Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

استنبول اعلامیہ اور سابقہ فتووں میں بہت بڑا فرق!

 

https://www.alraiah.net/index.php/home/item/9757-between-the-istanbul-declaration-and-the-fatwas-of-scholars

 

(ترجمہ)

 

طیب اردوغان کی میزبانی میں استنبول میں چھ دن تک جاری رہنے والی کانفرنس کے اختتام پر علماء نے ایک اختتامی اعلامیہ جاری کیا، اور یاد رہے کہ اس کانفرنس کو انہوں نے "غزہ ایک اسلامی اور انسانی ذمہ داری ہے" کے نام سے منعقد کیا تھا۔ انہوں نے اس کانفرنس کا آغاز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں تیاری اور جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں قرآنی آیات سے کیا، تاکہ جو بھی اسے پڑھے وہ یہ تاثر لے کہ اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ ایک عملی پروگرام ہوگا کہ کس طرح فوری طور پر ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جو نہ صرف غزہ کو نجات دلائے گا بلکہ فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو بھی آزاد کروائے گا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ جاری کردہ فیصلے، سفارشات اور کالیں گویا عالمی نظام کی زبان میں لکھی گئی تھیں، جو کہ عالمی قانون کی عین پاسداری میں امریکہ اور مغرب کی وفادار حکومتوں کے اظہار خیال کی بازگشت کرتی نظر آئیں۔ غزہ کی امداد میں ناکامی اور ملی بھگت کے بعد اور اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے سے امت کو ہر طرح سے روکے رکھنے کی کوششوں کے بعد، اس کانفرنس کو حکمرانوں کی رسوائی کو دھونے کی ایک مایوس کن کوشش کے طور پر ہی بیان کیا جا سکتا ہے، جن میں سرِ فہرست اردگان ہے۔

 

جب ہم کہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ کون سی چیز زیادہ خطرناک ہے، ہم ان علماء پر بہتان نہیں لگاتے: استنبول اعلامیہ میں جو کچھ شامل کیا گیا، یا وہ جو چھوڑ دیا گیا ہے! اس بات کو واضح کرنے کے لئے اور موازنہ کے طور پر، ہم یہاں استنبول اعلامیہ اور سابقہ فتویٰ کے درمیان ایک سادہ سا تضاد پیش کرتے ہیں جو خاص طور پر الاقصیٰ فلڈ آپریشن کے بعد سے پچھلے دو سالوں میں جاری کئے گئے تھے۔ ہم ان کو تسلیم شدہ اداروں اور علماء کی طرف سے جاری کردہ "سابقہ فتوے" کا حوالہ دیں گے، جن کی تاریخیں اور دستاویزات موجود ہیں، اور عوامی طور پر شائع اور قابلِ تصدیق ہیں۔ اور یہ ایک منصفانہ موازنہ ہوگا۔ ایک طرف ان علماء کرام کا دستخط شدہ استنبول اعلامیہ اور دوسری طرف علماء کرام کی جانب سے جاری کئے گئے سابقہ فتوے لیکن ان کے موقف اور اقدامات بالکل مختلف تھے۔

 

جہاں تک سابقہ فتووں کا تعلق ہے کہ وہ خود علماء کی طرف سے جاری کیے گئے ہوں یا غزہ کے لوگوں اور اس کے مجاہدین کی کالوں اور التجا کے جواب میں، جنہوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور اس کے علماء سے اپیل کی تھی کہ وہ مکمل آزادی کی جنگ کے طور پر الاقصیٰ فلڈ آپریشن میں شامل ہونے کی اپیل کریں، تو ان فتووں کی بنیاد قرآن مجید اور اللہ کے رسول ﷺ کی سنت پر رکھی گئی تھی۔ انہوں نے فلسطین کو مکمل طور پر آزاد کرانے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لئے افواج کو متحرک کرنے کی شرعی ذمہ داری مقرر کی۔ انہوں نے اس شرعی فریضہ کو پوری امت پر واجب قرار دیا اور افواج پر ترجیحاً اسے سب سے بڑا فرض قرار دیا ہے، کیونکہ ان افواج کے پاس ہی اسلحہ اور طاقت ہے اور ان کی صفوں میں باقاعدہ تربیت یافتہ جنگجو سپاہی موجود ہیں۔ ان فتووں میں فوجیوں کے لئے شرعی ذمہ داری سے اجتناب کرنے کی صورت میں اپنے کمانڈروں کی اطاعت کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ کچھ علماء نے یہاں تک کہا کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت واجب ہے، کیونکہ کفار کے ساتھ ان حکمرانوں کا تعاون اور غفلت ثابت شدہ ہے، نیز ان حکمرانوں کی طرف سے امت کو غزہ کی مدد کرنے اور فلسطین کو آزاد کرانے سے روکنا بھی شامل ہے۔

 

فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ حکمرانوں کی غداری اور غفلت دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور اس سے اس کی اطاعت اور براٗۃ کا تعلق بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ علماء کرام نے امت پر زور دیا کہا کہ وہ طاقت کے زور پر رکاوٹیں کو ہٹائیں اور غزہ کی مدد کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور حکمرانوں کی اجازت کا انتظار نہ کریں۔ یہ جانتے ہوئے کہ حکمران اپنی تمام تر غداریوں کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے، انہوں نے اس بات کی توثیق کی کہ حکمرانوں سے ان کی اپیل صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے حجت تمام کرنے کے طور پر ہے۔

 

مزید برآں، ان فتویٰ میں ایسے کلماتِ حق شامل تھے جن سے اہلِ ایمان کے دل لرز گئے، مثال کے طور پر یہ کہ امت اور اس کے علمائے کرام قیامت کے دن غزہ کے لوگوں، مجاہدین اور محاذ جنگ میں تعینات جوانوں کے دشمن کے طور پر اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہونے کے متحمل نہیں ہوں گے، اور یہ کہ ایسے موقف کے مقابلے میں موت انہیں زیادہ محبوب ہوگی۔

 

مختصراً یہ کہ سابقہ فتویٰ پر مبنی اقدامات امت کو اپنی زنجیریں توڑنے، اپنے حکمرانوں کو ہٹانے، اپنی طاقت اور افواج پر دوبارہ اختیار حاصل کرنے اور حکومتوں اور ان کے ایجنٹوں کے باوجود فلسطین کی مکمل آزادی تک اپنے رب کی طرف سے عائد شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے مارچ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

 

تاہم حالیہ استنبول اعلامیہ میں ان میں سے کوئی بھی کال شامل نہیں تھی۔ اس میں نہ تو افواج کو متحرک کرنے کا مطالبہ کیا گیا، نہ مارچ کرنے کا مطالبہ کیا، نہ حکمرانوں کی جانب سے امت کو ڈالی گئی زنجیریں توڑنے کے لئے کہا گیا، اور یہاں تک کہ فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے بھی کچھ نہیں کہا گیا! اس کے بجائے، اس اعلامیہ نے اردوغان کی اسلامی اتحاد کی تشکیل کے مطالبات کو اپنایا جسے "انسان ہمدردی" قرار دیا گیا ہے جس کا بیان کردہ مقصد "جارحیت کو روکنا اور مجرموں کے خلاف مقدمہ چلانا" ہے۔ اس اعلامیے میں، جس کا آغاز "بین الاقوامی خاموشی اور علاقائی ملی بھگت" کے ذکر کے ساتھ ہوا تھا، ان مجرم ریاستوں اور بین الاقوامی کرداروں کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کیا گیا تھا، اور ان پر دباؤ ڈالنے پر زور دیا گیا تھا کہ وہ یہ مؤقف اختیار کریں۔ اس اعلامیہ نے انسانی حقوق کے گروپوں اور ایوانوں کے عالمی اتحاد کا مطالبہ کیا، پوپ کی سربراہی میں عیسائی اداروں، اور یہاں تک کہ یہودی اداروں سے بھی اپیل کی کہ وہ "غزہ کو بچائیں"! اس اعلامیہ نے مسلمانوں سے لڑنے اور ان کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے شرعی قوانین اور اس کے شرعی احکام کو لاگو کرنے کے بجائے بین الاقوامی عدالت انصاف اور عالمی فوجداری عدالت کے فیصلوں کو فعال بنانے کا مطالبہ کیا۔

 

جہاں تک خود مسلمانوں کا تعلق ہے، استنبول اعلامیہ نے ان کی ذمہ داری کو فنڈز عطیہ کرنے اور اگلے سال کی زکوٰۃ کا نصف حصہ غزہ کی مدد کے لئے مختص کرنے اور جنگ کے بعد اس کی تعمیر نو تک محدود کر دیا تھا۔ محاصرے کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے، اس اعلامیے میں فوجی بیڑے اور فوجوں کو بھیجنے کے بجائے، سویلین جہازوں کے "فریڈم فلوٹیلا" کی حمایت کرنے سمیت اپنی کال کو "میسر ذرائع" تک محدود کر دیا۔

 

اس اعلامیے میں اسلامی شریعت کے قانون کو بین الاقوامی قانون کے ساتھ ایک حوالے کے طور پر بھی تشبیہ دی گئی ہے، جس میں اس  مہلک ناسور کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے یہودی وجود سے صرف تعلقات ہی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے نے "گریٹر اسرائیل" کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری خصوصی طور پر "ٹارگٹ اسٹیٹ" کو دے کر قوم پرستی کے بت کے تقدس کی تصدیق کی۔

 

اور اس کانفرنس کا اختتام اردوغان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور اس کی حکومت کو "دانشمند" قرار دیتے ہوئے تمام لوگوں کے سامنے جھوٹی گواہی دے کر ہوا۔

 

یہ مختصر جائزہ ان اقدامات کو ظاہر کرتا ہے جو استنبول اعلامیہ کی بنیاد پر جنم لے سکتے ہیں، کہ عطیات جمع کرنے اور دشمنوں سے جنگ روکنے کی اپیل کرنے سے آگے نہ بڑھا جائے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ یہ اعلامیہ حکمرانوں اور حکومتوں کو ان کی غداری اور غفلت کے جرم سے بری الذمہ قرار دیتا ہے، اور ان کی سازش اور ملی بھگت کی واضح حقیقت کے باوجود، اپنے مطالبات پر عمل درآمد کو انہی حکمرانوں پر چھوڑ دیتا ہے۔

 

اردوغان کے گرد سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہونے والے مسلم علماء کی بین الاقوامی یونین اور ترکی میں اسلامی علماء کے اوقاف کے تحت "استنبول کے علماء" کے لئے یہ لازم تھا کہ وہ ایسا عملی موقف اختیار کرتے جو پوری امت اور اس کی افواج کو فوری کارروائی کے لئے متحرک کرتا، جو کہ صرف غزہ کو نجات دلانے اور جنگ کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ پورے فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے ہو۔ ان کا یہ مؤقف زیادہ مناسب ہوتا کہ جب میڈیا پر ان کے بیانات نشر ہوں تو وہ عوام اور سپاہیوں کو اپنی دنیا کی مصروفیات چھوڑنے کا مطالبہ کریں، تاکہ وہ ان عملی ہدایات کو سننے کے لئے تیار ہوں جن کی طرف وہ امت کی رہنمائی کریں گے۔ اور اس سے دنیا دن بخود رہ جاتی اور کفار ان کے اجتماع کے ذکر سے ہی کانپ اٹھتے۔ تاہم، افسوس، انہوں نے ایسا مؤقف اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔

 

آخر میں استنبول کانفرنس کے نتائج کی روشنی میں دو سوالات پوچھے جانے چاہئیں اور وہ یہ ہیں: کیا یہ کانفرنس واقعی غزہ کی مدد کے لئے منعقد کی گئی تھی؟ یا یہ کسی ایسے معنی خیز عمل کو منسوخ کرنے کے لئے رکھی گئی تھی جو سابقہ فتووں پر مبنی ہو سکتا تھا؟

 

اور استنبول اعلامیہ کے بعد آپ ہمارے گھٹیا دشمن سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ مزید قتل، تباہی، لاشیں، اور نقل مکانی؟ کیا وہ اس کے علاوہ کچھ سمجھے گا کہ بس یہی وہ سب کچھ ہے جو دو ارب کی مضبوط امت کر سکتی ہے، یا کرنے کا سوچ بھی سکتی ہے؟!

 

 

استاد عبداللہ حماد الوادی - سر زمین مقدس – فلسطین

 

 

 

Last modified onہفتہ, 04 اکتوبر 2025 07:16

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.