اس کے کہ اس نے اس کا علاج بھی نازل کیا ، جو اسے جانتا ہے، اسے جانتا ہے اور جو اس سے لاعلم ہے، وہ اس سے لاعلم ہے۔"(نسائی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان)

 

                  اگر بیماری کا درست علاج دستیاب ہو جائےتو اللہ کے حکم سے شفاء مل جاتی ہے  ۔ کچھ لوگ اسے جان جائیں گے اور کچھ لوگ نہیں جان سکیں گے۔  ادویات کا علم ماہرین کے پاس ہو گا، وہ مسلمانوں بھی ہوں گے اور غیر مسلم بھی ہوں گے۔ یہ علم ہر قسم کی ادویات تک پھیلا ہوا ہے ، چاہے اس کا تعلق غذائی اجز سے ہوا ، جڑی بوٹیوں ، معدنیات یا اخذ شدہ نمکیات اور مرکبات سے ہو۔ یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ ہر بیماری کے لیے ایک دوا ہے۔ اس طرح یہ احادیث ادویات کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جو اللہ کے حکم سے بیماری کے علاج کا باعث بنیں گی۔ بیماری اسی(سبحانہ و تعالیٰ)کی طرف سے ہے ، ادویات بھی اس (سبحانہ و تعالیٰ)کی طرف سے ہیں، اور شفاء بھی اسی (سبحانہ و تعالیٰ)کی طرف سے ہے۔شفاء دوا کی وجہ سے نہیں ملتی یا اس میں موجود ہوتی ہے ،کیونکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ القدیر ہے ، جس نے دوا کے اندر بیماری کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت (قدر) رکھی ہے۔

 

                  اس قسم کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئےماہرِ ادویات، ا بنِ قيّم نے فرمایا،

 

فَقَدْ تَضَمَّنَتْ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ إثْبَاتَ الْأَسْبَابِ وَالْمُسَبَّبَاتِ

"یہ احادیث اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے اسباب ہوتے ہیں اور ان اسباب کے خاتمے کی بھی وجوہات ہوتی ہیں"۔

 

اس کے بعد انہوں نے مزید فرمایا،

وَلِهَذَا عَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم الشّفاء على مصادفة الدواء للداء

"چنانچہ رسول اللہ ﷺنے علاج (شفاء) کو بیماری کے لیے صحیح دوا سے جوڑ دیا"۔

 

پس ایک بیماری کی حالت ہے اور ایک صحت کی حالت ہے۔ اگر بیماری دائمی ہو جائے، جو برسوں اور دہائیوں سے چلی آرہی ہو، تواس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ علاج میں کچھ کمی ہے ، چاہے اس کا تعلق نقصان سے بچاؤیا غذائیت سے ہو ، خوراک کے کنٹرول سے ہو یا ادویات سے ۔اس حوالےسے  استثناء صرف بڑھاپے کے عمل یا بڑھاپے کے مرحلے کو ہے، جو کہ انسانی جسم کے اعضاء اور افعال کی خرابی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بڑھاپے کا عمل ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اپنی جانب لوٹنے کے لیے تیار کرتا ہے، ہمارے گناہوں کو دور کرتا ہے اور ہمیں آخرت کے لیے پاک کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اپنے بڑھاپے اور اپنے بزرگوں کےبڑھاپے میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

                  ایک مسلمان ڈاکٹر اپنے مریض کودستیاب مناسب ادویات میں سے دوا دیتا ہے ۔ اسلامی دور میں مسلمانوں نے یونانی  ادویات کو اپنانے اور ان میں بہتری لانے سمیت اس وقت دستیاب طریقہ ہائے علاج کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ آج کے مسلمان ڈاکٹروں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ادویات مہارت کا ایک شعبہ ہے اور اسے ادویات کے ماہرین کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ یہی  نقطہ نظر ہمیں سنتِ مبارکہ ﷺ میں مہارت کے دیگر معاملات میں نظر آتا ہے ، مثال کے طور پر،فوجی مہارت کے میدان میں۔ ہر وہ عمل  جس میں اس کے موضوع کو سمجھنے اور اس میں غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے،اس میں نبیﷺنے عام عوامی رائے کے مقابلے میں ماہرین کی رائے کو فوقیت دی، چاہے اکثریت عوامی رائے اس کےخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بارے میں شواہد رسول اللہﷺ کی مشاورت سے ظاہر ہیں۔ جب آپ ﷺ نے بدر کے قریبی پانی (کنوئیں) کے پیچھے مسلم فوج کا پڑاؤ  ڈالا، توحباب بن منذر ؓ کو یہ جگہ فوج کو ٹھہرائے جانے کے حوالے سے مناسب نہ لگی۔ آپؓ  جنگی معاملات کے حوالے سے  مہارت رکھتے تھے، آپؓ نے رسول اللہﷺ سے فرمایا،

يَا رَسُولَ اللهِ ؛ مَنْزِلٌ أَنْزَلَكَهُ اللهُ لَيْسَ لَنَا أَنْ نَتَعَدَّاهُ ، وَلَا نُقَصِّرُ عَنْهُ ، أَمْ هُوَ الرَّأْيُ وَالْحَرْبُ وَالْمَكِيدَة

"کیا یہ وہ جگہ ہے جس پر اللہ نے آپ ﷺکو یہاں ٹھہرنے  کا حکم دیا ہے کہ ہم اب نہ اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں ، نہ اس سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں ، یا یہ(ٹھہرنا) رائے ، جنگ اور حکمت عملی کا معاملہ ہے؟"

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

بَلْ هُوَ الرَّأْيُ وَالْحَرْبُ وَالْمَكِيدَةُ

"یہ رائے، جنگ اور حکمت عملی کا معاملہ ہے"۔

 

یہ سن کر حبابؓ نے ایک اور جگہ کی جانب اشارہ کیا کہ وہاں پر فوج کو ٹھہرایا جائے۔ اللہ کے رسولﷺاور ان کے ساتھیوں نے اس جانب پیش قدمی کی اور وہاں پر پڑاؤ ڈالا ، اور اب صورتحال یہ بن گئی کہ پانی کے کنوئیں فوج کے پیچھے تھے، اور دشمن اُن تک جنگ کے دوران نہیں پہنچ سکتا تھا۔  اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہﷺ نے اپنی رائے پر ایک ماہر کی رائے کو فوقیت دی اور اپنی رائے چھوڑ دی۔ آپﷺ نے اس معاملے کو مسلمانوں کے سامنے بھی پیش نہیں کیا کہ یہ جان لیا جائے کہ اکثریت کیا رائے رکھتی ہے۔  لیکن اگر یہ معاملہ وحی کا ہوتا یعنی پہلی جگہ پر ٹھہرنے کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کبھی اس جگہ سے پیچھے نہ ہٹتے۔

 

سنتِ مبارکہ کی صورت میں بیان کردہ وحی قوانین اخذ کرنے کیلئے ہے ۔ جیسے یہ فرض ہے کہ فوج کو تیار کیا جائے، ویسے ہی یہ بھی فرض ہے کہ صحت کی سہولیات مہیا کی جائیں، لیکن مخصوص اسالیب اور ذرائع کا چناؤ اس شعبے کے ماہرین کا کام ہے، چاہے فوج کا معاملہ ہو یا علاج کا۔لہٰذا کسی مخصوص دوا سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی رائے مسلمانوں کیلئے لازم نہیں، جیسے آپ ﷺ کی بدر کے مقام پر فوجی پڑاؤ کی ذاتی رائے لازم نہیں تھی۔مسلمان ان مباح معاملات میں غیر مسلموں سے اخذ کر سکتے ہیں  جو شرعی احکامات کے خلاف نہ ہوں اور غیر مسلموں کے کفریہ عقیدے سے منسلک نہ ہوں۔چنانچہ علاج صرف قرآن و سنت میں موجود معالجات تک ہی محدود نہیں،اسی طرح یہ آج ادویات بنانے والی کمپنیوں کے تجویز کردہ معالجات تک بھی  محدود نہیں۔

 

علاج کرانے پر اجر ہے لیکن علاج کرانا فرض نہیں

                  اگرچہ ریاست پر یہ فرض ہے کہ صحت کی مفت سہولیات فراہم کی جائیں، لیکن بیماری کی صورت میں علاج کروانا مندوب ہے، فرض نہیں۔ علاج کروانے کا حکم  ایک اشارہ ہے، اس حکم سے مراد فرضیت نہیں۔  امام احمد نے روایت کی کہ انسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا،

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيْثُ خَلَقَ الدَّاءَ خَلَقَ الدَّوَاءَ فَتَدَاوَوْا

"اللہ عزوجل نے جس طرح بیماری کو پیدا کیا اسی طرح علاج کو بھی پیدا کیا ہے،پس علاج کراؤ"۔ 

 

ابو داؤد اور ابن ماجہ نے اسامہ بن شارق  سے روایت کی کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے جب کچھ لوگ  صحرا سے آئے اور آپﷺ سے پوچھا،

"کیا ہمیں بیماری(سے شفاء حاصل کرنے) کے لیے دوالینی چاہیے؟"

 

آپﷺ نے فرمایا،

نَعَمْ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً

"ہاں، اے اللہ کے بندو ،دوا علاج کرو، اللہ نے کوئی بیماری نہیں بھیجی سوائے اس کے کہ اُس نے اِس بیماری کی شفاء بھی رکھی ہے"۔

 

پہلی حدیث میں رسول اللہﷺ نے لوگوں کو دوا کرنے کا حکم دیا۔ دوسری حدیث میں  آپﷺ نے صحرا کے لوگوں کی رہنمائی فرمائی کہ علاج کروائیں کیونکہ اللہ نے ہی بیماری اور شفاء دونوں پیدا کی ہیں۔ دو نوں احادیث میں خطاب  ایک امر(حکم) کی صورت میں آیا۔ امرایک طلب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح کی طلب کا مطلب ایک ذمہ داری یا فرض نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ جب یہ طلب ایک حتمی طلب (طلبِ جازم)ہو ۔ امر کو حتمی(لازم/فرض) ہونے کے لیے ایک اور اشارے (قرینہ)کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اوردو نوں احادیث میں ایسا کوئی اشارہ (قرینہ) نہیں ہے جو ہمیں بتائے کہ یہ حکم فرض ہے۔ اس کے علاوہ ایسی احادیث بھی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ علاج نہ کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں احادیث میں علاج کرانے کا حکم کسی حتمی ذمہ داری یا فرض کی نشاندہی نہیں کرتا۔ امام مسلم نے عمران بن حصین ؓسے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، قَالُوا: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هُمْ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

"میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا ، "وہ کون ہیں؟" آپﷺ نے فرمایا؛ "یہ وہ لوگ ہیں جو دَم نہیں کرواتے ، شگون نہیں لیتے ، داغنے کے ذریعے سے علاج نہیں کراتے ، اور وہ اپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں"۔

 


امام بخاری نے ابنِ عباسؓ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا، 'ایک  سیاہ فام عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہا، 'میں مرگی کی مریضہ ہوں، اور جب مجھے اس کا دورہ پڑتا ہے، تو میرے جسم  سے کپڑا ہٹ جا تا ہے، اللہ سے دعا کریں کہ مجھے شفا یاب کردے"۔

آپﷺ نے فرمایا،

إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ

اگر تمومایا، ب کردیبی کی دعا کریںیئے گاست ایک یاست کی زمین پر بنے ہوئے ہیtion of her military might, and time has come to brake t صبر کرتی ہو تو تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اللہ تم کو تندرست کر دے گا 

وہ بولی:"میں صبر کرتی ہوں"، پھر بولی: "میرا بدن کھل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے میرا بدن نہ کھلے"۔ آپ نے دعا کی'۔

                  یہ دونوں احادیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ علاج نہ کرنے کی اجازت ہے۔ پہلی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو استرقہ (دم)یا ایکتوا (داغ کر علاج) نہیں کراتے، استرقہ اور ایکتوا علاج کی مختلف شکلیں ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ علاج نہیں کراتے ہیں بلکہ وہ لوگ اس معاملے کو اپنے رب پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس پر مکمل طور پر بھروسہ کرتے ہیں۔  دوسری حدیث میں ، رسول اللہﷺ نے سیاہ فام عورت کو یہ انتخاب دیا کہ وہ مرگی کے ساتھ صبرکرے ، اور کہا کہ اسے جنت ملے گی یا اس کی بجائے میں اللہ سے دعا کردیتاہوں کہ وہ اس بیماری سے ٹھیک ہو جائے۔ یہ چوائس علاج چھوڑنے کی اجازت کی نشاندہی کرتی ہے۔

 

                  اس طرح یہ دونوں احادیث بتاتی ہیں کہ علاج کروانا کوئی حتمی ذمہ داری یا فرض نہیں ہے۔ تاہم ، رسول اللہﷺ کا علاج کروانے کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم مستحب  (مندوب)کا مقام رکھتا ہے یعنی علاج کرانے پر اجر ہے اور نہ کرانے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

 

غذائیت  اور غذائی پرہیز

                  نبیﷺ کے دور میں علاج کی بیشتر شکلوں میں  غذائی پرہیز اور غذائیت بھی شامل تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بیماروں کے علاج کے لیے دونوں کو استعمال کریں۔ایک بار پھر، یہ امر ملحوظ رہے کہ علاج فقط قرآن و سنت میں درج معالجات تک ہی محدود نہیں۔ دین میں فرضیت اس کی ہے کہ صحت کی سہولیات مہیا کی جائیں لیکن ان سے متعلق اسالیب اور ذرائع دنیا کے(جائز) معاملات میں سے ہیں ۔

 

                  جہاں تک غذائی کنٹرول کی بات ہے ، ابن قیّم نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

إنَّ اللَّهَ إذا أحبَّ عبدًا حماه من الدُّنيا كما يحمي أحدُكُم مريضَهُ عن الطَّعامِ والشَّرابِ

"جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ (سبحانہ و تعالیٰ )دنیا کی زندگی سے پرہیز کا مشاہدہ کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے تم میں سے کوئی مریض پر کھانے پینے سے متعلق غذائی پرہیز مسلط کرے"۔

 

                  غذائی پرہیز کی ایک مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ کی جانب سے آشوب چشم  (آنکھوں کی ایک خاص بیماری) کی صورت میں کھجور کو چھوڑ کرخوراک کے ذریعے قابو پانے کا مشورہ دینا ہے۔ صہیب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا،

 

قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ وَتَمْرٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ادْنُ فَكُلْ ‏ فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ ‏ قَالَ فَقُلْتُ إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم

"میں نبی ﷺکے پاس آیا اور آپ ﷺکے سامنے کچھ روٹی اور کھجوریں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:' آؤ اور کھاؤ'۔ چنانچہ میں نے کچھ کھجوریں کھانی شروع کر دیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہاری آنکھ میں سوزش ہے؟ ‘‘ میں نے کہا: ' میں دوسری طرف سے چبا رہا ہوں'۔(یہ سن کر ) آپﷺ مسکرائے"۔ (ابن ماجہ)

 

                  رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے لیے غذائی پرہیز کا مشورہ دیا جو بیماری کے بعد ٹھیک ہو رہا ہو۔ام منظر بنت قیس الانصاریہ نے روایت کیا،

 

دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَعَلِيٌّ نَاقِهٌ وَلَنَا دَوَالِي مُعَلَّقَةٌ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَامَ عَلِيٌّ لِيَأْكُلَ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لِعَلِيٍّ ‏ مَهْ إِنَّكَ نَاقِهٌ ‏‏حَتَّى كَفَّ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ‏‏ قَالَتْ وَصَنَعْتُ شَعِيرًا وَسِلْقًا فَجِئْتُ بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏‏ يَا عَلِيُّ أَصِبْ مِنْ هَذَا فَهُوَ أَنْفَعُ لَكَ‏

"رسول اللہﷺمجھ سے ملنے آئے ، ان کے ساتھ علیؓ بھی تھے جو بیماری سے صحت یاب ہو رہے تھے۔ ہمارے پاس کچھ پکی ہوئی کھجوریں لٹکی ہوئی تھیں۔ رسول اللہﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں کھانا شروع کیا۔ علی ؓ بھی کھانے کے لیے اٹھے لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے علیؓ سے بار بار کہا کہ رک جاؤ علی ، کیونکہ تم (بیماری سے)ٹھیک ہو رہے ہو اور علیؓ رک گئے۔ انہوں (ام منظر)نے کہا ، پھر میں نے کچھ جَو اور سبزی تیار کی اور ان کے سامنے پیش کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر فرمایا ، علی اس میں سے کچھ لے لو کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا"۔ (ابو داؤد)۔

 

                  رسول اللہﷺ نے بیماروں کو کھانے کے لیے بھڑکنے والی خواہش (cravings) کے حوالے سے رہنمائی فرمائی ہے ۔ ابن ماجہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی سے ملاقات کی اور فرمایا: مَا تَشْتَهِي "تمہیں (کھانے کی ) کس چیز کی خواہش ہوتی ہے؟" اس نے جواب دیا:"مجھے گندم کی روٹی کی خواہش ہوتی ہے" رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

مَنْ كَانَ عِنْدَهُ خُبْزُ بُرٍّ فَلْيَبْعَثْ إِلَى أَخِيهِ

"جس کسی کے پاس بھی گندم کی روٹی ہے اسے وہ اپنے بھائی کو بھیج دے"۔

 

اس کے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِذَا اشْتَهَى مَرِيضُ أَحَدِكُمْ شَيْئًا فَلْيُطْعِمْهُ

"اگر تم سے کسی بیمار شخص کو کسی چیز کی خواہش پیدا ہوتی ہے، تو اسے وہ کھلاؤ"۔

 

یہاں یہ بات قابل غور ہے اب لوگوں نے  بات پر تحقیق کی ہے کہ بچپن میں 'پیکا' (کھانے کی بے ترتیبی جس میں کوئی شخص ایسی چیزیں کھاتا ہے جنہیں عام طور پر کھانا نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ بعض بچے مٹی کھانے کے عادی ہو جاتے  ہیں)اور حمل کے دِنوں  کے دوران  بعض کھانوں کی خواہش اور جسم میں مخصوص غذائیت کی کمی کے درمیان ایک ربط موجود ہے۔

 

                  چنانچہ خلافت کے دور میں مسلمانوں نے غذائی پرہیز اور غذائیت سے علاج کے طریقے دریافت کیے۔ پہلی نسل کے ایک معالج حارث بن خالدہ نے بیان کیا،الْحِمْيَةُ رَأْسُ الدَّوَاءِ، وَالْمَعِدَةُ بَيْتُ الدَّاءِ، وَعَوِّدُوا كُلَّ جِسْمٍ مَا اعْتَادَ "غذائی پرہیز علاج کا سردارہے ، جبکہ آنت بیماری کا گھر ہے ، لہٰذاہر شخص کو وہ (کھانے اور ادویات )دو جس کا وہ  عادی ہے"۔ ابن قیّم نے مزید بیان کیا کہ، وَقَدِ اتَّفَقَ الْأَطِبَّاءُ عَلَى أَنَّهُ مَتَى أَمْكَنَ التَّدَاوِي بِالْغِذَاءِ لَا يُعْدَلُ عَنْهُ إِلَى الدَّوَاءِ" معالجوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب غذا سے علاج کا امکان ہو تو ادویات  سے پرہیز کرنا چاہیے"۔  ابن قیّم کی کتاب میں ایک باب ہے جس کا نامفَصْلٌ فِي هَدْيِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحِمْيَةِ "خوراک میں پرہیز کے بارے میں رسول اللہﷺکی رہنمائی کا باب"ہے، جس میں کئی احادیث اس حوالے سے بیان کی گئی ہیں۔

 

                  اسلامی تہذیب میں غذائی پرہیز اور ادویات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر کام ہوا ہے، جو صدیوں پر محیط ہے۔ بہت سی معروف بیماریوں کے لیے وسیع رہنما خطوط موجود ہیں ، بشمول پھیپھڑوں کی جھلی کی سوزش(pleurisy) ، گلے کی سوزش (tonsillitis) ، ہیپاٹائٹس ، انجائنا اور ذیابیطس۔ مزید یہ کہ غذائیت سے علاج ڈاکٹروں کی ذمہ داری کا حصہ تھا ، جیسا کہ غذائی پرہیز ۔ یہ ایک اچھا طریقہ کار ہے۔ ڈاکٹرحضرات ایٹیالوجی(aetiology) ،اناٹمی (anatomy)، فزیالوجی(physiology) ، پیتھالوجی(pathology) اور فارماکالوجی (pharmacology) کے ماہر ہوتے ہیں۔  سب سے بڑھ کر یہ کہ معالج ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہسپتال میں کام کرتے ہوئے شدید بیماریاں دیکھی ہیں۔ اس طرح وہ اس بات  کا فیصلہ کرنےکی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں کہ کب غذائیت اور غذائی پرہیز علاج کیلئے کافی ہے اور کب باقاعدہ ادویات لازمی ہیں۔ وہ اس حوالے سے بھی فیصلہ کرنے میں زیادہ بہتر ہوں گے کہ کب زندگی بچانے والی ہنگامی ادویات کو مناسب طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔

 

                  اسلامی حکمرانی کے دور میں ، غذا کو ادویات کے طور پر استعمال کرانے کی ذمہ داری مکمل طور پر غذائیت کے ماہرین کو نہیں سونپی جاتی تھیں کیونکہ وہ ہسپتال کی ادویات میں ماہر نہیں تھے۔ خلافت کے زمانے میں صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں، غذائیت کے ماہر کا کردار معالج کے بعد اضافی اور ثانوی تھا۔ اس کام کو معالج کے علاوہ کسی اور پر چھوڑ دینے کو خطرناک سمجھا جاتا تھا  جیسے کسی فارماسسٹ (ادویات کا کیمیائی ماہر) سے کسی مریض کو دوا تجویز کرنے کے لیے کہا جائے۔ اردو میں اس کے لیے ایک محاورہ ہے؛"نیم حکیم خطرہ جان" جس کا مطلب ہے کہ نامکمل معالج جان لیوا ہو سکتا ہے۔تجربے پر مبنی حکمت قابل توجہ ہے اور اسے صرف حکمت پر ترجیح دی جانی چاہیے۔

 

                  بیماری کے علاج کے لیے غذائیت اور غذائی پرہیز کا تصور کافی عالمگیر ہے۔ کئی لوگ اس اقتباس کو غلطی سےیونانی طب  کے ماہر  ہیوکریٹس سے منسوب کرتے ہیں کہ "اپنی خوراک کو اپنی دوا اور اپنی دوا کو اپنی خوراک بنا لو"۔ تھامس ایڈیسن کا ایک اقتباس بھی ہے ، جو ایک عقلمندسکالر تھا ، جس نے کہا ، "مستقبل کا ڈاکٹر کوئی دوا نہیں دے گا ، بلکہ اپنے مریض کو خوراک کے ذریعے انسانی ڈھانچے کی دیکھ بھال اور بیماری کی وجہ اور روک تھام میں دلچسپی پیدا کرے گا"۔یہ موجودہ طبی تفہیم (سمجھ بوجھ) کے مطابق ہے کہ ادویات کا سہارا لینے سے پہلے قدامت پسندانہ اقدامات کو استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ ہسپتال کے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کا مشاہدہ ہے کہ دوسرے درجے (Type-II) کی ذیابیطس کو غذائی پرہیز سےکنٹرول کیا جاسکتا ہے جبکہ گردے کی بیماری کے مریض بعض قسم کے کھانے سے پرہیز کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں ، جسے گردے کی خوراک کہا جاتا ہے۔ عالمی میڈیکل کمیونٹی کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کس طرح انتہائی صاف کی گئی خوراک (ultra refined foods) موٹاپے ، ذیابیطس اور امراضِ قلب میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پھلوں ، سبزیوں ، تیل، چربی ، دالوں اور گری دار میوے سے بھرپور غذائیت کے فوائد کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے ، خاص طور پر "بحیرہ روم کی غذا"( the Mediterranean Diet) کی تعریف کے گئی ہے۔ بحیرہ روم کی غذا صدیوں سے شام کے مسلمانوں اور مغرب کے دسترخوان کی ثقافت کا حصہ رہی ہے۔

 

بیماری کے لیے ادویات کا استعمال

ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے نبی ﷺ ادویات کیلئے مشورہ دیتے تھے۔ وہ مخصوص ادویات جن کا آپ ﷺ نے ذکر کیا، وہ دینی امور کا حصہ نہیں بلکہ وہ دنیا کے جائز معاملات کے دائرے میں آتی ہیں۔لہٰذا مسلمان سیرت میں درج علاج تک محدود نہیں نہ ہی علاج بس انہی بیان کردہ چیزوں میں مقید ہے۔

 

مثال کے طور پر ، روایت ہے کہ أسماء بنت عميس نے کہا: "رسول اللہ ﷺنے مجھ سے کہا: بِمَاذَا كُنْتِ تَسْتَمْشِينَ "آپ جلاب کے طور پر کیا استعمال کرتی ہیں؟" میں نے کہا: 'شوبرم (اسپرج - یوفوربیا)۔' آپﷺ نے فرمایا:حَارٌّ جَارٌّ "(یہ) گرم اور طاقتور ہے"۔

پھر میں نے سینا کو جلاب کے طور پر استعمال کیا اور آپﷺ نے فرمایا:

لَوْ كَانَ شَىْءٌ يَشْفِي مِنَ الْمَوْتِ كَانَ السَّنَى

"اگر کوئی چیز موت کا علاج کرتی تو وہ سینا ہوتی"(ابن ماجہ)۔

 

سینا گلائکوسائڈ (Senna glycoside)، جسے سیننوسائیڈ (Sennoside) یا سینا بھی کہا جاتا ہے، ایک دوا ہے جو آج کل قبض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے اور سرجری سے پہلے بڑی آنت کو خالی کر دیتی ہے ،اس کو وسیع پیمانے پر انسانوں پر استعمال کرنے کے شواہد موجود ہیں۔

 

                  امراض قلب کے حوالے سے سعد نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،

 

إِنَّكَ رَجُلٌ مَفْئُودٌ ائْتِ الْحَارِثَ بْنَ كَلَدَةَ أَخَا ثَقِيفٍ فَإِنَّهُ رَجْلٌ يَتَطَبَّبُ فَلْيَأْخُذْ سَبْعَ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلْيَجَأْهُنَّ بِنَوَاهُنَّ ثُمَّ لِيَلُدَّكَ بِهِنَّ

"آپ دل کی بیماری میں مبتلا آدمی ہیں۔ ثقیف میں بھائی حارث بن كلادة کے پاس جائیں۔ وہ ایک آدمی ہے جو طبی علاج کرتا ہے۔ وہ مدینہ کی سات عجوہ کھجوریں لیتا ہے اور ان کو ان کی گٹھلیوں کے ساتھ پیستا ہے اور پھر انہیں مریض کے منہ میں ڈالتا ہے"(ابو داؤد)۔

 

عجوہ درخت کی کھجوریں اسلامی دور میں دل کے امراض میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی تھیں۔

 

                  کان، ناک، اور گلےکی بیماریوں کے بارے میں ، محسن کی بیٹی ام قیس نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

عَلاَمَ تَدْغَرْنَ أَوْلاَدَكُنَّ بِهَذَا الْعِلاَقِ عَلَيْكُنَّ بِهَذَا الْعُودِ الْهِنْدِيِّ فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ

"تم اپنے بچوں کے حلق کس لیے دباتی ہو؟ تم اس عود ہندی کو لازماً استعمال کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے

 

ابو داؤد کہتے ہیں:  عود ہندی سے ان کی مراد  کاسٹس (کی جڑی بوٹی) تھا۔بخاری اور مسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

لَا تُعَذِّبُوا صِبْيَانَكُمْ بِالْغَمْزِ مِنَ الْعُذْرَةِ عَلَيْكُمْ بِالْقُسْطِ

"اپنے بچوں کو 'عذرة'(حلق کی بیماری) میں ان کا تالو دبا کر تکلیف مت دو بلکہ کاسٹس لگا دو

 

صدیوں تک مسلمانگلے کی سوزش میں کاسٹس (costus) استعمال کرتے تھے اور مشرقی جڑی بوٹیوں کے ماہرین آج بھی ایسا کرتے ہیں۔

 

                  خلافت کے دور میں جڑی بوٹیوں اور معدنیات کا وسیع پیمانے پر بطور دوااستعمال ہوا۔ اس کے علاوہ ، اسلامی دور کے ہسپتالوں میں انسانی  طبی تجربوں اور آڈٹس(audits) کے ساتھ ساتھ دوا کی خوراکوں اور اس کی کوالٹی کنٹرول کی زبردست نگرانی کا نظام بھی موجود تھا۔ قاضی محتسب حفاظتی معیارات کی نگرانی کرتا تھا اور طبی غفلت قابلِ سزا جرم تھی جس پردیت اور نقصان پہنچانےکے متعلق اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دی جاتی تھیں۔ مرکب علاج آزمانے کی جگہ مفرد علاج کو ترجیح دی جاتی تھی، اور طبی مہارت کی علامت یہ تھی کہ طبیب کتنا سادہ اور واحد طریقہ علاج استعمال کر تا ہے ، اور وہ بھی احتیاطی تدابیر اور غذائی پرہیز کو استعمال کرنے کے بعد۔

 

                  ریاستی سرپرستی اور  انفرادی خیراتی اوقاف کے ساتھ ، مسلمانوں کی طبی روایت پھلتی پھولتی رہی اور کئی صدیوں تک دنیا میں غالب رہی۔ اپنے دور کا سب سے بڑا اور مقبول ترین طبی جریدہ ابنِ بيطار نے لکھا تھا ، جو بارہویں صدی کے آخر میں اسلامی غرناطہ کے علاقے ملاگا میں پیدا ہوئے تھے۔ اس جریدے میں حروف تہجی کی مناسبت سے 1400 سے زائد مفرد طریقہ علاج بتائے گئے تھے جو ابنِ بيطار کے اپنے مشاہدات پر مبنی تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ 150 معالجات تحریری ذرائع سے باحوالہ لیے گئے تھے۔

 

                  ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک زندہ و متحرک رہنے والی اسلامی تہذیب میں جسم کی بیماریوں کا علاج شامل تھا، اور یہ اس کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک تھا۔  مختلف طبی تحریریں موجود ہیں ، جن میں   "زاد المعاد فی ھدی خیر العباد" (بہترین بندوں کی رہنمائی میں آخرت کی چیزیں) کا ایک حصہ شامل ہے۔  کتاب کے مصنف ابن قیّم  ہیں جو 1292 ء میں فوت ہوئے، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ کتاب کا آغاز مختلف بیماریوں کے علاج معالجے کے حوالے سے آپﷺکے مشوروں سے ہوتا ہے۔

                  اُس وقت کےدستیاب علم کی بنیاد پر ابن قیم نے دعوی کیا،

قَوَاعِدَ طِبِّ الْأَبْدَانِ ثَلَاثَةٌ حِفْظُ الصِّحَّةِ، وَالْحِمْيَةُ عَنِ الْمُؤْذِي، وَاسْتِفْرَاغُ الْمَوَادِّ الْفَاسِدَة

"جسم کی دوا کے تین اصول ہیں ، صحت کو برقرار رکھنا ، نقصان دہ مادوں سے حفاظت اور زہریلے مواد کو نکالنا"۔

اسلامی تہذیب میں دوا تجویز کرنے کی بنیاد بیماری کی وجہ (aetiology) ، بیماری کے خلاف جسمانی رد عمل کا مطالعہ (فنکشنل اناٹومی اور فزیالوجی کے پہلو)، بیماری کا مطالعہ (پیتھالوجی) اور ادویات  کے مطالعہ(فارماکولوجی) کو بنایا گیا تھا ۔ ابنِ قیم نے دعویٰ کیا تھا کہ،

  وَأَمْرَاضُ الْمَادَّةِ أَسْبَابُهَا مَعَهَا تَمُدُّهَا، وَإِذَا كَانَ سَبَبُ الْمَرَضِ مَعَهُ، فَالنَّظَرُ فِي السَّبَبِ يَنْبَغِي أَنْ يَقَعَ أَوَّلًا، ثُمَّ فِي الْمَرَضِ ثَانِيًا، ثُمَّ فِي الدَّوَاءِ ثَالِثًا.

"جسمانی عناصر سے پیدا ہونے والی بیماریاں اسباب کے ساتھ ہوتی ہیں۔ جسمانی بیماریوں کے معاملات میں ، سبب پر غور کرنا ترجیح ہے ، اس کے بعد بیماری پر غور کرنا دوسرے نمبر پر ، جبکہ دواء پر غور کرنا آخر میں آتا ہے"۔

 

                  ابن قیّم نے اس نقطہ نظر کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ لازمی طور پر کچھ چیزوں کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ قدم بہ قدم آگے بڑھا جائے۔ انہوں نے کہا،وَقَدِ اتَّفَقَ الْأَطِبَّاءُ عَلَى أَنَّهُ مَتَى أَمْكَنَ التَّدَاوِي بِالْغِذَاءِ لَا يُعْدَلُ عَنْهُ إِلَى الدَّوَاءِ، وَمَتَى أَمْكَنَ بِالْبَسِيطِ لَا يُعْدَلُ عَنْهُ إِلَى الْمُرَكَّبِ "معالجوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب بھی کسی بیماری کا غذا کے ذریعے علاج کیا جا سکتا ہو ، تو ادویات سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ جب بھی کسی ایک مفرد علاج کے ذریعے بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے تو مرکبات کواستعمال کرنےسے لازمی بچنا چاہیے"۔  اس تصور کے پیچھےیہ فکر ہے کہ حد سے زیادہ یا نامناسب مداخلت یا ادویات کے منفی اثرات سے بچنا چاہیے۔

 

                  ابن قیّم نے ایک معالج ( ڈاکٹر) کی تعریف اس طرح سے کی ہے:

فَالطَّبِيبُ: هُوَ الَّذِي يُفَرِّقُ مَا يَضُرُّ بِالْإِنْسَانِ جَمْعُهُ، أَوْ يَجْمَعُ فِيهِ مَا يضره تفرقه، وينقص مِنْهُ مَا يَضُرُّهُ زِيَادَتُهُ، أَوْ يَزِيدُ فِيهِ مَا يَضُرُّهُ نَقْصُهُ، فَيَجْلِبُ الصِّحَّةَ الْمَفْقُودَةَ، أَوْ يَحْفَظُهَا بِالشَّكْلِ وَالشَّبَهِ، وَيَدْفَعُ الْعِلَّةَ الْمَوْجُودَةَ بِالضِّدِّ وَالنَّقِيضِ، وَيُخْرِجُهَا، أَوْ يَدْفَعُهَا بِمَا يَمْنَعُ مِنْ حُصُولِهَا بِالْحِمْيَةِ، وَسَتَرَى هَذَا كُلَّهُ فِي هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَافِيًا كَافِيًا بِحَوَلِ اللَّهِ وَقُوَّتِهِ، وَفَضْلِهِ وَمَعُونَتِهِ

" معالج وہ ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس چیز کا سامنا کرنے سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس چیز کی محرومی سے انسان کو  نقصان پہنچتا ہے۔ معالج انسان سے وہ چیز نکال دیتا ہے جو زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے ، جبکہ جس چیز کی کمی ہو وہ اُس کی اِس کمی کو پورا کرتا ہے۔ معالج اچھی صحت حاصل کرنے میں یا  اچھی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے ۔ وہ موجودہ (بیماری کی) وجہ کو اس کے مخالف یا متبادل کے ذریعے روکتا ہے ، یا (بیماری کی)وجہ کو ختم کرتا ہے ، یا غذائی پرہیزکے ذریعے (بیماری کی) وجہ کو یا اس کے دوبارہ پلٹ آنے  کو روکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ تمام ہدایات اللہ کے اذن ، قدرت اور مدد سے، رسول اللہﷺکی رہنمائی اور مشورے کے مطابق ہیں"۔

 

نتیجہ: اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم اور اس کی بیماری کا علاج پیدا کیا ہے

                  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ عظیم ہے جس نے انسان کو بہترین حالت میں پیدا کیا۔ یہ ایسی حالت ہے کہ جس کے اندر ہی بیماریوں سے بچنے کے لیے اصلاحی اقدامات اٹھانے کی صلاحیت موجودہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں پیاس پانی کی کمی کی نشاندہی کرتی ہے تا کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو غذائیت کی کمی کو محسوس کرتی ہے اور پھر اس کو پورا کرنے کے لیے خوراک کی تلاش کرتی ہے۔  یہ ایک ایسی حالت ہے جو سانس کے راستے داخل ہونے والے نقصان دہ مادوں کو باہر نکالنے کے لیے کھانسی کرتی ہے اور قے کرتی ہے تاکہ وہ اس نقصان دہ مادے کو خارج کردے جو وہ کھاتی ہے۔ یہ بخار میں مبتلا ہوتی ہے تاکہ بیماری کے خاتمے کے عمل کو تیز ترکیا جا سکے اور یہ نقصان دہ مادوں کو پھوڑوں کی شکل میں اکٹھا کر دیتی ہے تا کہ وہ پورے جسم میں نہ پھیل جائیں۔ تو کیا ہم اس پر غور و فکر نہیں کریں گے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ کیسا وجود تخلیق کیا ہے؟

 

                  سب تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے بے شمار معدنیات ، جڑی بوٹیاں اور جانوروں کی مصنوعات پیدا کیں جو انسانوں کے لیے علاج کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بنانے والے(الصانع) ، تنظیم کرنے والے (المدبر) کی حیرت انگیز تخلیقات ہیں ، جو جانتا ہے کہ اس کی سب سے پسندیدہ تخلیق ، انسان، کے لیے بہترین نعمت کیا ہے۔ تو ہم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلایں گے؟

 

                  سب تعریفیں اللہ پاک کی ذات کے لیے ہیں جس نے تمام انسانیت میں سب سے بہتر ، پیغمبروں کے امام ، سیدنا محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ، جنہوں نے انسانیت کو خبردار کیا ، انہیں خوشخبری دی اور ہدایت سے روشناس کیا۔یہ اللہ کے رسول ﷺ ہی ہیں جو ہمارے لیے ایک مکمل دین لائے ،جس نے اسلامی امت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کیا اور اسے بنی نوع انسان کے لیے بہترین امت کے طور پر کھڑا کیا۔ اسلام کی حکمرانی کے دَور میں ، امت نے زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، بشمول طب کے شعبے میں بھی ، جو اس دین کی عظمت کی گواہی ہے، جو اس امت کی زندگی کی روح ہے۔ اور ان شاء اللہ اسلام ایک معاشرے اور ریاست کے طور پر واپس آئے گا تاکہ رسول اللہﷺ کی بشارت کے مطابق بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے۔

 

و آخر دعونا ان الحمد ﷲ رب العلمین

امام بخاری نے ابنِ عباسؓ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا، 'ایک  سیاہ فام عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہا، 'میں مرگی کی مریضہ ہوں، اور جب مجھے اس کا دورہ پڑتا ہے، تو میرےجسم  سے کپڑا ہٹ جا تا ہے، اللہ سے دعا کریں کہ مجھے شفا یاب کردے"۔ آپﷺ نے فرمایا، إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ " اگر تمومایا، ب کردیبی کی دعا کریںیئے گاست ایک یاست کی زمین پر بنے ہوئے ہیtion of her military might, and time has come to brake t صبر کرتی ہو تو تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اللہ تم کو تندرست کر دے گا"۔وہ بولی:"میں صبر کرتی ہوں"، پھر بولی: "میرا بدن کھل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے میرا بدن نہ کھلے"۔ آپ ﷺ نے دعا کی'۔

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.