Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

مہنگائی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بدعنوانی کے باعث درپیش معاشی مشکلات

 

مہنگائی قیمتوں میں اضافے کو کہتے ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ لوگ زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے تنگ آچکے ہیں۔ افراطِ زر کا مطلب ہے قیمتوں کا غیر معمولی طور پر بڑھ جانا، جو افراد کی قوتِ خرید میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یعنی، وہ اشیاء اور خدمات جو ایک فرد اپنی آمدنی اور دستیاب قیمتوں کے مطابق خرید سکتا ہے، محدود ہو جاتی ہیں۔

افراطِ زر کی وجوہات کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عارضی وجوہات اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق وجوہات۔

 

عارضی افراطِ زر کی تین وجوہات ہیں

:

1-(ڈیمانڈ پل انفلیشن) ڈیمانڈ کی وجہ سے مہنگائی: یہ قیمتوں میں وہ اضافہ ہے جو بازار میں طلب کے رسد سے زیادہ ہونے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس قسم کی افراط زر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سرمایہ کاری، روزگار اور اجرتوں کی سطح بلند ہو، جس کے نتیجے میں عمومی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال اشیاء اور خدمات کی قلت کے دوران بھی پیدا ہوتی ہے۔

 

2- لاگت سے پیدا ہونے والی افراط زر: یہ اس وقت ہوتی ہے جب پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ اجرتوں میں اضافہ، توانائی اور خام مال کی بلند قیمتوں سمیت دیگر پیداواری عوامل کی مہنگائی کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ یہ زیادہ ٹیکسوں کے نتیجے میں اور خام مال اور پیداواری آلات کی درآمد کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے۔

 

3- نقدی کے اجراء سے پیدا ہونے والا افراط زر : یہ ان ادوار میں واقع ہوتی ہے جن میں ضرورت سے زیادہ کرنسی چھاپی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پیسے کی فراہمی میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ اشیاء اور خدمات کی پیداوار میں اضافے سے زیادہ ہوتا ہے، جو قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

 

یہ وجوہات عارضی رہتی ہیں جب تک کہ وہ وقتی ہوتی ہیں، یعنی جب تک وہ یا تو خود بخود مارکیٹ کے ذریعے یا ریاستی مداخلت کے ذریعے تبدیل نہ ہو جائیں۔ اگر ریاست کی پالیسیاں مذکورہ بالا حالات کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

 

جہاں تک بنیادی ڈھانچے سے متعلق وجوہات کا تعلق ہے، تو یہ کسی ملک میں رائج نظام سے جڑی ہوتی ہیں، جو ایک عمومی فریم ورک تشکیل دیتا ہے اور معاشی عوامل کے رویے کو متعین اور منظم کرتا ہے۔


ان وجوہات میں ہم پیسے کی قدر میں مسلسل کمی کا ذکر کر سکتے ہیں، جس میں سامان اور خدمات کے مقابلے میں قوت خرید شامل ہے، جو مانیٹری سپلائی میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کاغذی کرنسی پر مبنی مالیاتی نظام ہے، جو ملک میں لاگو سرمایہ دارانہ نظام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مالیاتی نظام ضرورت سے زیادہ نقد رقم جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ سکے اور بینک نوٹ کے ساتھ ساتھ بینکوں کی طرف سے اقتصادی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے قرضے اور مالیاتی سہولیات بھی شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت قیمتوں میں مسلسل اضافے کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ پیسے کی قدر میں کمی کو سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس نظام کے تحت قیمتوں میں استحکام کا تصور کرنا بھی مضحکہ خیز ہے۔

 

قرضوں میں حد سے زیادہ اضافہ اور ٹیکسوں کا بوجھ بھی بنیادی ڈھانچے کے عوامل میں شامل ہیں جو پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

 

ان عمومی ڈھانچہ جاتی عوامل کے علاوہ، تیونس کی معیشت کچھ مخصوص بنیادی عوامل سے بھی متاثر ہوتی ہے جو پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کا سبب بنتے ہیں، جیسے کہ پیداواری اداروں کا زیادہ تر خام مال اور پیداواری آلات درآمد کرنا، اور سپلائی چین اور قدر کے ذرائع پر کنٹرول نہ ہونا۔ یہ 1970 کی دہائی سے کیے گئے معاشی فیصلوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے معیشت کو بیرونی انحصار کی طرف موڑ دیا تھا۔ اس کے علاوہ، پیداواری یونٹس میں تکنیکی انحطاط کی وجہ سے کمزور پیداواری صلاحیت تیونس کے صنعت کاروں کو برتری سے محروم کر دیتی ہے، جس کے باعث درآمد شدہ مواد میں اضافہ ہوتا ہے اور درآمدی افراط زر کو فروغ ملتا ہے۔

یہ عوامل آپس میں اس طرح جُڑ جاتے ہیں کہ وہ افراط زر کے تسلسل کا سبب بن کر اسے ہر اُس ملک کی معیشت کا لازمی جز بنا دیتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو اپناتا ہے۔ افراط زر سے نجات کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کیا جائے۔

 

افراط زر پر دباؤ میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب جمودی افراط زر (stagflation) کا رجحان سامنے آتا ہے، جو کمزور معاشی ترقی اور بے روزگاری کی بلند شرح، یعنی معاشی جمود، کے ساتھ ساتھ افراط زر پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ حالت سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک لاعلاج بیماری سمجھی جاتی ہے، جس پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی حکومتیں اس بیماری کے ایک پہلو، یعنی افراط زر یا معاشی جمود، کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو دوسرا پہلو مزید شدت اختیار کر لیتا ہے۔

 

قیمتوں میں اضافے کی وجوہات بیان کرنے کے بعد، ایک نہایت اہم نکتہ واضح کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ بذاتِ خود ہمیشہ بحران کا سبب نہیں بنتا، بلکہ اصل مسئلہ وہ نظام ہے جس کے تحت یہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی نظام قیمتوں کے بڑھنے کو بحران کی شکل دیتا ہے اور مہنگائی و معاشی مشکلات کو جنم دیتا ہے۔

 

سرمایہ دارانہ نظام بنیادی طور پر مارکیٹ، یعنی قیمتوں کے نظام پر انحصار کرتا ہے تاکہ اشیاء اور خدمات کی تقسیم ممکن ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس قیمت ادا کرنے کی صلاحیت ہو، وہ اپنی مطلوبہ اشیاء اور خدمات حاصل کر سکتا ہے، جبکہ جو اس قابل نہ ہو، وہ ان سے محروم رہتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام، جو دولت کی تقسیم کو قیمتوں کے نظام کے ذریعے منظم کرتا ہے، مہنگائی کو ایک سنگین مسئلہ بنا دیتا ہے۔ یوں، قیمتوں میں اضافہ بذاتِ خود بحران کی وجہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں یہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی نظام مشکلات کو جنم دیتا ہے، اور قیمتوں میں اضافہ اس بحران کو مزید شدید کر دیتا ہے۔

 

دوسری جانب، سرمایہ دارانہ نظام نے قدرتی وسائل جیسے توانائی اور معدنیات کی ملکیت کو نجی کمپنیوں کے لیے جائز قرار دے دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ریاست ان قیمتی وسائل سے محروم ہو گئی جو عوامی بہبود کے منصوبوں اور بنیادی سہولیات، جیسے صحت، تعلیم اور نقل و حمل، کی فراہمی کے لیے استعمال ہو سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمزور طبقے سمیت بڑی تعداد میں لوگ نجی سہولیات، جیسے نجی تعلیم، نجی طبی مراکز اور نجی ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس صورت حال نے عوام کی قوتِ خرید کو مزید کمزور کر دیا اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کو معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے ایک بڑا بوجھ بنا دیا۔

 

اس کے علاوہ، ملک میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اجرتوں کو منجمد کر دیا گیا ہے، جس نے عوام کے لیے مسائل پیدا کیے اور ان کی قوتِ خرید کو کمزور کر دیا۔ اس کے علاوہ، اجارہ داری، حد سے زیادہ قیمتیں اور سودی قرضوں نے مہنگائی کے اثرات کو مزید بڑھا دیا اور زندگی کی سختیوں میں اضافہ کر دیا۔

 

خلاصہ یہ کہ ملک میں نافذ کردہ سرمایہ دارانہ نظام ہی مسلسل قیمتوں کے اضافے کا سبب بنتا ہے، یہاں تک کہ یہ ایک بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو عوام کو متاثر کرتا ہے اور زندگی کے اخراجات اور مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔

 

زندگی کی بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کا حل تب ہی ممکن ہے جب ملک میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کرکے ایک مکمل اور منظم نظام نافذ کیا جائے۔ یہ صرف خلافت راشدہ کے قیام سے ممکن ہے، جو نبوت کے نقش قدم پر استوار ہو۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے::

 

﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى * وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾.

  “پھر جب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ ہی بدبخت ہوگا *اور جو میرے ذکر (ہدایت) سے منہ موڑے گا، اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے] "سورۃ طہ[123-124:۔


تحریر: ڈاکٹر الاسعد بن رمضان

Last modified onجمعرات, 20 مارچ 2025 01:17

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.