بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
مصعب بن عمیر اور نصرۃ کی طلب
جہاد جہاد اور عطیہ الجبارین کے لیے
جہاد جہاد کا سوال:
السلام علیکم،
برائے مہربانی، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نصرۃ طلب کیے جانے کے کیا دلائل ہیں، حالانکہ وہ مدینہ میں صرف دعوت کے لیے تشریف لائے تھے؟ واضح وضاحت کی درخواست ہے۔
عطیہ الجبارین کا سوال:
ہمارے امیر اور شیخ ابو یاسین... السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ...
"تارکین اور نصرۃ میں تاخیر" کے جواب میں نصرۃ طلب کرنے کے موضوع پر آیا تھا کہ (... یا کیا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نصرۃ کی طلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہتر انداز میں کرتے تھے؟) اور یہ بھی کہ (... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار نصرۃ طلب کی مگر کسی نے دعوت قبول نہ کی، حالانکہ آپ کا طریقہ سب سے بہترین تھا... جبکہ مصعب رضی اللہ عنہ کی دعوت قبول ہو گئی)۔ لہٰذا، شیخ محترم! برائے مہربانی ہمیں وہ دلیل بتائیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اہلِ مدینہ سے نصرۃ طلب کی تھی۔ کیونکہ سیرت کی کتابوں اور شیخ تقی الدین النبہانی رحمہ اللہ کی کتاب "اسلامی ریاست" کے مطابق، مصعب بن عمیر مدینہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے، لیکن ہم نے یہ نہیں پڑھا کہ انہوں نے کبھی اہلِ مدینہ سے دین کے لیے نصرۃ طلب کی ہو۔ اللہ آپ کو برکت عطاء فرمائے اور جلد از جلد ہمیں اور آپ کو اسلامی ریاست میں اکٹھا کر دے۔
آپ کا بھائی، عطیہ الجبارین - فلسطین
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ دونوں کا سوال ملتا جلتا ہے اور اس کا جواب درج ذیل ہے:
1- مجھے اس سوال پر تعجب ہوا، کیونکہ آپ دونوں، مصعب رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ میں نصرۃ طلب کرنے کے دلائل مانگ رہے ہیں، حالانکہ جہاد کے الفاظ میں وہ "دعوت لے کر مدینہ آئے تھے" اور عطیہ کے مطابق "لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے"۔ کیا واقعی؟! اور کیا نصرۃ طلب کرنا، دعوت دینے میں شامل نہیں؟ اور کیا نصرۃ طلب کرنا اسلام کی دعوت دینے میں شامل نہیں؟
بے شک داعی لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتا ہے، عام لوگوں کو بھی اور ان میں سے اہلِ قوت و اقتدار کو بھی۔ پس عام لوگوں کے لیے اس کا کام محض دعوت پہنچانا ہے، لیکن جہاں تک اہل قوت و اقتدار کا تعلق ہے تو ان کے لیے اس کے کام میں دعوت پہنچانا اور نصرت طلب کرنا دونوں شامل ہیں۔ پس جب القوی اور العزیز اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصرۃ طلب کرنے کا حکم دیا تو آپ ان قبائلی سرداروں کے پاس جاتے جو اہل قوت و اقتدار سے ہوتے، اور قبیلے کے سردار کو اسلام کی دعوت دیتے، پس جب وہ اسلام قبول کر لیتا۔۔۔۔۔۔ الخ تو آپ اس سے نصرۃ طلب کرتے، اور اگر قبیلے کا سردار اہل قوت سے نہ ہوتا بلکہ عام لوگوں میں سے ہوتا، یا اس کا قبیلہ چھوٹا ہوتا اور اس قبیلے کے پاس میں قوت و اقتدار نہ ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام کی دعوت دیتے اور اس سے نصرۃ طلب نہ کرتے۔
2- اسی طرز پر حضرت مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے اور انہیں قرآن پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں اسلام داخل نہ ہو گیا ہو اور اس گھر کے کچھ لوگ مسلمان نہ ہو گئے ہوں، یعنی مسلمان کثرت میں تھے۔ لیکن ان میں سے قوت اور طاقت والے افراد کی تعداد محدود تھی: 73 مرد اور دو عورتیں۔ اور جب حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو یہ قوت میسر آ گئی تو وہ حج کے گیارہویں موسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا کہ یہ قوت والے لوگ اگلے موسم یعنی حج کے بارہویں موسم میں آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر جو چاہیں شرط رکھیں، وہ باذن اللہ تیار ہیں۔
3- میں آپ کے لیے "اسلامی ریاست" کی کتاب سے اس موضوع پر درج ذیل اقتباس پیش کرتا ہوں:
(... یہاں تک کہ جب حج کا گیارہواں موسم آیا تو مصعب رضی اللہ عنہ مکہ واپس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی تعداد، ان کی طاقت، اسلام کے پھیلاؤ کی تفصیلات، اور مدینہ کے معاشرے کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مدینہ میں ہر گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اور ہر طرف اسلام کی بات ہو رہی ہے، اور مسلمانوں کی طاقت اور اثر نے ہر چیز پر غالب آ کر اسلام کو بالاتر کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی عرض کیا کہ اس سال کچھ مسلمان حج کے لیے آئیں گے اور وہ اللہ پر ایمان میں بہت مضبوط ہوں گئے ہیں، اور اللہ کے پیغام کو اٹھانے اور اللہ کے دین کا دفاع کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مصعب رضی اللہ عنہ کی ان خبروں سے بہت خوش ہوئے اور غور وفکر کرنے لگے۔ آپﷺ مکہ اور مدینہ کے معاشروں کا موازنہ کر رہے تھے۔ مکہ کا معاشرہ جہاں آپﷺ نے لگاتار بارہ سال اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے گزارے، دعوت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اور کوئی موقع ایسا نہ چھوڑا جس میں اپنی استطاعت بھر کوشش نہ کی ہو، اور ہر طرح کی تکلیف برداشت کی، اس کے باوجود معاشرہ پتھر کی طرح سخت رہا اور اس میں دعوت کی قبولیت کے لیے کوئی راستہ نہ مل سکا... اور جہاں تک مدینہ کے معاشرے کا تعلق ہے، تو خزرج کے کچھ لوگوں کے اسلام لانے کے بعد ایک سال گزرا تھا، پھر بارہ مردوں کی بیعت ہوئی، اور مصعب بن عمیر کی ایک سال کی مزید کوششیں، یہ مدینہ میں اسلامی ماحول پیدا کرنے اور لوگوں کے اس حیرت انگیز تیزی سے دینِ خدا میں داخل ہونے کے لیے کافی تھا...)
4- جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے طاقت اور اثر رکھنے والے افراد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجنے سے پہلے خود مکہ آ کر آپ کو مدینہ میں اسلام کے پھیلاؤ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مدینہ کے لوگوں میں سے کچھ بااثر اور طاقت ور افراد بھی ہیں جو اگلے حج کے موسم میں حاضر ہونے کو تیار ہیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اپنی مرضی کے مطابق عہد و پیمان لے سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصعب کی باتوں سے بہت خوش ہوئے، ان کی تصدیق فرمائی، اور اگلے موسم میں ان کے آنے کی منظوری دے دی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا—وہ لوگ اگلے موسم یعنی بعثت کے بارہویں سال، حج کے موقع پر حاضر ہوئے، اور یہی وہ موقع تھا جب بیعتِ عقبہ ثانیہ ہوئی۔
5- اب ہم کتاب "اسلامی ریاست" سے اقتباس کو جاری رکھتے ہیں: (...اور آپﷺ نے حجاج کرام کی آمد کا انتظار کیا، اور یہ واقعہ بعثت کے بارہویں سال، بمطابق 622 عیسوی میں پیش آیا۔ اس سال حجاج کی تعداد درحقیقت بہت زیادہ تھی اور ان میں پچھتر مسلمان تھے: تہتر مرد اور دو خواتین جن میں سے ایک نسیبہ بنت کعب ام عمارہ تھیں جو بنو مازن بن النجار کی خواتین میں سے تھیں، اور دوسری اسماء بنت عمرو بن عدی تھیں جو بنو سلمہ کی خواتین میں سے تھیں اور ام منیع کے نام سے بھی جانی جاتی تھیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خفیہ طور پر رابطہ کیا... اور ان سے عقبہ کے مقام پر رات کے درمیانی حصے میں، ایام تشریق کے وسط میں ملاقات کا وعدہ کیا۔ اور ان سے فرمایا: کسی سوتے ہوئے کو مت جگانا اور کسی غیر حاضر کا انتظار مت کرنا۔ اور مقررہ وعدے کے دن، رات کا پہلا تہائی حصہ گزرنے کے بعد، وہ اپنے خیموں سے پوشیدہ طور پر نکلے، اس ڈر سے کہ ان کا معاملہ فاش نہ ہو جائے، اور وہ عقبہ کی طرف گئے اور سب مل کر پہاڑ پر چڑھ گئے، اور دونوں خواتین بھی ان کے ساتھ چڑھ گئیں۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔۔۔۔ پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کلام فرمائیے اور اپنے اور اپنے رب کے لیے جو شرط پسند ہو منتخب فرما لیجیے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت کے بعد اور اسلام کی رغبت دلانے کے بعد جواب دیا:
«أبايعكم على أن تمنعوني مما تمنعون منه نساءكم وأبناءكم»
"میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میری حفاظت اس طرح کرو گے جس طرح تم اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔"
پس براء رضی اللہ عنہ نے اس پر بیعت کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا: یا رسول اللہ! ہم سے بیعت لیجیے، خدا کی قسم ہم جنگجووں کی اولاد ہیں اور اسلحہ و حرب کے ماہر ہیں، اور یہ چیز ہمیں اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے۔ پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! اگر ہم اس عہد کو پورا کریں تو ہمارے لیے کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا: "جنت"...) ختم شد
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بعثت کے دسویں سال میں بارہ مردوں کے ساتھ بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد بھیجا تھا۔۔۔۔۔ پس آپ رضی اللہ عنہ مدینہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور ان میں سے بااثر لوگوں کو اللہ کے دین کو نصرۃ دینے کی دعوت بھی دیتے تھے... اور حضرت مصعب رضی اللہ عنہ گیارہویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ کے حالات پیش کیے کہ کس طرح اسلام پھیل چکا ہے اور ان میں بااثر لوگ کتنے ہیں اور وہ آئندہ بارہویں موسم میں حاضر ہونے کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر اپنے دین کی نصرۃ کے لیے جو چاہیں شرطیں عائد کریں... پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اتفاق فرمایا اور حضرت مصعب کے اس عمل کی توثیق کی جو انہوں نے مدینہ میں انجام دیا تھا، اور اللہ کے حکم سے وہاں حاصل ہونے والے اچھے نتائج پر خوش ہوئے، اور اسی طرح بارہویں موسم میں تہتر مرد اور دو عورتیں حاضر ہوئیں اور یہ بیعت عقبہ ثانیہ تھی، پھر ہجرت ہوئی اور ریاست کا قیام عمل میں آیا...
لہذا مدینہ میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کا عمل نصرۃ کے اعمال میں ایک بنیادی رکن تھا، پس اللہ نے ان کے ہاتھ پر بااثر اور صاحب قوت لوگوں کے ذریعے فتح عطا فرمائی اور وہ اللہ کے دین کو نصرۃ دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ اور میں آپ کے لیے حضرت مصعب کا وہ قول دہراتا ہوں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: (... اور مسلمانوں کی طاقت اور اثر نے ہر چیز پر غالب آ کر اسلام کو بالاتر کر دیا ہے، اور یہ کہ اس سال کچھ مسلمان آئیں گے، اور وہ اللہ پر ایمان میں بہت مضبوط ہوں گئے ہیں، اور اللہ کے پیغام کو اٹھانے اور اللہ کے دین کا دفاع کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔)
اللہ تعالیٰ حضرت مصعب پر رحم فرمائے اور ان سے راضی ہو۔ بے شک اللہ نے ان کے ہاتھ پر ایک عظیم فتح عطا فرمائی جس کا نتیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیعت عقبہ ثانیہ کی صورت میں نکلا، پھر ہجرت ہوئی اور ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ جواب ان شاء اللہ کافی ہو گا۔
آپ کا بھائی، عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
18 ذوالحجہ 1439 ہجری
بمطابق 29 اگست 2018 عیسوی
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...