Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

طالبان جنگجواسلام کے داعی بن کر نہیں تاجر بن کرماسکو پہنچ گئے!

(ترجمہ)

 

خبر:

 

15 آگست کو Kormesant.ru نیوز ایجنسی نے خبر دی کہ طالبان   کالعدم تحریک، جس پر اتحادی روس میں پابندی ہے اور جس کو دہشت گرد گروپ قرار دیا جاچکاہے، روس کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا عزم رکھتی ہے۔ اس کی تصدیق افغان اسلامی امارت کے وزیر صنعت وتجارت  نور الدین عزیزی نے ماسکو کے دورے کے دوران کیا۔ امریکہ کے نکلنے کے ایک سال پورا ہونے پر طالبان کا وفد ماسکو پہنچ گیا۔ ماسکو کے ساتھ وفد قازان کا بھی دورہ کرے گا۔ عزیزی کے مطابق کابل کچھ افغانی مصنوعات کے بدلے روس سے ایک ملین بیرل تیل خریدنے کےلیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  توقع ہے کہ روس سے اناج اور سورج مکھی کا تیل (سن فلاورآئل) درآمد کرنے پر بات کریں ہو گی۔

 

تبصرہ:

 

امریکی افواج کو افغانستان سے نکلے  ایک سال ہو گیا،  تحریک طالبان نے ملک پر قبضہ کیا  اور بین الاقوامی سطح پر اپنی جگہ بنائی ۔ طالبان کا موقف ذلت آمیز اور شکست خوردہ تھا،  انہوں نے اسلامی خلافت کے اعلان اور اسلام کے نور کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے  بلا آخر استعماریوں کے قوانین   کے نفاذ کو ہی جاری رکھا اور عالمی طاغوتی نظام کو قبول کرلیا۔  گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے نمائندوں نے کئی ممالک کا دورہ کیا۔  یہ ممالک کیا ہیں ، اورطالبان کس حیثیت سے کن حالات میں ان ممالک کے دورے کر رہے ہیں؟ جب  گزشتہ جنوری میں طالبان وفد  اوسلو پہنچا  تو ناروے کے وزیر خارجہ  آنکن ہوٹفیلڈٹ نے کہا   کہ مذاکرات  کا مطلب "طالبان کو جواز دینا یا ان کا اعتراف کرنا نہیں"۔  یعنی طالبان کو  خود مختار ریاست کے حکمران کے طور پر کوئی تسلیم ہی نہیں کر رہا ہے! دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں طالبان کو " دہشت گرد تنظیم" ہی سمجھا جاتا ہے اور تحریک طالبان پر پابندی ہے کوئی ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات چیت کےلیے بھی تیار نہیں، بلکہ ان کو جہلاء اور مجرموں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

 

 اسی طرح طالبان نے اپنے پڑوسیوں روس ، چین، ازبکستان اور ترکمانستان کا دورہ کیا ۔  ان  سارے ممالک نےبھی تحریک طالبان کو "دہشت گرد" گروپ قرار دے کر پابندی لگائی ہوئی ہے اور یہ کبھی بھی ان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نہیں نکالیں گے۔  تمام مذاکرات  تجارتی تعلقات اور تجارت کےلیے ہیں۔  افغانستان پہلے بھی اور اب بھی استعماریوں کےلیے  خام مال سے زیادہ کچھ بھی نہیں، اور  طالبان بھی تاجروں والے اقدامات کر رہے ہیں۔  ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کس طرح استعماریوں کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،  اور اپنی قوم کی قیمت پر اُن کو  خطے میں اُن کے ایجنٹوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کےلیے قائل کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔  یہ استعماریوں سے التجا کر رہے ہیں کہ امریکی بینکوں میں موجود ہماری ملکی دولت کو واپس کیا جائے۔  ذرائع ابلاغ ہر طرف سے طالبان پر حملہ آور ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ "انسانی حقوق" کا احترام کریں وغیرہ۔  طالبان بڑی آسانی سے اس عالمی نظام میں ایڈجیسٹ ہو رہے ہیں جس کو استعماریوں نے قائم کیاہے۔  یہ ذلت اور شکست خوردگی نہیں تو کیا ہے؟! کیا مجاہدین نے میدان جنگ  میں اس کے لیے اپنا خون بہایا تھا؟! کیا لوگوں نے اس کےلیے اپنی جان، مال اور سکون کو قربان کیا تھا؟! کیا اس کےلیے ہمارے پیارے نبی، اللہ  کے رسول ﷺ کے پرچم کو بلند کیا گیا تھا؟  جب مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم  ہوئی تھی تو   رسول اللہ ﷺ نےاس وقت کی عالمی طاقتوں سے مدد نہیں مانگی،  نہ کسی سے حمایت اور دوستی کا مطالبہ کیا، جیسے رومن سلطنت، بازنطینی سلطنت اور فارسی سلطنت۔  آپ ﷺ نے داخلہ پالیسی اور خارجہ پالیسی دونوں میں  اللہ کے اوامر کو نافذ کیا،  نہ اپنے آپ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا، اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگی!

 

  محمد ﷺ نے تجارت اور دوستی کے لیے پڑوسیوں سے تعلقات قائم نہیں کیے۔ آپﷺ نےمختلف حکمرانوں کو خطوط لکھ کر  اپنا موقف واضح کیا۔ مثال کے طور پر  آپ ﷺ نے رومی سلطنت کے حکمران ہرقل کو  خط لکھا جس میں فرمایا:

 

" بسم اللہ الرحمن الرحیم! محمد بن عبد اللہ کی طرف سے رومی  حکمران  ہرقل کو  اسلام قبول کرو،  سلامتی سے رہو گے، اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا۔  اگر تم نے منہ موڑا تو  اریسیوں (رومیوں) کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔" 

 

 یعنی اس وقت نبی ﷺ نے عالمی سطح پر یہ  موقف اختیار کیا  حلانکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، اور عملی طور پر وہ ایک ہی شہر کے اندر تھے۔  یہ موقف اپنا نااللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم تھا، اور  یہ ایک مضبوط ریاست کا موقف تھا۔ وہ ریاست دنیا کی قیادت کرنے کا دعوی کر رہی تھی  کیونکہ نبی ﷺ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے اور مدد کے بارے میں مکمل مطمئن تھے! یہی دنیا کی قیادت کرنے والے کا منصب ہے  جو دنیا کو منور کرنے والا ہے۔  پھر خلفائے راشدین اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نےبھی یہی کام کیا،  جنہوں نے پوری  امت مسلمہ کی مدد کی اور اس کو دنیا کا قائد بنادیا۔  اسی کام کےلیے  طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے سفیر دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے پاس بھیجیں ! اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتاہے: 

 

﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً﴾

 " اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔"(البقرۃ، 2:143)

 

اللہ تعالیٰ نے  ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم زندگی میں اسلام نافذ کریں،  اور حق کی نشرواشاعت کی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے،  تاکہ ہم اسلام کو تمام انسانیت تک پہنچائیں۔  یہی عظمت اور نجات کا راستہ ہے! آج طالبان کے سامنے ذلت اور شکست  سے نکلنے کا  واحد راستہ  یہ ہے کہ وہ  طاغوت سے دور ہو کر  اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کی طرف پلٹ آئیں ۔ طالبان کو انصار بننا چاہیے! ان کو فوراً قرآن اور سنت پر مبنی حزب التحریر کے منصوبے کو قبول کرنا چاہیے،  اور حزب کے ساتھ مل کر دوسری خلافت  راشدہ کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اللہ کی مدد سے اسلام کا نور پوری دنیا تک پہنچ جائے گا! اللہ ہمیں توفیق دے!

 

اس کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے الدر حزمین نے تحریر کیا

Last modified onمنگل, 06 ستمبر 2022 02:36

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.