Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

امتِ مسلمہ ایک امت ہے

 

فلاح ابو ارمیلہ – بیت المقدس، مجلة الوعي، شمارہ 306-307-308، ستائسواں سال،

 

رجب، شعبان اور رمضان 1433ہجری، تاریخ: 11 جولائی 2012م، 16 جمادی الثانيہ 1433ہجری

 

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

{إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ}

 

"یہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو"۔ (سورۃ الأنبیاء: آیت 92)

 

«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِىِّ ﷺ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَثْرِبَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ فَلَحِقَ بِهِمْ وَجَاهَدَ مَعَهُمْ أَنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ دُونَ النَّاسِ» "اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ تحریر محمد نبی ﷺ کی طرف سے قریش اور یثرب کے مسلمانوں اور مومنوں کے درمیان ہے اور جو ان کی پیروی کریں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں کہ یہ سب، تمام لوگوں سے الگ ایک امت ہیں"۔

 

(اسے بيہقی نے السنن الكبری میں روایت کیا ہے)

 

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى» "مسلمانوں کی باہمی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔" (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 

امتِ مسلمہ ایک ہی امت ہے اور اس میں اسلامی وحدت کا پایا جانا ضروری ہے، تو اس تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ اس کے نمایاں پہلو اور مظاہر کیا ہیں؟ اور اس سے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟

 

اسلامی اتحاد کے بارے میں شرعی حکم:

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

 

{وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ} "اور بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو" (سورۃ المؤمنون: آیت 52) 

 

اسلامی اتحاد کو اس کی تمام سیاسی، فکری اور شعوری علامات کے ساتھ وجود میں لانا فرض ہے، اور یہ فرض کسی صورت میں بھی مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی اتحاد، فکری اور جذباتی اتحاد کا قدرتی نتیجہ ہے، بشرطیکہ یہ معاشرے میں قائم ہو جائیں اور اسلامی افکار اور جذبات ایک حقیقی عوامی رائے کے طور پر موجود ہوں۔ اور یہ سیاسی اتحاد خود میں ایک ایسا اہم عنصر ہے جو فکری اور جذباتی اتحاد کو کسی بھی غیر اسلامی فکر کی گراوٹ یا دراندازی سے محفوظ رکھنے کے لئے معاون اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

 

اسلامی اتحاد کی علامات اور مظاہر:

 

-- سیاسی وحدت (خلافت): یہ اسلام اور اس کے نظاموں کو زندگی کے تمام شعبوں میں عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ ہے، اور طاقتور کو کمزور سمجھنا یہاں تک کہ اس سے حق وصول نہ کر لیا جائے، اور کمزور کو طاقتور سمجھنا یہاں تک کہ اسے اس کا حق نہ دلوا دیا جائے۔

 

-- فکری وحدت:

 

(یہ عقیدے اور شریعت کو تمام قطعی اور فروعی احکامات کے ساتھ اختیار کرنا ہے اور ہر اس فکر یا رائے کی نفی کرنا اور اسے رد کرنا ہے جو عقیدے پر مبنی نہ ہو یا اس سے اخذ شدہ نہ ہو)

 

شعوری وحدت:

 

(یہ اسلام یا اس کے کسی بھی پہلو کے غالب آنے پر خوشی اور مسرت کی وحدت ہے، یا باطل یا اس کی کسی بھی نشانی کے غالب آنے پر غصے اور نفرت کی وحدت ہے) یا (یہ اسلامی اخوت کے سائے میں عملی زندگی ہے) یا (یہ وہ پرجوش، گہرے اور محبت بھرے جذبات ہیں جو آپ کو، کسی مسلمان کو پہنچنے والی ہر خیر پر خوش دیتے ہیں،  بالکل اسی طرح جیسے آپ کو اپنے لیے کسی خیر پر خوشی ہوتی ہے، اور آپ، ہر مسلمان کو پہنچنے والے کسی بھی برے اثرات پر غمگین ہوتے ہیں، جیسے آپ اپنے لیے برے اثرات پر غمگین ہوتے ہیں)

 

سیاسی وحدت:

 

ابو حازم نے بیان کیا: میں پانچ سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا، اور میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا: «كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌ خَلَفَهُ نَبِيٌ وَإِنَّهُ لاَ نَبِيٌ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ فَتَكْثُرُ». قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ: «فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ»  "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لیتا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، بلکہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔" لوگوں نے پوچھا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: "پہلے والے کی بیعت کو پورا کرو، اور ان کو ان کا حق دو، کیونکہ اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا۔" (صحیح مسلم)۔ سیاسی وحدت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر خلافت قائم نہ ہو تو اسے قائم کیا جائے، اور اگر خلافت موجود ہو تو اس کی بقا اور استحکام کو یقینی بنایا جائے، نیز اس کی حدود کی حفاظت کی جائے۔ یہ پہلو اس کا اہم ترین پہلو ہے کیونکہ اس کا براہ راست اثر اسلام کے نفاذ، دار الاسلام کی حفاظت اور ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے پر ہوتا ہے جو اسلامی وحدت کو نقصان پہنچاتے ہیں، جیسے کہ بغاوت کر کے، یا حکومت کے خلاف خروج کر کے، یا اسلام کے اصولوں سے انحراف کر کے چاہے مرتد ہونے والے کام کریں یا گناہ والے۔ عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: «مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ» "جو شخص تمہارے پاس آئے جبکہ تم سب ایک شخص پر متفق ہو، اور وہ تمہارے اتحاد کو توڑنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالنا چاہے تو اسے قتل کر دو۔" (صحیح مسلم)۔ یہ سیاسی وحدت ہی جغرافیائی امتیازات کو ختم کرتی ہے، علاقائی سرحدوں کو توڑتی ہے، اور نسب یا منصب کے فخر، دوسروں کی تحقیر، ان کی مذمت، ان پر طعنہ زنی یا تہمت تراشی کو ختم کرتی ہے۔

 

یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو دیگر قوموں سے ممتاز کر کے انہیں ایک امت بنا دیتی ہے، اور انہیں آپس میں محبت، ہمدردی، رحم دلی اور ایک دوسرے سے پیار کے ذریعے باقی لوگوں سے الگ کرتی ہے۔ سیاسی وحدت کو امت خود قائم کرتی ہے اور اس کو حقیقی شکل اس طرح دیتی ہے کہ ایک حکمران، جو کہ امیر المؤمنین، خلیفہ یا سلطان ہوتا ہے، اللہ کے شریعت کو نافذ کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے خوبصورت نصوص، جو کہ اللہ کی وحی ہونے کی حیثیت سے دلوں کو ان کے نفاذ کی طرف مائل کرتے ہیں، کو عملی طور پر نافذ کرتا ہے۔ جیسے کہ غریبوں کو کھانا دینا جو حقیقت میں زمین پر اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منصوبہ بن جاتا ہے جس سے مانگنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے، یا بغیر کسی احسان یا اذیت کے کھانے اور پینے کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں جو بھوک اور پیاس کو مٹا دیتی ہیں،  بلکہ یہ مستحق کا حق بن جاتا ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح، سرحدوں کی حفاظت ایک ایسی حقیقت بن جاتی ہے کہ کفار زمین کے دور دراز کونے میں بھی کسی مسلمان مرد یا عورت پر حملہ کرنے کی جرات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔ یہ وہ حکمران ہوتا ہے جو امیروں سے پیسہ لے کر غریبوں کو واپس کرتا ہے، اُس شخص کی گرفت کرتا ہے جو شیطان کے اثر میں آ کر گناہ کرتا ہے، اور ان غیر مسلموں کی عزت کا تحفظ کرتا ہے جو ذمّہ داری کے معاہدے میں شامل ہو کر بطورِ ذِمّی رعایا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پس یہ پہلو، وحدت کے دیگر پہلوؤں اور علامتوں کی حفاظت کرتا ہے، یعنی یہ امتِ مسلمہ کی فکری اور جذباتی وحدت کی عملی ترجمانی ہے۔ اس لیے کہ امت کی فکری اور جذباتی وحدت تب تک محض نظریاتی خواہش ہوتی ہے جب تک کہ وہ کسی تنفیذی وجود میں مجسم نہ ہو جائے، اور یہی تنفیذی وجود وہ ہے جو اسلامی معاشرے کو حقیقتاً قائم کرتا ہے، جہاں زندگی کے بنیادی مفاہیم اور مفادات پر ایک ہی نظریہ اور سوچ مشترک ہوتی ہے، اور جہاں عقیدہ کی وحدت (جو کائنات، انسان اور زندگی کے بارے میں ایک جامع فکر ہے) کے بعد، انسان کے زیرِ اختیار دائرے میں وقوع پذیر ہونے والے اعمال سے متعلق خوشی اور رضامندی یا ناراضگی اور نفرت کے جذبات بھی مشترک ہو جاتے ہیں۔

 

اور اس تنفیذی وجود کے موجود نہ ہونے کی صورت میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسے وجود میں لانے کے لیے سنجیدگی اور سچے ارادے سے کام کریں؛ کیونکہ اس کے وجود میں آنے سے زندگی، معاشرے اور ریاست میں اسلام کا وجود ہوتا ہے، اور اس کے نہ ہونے سے اسلام، حقیقی زندگی سے نکل جاتا ہے؛ اس لیے کہ اسلام کا نفاذ صرف ایک ریاست اور ایک ایسی انتظامی باڈی کے ذریعے ہی ممکن ہے جو مسلمانوں کی جانب سے اپنے اوپر شریعتِ الٰہی کے نفاذ کے سچے ارادے اور شدید خواہش کی ترجمانی کرے، اس کے بعد کہ وہ اسلام کی حلاوت چکھ چکے ہوں، عقدۃ الکبری (سب سے بڑی گرہ) کو کھول چکے ہوں اور اس کائنات میں اپنے مقام اور اس زندگی میں اپنے فریضے کو سمجھ چکے ہوں۔

 

لیکن، کیا اس تنفیذی وجود (عملی سیاسی وحدت) کی عدم موجودگی، جیسا کہ افسوسناک طور پر آج کل مسلمانوں کی صورتحال ہے، مسلمانوں کے درمیان وحدت کی تمام علامات کے خاتمے کا سبب بنتی ہے؟ یا کیا ان پر لازم ہے کہ وہ اس کے کچھ ایسے پہلو پیدا کریں جن کا براہ راست تعلق سیاسی وحدت کے قیام سے ہو؟ کیونکہ سیاسی وحدت (اسلامی خلافت) کا قیام صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب مسلمان فکری اور جذباتی طور پر متحد ہوں تاکہ وہ عملی طور پر اسلام کے نظام کو نافذ کر سکیں۔

 

تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں نے اونچی عمارتیں بنانی شروع کر دیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  «يَا مَعْشَرَ الْعُرَيْبِ، الأَرْضَ الأَرْضَ، إِنَّهُ لاَ إِسْلاَمَ إِلاَّ بِجَمَاعَةٍ، وَلاَ جَمَاعَةَ إِلاَّ بِإِمَارَةٍ، وَلاَ إِمَارَةَ إِلاَّ بِطَاعَةٍ. فَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى الْفِقْهِ كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ كَانَ هَلاَكًا لَهُ وَلَهُمْ» "اے گروہِ عرب! زمین، زمین (یعنی اپنی زمینوں پر توجہ دو اور اسراف سے بچو)،  بے شک جماعت کے بغیر اسلام نہیں، اور امارت کے بغیر جماعت نہیں، اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۔ پس جس شخص کو اس کی قوم نے شریعت کی بنیاد پر سردار بنایا تو وہ اس کے لیے اور ان کے لیے زندگی ہے، اور جس شخص کو اس کی قوم نے شریعت کے علاؤہ کسی اور بنیاد پر سردار بنایا تو وہ اس کے لیے اور ان کے لیے ہلاکت ہے۔ " ( اسے الدارمی نے روایت کیا ہے)۔ اور جس طرح ہر مسلمان پر، سلطان کے خوف کی بجائے تقویٰ کے جذبے کے تحت، اپنی استطاعت کے مطابق ہر حال میں اسلام پر عمل کرنا واجب ہے، خواہ دار الاسلام قائم ہو یا نہ ہو، اسی طرح مسلمانوں پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ تقویٰ کے جذبے کے تحت، اللہ کے احکام و نواہی کی تعمیل کرتے ہوئے  فکری اور جذباتی وحدت حاصل کریں۔

 

فکری وحدت:

 

جہاں تک فکری وحدت کا تعلق ہے، تو یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو کائنات، انسان اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو یکجا کرتی ہے، یعنی وہ عقیدہ جس کی رو سے صرف اللہ تعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ افعال اور اشیاء کے بارے میں مدح و مذمت یعنی ثواب اور سزا کے احکامات جاری کرے، اور انسان کا یہاں صرف یہ کردار ہے کہ وہ اللہ کے کلام کے مفہوم کو سمجھے، یعنی کتاب و سنت میں موجود اللہ کی وحی کو۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ) "اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں، تو ان کے لیے اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔" (سورۃ الاحزاب: آیت 36)

 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ» "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش اس  کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں" (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔ اور اجتہادی نصوص یعنی غیر قطعی نصوص کو سمجھنے میں مجتہدین کا اختلاف اس فکری وحدت کو نہ تو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ ہی اس اختلاف کی بنیاد پر اسے نقصان پہنچانا جائز ہے؛ کیونکہ اسلام نے اجتہاد میں اختلاف کو تسلیم کیا ہے۔ پس جو شخص کسی اختلافی رائے پر تعصب کرے، اور اس کے ساتھ قطعی رائے جیسا معاملہ کرے، تو اس نے فکری وحدت کی مخالفت کی، اور عقلمند اور سمجھدار لوگوں پر لازم ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑیں اور اسے اس سے منع کریں۔ پس احناف، شوافع، مالکی، حنابلہ، ظاہریہ اور دیگر کا وجود اس انداز میں جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے فرقے، گروہ اور مکاتبِ فکر تشکیل دیں جو اپنے مخالف کے علم کی نفی کریں یا ان کی تذلیل اور ان کی شان میں کمی کرنے کی دعوت دیں، یہاں تک کہ ہر گروہ یہ دعویٰ کرے کہ اس نے حق کو پا لیا ہے اور جو اس سے مخالف ہے وہ کسی چیز پر نہیں ہے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا۔ پس مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مجتہد کے لیے اجتہادی مسائل میں دو اجر ہیں اگر وہ عین حق کو پہنچ جائے، اور ایک اجر ہے اگر اس سے خطا ہو جائے۔ لیکن اس دنیا میں یہ جاننے کا کیا راستہ ہے کہ کس نے عین حق کو پایا؟ کوئی راستہ نہیں ہے۔ لہذا  اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن اپنی مخلوق کے درمیان ان باتوں سے متعلق فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور وہی مجتہدین میں سے ان لوگوں کو دو اجر عطا فرمائے گا جو اس کے مستحق ہوں گے، اور ان کو ایک اجر عطا فرمائے گا جو اس کے مستحق ہوں گے، اور اس شخص کو سزا دے گا جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور بغیر علم کے فتویٰ دینے کی جرأت کی۔

 

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: "یہ جو آپ کہہ رہے ہیں، کیا یہ وہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں؟" تو انہوں نے جواب دیا: "مجھے کیا معلوم؟ شاید یہ وہ باطل ہو جس میں کوئی شک نہیں."

 

 

اور اس بنیادی فکر پر سب کا اتفاق ہے کہ ظنی نصوص کو سمجھنے میں اختلاف کا واقع ہونا شرعاً جائز ہے اور یہ اختلاف فکری وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتا، چاہے خلیفہ مسلمانوں کو کسی اختلافی مسئلے میں ایک رائے پر اکٹھا کر دے یا مسلمانوں کو اپنی سمجھ کے مطابق، صحیح اجتہاد اور جائز تقلید کے اصولوں کے تحت، اللہ کی عبادت کرنے دے۔

 

لیکن جب افعال، اشیاء اور افکار کے بارے میں آراء اور احکام شرعی نصوص کی بجائے اپنی خواہش یا کسی غیر اسلامی نظریے کی بنیاد پر، اور اس غیر اسلامی نظریے کے زندگی کے بارے میں خاص نقطہ نظر کی بنیاد پر صادر ہوں، تو جس کسی سے یہ صادر ہو گا وہ اس وحدت سے نکل جائے گا؛ کیونکہ یہ طاغوت سے فیصلہ کروانا ہے اور ہمیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

اس بنا پر: مسلمانوں میں سے جو کوئی ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ وہ صحیح اجتہاد پر مبنی شرعی حکم میں اپنے مخالف کو حقیر جانے، اس کی توہین کرے یا اس پر الزام لگائے تو وہ اسلامی وحدت سے خارج ہو گیا؛ کیونکہ اس نے نبوی ہدایت اور اسلام کے مفاہیم کی مخالفت کی ہے۔

 

اسلامی دائرے (وحدت) میں تمام درست اجتہادات  شامل ہیں اور اس میں کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے۔ علماء نے اس معاملے میں جو سب سے بڑی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ: "میری رائے درست ہے جس میں غلطی کا احتمال ہے، اور میری رائے کے علاوہ دوسری رائے غلط ہے جس میں درستگی کا احتمال ہے۔" اور کتنی شاندار بات ہے جو ان جیسے لوگوں کے بارے میں کسی نے کہی جو اپنے مخالفین کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی رائے ہی سنت ہے: ان کے لیے امام احمد بن حنبل کی مثال ہے جو ان علماء میں سے ہیں جن کی ایک مسئلے میں دو یا شاید اس سے بھی زیادہ آراء ہیں، تو کیا امام اپنی بعض آراء کو ان الزامات سے نوازتے ہیں جو تم اپنے مخالفین پر لگاتے ہو؟ تو کیا امام کی بعض آراء بعض کو فاسق قرار دیتی ہیں اگر تم فاسق قرار دیتے ہو؟ اور کیا امام کی بعض آراء  بعض کو کافر قرار دیتی ہیں اگر تم کافر قرار دیتے ہو؟ یا یہ آراء اس طرف گھوم جاتی ہیں جہاں مضبوط دلائل پائے جائیں؟

 

اور یہاں ایک اہم نکتے کی تاکید ضروری ہے کہ یہ اختلاف، اتباع کے معاملے کو خواہش اور نفسانی پسند پر نہیں چھوڑتا کہ مقلد کسی بھی ایسے حکم کو چن لے جس کی طرف وہ مائل ہو اور جس کی وہ چاہت کرے اور اسے پسند کرتا ہو؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجتہد کی اس بات کی پیروی کرنا جس پر اس کا غالب گمان ہو کہ وہ اللہ کا حکم ہے، اسی طرح فرض ہے جس طرح قطعی حکم فرض ہے، اور مقلد کا اس شرعی حکم کی پیروی کرنا جس کے بارے میں اس کا غالب گمان ہو کہ اس حکمِ شرعی کو اخذ کرنے والا مجتہد سب سے زیادہ عالم اور پرہیزگار ہے، اسی طرح فرض ہے جس طرح قطعی حکم کی پیروی کرنا فرض ہے۔ لہذا معاملہ ایسے نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر کسی شرعی دلیل کے اپنی مرضی سے کوئی رائے چن لے۔

 

بے شک جاہل وہ شخص ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف اخوتِ اسلامی اور اس کے شرعی حقوق کو ختم کر دیتا ہے، اور یہ اختلاف وحدتِ اسلامی کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔

 

بہر کیف، اسلام سے انکار کرنا، چاہے لا شعوری طور پر اندھی تقلید میں ہو یا پورے یقین کے ساتھ شعوری تقلید میں ہو، اور کافر قوموں کے طور طریقوں اور ان کے نظاموں کو اپنانا، یا اسلام کو ان کی مرضی کے مطابق ڈھالنا اور ان کی خواہشات کے مطابق اسلام کی من مانی تاویلیں کرنا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے درمیان فکری وحدت کو ختم کر دیتی ہیں، جیسے کہ سیکولرازم، جمہوریت، یا مادی اشتراکیت اور دیگر کفریہ مذاہب اور عقائد کو اختیار کرنا… اس صورتحال میں ایسے لوگوں سے اللہ کے لیے نفرت رکھنا ضروری ہے اور ان لوگوں پر شفقت کرنا، اور ان پر حجت قائم کرنے کی کوشش کرنا واجب ہے۔

 

جذباتی وحدت:

 

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ، إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ، وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ» "مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر آنکھ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے، اور اگر سر درد کرے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے" (اسے احمد نے روایت کیا ہے)۔

 

جہاں تک جذبات کی وحدت کا تعلق ہے، تو یہ وہ وحدت ہے جس کی کسی بھی حال میں خلاف ورزی جائز نہی۔ پس کسی مسلمان یا مسلمانوں کے کسی گروہ پر آنے والی مصیبت پر عالمی سطح پر تمام مسلمانوں کو غم محسوس کرنا چاہیے۔ لہذا بعض جاہلوں کا کسی جگہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کی خبر سن کر یہ کہنا کہ - اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں - بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور کسی مسلمان یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو ملنے والی خوشی سے، سب کو خوش ہونا چاہیے۔ پس جس نے سنا کہ کسی مسلمان عورت کی عصمت دری کی گئی یا کافروں میں سے کسی درندے کے ہاتھوں اس کی توہین کی گئی تو اس پر لازم ہے کہ وہ غم اور افسوس میں رات بھر نہ سوئے۔ اور جس نے سنا کہ فلاں جگہ پر عورتیں اسلام کی پابندی کی طرف لوٹ رہی ہیں اور جلباب کا اور سر ڈھانپنے کا اہتمام کر رہی ہیں، تو اگرچہ یہ کسی ایسے گروہ کے ذریعے ہو جن سے وہ بعض اجتہادی معاملات میں اختلاف رکھتا ہے، پھر بھی اس پر لازم ہے کہ وہ اتنی شدید خوشی محسوس کرے جتنی اسے اس وقت ہوتی اگر یہ بھلائی اس کے اپنے ہاتھ سے ہوئی ہوتی۔ پس یہ معاملہ طاقت کی نمائش، بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے اور فخر کرنے کا نہیں، کیونکہ یہ عمل کو برباد کرتا ہے اور اجر کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور اپنے بھائیوں پر رشک کرنے اور اس بھلائی میں ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، پس مقابلہ کرنے والوں کو اسی میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور جس نے اللہ پر اپنے اسلام یا اپنے اعمال کا احسان جتایا تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کا دعویٰ تو کیا لیکن ایمان ابھی ان کے دل میں داخل نہیں ہوا۔

 

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.» "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے" (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ: أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ» "تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آو، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔" (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 

یہ وہ اسلام نہیں، جو صرف زبان سے نکلے اور حلق سے نیچے نہ اترے، بلکہ یہ دل میں اترنے والا اسلام ہے جو اللہ کی خاطر اس کے بندوں کے لیے محبت، اور صرف اللہ کی رضا کے لیے جذبات سے لبریز ہو۔ چونکہ انسانی جذبات اُس فکری اساس پر تشکیل پاتے ہیں جسے انسان سچ یا درست سمجھتا ہے، لہٰذا اسلامی فکر کو سمجھنا، ایمان والوں سے محبت، کافروں سے بیزاری، اور گنہگاروں کے اعمال سے نفرت کے جذبات کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ اللہ نے ہمیں مطلق انصاف کا حکم دیا ہے اور ظلم سے منع کیا ہے، چاہے ہمارے اور کسی قوم کے درمیان کوئی دشمنی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے ہمیں حق کو چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کی طرفداری کرنے سے منع کیا ہے۔  دوسرے لفظوں میں، اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہمارے جذبات صحیح اسلامی فکر کی سمجھ اور اس پر عمل کے نتیجے میں جنم لیں، نہ کہ محض جبلتی میلان اور محرکات کے نتیجے میں۔

 

مثال کے طور پر، اگر میرے والد کسی پڑوسی کے خلاف ناحق موقف اختیار کریں، تو کیا اپنے باپ سے فطری محبت، مجھے ان کے باطل موقف کی تائید پر مجبور کر دے گی؟

 

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا» "تم اندھے پیروکار نہ بنو (کہ لوگوں کے پیچھے چلتے رہو) — اور یہ نہ کہو کہ اگر وہ نیکی کریں تو ہم بھی نیکی کریں گے، اور اگر وہ ظلم کریں تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ بلکہ اپنے اصولوں کو مضبوط کرو: اگر لوگ اچھائی کریں تو تم بھی نیکی کرتے رہو، اور اگر وہ برائی کریں تو تم ظلم کی راہ اختیار نہ کرو" (امام ابو موسی ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)۔ 

 

(سوال:) کیا (مثلاً کافر سپاہی کی طرف سے) قیدیوں کو محض کھانا کھلانا، نہ کہ احسان کرنا، وہ بھی کچھ کو سب کو نہیں، مجھے اپنی بنیادی دشمنی بھلا دے گا اور میں اس سے محبت کرنے لگوں گا؟ 

 

(جواب:) جی، بالکل! اگر انسان کا نقطہ نظر اور واقعات کو پرکھنے کا معیار غلط ہو، تو یہ خودبخود اُس کے جذبات اور نفسیات میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ یہی بگاڑ آخرکار اعمال کو بھی خراب کر دیتا ہے، سوائے اس کے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر اِنہیں منظم کیا جائے۔ 

 

پس حق پر قائم مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقیقت کے بارے میں فیصلے صادر کرتے وقت گہرائی سے غور وفکر کرے اور اپنی خواہشات سے دور رہے۔ اس کی علامت اس کا جذبات پر اثر انداز ہونا ہے۔ پس اگر جذبات ان باتوں کے مطابق ہوں جن کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکم دیا ہے، یعنی مسلمانوں سے محبت رکھنا اگرچہ وہ بعض گناہوں کا ارتکاب کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں، اور ان پر شفقت کرنا اور ان کی ہدایت کی حرص رکھنا کیونکہ یہاں نفرت ان کے اعمال سے ہے نہ کہ ان کی ذات سے، پس اگر کوئی معاملہ شریعتِ الٰہی کے مطابق پایا جائے تو بے دھڑک عمل کرا چاہیئے، جیسے ایک جلاد زنا کرنے والے پر اللہ کے حکم کی تعمیل میں حد جاری کرنے کے لیے اقدام کرتا ہے، نہ کہ انتقام کی خواہش یا دل کی سختی کی وجہ سے۔ تو یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ رحم مطلوب ہے، کیونکہ اس حالت میں جذبات، اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ سزا نافذ کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کی اصلاح کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ اور یہاں شفقت اور نرمی کے جذبات شیطان کے وسوسوں میں سے ہیں۔ بلکہ مخلص گناہگار خود بھی اپنے اوپر سزا کے نفاذ پر خوش و خرم ہوتا ہے، جیسا کہ ماعز رضی اللہ عنہ اور غامدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوا۔ کیونکہ دنیا میں سزا کا نفاذ، سچی توبہ کرنے والے کر لیے، آخرت کی سزا کا کفارہ بن جاتا ہے۔

 

پس اسلامی جذبات مبہم اور بے لگام نہیں ہوتے، بلکہ خود شریعت نے ہمیں انہیں منظم کا طریقہ بتایا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ ہم شیطان کے نقش قدم پر چلتے رہیں اور یہ گمان کرتے رہیں کہ ہم کوئی اچھا کام کر رہے ہیں۔

 

رہی وہ جماعتیں جو اسلام کے واضح تصورات سے شرماتی ہیں، اُنہیں گدلا کرتی ہیں یا قطعی احکامات کے برخلاف انہیں کمزور، تبدیل یا تحریف کر دیتی ہیں اور بین الاقوامی قوانین نامی پر چیز سے احکامات گھڑتی ہیں — تو ایسے گروہوں سے اللہ کی خاطر بیزاری لازم ہے۔ البتہ اُنہیں آگ سے بچانے کے لیے ہر ممکن مؤثر ذرائع اختیار کرنا ہمارا فرض ہے، کیونکہ ایک مسلمان کا پرجوش جذبہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی کی طرف لایا جائے۔ پس ایسے شکست خوردہ لوگ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں اپنے سچے دین کی طرف اور اللہ کے قانون کے نفاذ کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جائے۔

 

جس طرح درآمد شدہ فکر اور حل کو انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح مسلمانوں کے جذبات کو بھی ایک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ داعیانِ حق پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات میں جدت پیدا کریں کہ معاشرے میں یہ انقلاب کیسے برپا کیا جائے۔

 

اس کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ لوگوں کی بھلائی اور ہدایت کی خواہش دل میں ہو — نہ کہ بات چیت میں اُنہیں زبانی کوڑے مارنا یا راحت اور سلامتی کی تلاش میں ان سے کنارہ کشی اختیار کرنا۔ 

 

امتِ مسلمہ اپنے افکار اور جذبات میں ایک اکائی ہے۔ اس کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے اس کے نظام متحد نہ ہو جائیں اور اللہ کے فضل سے اس کا وقت قریب ہی ہے۔ 

 

(محل سلوان)

 

Last modified onہفتہ, 29 مارچ 2025 05:55

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.