Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

گمراہ کن  شناخت کی خاطر جنگ

 

 

خبر:

 

بلوچستان میں بغاوت تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود پاکستان کی تاریخ۔ اس کا آغاز 1948 میں ہوا، جب اس خطے کو متنازع طور پر – بعض کے نزدیک زبردستی – پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔ بعد ازاں، 1958، 1962 اور 1973 میں بھی قبائلی قیادت میں پرتشدد علیحدگی پسند تحریکیں اٹھتی رہیں۔ (دی گارڈین)

 

 

تبصرہ:

 

برطانوی استعماری دور کے خاتمے کے بعد دنیا کے نقشے پر نئی قومیں اور ممالک ابھرے، جو آزادی کا جشن منا رہے تھے، لیکن جلد ہی وہ خود اپنے زیرِ اثر قومیتوں اور نسلی گروہوں کے لیے نئے استعماری آقا بن گئے۔ انہوں نے وہی عنصر مسلط کرنا شروع کر دیا جس کے خلاف وہ خود لڑنے کے دعویدار تھے – یعنی ریاست کی جانب سے دی گئی شناخت کو قبول کرنے کا جبر، جو حکومتی مشینری کے مفاد پر مبنی تھی۔ بلوچستان نے یہ سب کچھ برطانوی راج کے دوران بھی دیکھا تھا، اور پاکستان کا حصہ بننے کے بعد بھی اس کے ساتھ زیادہ مختلف سلوک نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شمولیت کے ابتدائی تیس سالوں میں، 1977 تک، بلوچستان تین فوجی آپریشنز کا سامنا کر چکا تھا۔

 

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد بلوچستان کے مستقبل سے متعلق تنازعات نے وہاں بغاوت کے پہلے شعلے کو بھڑکایا۔ 1950 کی دہائی میں قدرتی وسائل کی دریافت نے پاکستان مخالف جذبات کو مزید بڑھاوا دیا۔ 1952 میں سوئی میں بڑے پیمانے پر ہائیڈرو کاربن ذخائر کی موجودگی کا انکشاف ہوا، جس کے بعد بلوچستان میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔ اس دریافت نے بلوچستان کو اسٹریٹیجک لحاظ سے بے حد اہم بنا دیا، لیکن پاکستان میں اس کی سیاسی حیثیت بدستور نظر انداز کی جاتی رہی۔ حکومت کی توجہ صرف وسائل نکالنے اور انہیں ملک کے دیگر حصوں تک پہنچانے پر مرکوز رہی، جبکہ بلوچ آبادی کو ترقیاتی عمل سے دور رکھا گیا۔ بلوچستان کے مقامی لوگوں کے لیے یہ صورتحال برطانوی راج سے مختلف نہ تھی، اور مزاحمت کرنا ہی ان کا واحد جواب تھا۔

 

انہوں نے پاکستان کی حکومت کے خلاف ویسے ہی مزاحمت کی جیسے برطانوی راج کے خلاف کی تھی۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی نے بھی ان خدشات میں مزید اضافہ کیا۔

 

برطانوی دور میں کوئٹہ کو ایک اہم فوجی چوکی کے طور پر قائم کیا گیا تاکہ اس خطے پر قابو رکھا جا سکے۔ برطانوی استحصالی پالیسی، جس میں کوئلہ، تانبا اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسائل کا بے دریغ استعمال شامل تھا، مقامی قیادت کے اختیارات کو کمزور کرنے کا باعث بنی، جس نے مقامی آبادی میں غم و غصے اور بغاوت کو جنم دیا۔ بلوچ عوام نے اپنی زمین سے وسائل کی کھدائی، نکاسی اور ان کی ریلوے کے ذریعے منتقلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، جبکہ اسے بلوچستان میں ترقی کے نام پر پیش کیا گیا۔ 1887 میں کوئٹہ-چمن ریلوے مکمل کی گئی، جس نے بلوچستان کو برصغیر کے وسیع ریلوے نیٹ ورک سے جوڑ دیا، جس سے مال اور فوجی اہلکاروں کی نقل و حرکت میں آسانی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں بھی متعارف کروائی گئیں۔ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جنہوں نے صرف ایک محدود طبقے کو تعلیم فراہم کی تاکہ ایک ایسا مقامی اشرافیہ پیدا کیا جا سکے جو برطانوی حکمرانی میں ان کے معاون بنے۔ اسی طرح، روایتی قبائلی عدالتی نظام کو ختم کر کے ایک نیا قانونی نظام متعارف کرایا گیا، جس نے مزید کشیدگی کو جنم دیا۔

 

پاکستان کی مختلف حکومتوں نے بلوچستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے برطانوی حکمتِ عملی آزمانے کی کوشش کی، لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ واحد وقت جب صورتحال کسی حد تک قابو میں آئی، وہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، کیونکہ ان کے لیے داخلی انتشار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے بلوچ قوم پرستوں کو کچھ معمولی حقوق دیے اور عارضی طور پر حالات کو سنبھال لیا، مگر یہ صرف محدود مدت کے لیے تھا۔

 

بلوچستان، پاکستان کے دیگر علاقوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے سبق یہ ہے کہ وقتی اور سطحی حل اصل مسئلے کو مزید طول دے سکتے ہیں اور مستقبل میں پرویز مشرف جیسے ضدی اور سخت چیلنجز کو جنم دے سکتے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ فوجی اور سول حکومت اسی پالیسی کو دہرا رہی ہے۔ جیسا کہ معروف بلوچ کارکن مہرنگ بلوچ نے کہا: "جو بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے، بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ماورائے عدالت قتل جاری رہتے ہیں۔ قیادت کے لیے یہ کبھی واقعی کوئی مسئلہ نہیں رہا"۔ دوسری جانب، جو لوگ بلوچ قوم پرستی کی بنیاد پر مزاحمت کی راہ پر گامزن ہیں، انہیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی جنگ کسی وردی یا فوج سے نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ انہیں محض گوریلا جنگ تک محدود کر دیتی ہے، جہاں وہ نسل در نسل مرتے اور مارتے رہیں گے۔ ان کی جنگ ان دشمنوں کے خلاف ہونی چاہیے جو اللہ کے دشمن ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے جنگجو شاید وہ لوگ ہوں جن کے حقوق سلب کیے گئے یا جنہوں نے اس جنگ میں اپنے پیارے کھو دیے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچائیں اور اپنے ذاتی انتقام کی آگ میں جلتے رہیں۔ اسلام لڑائی اور مزاحمت کے اصولوں کو واضح کرتا ہے، مگر یہاں نہ تو پاکستان کی فوج اور نہ ہی BLA ان اصولوں پر عمل کر رہی ہے۔

 

یہ امت کا حقیقی درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور جس کا جسم اس کی اطاعت میں جھکا ہو۔ مسلمانوں کو دنیا میں جو واحد شناخت متحد کر سکتی ہے، وہ ان کا دین ہے، اور صرف ایک اسلامی ریاست ہی امت کے وسائل کو عوام کی ضروریات کے مطابق استعمال کرے گی۔ زبان، رنگ اور نسل کی اسلام کے مرکزی نظام میں کوئی حیثیت نہیں۔ تیرہ سو سالہ اسلامی حکمرانی میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات ضرور ہوئے، مگر انہوں نے اللہ کے نازل کردہ حکم پر اختلاف کی جرأت نہیں کی۔ لیکن پچھلی ایک صدی میں جب سے مسلمانوں نے اپنی مرکزی خلافت کو کھو دیا، وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے، اور ان ٹکڑوں کو مزید تقسیم کر دیا گیا۔ آج یہ حقیقت بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امت کا کوئی بھی حصہ، چاہے کتنی ہی کوشش کر لے، تنہا استعماری تسلط کا سامنا نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کی بقا صرف خلافت کے سائے تلے وحدت حاصل کرنے میں ہے۔

 

اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:

 

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ"  [آل عمران: 103]۔

اخلاق جہاں کی طرف سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

 

Last modified onجمعہ, 04 اپریل 2025 17:23

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.