Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ٹرمپ نے فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی فنڈنگ ​​روک کر اس کی بڑی خدمات کا صلہ دیا!

(ترجمہ)

 

 

فلسطینی اتھارٹی اور اس کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے امریکی احکامات پر عمل کرنے کے عزم کے کافی شواہد موجود ہیں، جو سیکیورٹی اشتراک اور اسلام کے خلاف جنگ کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے مجاہدین کا تعاقب کرنے، گرفتار کرنے اور حتیٰ کہ انہیں قتل کرنے میں بھی یہودی وجود کے ساتھ کھلے عام تعاون کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے ایک وحشیانہ مہم چلائی ہے جسے اس نے "ہوم لینڈ پروٹیکشن کمپین"(مادر وطن کے تحفظ کی مہم) کا نام دیا ہے، جہاں اس نے صہیونی قبضے کے جرائم کی ہو بہو پیروی کی ہے، جس میں محاصرہ کرنا، پانی اور بجلی منقطع کرنا، رہائشیوں کو بے گھر کرنا، مطلوبہ افراد کو گرفتار کرنا اور انہیں ختم کرنا، ہسپتالوں پر دھاوا بولنا اور زخمیوں کو گرفتار کرنا شامل ہیں۔

یہ مہم امریکی احکامات کے تحت، امریکی منصوبہ بندی اور فنڈنگ کے ذریعے، اور یہودیوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور تعاون کے تحت چلائی گئی، اس امید پر کہ اس طرح ان کی خوشنودی حاصل کی جاسکے گی۔

 

اس کے بعد، فلسطینی اتھارٹی اور اس کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے جنین میں مجاہدین کو ختم کرنے کے بدلے میں امریکہ سے اس مہم کے لیے 680 ملین ڈالر کی مالی امداد کی درخواست کی۔ مڈل ایسٹ آئی نے 6 جنوری 2025 کو رپورٹ کیا، "فلسطینی اتھارٹی نے امریکہ سے کہا کہ وہ اپنی خصوصی افواج کی تربیت کو بڑھانے اور گولہ بارود اور بکتر بند گاڑیوں کی سپلائی کو بڑھانے کے لیے 680 ملین ڈالر کے چار سالہ منصوبے کی منظوری دے، مڈل ایسٹ آئی کو اس بات کا انکشاف ایک امریکی اور فلسطینی اتھارٹی کے قریبی ذرائع نے کیا"۔

 

فلسطینی اتھارٹی اور اس کی سیکورٹی ایجنسیوں کا خیال تھا کہ امریکہ اسے پیسے دے کر غزہ پر کنٹرول دے گا۔فلسطینی اتھارٹی اب بھی تمام شرائط اور مطالبات پر عمل کرنے کے لیے پرعزم ہے، چاہے اسے فنڈنگ امریکہ سے ملے یا یہودی وجود سے۔اس کی تازہ ترین مثال چند روز قبل فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے جاری کردہ صدارتی فرمان میں دیکھی جا سکتی ہے، جس کے تحت قابض یہود کی جیلوں میں شہید ہونے والوں اور قیدیوں کے اہل خانہ کو ملنے والے الاؤنسز سے متعلق قوانین اور ضوابط منسوخ کر دیے جانا ہے۔ اس کے بجائے، یہ معاملہ 'قومی ادارہ برائے اقتصادی بااختیاریت' کے سپرد کر دیا گیا، جس کی سربراہی بدنام زمانہ احمد مجدالانی کے پاس ہے۔

 

تاہم، اپنی امریکہ کے لیے دی گئی تمام بڑی خدمات کے باوجود، ایک حیران کن فیصلے میں، واشنگٹن پوسٹ نے 19 فروری 2025 کو رپورٹ کیا، "ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی سیکورٹی فورسز کی فنڈنگ منجمد کر دی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے کچھ علاقوں میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور جنگ کے بعد غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔"

 

یہ اعلان اس وقت ہوا جب فلسطینی اتھارٹی نے فارع کیمپ کے قرب و جوار میں صفین کے علاقے میں ایک مکان پر چھاپہ مارا، جس کے بعد صہیونی قابض فوج کا حملہ ہوا جس میں تین مجاہدین شہید ہوئے، جن میں سے ایک کو اسی دن طوباس میں فلسطینی اتھارٹی کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔

 

سوال یہ ہے کہ اس امریکی فیصلے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ اور اس کے کیا ممکنہ نتائج ہوں گے؟

 

اول: تکبر، غرور اور بے حیائی ٹرمپ کے نمایاں خصائل میں شامل ہیں۔ اسی رویے نے محمود عباس کو یہ امید دلا دی کہ وہ اور اُس کی انتظامیہ جو چاہیں گے، وہ حاصل کر لیں گے، چاہے بدلے میں امریکہ کو کچھ بھی نہ دینا پڑے۔ ٹرمپ پوری دنیا کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے، اور اس میں یورپ بھی شامل ہے۔ لہٰذا، یہ اور بھی زیادہ فطری ہے کہ مسلم ممالک کی ریاستوں، ان کی ایجنٹ حکومتوں اور نیم خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں اس کا رویہ اس سے مختلف نہ ہو۔ ٹرمپ کا ماننا ہے کہ یہ حکومتیں اس کی فرمانبردار رہیں اور اس کے احسان مند بھی ہوں، محض اس وجہ سے کہ وہ انہیں اقتدار میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ان (فلسطینی اتھارٹی اور مسلم حکمرانوں) کی خدمات کے بدلے میں اسے کوئی اضافی ادائیگی کرنی چاہیے۔ اگر وہ انہیں کچھ فراہم کرتا بھی ہے، تو وہ ہمیشہ اس کے بدلے میں اضافی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

دوم: ٹرمپ ایک لالچی تاجر کی ذہنیت کے ساتھ کام کرتا ہے، جو کم سے کم قیمت اور لاگت میں اپنی مطلوبہ چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اخراجات میں کمی اور منافع میں اضافہ اس کی انتظامیہ کے تعلقات میں سب سے اہم ترجیحات میں شامل ہیں۔ وہ شاید امریکہ کا وہ صدر ہے جو اپنی تقریروں میں سب سے زیادہ پیسے کا ذکر کرتا ہے۔

 

سوم: امریکی انتظامیہ، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ، اپنے غلام محافظوں سے خدمات حاصل کرنے پر اصرار کرتی ہے، اور چاہتی ہے کہ وہ احکامات اور ہدایات کو بہترین طریقے سے نافذ کریں۔ وہ ان سے کوئی کوتاہی یا ناکامی قبول نہیں کرتی۔ ڈیٹن اتھارٹی کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے، کیونکہ اسے امریکہ کی جانب سے جو ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہ فلسطینی عوام کو اس ذہنیت اور ریاست کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے جو یہودی وجود کے لیے کسی بھی طرح کا خطرہ نہ بنے۔ یہاں تک کہ یہ فلسطین سے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اور یہ وہ کام ہے جو فلسطینی اتھارٹی بار بار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اہلِ فلسطین کو ان کے معاشی وسائل اور نظریات سے محروم کرنے کے لیے کتنی ہی جدوجہد کرے، انہیں ہراساں کرے، قید میں ڈالے یا حتیٰ کہ ان کے بچوں کو قتل کرے، فلسطینی مسلمان، اپنے اسلامی عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مجاہدین نکلتے ہیں اور لوگ ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ناکامی ہے جس کے لیے فلسطینی اتھارٹی امریکہ اور یہودیوں کی نظر میں سزا کی مستحق ہے، کیونکہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو یہودی وجود کے خلاف جہاد کے اقدامات کو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی، یہود کی سلامتی کے تحفظ کے لیے سونپے گئے مشن پر عمل درآمد میں مہارت حاصل کرے۔ سما نیوز نے 18 فروری 2025 کو رپورٹ کیا، "اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو سزا دی اور 90 ملین ڈالر کے ٹیکس فنڈز روکنے کا فیصلہ کیا... اور انہیں (اس پیسے کو) اسرائیلی خاندانوں کو منتقل کر دیا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد فلسطینیوں کے حملوں میں مارے گئے تھے"۔

 

چہارم: فلسطینی اتھارٹی نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور ان شرائط کو لاگو کرنے کا عزم کیا ہے جو ہر مالی امداد دینے والے اور حمایتی کے ذریعہ اس پر عائد کی گئی ہیں، فلسطینی اتھارٹی نے اس گھناؤنے جرم کی بالکل پرواہ نہیں کی جو وہ فلسطین، اس کے مقصد اور اس کے عوام کے خلاف کر رہی ہے۔ یہ رقم حامیوں سے حاصل کرنے کے بدلے میں ہے اور اُس تخت پر باقی رہنے کے بدلے میں ہے جس سے وہ لوگوں کی گردنوں کو کنٹرول کر سکے، اور ان کے مال اور روزی روٹی کا انتظام کر سکے، چاہے یہ تخت مقامی یا میونسپل انتظامیہ کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔ یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ نے یہودیوں کے ساتھ مل کر نام نہاد دو ریاستی حل کو کمزور کیا ہے جس کی فلسطینی اتھارٹی اور اس کے پیروکاروں کو امید تھی۔ ٹرمپ کی قیادت میں موجودہ انتظامیہ بے گھر ہونے اور دوبارہ آبادکاری کے بارے میں اور صہیونی بستیوں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے اور مغربی کنارے کو یہودی وجود کے ساتھ الحاق کرنے کے بارے میں واضح طور پر بات کرتی ہے، جب اس کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ جس نام پر یقین رکھتے ہیں وہ "یہودی اور سامریہ" ہے۔ ان سب باتوں نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے پر مجبور نہیں کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اپنی غدارانہ دشمنی میں کچھ معمولی سی بھی تبدیلی لے آئے۔

 

اس صورتحال میں چند اہم سوالات جنم لیتے ہیں: اگر امریکہ نے دو ریاستی حل کو ختم کر دیا ہے، فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سیکیورٹی اداروں کی مالی امداد بند کر دی ہے، اور صہیونی وجود کی دائیں بازو کی حکومت کے ارکان موجودہ مسخ شدہ شکل میں بھی فلسطینی اتھارٹی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو پھر وہ کون سا انعام ہے جس کی یہ اتھارٹی امید لگائے بیٹھی ہے، جبکہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے؟ امریکہ کی خدمت اور یہودیوں کی حفاظت میں اس مسلسل زوال کا اس کے حامی آخر کیا جواز پیش کرتے ہیں؟

 

پھر، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ: کیا کوئی نئی قیمت ہے جو فلسطینی اتھارٹی امریکہ و یہود کی جانب سےاپنی حمایت کی بحالی کے بدلے میں ادا کرے گی؟ ایک مٹھی بھر نقدی کی امید میں وہ کون سا نیا مشن شروع کرے گی؟

 

آخر میں، فلسطینی اتھارٹی چاہے کچھ بھی کرے، یہودی چاہے کچھ بھی کریں، اور امریکہ اور یورپ جو کچھ بھی کریں، یا خرچ کریں، ان کے اقدامات ناکامی، پشیمانی اور نقصان کا باعث بنیں گے۔ درحقیقت امت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ کے لیے بے تاب ہے اور اپنے دین اور مسجد اقصیٰ کو معمولی دنیاوی فائدے کے لیے فروخت نہیں کرے گی۔

 

﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ﴾

"جو لوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں کو) اللہ کے رستے سے روکیں۔ سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا) ان کے لیے (موجب) افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔"(الانفال، 8:36)

 

 

تحریر: استاد امیر علی ابو الریش - بابرکت سرزمین (فلسطین)

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.