Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ    14 من جمادى الأولى 1447هـ شمارہ نمبر: 05/1447
عیسوی تاریخ     بدھ, 05 نومبر 2025 م

 

پریس ریلیز

 

آسٹریلوی انٹیلی جنس کے سربراہ نے نسل کشی کرنے والے وجود کے لئے احمقانہ دفاع پیش کیا

 

اے ایس آئی او کے ڈائریکٹر جنرل مائیک برجز نے گزشتہ روز اپنے لووی انسٹی ٹیوٹ کے خطاب میں نسل کشی کرنے والے وجود کے لئے آسٹریلوی حکومت کی مسلسل حمایت کو مزید مضبوط کیا۔

 

برجز نے گھسے پٹے نعروں کا ایک مجموعہ پیش کیا، جو حکومت اور نسل کشی کے حامیوں دونوں سے ماخوذ تھے، جن میں سماجی ہم آہنگی کے خطرات، یہود دشمنی میں اضافے اور سیاسی تشدد کے معمول بن جانے کے بارے میں خبردار کیا گیا۔ حتیٰ کہ برجز نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس ملک میں غیر ملکی بنیادوں پر سیاسی قتل کے امکانات بھی موجود ہیں۔

 

مظلومیت کا شکار اور جارح حملہ آور کے ماڈل کو مسخ کرنے کی اپنی بھونڈی کوشش میں، برجز نے حزب التحریر کا حوالہ دیا، جسے اس نے غزہ سے متعلق مصائب وآلام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے والی جماعت کی مثال کے طور پر پیش کیا۔

 

اس نے کہا:

 

”اگرچہ حزب التحریر ایک مذہبی تحریک ہے، لیکن اس کا اشتعال انگیز رویہ، جارحانہ زبان اور خطرناک حکمتِ عملی، نیشنل سوشلسٹ نیٹ ورک کی حکمتِ عملی سے بہت مشابہ ہے۔ اس تنظیم کی 'اسرائیل' اور یہودیوں کے خلاف مذمت میڈیا کی توجہ حاصل کرتی ہے اور اس تنظیم کی افرادی قوت میں اضافہ میں مدد دیتی ہے۔ لیکن یہ تنظیم دانستہ طور پر ملک کے اندر پرتشدد یا سیاسی بنیادوں پر تشدد کے اعمال کی ترغیب دینے سے گریز کرتی ہے۔ حزب التحریر قانونی حدود کو توڑے بغیر انہیں آزمانا اور پھیلانا چاہتی ہے۔ جیسا کہ نیو نازیوں کے ساتھ تھا، ویسے ہی حزب کا رویہ بھی قابلِ قبول نہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس کی 'اسرائیل' مخالف بیان بازی وسیع تر یہود دشمن بیانیے کو ہوا دے رہی ہے اور اسے معمول بنا رہی ہے“۔

 

حزب التحریر آسٹریلیا اس حوالے سے ذیل میں یہ بیان کرتی ہے:

 

1- لووی انسٹی ٹیوٹ، جو شدت پسند صیہونی اور نسل کشی کے حامی فرینک لووی نے قائم کیا تھا، اس میں دیا جانے والا یہ لیکچر اس بات کی دردناک یاد دہانی ہے کہ جب حکومت 'سماجی ہم آہنگی' کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ برجز ایسے افراد کے حمایتیوں کے درمیان موجود تھا جو بچوں کے قاتل اور قیدیوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں، اور جو پورے کے پورے شہروں کو ان کے باشندوں کے سر پر ڈھا دینے کو قابلِ قبول سمجھتے ہیں، اور اگر کوئی بچ بھی جائے تو انہیں فاقوں سے بھوکا مار دینے میں انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ سماجی ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ مجرموں کو تو اپنے جرائم جاری رکھنے کی چھوٹ دی جائےجبکہ ان مجرموں کا شکار ہونے والے متاثرین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فرمانبرداری سے اذیت و تکلیف برداشت کرتے رہیں۔

 

2- آسٹریلیا ہمیشہ سے ہی نسل کشی کا حامی رہا ہے۔ جب برطانیہ نے 1788ء میں اس ملک پر قبضہ کیا تھا، تب ہی اس ارتکاب کو قابلِ قبول سمجھا گیا تھا۔ نسل کشی کو اس وقت قابلِ قبول سمجھ لیا گیا جب آسٹریلیا نے 1947ء میں فلسطین میں پہلی نسل کشی کو جائز قرار دیا، اور پھر جب آسٹریلیا نے 2023ء سے جاری نسل کشی کی حمایت کی، تب بھی یہ اقدام قابلِ قبول سمجھا گیا۔ یہ حقیقت کہ ان تمام جرائم کو 'قانونی' قرار دیا گیا، برجز کی موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کے بارے میں تشویش کو قابلِ نفرت بنا دیتی ہے۔

 

3- 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کے بیس برسوں نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ مغربی ریاستیں اپنے اعمال کے نتائج سے خود کو بچانے کے لئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے سابقہ جرائم کی ذمہ داری قبول کریں، انہوں نے اپنے جرائم میں مزید اضافہ کیا — پورے کے پورے ممالک تباہ وبرباد  کر دیئے، لاکھوں بے گناہوں کو مار دیا، اور ان ہولناک مظالم کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو جرم قرار دے دیا، چاہے وہ  ان کے خلاف صرف آواز اٹھانے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اب وہی طریقہ کار ایک بار پھر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ نسل کشی کرنے والے وجود کو اس کے جرائم سے بری کیا جا سکے، مگر اس بار دنیا پہلے ہی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔

 

4- ”اسرائیل“ مخالف جذبات ایک عالمی مظہر ہیں، جو تمام مذاہب اور دنیا کے ہر حصے کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ ردِعمل ہے جو قابض وجود کی مجرمانہ کارروائیوں کے خلاف ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے دنیا نے یہود دشمنی کے بے معنی الزامات کو محض ایک بے دلی سے لیا ہے۔

 

5- یہ دعویٰ کہ حزب التحریر غزہ کے معاملے پر مسلم کمیونٹی کا استحصال کرنا چاہتی ہے، دراصل مسلمانوں کی تضحیک اور اُن سے نفرت کے مترادف ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ مسلمان آزاد سیاسی سوچ رکھنے کے قابل نہیں، یا یہ کہ جیسے مسلمان اُس حقیقت کے بارے میں اندھے ہیں جو پوری دنیا دیکھ رہی ہے، اور یوں وہ کسی خفیہ سازشی کردار کے فریب میں آ سکتے ہیں۔ یہ تضحیک آمیز رویہ دراصل مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہر نئی آنے والی حکومت کے طرزِ عمل کی بنیاد رہا ہے، جسے ان کی اجتماعی سرزنش کو جواز دینے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

 

6- برجز کا حزب التحریر پر حملہ دراصل ایک بے بنیاد مہم ہے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی تک پہنچنا ہے۔ حزب التحریر اُن بااصول اور غیر مصالحت پسند آوازوں میں سے ایک ہے جو فلسطین پر قبضے کے خلاف اپنی مخالفت میں کبھی متزلزل نہیں ہوئی۔ حکومت اور نسل کشی کے حامی یہ امید رکھتے ہیں کہ ریاستی جبر کی مسلسل دھمکیوں کے ذریعے اس کمیونٹی کو خاموش کر دیا جائے، چاہے اس مقصد کے لئے من مانے قوانین ہی کیوں نہ متعارف کرانے پڑیں۔

 

7- حزب التحریر کی دعوت صرف مقدس سرزمین، فلسطین سے ظلم کے خاتمے اور اسے صیہونی قابضین سے آزاد کرانے تک ہی محدود نہیں۔ حزب دنیا بھر کے تمام مظلوموں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ان پر  سے بھی ظلم کے خاتمے کی دعوت دیتی ہے، جو ان سیکولر حکومتوں کے زیرِ تسلط ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کو تباہ حال، مفلس اور غلام بنا دیا ہے، اور انہیں لالچی سرمایہ دار طبقے کے لئے محض پیداوار کے اوزار بنا کر رکھ دیا ہے۔ حزب التحریر کا منصوبہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک تہذیبی متبادل ہے، جو کہ ایسا نظام نہیں ہے جو فقط ایک فیصد طبقے کی خدمت کرتا ہو، جیسا کہ مغرب کی قیادت میں سرمایہ دارانہ دنیا میں ہوتا ہے۔

 

اسی منصوبے کے ذریعے حزب التحریر نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی دعوت دیتی ہے، جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکومت کرے گی — تاکہ نہ صرف مسلم ممالک میں امن، سلامتی اور عدل قائم ہو، بلکہ پوری دنیا میں انصاف، تحفظ اور استحکام پھیلایا جا سکے۔ یہی وہ حکم ہے جو خالق نے ہمیں دیا ہے، اور اسی میں اس کی رضا ہے، اور یہی عمل ہمیں جنت میں داخل کرنے کا سبب بنے گا۔

 

8- برجز کا حزب التحریر پر حملہ دراصل مغربی میڈیا کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی وسیع اسلاموفوبیا مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم کا مقصد انسانیت اور مغربی دنیا کے اہلِ عقل کو اسلام کی حقیقی فطرت سے گمراہ کرنا ہے تاکہ وہ مغرب کی دیوالیہ تہذیب سے منہ موڑ کر اسلام کو ایک تہذیبی متبادل، متوازن طرزِ حیات، اور اللہ کا سچا دین کے طور پر اختیار نہ کر لیں۔ یوں اس لحاظ سے برجز بھی قریش کے ان جاہل مشرکوں کی مانند ہے جنہوں نے نبیِ اکرم ﷺ پر بہتان لگائے تاکہ آپﷺ اور آپؐ کے پیغام کی روح کو بگاڑ سکیں — مگر کیا وہ کامیاب ہوئے؟! یہ صرف کچھ وقت کی ہی بات ہے کہ لوگ آخرکار خبیث کو طیب سے پہچان لیں گے۔

 

9- برجز کی دانستہ ابہام انگیزی اور بعض اوقات صریح گمراہ کن بیانات کا جواب دینے کے لئے، ہم اسلام کے اس مؤقف کو دوبارہ واضح کرنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے مسئلے پر رکھتے ہیں:

 

ا) فلسطین اسلامی سرزمین ہے، اور صرف مسلمان ہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

 

ب) اسلام کے دورِ حکومت میں فلسطین ہمیشہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کا مسکن رہا، اور اسلامی حکمرانی کا وہ دور آج بھی پرامن بقائے باہمی کی سنہری مثال سمجھا جاتا ہے۔

 

ج) فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کیا اور اسے صیہونیوں کے حوالے کیا تاکہ برطانوی استعماری مفادات کا  حصول کیا جا سکے (بعدازاں، اسی پالیسی کو امریکا نے اپنایا)۔ برطانیہ اور بعد میں صیہونیوں کا قبضہ اسلام کی نظر میں کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور مسلمان اس قبضے کو معمول پر لانے کی کسی بھی کوشش کو ہمیشہ مسترد کریں گے۔

 

د) فلسطین کو عسکری جارحیت کے ذریعے قبضے میں لیا گیا تھا، اور عسکری جارحیت کا واحد جائز جواب عسکری طور پر اسے پسپا کرنا ہے۔

 

ر) یہ ذمہ داری مسلم افواج کی ہے، جو انہی زمینوں کے فرزندان ہیں، کہ وہ فلسطین میں عسکری مداخلت کریں، نہ صرف صیہونی قبضے کے ہاتھ روکنے کے لئے، بلکہ اس سرزمین کو مکمل طور پر آزاد کرانے کے لئے۔

 

میڈیا آفس حزب التحریرآسٹریلیا

 

   

 

 

 

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.