Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سویدا کے خونی واقعات سے ثابت ہونے والے سیاسی اور نظریاتی حقائق

 

(ترجمہ)

 

الأستاذ ناصر شيخ عبد الحي *

 

16 جولائی 2025 کو ایک چونکا دینے والے اور حیران کن انداز میں، شام کی وزارت دفاع نے حکومت اور دروز کے عمائدین کے درمیان ایک معاہدے اور عبوری دور کے شامی صدر، احمد الشرع کے اس اعلان کے بعد کہ مقامی دھڑے اور دروز کے عمائدین سیکورٹی کے ذمہ دار ہوں گے، سویدا شہر سے شامی فوج کے انخلاء کے آغاز کا اعلان کیا۔ یہ اعلان پرتشدد اور خونریز جھڑپوں کے بعد ہوا جس میں ہمارے سینکڑوں بھائی شہید ہو گئے۔ یہ اعلان گورنریٹ سے سرکاری افواج کے انخلاء کے امریکی مطالبے کے بعد اور یہودی وجود کے طیاروں کی جانب سے دمشق پر پرتشدد حملوں کا سلسلے کے بعد سامنے آیا جس میں جنرل اسٹاف کی عمارت، وزارت دفاع اور صدارتی محل کے آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ دمشق، درعا اور سویدا کے دیہی علاقوں کو پچھلی بمباری میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوئے تھے۔ اس انخلاء کے بعد انتقام کی گندی اور شرمناک حرکتیں شروع ہوئیں، جس نے سویدا میں ہمارے بدوؤں کے خون اور عزت کو پامال کیا۔ اس میں اغوا، قتل، تشدد، اور سڑکوں پر کاروں میں گھسیٹنا جیسے شامل ہیں۔ یہ سب یہودی حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر اور دروز رہنما حکمت الہجری کی شہ پر ہوا جو جرائم کی علامت بن چکا ہے، ریاست کے خلاف اکساتا ہے، علیحدگی کا مطالبہ کرتا ہے، اور بین الاقوامی تحفظ اور خود مختاری کے مطالبات کرتا ہے۔

 

اس دل خراش منظر اور اس کی تفصیلات کے بیچ، امتِ مسلمہ کے غیرتمند اور مخلص افراد کی حمیت کو پکارتی ہوئیں فریاد و مدد کی صدائیں بلند ہوئیں، اور یکایک ہمارے سامنے ایک ہیبت ناک منظر ابھرا جب امتِ مسلمہ کے بیٹے اور اس کی قبائل کے قافلے، سورج کو چھپا دینے والی تعداد میں، ان صداؤں پر لبیک کہتے ہوئے امڈ آئے؛ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک، بلکہ یہ منظر استعماری قوتوں کی کھینچی ہوئی سائیکس-پیکو کی جعلی سرحدوں بھی تجاوز کر گیا۔ عراق کے عوام کی غیرت نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آئی، اسی طرح اردن، سعودی عرب اور دیگر مقامات کے لوگ بھی بھرپور انداز میں شریک ہوئے۔ پھر ان ملیشیاؤں کو، جو یہود کی پشت پناہی پر اِترا رہی تھیں، سخت اور کاری ضربیں لگیں، اور وہ قبائل کے بیٹوں اور امت کے نوجوانوں کے حملوں کے آگے لڑکھڑاتے ہوئے زمین بوس ہونے لگیں۔ جیسا کہ توقع کی گئی تھی، امریکہ، مغرب اور یہودیوں کی آوازیں اٹھیں کہ تنازعہ کے حل کے لیے شامی انتظامیہ کی مداخلت کا مطالبہ کیا جائے۔ اس کے بعد امریکی دباؤ اور یہودیوں کے مطالبات کے جواب میں ایک نیا ذلت آمیز معاہدہ کیا گیا! شام کی وزارت داخلہ نے جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے شامی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد سویدا شہر میں جھڑپوں کے خاتمے اور علاقے سے قبائلی جنگجوؤں کے انخلا کا اعلان کیا۔ دریں اثنا، حکمت الہجری نے ریاست پر توہین آمیز شرائط عائد کرنا شروع کیں، مثلاً یہ کہ صوبے کی انتظامی حدود پر محض عمومی سیکیورٹی ہو گی، یعنی ریاست کا اختیار صرف سرحد کی حفاظت تک محدود ہو گا! پھر، امدادی سامان کے قبول و انکار پر اس کا کنٹرول ہو گا، اور ریاستی وزراء کا استقبال مکمل طور پر بند کیا جائے گا۔ یعنی نہ صرف حکومت، بلکہ اس کے نمائندوں کو بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا! اس کے علاوہ، اس نے اردن کے ساتھ ایک گزرگاہ کھولنے اور بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی پیش کیا!

 

اس سے پہلے کہ مجاہدینِ آزادی اپنی جدوجہد کو مکمل کر پاتے اور یہود کے ایجنٹوں اور ان کے مسلح گروہوں کو نیست و نابود کر دیتے جنہوں نے ہمارے بچوں کو قتل کیا، ہمارے لوگوں کی حرمت پر حملے کیے، اور ہمارے مجاہدوں کے جسموں کو زندہ حالت میں چیر پھاڑ کر رکھ دیا، موجودہ انتظامیہ نے محض امریکہ کے احکامات اور یہود کے مطالبات کی تعمیل میں السویداء کے اندر معرکہ بندی پر اصرار کیا، جس کے نتیجے میں عوامی اور قبائلی سطح پر شدید ناراضگی بلکہ طوفانی غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی۔

 

اور انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ جنگ بندی کے نفاذ کے لیے شدید دباؤ ڈالا، اور چوکیاں قائم کیں تاکہ مجاہدین تک گولہ بارود نہ پہنچ سکے اور ان کے لیے کسی بھی کمک یا امداد کی راہ مسدود ہو جائے۔ اس پر مستزاد، انقلابیوں سے اسلحہ چھین لیا گیا اور ان پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ اس سب کے باوجود، شہر میں بڑی تعداد میں مجاہدین تاحال موجود ہیں، جو انخلاء سے انکار کر رہے ہیں اور پختہ عزم کے ساتھ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جنگ جاری رکھیں گے، یہاں تک کہ یہود کے گماشتوں پر مشتمل ان مسلح گروہوں کا صفایا کر دیں۔ علاوہ ازیں، ایک اور بڑی تعداد انقلابیوں کی ایسی ہے جنہیں سیکیورٹی فورسز نے مسلسل دباؤ، گولہ بارود سے محرومی، اور امداد کی بندش کے ذریعے زبردستی السویداء چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

 

مندرجہ بالا تمام واقعات، حقائق اور حالات کے تناظر میں، درج ذیل امور پر زور دینا ناگزیر ہے:

 

اول: اہل شام بشمول قبائل نے ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی سچائی، شجاعت، بہادری اور میدان جنگ کے لوگ ہیں، اور یہ کہ وہ بہترین مرد، بہترین محافظ، اور ان لوگوں کے لیے بہترین معاون ہیں جو ان کا حق پہچانیں، ان کا مقام تسلیم کریں، اور انہیں ان کے شایانِ شان مرتبے پر فائز کریں۔

 

دوسرا: قبائلی تحریک نے ایک گہری نظریاتی اور سیاسی سچائی کی تصدیق کی، کہ ہم تمام لوگوں سے جدا ایک امت ہیں۔ ہاں، اس نے امت کی طاقت کی تصدیق کی ہے اور حکومتوں کی کھوکھلاہٹ کو بے نقاب کیا ہے۔ اسی طرح، اس واقعے پر امت کا جوشیلہ ردِعمل اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام اس کے دل میں رچا بسا ہے، اور اس کی وحدت، صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہی ممکن ہے جو اس کی دھڑکن ہے اور اس منظر کا پیش خیمہ ہے کہ کافر استعمار کے گناہ گار ہاتھوں سے کھینچی ہوئی تصوراتی سرحدوں کو توڑنے کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ اس مبارک تحریک نے امت کے نوجوانوں کے دلوں میں انقلاب اور جہاد کے جذبے کو زندہ کیا اور یہودیوں کے لیے نفرت کو پروان چڑھایا، اور اُس وعدہ شدہ معرکے کی قربت کی یاد دھانی کروائی جس کی بشارت "حدیثِ غرقد" میں دی گئی ہے۔

 

تیسرا: کسی بھی ریاست کی حقیقی طاقت اور باگ ڈور سنبھالنے والی کسی بھی مخلص قیادت کا حقیقی سہارا اللہ پر توکل کے بعد، امت اور اس کی عوامی حمایت ہوتی ہے؛ وہ حمایت جو انسانی و مادی وسائل سے مالا مال ہو، جسے سیاسی شعور حاصل ہو، اور جو انقلابی و جہادی جذبے سے سرشار ہو۔ پچھلے 14 برسوں میں انقلاب کے لیے اس حمایت کا کردار سب کو معلوم ہے۔ لہٰذا، صرف وہی قائد، جو مخلص اور دانا ہو، اس عوامی قوت کو عزت دے گا اور اس کا مقام بلند کرے گا۔ اور جو شخص اس پشتیبانی سے منہ موڑے، اور دشمنوں کی خوشنودی کے لیے اس کا انکار کرے—تو وہ جاہل ہے، اور اپنے ہی جہل کے ہاتھوں ہلاکت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

 

چوتھا: سویداء میں جو غدار ٹولیاں سرگرم ہیں، اور ان کا وہ سردار جو یہودیوں کی حمایت سے پھولا نہیں سما رہا—ان لوگوں کا نہ کوئی عہد ہے، نہ کوئی پیمان۔ انہوں نے ہمارے اہلِ وطن کے خلاف کوئی جرم ایسا نہیں چھوڑا جو نہ کیا ہو، اور کوئی گناہ ایسا نہیں جس میں وہ لتھڑے نہ ہوں، وہ بھی دنیا کی آنکھوں کے سامنے، اس دنیا کے جو یا تو خاموش تماشائی ہے یا کھلی سازش میں شریک ہے۔ ان غداروں کو کسی بھی بہانے یا جواز کے تحت خوش کرنا، انعام دینا، اور ان کی مجرمانہ آماجگاہوں پر ان کی عمل داری تسلیم کرنا، بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے۔ دروز کے معاملے میں جو نرم اور لاپرواہ طرزِ عمل اختیار کیا گیا، اس نے نئی انتظامیہ کی ساکھ کو شدید طور پر مشکوک بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کے نمائندوں کو نکال باہر کیا گیا، بین الاقوامی تحفظ کی بھیک مانگی گئی، اور یہودی وجود سے رابطہ کیا گیا—جو کہ ایک کھلی غداری ہے۔

 

پانچواں: ہمارے دشمن یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ہم کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ وہ پوری شدت سے ہمیں کمزور کرنے، ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے، اور ہماری سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹنے پر تُلے ہوئے ہیں، تاکہ ہم ہمیشہ اُن کے تابع رہیں، ذلیل و خوار رہیں، اور اُن کے سہارے کے بغیر کبھی کھڑے نہ ہو سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جنوبی شام مکمل طور پر فوج اور اس کے اسلحے سے خالی رہے، تاکہ یہودی وجود کو سکون نصیب ہو۔ وہی یہودی وجود جس کی کمزوری اور کھوکھلا پن غزہ کے جانبازوں نے اپنی قلیل، مگر بابرکت، تیاری سے دنیا پر آشکار کر دیا۔

 

چھٹا: ہمیں اس حقیقت پر کامل یقین ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی طاقتوں کے دباؤ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا، اور امریکی وعدوں پر بھروسہ کرنا، ہمیں دنیا و آخرت کی کھلی بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اللہ پر بھروسہ کرنے، اُس کے دین کو مضبوطی سے تھامنے، اور اس کے مخلص بندوں سے قوت حاصل کرنے کی بجائے پریشان حال قیادت کا فیصلہ کن اقدامات نہ کرنا، سختی سے نہ نمٹنا، یہودیوں سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے جلد بازی کرنا اور مشرق و مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کرنا اور عزت ان کے دروازوں پر تلاش کرنا، یہ سب کچھ اہلِ انقلاب اور اُن کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال کے مترادف ہے۔ یہ طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ یہ قیادت ایک نہایت خطرناک راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔ اللہ کی شریعت کے نفاذ سے منہ موڑنا، اُسے اللہ کی نصرت سے محروم کر دے گا۔ وہی نصرت جس نے ہمیں دمشق کی فتوحات تک پہنچایا تھا۔ اور اُنہی غلطیوں کا بار بار دہرانا، نہ صرف انقلاب کی ہیبت کو کمزور کر دے گا بلکہ اُن عظیم کامیابیوں کو بھی ضائع کر دے گا، جن کی قیمت مجاہدین نے اپنے خون سے چکائی ہے۔ ہم اس قیادت کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی یاد دلاتے ہیں:

 

﴿وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ﴾

"اور ظلم کرنے والوں کی طرف نہ جھکنا، ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی، اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی سرپرست نہ ہو گا، پھر تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی۔"(سورۃ ہود: آیت 113)

 

ساتواں: ہمارے عقیدے نے ہمارے لیے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ غاصب یہودی وجود کے ساتھ ہمارا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ وہ یہودی وجود جو ہماری سرزمین پر قابض ہے، ہمارے مقدسات کو پامال کر رہا ہے، اور ہمارے اہلِ غزہ و فلسطین پر بدترین مظالم ڈھا رہا ہے۔ اس سے تعلق صرف جنگ اور وجودی معرکے کا ہے، ایک ایسی جنگ جس کا آنا یقینی ہے، ایک ایسا ٹکراؤ جس سے فرار ممکن نہیں۔ اور اس میں تاخیر کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم اپنی جانوں، صلاحیتوں اور وسائل کا مزید ضیاع برداشت کریں۔

 

لہٰذا ہمیں اس معرکے کے لیے پوری تیاری کرنی چاہیے، اور اپنی تمام تر قوت، عزم اور وسائل کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔ ہذا، یہ ہرگز جائز نہیں کہ ہم یہودیوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کریں، یا ایسے کسی بھی معاہدے میں شریک ہوں جو یہود کی بالادستی کو تسلیم کرے چاہے ایک بالشت زمین پر ہی کیوں نہ ہو۔

 

آخر میں، فتح حاصل کرنے کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ ہم بغیر کسی تردد یا تاخیر کے اللہ کی شریعت کو حقیقی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کریں، صرف اللہ کی خوشنودی اور مدد حاصل کرنے کے لیے، نہ کہ امریکہ یا کسی اور کی۔ اس کے بغیر ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے، نہ ہمارے وطن میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے، اور نہ ہی مکمل خودمختاری ممکن ہے۔ ہمیں انقلاب کے حمایتی اور اس کے دیانتدار بیٹوں پر بھروسہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ بحرانوں اور مشکلات کے وقت اللہ تعالی کے بعد، ہمارا حقیقی سہارا ہیں۔

 

﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾

 

"اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اُس کے لیے کافی ہے۔ بے شک اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ یقیناً اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔"(سورۃ الطلاق: آیت 3)

 

 

ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

Last modified onاتوار, 27 جولائی 2025 17:32

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.