Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

شرعی نقطۂ نظر سے تنظیمی سرگرمیاں(العمل الحزبي)

 

)ترجمہ (

 

تحریر – فادي السلمي – ولایہ یمن

 

https://www.al-waie.org/archives/article/19984

 

لفظ ”حزب“ (جماعت)  کا لغوی معنی:

 

عربی لغت میں لفظ ”حِزب“ کے کئی معنی اور مفاہیم ہیں، جنہیں اہلِ لغت (یعنی زبان و قدیم معاجم کے ماہرین) نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

 

جہاں تک اس لفظ کے اصل لغوی معنی کا تعلق ہے: لفظ ”حزب“ اپنی اصل میں ان لوگوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک رائے یا مقصد کے گرد جمع ہوں۔

 

ابنِ فارس نے اپنی کتاب مقاييس اللغة میں فرمایا: "الحِزْب: الجماعة من الناس، وأصله من الاجتماع والالتئام" یعنی ”حزب“ لوگوں کا ایک گروہ ہے، اور اس کی اصل اجتماع (اکٹھا ہونے) اور اتحاد سے ماخوذ ہے۔

 

الجوهری نے الصحاح میں ذکر کیا ہے: "الحِزْب: الطائفة من الناس، وجمعها أحزاب" یعنی ”حزب“ لوگوں کے ایک طبقے یا گروہ کو کہا جاتا ہے، اور اس کی جمع ”احزاب“ ہے۔

 

لفظ ”حزب“ کے دیگر لغوی معانی:

 

حصہ یا نصیب : کہا جاتا ہے: "هٰذا حِزْبي من الأمر" ”یہ معاملے میں میرا حصہ ہے“، یعنی میرا نصیب میرا حصہ۔

 

وقت یا گھڑی : جب کوئی کہتا ہے: "قرأتُ القرآن في حِزْبٍ من الليل" ”میں نے رات کی ایک گھڑی میں قرآن پڑھا“ یعنی رات کے ایک حصے میں۔

 

کتاب یا تحریر کا متعین جزو: جب کوئی کہتاہے: "حِزْب القرآن" یعنی ”قرآن کا وہ حصہ جو تلاوت کے لیے مقرر کیا گیا ہو“۔

 

لفظ "حِزْب" اور "حَزَبَ" کے درمیان فرق:

 

"حِزْب" ('ح' پر کسر یعنی زیر  اور 'ز' پر سکون) کا مطلب ہے لوگوں کی ایک جماعت یا  گروہ۔

 

جبکہ "حَزَبَ" ('ح' اور 'ز' دونوں پر فتح، زبر) اسم فعل ہے، جس کا معنی ہے جمع ہونا یا کوئی کام سرانجام دینا۔

 

لفظ ”حزب“ اصطلاحی طور پر مختلف شعبوں میں مختلف مفاہیم رکھتا ہے، خواہ وہ سیاسی ہوں، شرعی ہوں، تصوف سے متعلق ہوں یا معاشرتی۔ اصطلاحی استعمال کے حوالے سے اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی گئی ہے:

 

حزب“ جدید سیاسی اصطلاح کے معنی میں: تعریف: ایک منظم گروہ جو کسی مخصوص نظریے یا مشترکہ منشور پر قائم ہوتا ہے، جس کا مقصد اقتدار میں حصہ لینا یا سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونا ہو۔ خصوصیات: (حزب) اس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ اور قیادت ہوتی ہے۔ یہ اقتدار حاصل کرنے یا حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

 

حزب“ تصوف اور انفرادی عبادت میں: صوفیانہ احزاب: یہ ایسے وظائف، اذکار یا دعائیں ہوتی ہیں جو کسی خاص صوفی سلسلے سے منسوب ہوں، جیسے: ”حزب البحر“ جو امام شاذلیؒ سے منسوب ہے۔ اسے ایک سیاسی تنظیم سے زیادہ ایک روحانی اجتماع سمجھا جاتا ہے۔

 

حزب“ انسانی معاشرت میں: ابنِ خلدونؒ نے اپنی کتاب ”مقدمہ“ میں ”الحزب“ کو اس گروہ کے طور پر بیان کیا ہے جو نسب، قبیلے یا مفادات کی بنیاد پر متحد ہو، جیسے قبائلی یا عسکری احزاب۔

 

حزب“ شرعی اصطلاح میں: شرعی اصطلاح میں ”حزب“ اس گروہ یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص طریقۂ کار یا نظریے پر ڈٹی ہوئی ہو، خواہ وہ درست ہو یا غلط۔ اس کے بارے میں شرعی حکم اس جماعت کے مقاصد اور ان کے شریعت سے مطابقت پر منحصر ہوتا ہے۔

 

شرعی لحاظ سے ”حزب“ کی تعریف:

 

شرعی اصطلاح میں ”حزب“ اس منظم جماعت یا گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی مخصوص منہج یا فکر سے وابستہ ہو، خواہ وہ شریعت کے مطابق ہو یا اس کے مخالف۔ یہ تعریف قرآنِ کریم، سنتِ نبوی ﷺ اور سلفِ صالحین کے فہم پر مبنی ہے۔

 

*شریعت میں ”احزاب“ کی اقسام:*

 

اللہ کی جماعت (حزبُ اللہ)، اہلِ حق:

 

یہ وہ مؤمنین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں، بدعات اور گمراہیوں سے اجتناب کرتے ہیں۔

 

ان کی نمایاں صفات یہ ہیں: حق کی پیروی کرتے ہیں، بدعت نہیں کرتے۔ حق پر متحد رہتے ہیں، تفرقے میں نہیں پڑتے۔ اور ان کی وفاداری اللہ ﷻ، اُس کے رسول ﷺ اور اہلِ ایمان کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی دلیل، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

 

﴿وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ

 

”اور جو شخص اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائے، تو یقیناً اللہ کی جماعت (حزبُ الله) ہی غالب رہنے والی ہے“ (سورۃ المائدۃ: 56)

 

احزابِ شیطان، یعنی باطل کے لوگ:

 

یہ وہ تمام گروہ یا جماعتیں ہیں جو اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول ﷺ کی مخالفت کرتی ہیں، یعنی بدعت پر عمل کرنے والے، خواہشات کے پیروکار اور گمراہ فرقے۔ ان کی نمایاں صفات یہ ہیں: دین میں بدعتیں ایجاد کرنا۔ اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا، اور دین کے دشمنوں سے دوستی اور تعلق وابستہ رکھنا۔ اس کی دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

 

﴿ٱسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ فَأَنسَىٰهُمۡ ذِكۡرَ ٱللَّهِۚ أُوْلَٰٓئِكَ حِزۡبُ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ

 

”شیطان نے ان پر غلبہ پا لیا اور انہیں اللہ کی یاد بھلا دی۔ یہی لوگ شیطان کی جماعت (حزب الشیطان) ہیں“ (سورۃ المجادلہ: 19)

 

کسی ”حزب“ کے شرعاً جائز ہونے کی شرائط:

 

وہ لوگ کتاب و سنت پر استقامت دکھاتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ اور تفرقہ اور بدعت سے اجتناب برتتے ہیں۔ وہ لوگ نیکی اور تقویٰ پر باہمی تعاون، جبکہ گناہ اور زیادتی پر تعاون نہیں کرتے ہیں۔ اور تعصب یا اندھی گروہ بندی سے پرہیز کرتے ہیں۔

 

قرآنِ کریم میں لفظ ”حزب“ کا استعمال :

 

لفظ ”حزب“ اور اس کے مشتقات (اخذ کردہ) قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر آئے ہیں۔ عموماً یہ لفظ متقابل گروہوں یا جماعتوں کے سیاق میں استعمال ہوا ہے، کبھی اہلِ حق (حزبُ اللہ) کے لیے، اور کبھی اہلِ باطل (حزب الشیطان) کے لیے۔ ذیل میں وہ آیات بیان کی جاتی ہیں جن میں لفظ ”حزب“ صراحت کے ساتھ آیا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 

﴿وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ

 

اور جو شخص اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائے، تو یقیناً اللہ کی جماعت (حزبُ الله) ہی غالب رہنے والی ہے“ (سورۃ المائدۃ: 56)۔

 

اس کی اہمیت اور مفہوم یہ ہے کہ: یہ آیات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اللہ کی جماعت (حزبُ الله)، یعنی اہلِ ایمان ہی بالآخر اللہ کی اطاعت اور اُس سے وابستگی کے ذریعے کامیاب و غالب رہیں گے۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿ٱسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ فَأَنسَىٰهُمۡ ذِكۡرَ ٱللَّهِۚ أُوْلَٰٓئِكَ حِزۡبُ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ 

 

”شیطان نے ان پر غلبہ پا لیا اور انہیں اللہ کی یاد بھلا دی۔ یہی لوگ شیطان کی جماعت (حزب الشیطان) ہیں“ (سورۃ المجادلہ: 19)۔

 

اس کی اہمیت اور مفہوم یہ ہے : یہ آیت شیطان کی جماعت یعنی کافروں اور منافقوں کے بارے میں سخت تنبیہ ہے، جو اللہ کی یاد سے غافل ہو کر آخرت میں خسارہ پانے والے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ وَكَانُواْ شِيَعٗاۖ كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَۚ

 

”ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے بن گئے، ہر حزب (گروہ) اس پر خوش ہے جو ان کے پاس ہے“ (سورۃ الروم: آیت 32)۔

 

اس کی  اہمیت اور مفہوم یہ ہے: یہ آیت اُن احزاب کی مذمت کرتی ہے جو دین میں تفرقہ ڈالتی ہیں اور اپنی غلط راہوں پر اترانے لگتی ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمۡرَهُم بَيۡنَهُمۡ زُبُرٗاۖ كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَ

 

”پھر انہوں نے (اپنے دین کے معاملے میں) آپس میں اختلاف کر لیا اور ٹکڑوں میں بٹ گئے، ہر حزب اس پر خوش ہے جو ان کے پاس ہے“ (سورۃ المؤمنون: آیت 53)۔

 

اس کی اہمیت اور مفہوم یہ ہے: یہ آیت سورۃ الروم کی آیت کے مفہوم سے مشابہ ہے، یعنی فرقہ بندی اور باطل گروہ بندی کی مذمت کرتی ہے۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمۡ أُمَّةٗ وَٰحِدَةٗ وَأَنَا۠ رَبُّكُمۡ فَٱعۡبُدُونِ

 

”بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو“ (سورۃ الأنبياء: آیت 92)۔

 

سیاق و سباق: یہ آیت اُن آیات کے بعد نازل ہوئی جن میں باہمی اختلاف رکھنے والے گروہوں کی مذمت کی گئی، اور اس آیت میں امتِ مسلمہ کی وحدت و یگانگت کی تاکید کی گئی ہے۔

 

سورۃ الأحزاب: پوری سورت کو ”الأحزاب“ اس لیے کہا گیا کہ اس میں ان مختلف احزاب یعنی قریش، غطفان اور یہود کا ذکر ہے جنہوں نے غزوۂ خندق (غزوۃ الأحزاب) میں مسلمانوں کے خلاف اتحاد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿وَإِذۡ زَاغَتِ ٱلۡأَبۡصَٰرُ وَبَلَغَتِ ٱلۡقُلُوبُ ٱلۡحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِٱللَّهِ ٱلظُّنُونَا۠ *هُنَالِكَ ٱبۡتُلِيَ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَزُلۡزِلُواْ زِلۡزَالٗا شَدِيدٗا

 

”(یاد کرو) جب نگاہیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آنے لگے، اور تم اللہ کے بارے میں مختلف گمان کرنے لگے۔ اُس وقت مؤمنین سخت آزمائش میں ڈالے گئے اور شدید جھنجھوڑ دئیے گئے“ (سورۃ الأحزاب: آیات 10–11)۔

 

یہ آیات مؤمنین کی اس سخت آزمائش کو بیان کرتی ہیں۔

 

ان آیات کی تفسیر:

 

آیت: ﴿وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ

 

اور جو شخص اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائے، تو یقیناً اللہ کی جماعت (حزبُ الله) ہی غالب رہنے والی ہے“ (سورۃ المائدۃ: 56)۔

 

عمومی مفہوم: یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول ﷺ اور مؤمنین کو اپنا دوست اور مددگار بناتا ہے، وہ لازماً کامیاب اور غالب ہو گا، کیونکہ وہ اللہ کی جماعت (حزبُ الله) میں شامل ہے۔ جبکہ جو لوگ مؤمنین سے دشمنی رکھتے ہیں یا کفار و منافقین سے دوستی کرتے ہیں، وہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ یہ آیت منافقین اور یہود کے خلاف تنبیہ ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں اتحاد کیا تھا۔

 

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی آراء:

 

امام طبریؒ اپنی تفسیر "جامع البیان" میں فرماتے ہیں: "الآية نزلت في المنافقين الذين كانوا يوالون اليهود، فبينت أن الولاية الحقيقية هي لله ورسوله والمؤمنين، حزب الله: هم الذين اجتمعوا على طاعة الله، وغلبوا بذلك أعداءهم." ”یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے۔ اس آیت نے واضح کیا کہ حقیقی دوستی اور وفاداری صرف اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے ساتھ ہونی چاہیے۔ 'حزب اللہ' درحقیقت وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اپنے دشمنوں پر غلبہ پاتے ہیں“۔

 

ابن کثیرؒ اپنی تفسیر "تفسیر القرآن العظیم" میں بیان کرتے ہیں: "ذكر أن الآية تأمر بموالاة المؤمنين وترك موالاة الكفار، حتى لو كانوا أقارب، الغلبة: تشمل النصر في الدنيا، والفوز بالجنة في الآخرة." ”یہ آیت مؤمنین سے وفاداری اور دوستی رکھنے کا اور کفارسے دوستی ترک کرنے کا حکم دیتی ہے، چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہاں 'غلبہ' سے مراد نہ صرف دنیا میں فتح و نصرت ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی و کامرانی کا حصول شامل ہے“۔

 

امام قرطبیؒ اپنی تفسیر "الجامع لأحكام القرآن" میں لکھتے ہیں: "نبه إلى أن الولاية لله تستلزم اتباع شرعه، وولاية الرسول صلى الله عليه وسلم تكون باتباع سنته، حزب الله: هم أهل السنة والجماعة، لا الفرق الضالة." ”آیت اس طرف نشاندہی کرتی ہے کہ اللہ سے دوستی کا تقاضا ہے کہ اس کے شرعی قوانین کی پیروی کی جائے، اور رسول اللہ ﷺ سے دوستی کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کی اتباع کی جائے۔ 'حزب اللہ' درحقیقت اہل سنت والجماعت ہیں، نہ کہ گمراہ فرقے“۔

 

امام سعدیؒ اپنی تفسیر "تيسير الكريم الرحمٰن" میں فرماتے ہیں: "الآية تُعَلِّم المؤمنين اختيار الولاءات بحسب الحق لا الهوى." ”یہ آیت مومنین کو سکھاتی ہے کہ وہ اپنے تعلقات اور دوستیاں حق کی بنیاد پر قائم کریں، نہ کہ خواہشات اور ذاتی پسند ناپسند پر“۔

 

آیت میں مذکور ”غلبہ“ کے مفہوم میں درج ذیل پہلو شامل ہیں: قولی غلبہ: دلیل اور ہدایت کے ذریعے حاصل ہونے والا غلبہ۔ مادی غلبہ: دشمنوں پر حاصل ہونے والی فتح و نصرت۔ اس آیت سے حاصل ہونے والے شرعی نکات: مؤمنوں سے دوستی اور وفاداری لازم ہے، اور کفار کی اطاعت منقطع کرنا ضروری ہے، چاہے وہ باپ یا بیٹے ہی کیوں نہ ہوں (جیسا کہ سورۃ التوبہ، آیت 23 میں ہے)۔ حقیقی غلبہ اہلِ ایمان ہی کے لیے ہے، چاہے وہ کچھ تاخیر سے ظاہر ہو، کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اسلام کے مخالف اتحادوں سے خبردار کیا گیا ہے، جیسے کہ کافروں سے دوستی کرنا یا ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہونا۔

 

تفسیرِ آیت: ﴿ٱسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ فَأَنسَىٰهُمۡ ذِكۡرَ ٱللَّهِۚ أُوْلَٰٓئِكَ حِزۡبُ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ 

 

”شیطان نے ان پر غلبہ پا لیا اور انہیں اللہ کی یاد بھلا دی۔ یہی لوگ شیطان کی جماعت (حزب الشیطان) ہیں“ (سورۃ المجادلہ: 19)

 

عمومی مفہوم: یہ آیت اُن لوگوں کی حالت بیان کرتی ہے جن پر شیطان حاوی ہو گیا، جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی یاد سے غافل ہو گئے، اور اسی غفلت کی وجہ سے وہ شیطان کی جماعت بن گئے، جن کا انجام خسارہ اور ہلاکت ہے۔

 

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی آراء:

 

ابنِ کثیرؒ نے تفسیر القرآن العظیم میں فرمایا: "الاستحواذ: استيلاء الشيطان على قلوبهم حتى صاروا كالمأسورين له." "استحواذ" ”غلبہ پانے“ سے مراد ہے کہ شیطان ان کے دلوں پر حاوی ہو گیایہاں تک کہ وہ اس کے اسیر بن گئے“۔ انہوں نے مزید کہا: "الخسران: خسارة الدنيا بالضلال، والآخرة بالعذاب الأليم، ذكر أن هؤلاء هم المنافقون الذين يظهرون الإسلام ويبطنون الكفر." ”خسارہ“ سے مراد دنیا میں گمراہی اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ یہ لوگ منافق ہیں جو ظاہراً اسلام ظاہر کرتے ہیں مگر دل میں کفر رکھتے ہیں“۔

 

امام طبریؒ نے جامع البیان میں کہا: "استحوذ عليهم الشيطان: أي غلبهم فصاروا تحت طاعته. حزب الشيطان: كل من اتبع هواه وعصى الله فهو من حزب الشيطان." ”شیطان نے ان پرغلبہ حاصل کر لیا“ یعنی وہ ان پر غالب آ گیا اور وہ اس کی فرمانبرداری کے تابع ہو گئے۔ ”حزب الشیطان“ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرتا ہے“۔

 

امام قرطبیؒ نے الجامع لأحکام القرآن میں فرمایا: "نبه إلى أن الشيطان لا يستولي على الإنسان إلا إذا أعطاه الفرصة بالمعاصي والغفلة. حزب الشيطان يقابل «حزب الله» في الآية السابقة (المجادلة: 22)" ”شیطان انسان پر اس وقت قابو پاتا ہے جب انسان گناہ اور غفلت کے ذریعے خود اسے موقع دیتا ہے۔ ”حزب الشيطان“ دراصل ”حزب اللہ“ کے برعکس ہے، جیسا کہ پچھلی آیت (المجادلہ: 22) میں ذکر ہوا“۔

 

امام السعدیؒ نے تيسير الكريم الرحمٰن میں کہا: "الآية تحذر من الغفلة عن ذكر الله، فمن نسي ذكر الله انقاد للشيطان." ”یہ آیت اللہ کی یاد سے غفلت کے خلاف سخت تنبیہ ہے، کیونکہ جو اللہ کی یاد بھول جاتا ہے وہ شیطان کے تابع ہو جاتا ہے“۔ انہوں نے مزید کہا: "الخسران: يشمل خسارة الإيمان، السعادة، والفوز بالجنة." ”خسارہ“ میں ایمان کی بربادی، خوشی کا زوال، اور جنت کی کامیابی سے محرومی شامل ہے“۔

 

ابن عاشورؒ نے التحرير والتنوير میں فرمایا: "الاستحواذ: سيطرة تدريجية تبدأ بالإغواء وتنتهي بالاستعباد." "استحواذ" ”غلبہ پانا“ ایک تدریجی عمل ہے جو وسوسے اور بہکانے سے شروع ہو کر غلامی تک پہنچتا ہے“۔ انہوں نے مزید بیان کیا کہ "ذكر أن حزب الشيطان يشمل كل المشركين والمنافقين وأهل البدع." ”حزب الشیطان“ میں مشرکین، منافقین اور بدعتی سب شامل ہیں“۔

 

تفسیرِ آیت 32، سورہ الروم :

 

﴿مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ وَكَانُواْ شِيَعٗاۖ كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَۚ

 

”ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے بن گئے، ہر حزب (گروہ) اس پر خوش ہے جو ان کے پاس ہے“ (سورۃ الروم: آیت 32)۔

 

عمومی مفہوم: یہ آیت اہلِ ایمان کو خبردار کرتی ہے کہ وہ پچھلی امتوں یعنی مشرکین، یہود اور نصاریٰ کی طرح نہ بنیں جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہر فرقہ اپنی غلط راہ پر ہونے کے باوجود خوش ہے اور اسی کو حق سمجھتا ہے۔

 

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی آراء:

 

امام طبریؒ بیان کرتے ہیں: "(مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ): أي لا تكونوا مثل المشركين الذين بدلوا دينهم الحق (كاليهود والنصارى) فآمنوا ببعض وكفروا ببعض، أو تركوه بالكلية" ”آیت میں ﴿مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ ”ان لوگوں میں سےجنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا“، یہ ان لوگوں کے حوالے سے ہے جو اپنے دینِ حق کو بدل ڈالتے ہیں، جیسے یہود و نصاریٰ، جنہوں نے دین کے بعض حصوں کو مانا اور بعض کو جھٹلایا یا بالکل ہی چھوڑ دیا“۔ "(وَكَانُواْ شِيَعٗاۖ): صاروا فرقاً متعددة، كل فرقة تعبد معبوداً مختلفاً (الأصنام، النجوم، النار، إلخ)."، ”انہوں نے مزید فرمایا: ﴿وَكَانُواْ شِيَعٗاۖ ”وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے، ہر گروہ نے الگ معبود بنا لیا، کوئی بتوں کو پوجتا، کوئی ستاروں کو، کوئی آگ کو، وغیرہ وغیرہ“۔ "(كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَ): كل طائفة تفرح ببدعتها وتعتقد أنها على الصواب، مع أنهم جميعاً على ضلال." "اور مزید فرمایا: ﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ”ہر فرقہ اپنی بدعت پر خوش ہے اور سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے، حالانکہ سب گمراہی میں ہیں“۔

 

امام ابنِ کثیرؒ بیان کرتے ہیں: "أن الآية تشمل كل أهل الأديان الباطلة (اليهود، النصارى، المجوس، عبدة الأوثان) الذين اختلفوا في دينهم وصاروا شيعاً. أشار إلى أن هذه الآية تنطبق أيضاً على بعض فرق المسلمين الذين تفرقوا في الدين، إلا الفرقة الناجية (أهل السنة والجماعة) المتمسكة بالكتاب والسنة" ”یہ آیت تمام باطل ادیان پر صادق آتی ہے، یہود، نصاریٰ، مجوس، اور بت پرست وغیرہ جنہوں نے اپنے دین میں اختلاف کیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے بعض فرقوں پر بھی لاگو ہوتی ہے جنہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا، سوائے ”فرقۂ ناجیہ“ (یعنی اہلِ سنت والجماعت) کے، جو قرآن و سنت پر قائم ہیں“۔

 

امام سعدیؒ نے فرمایا: "أوضح أن الآية تذم التفرق في الدين، مع أن الأصل هو التوحيد ووحدة المصدر (الرسول والإله)" ”یہ آیت دین میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی مذمت کرتی ہے، کیونکہ اصل دین توحید اور وحدت ہے، اور دین کا سرچشمہ ایک ہی ہے، اللہ اور اس کا رسول ﷺ“۔ مزید فرمایا: "حذر من التعصب للآراء الخلافية في الفروع الدينية، ما يؤدي إلى التشتت والشقاق بين المسلمين" ”یہ آیت اس بات سے خبردار کرتی ہے کہ فقہی یا فروعی اختلافات میں تعصب اور ضد سے بچو، کیونکہ یہ مسلمانوں کے انتشار اور تفرقے کا سبب بنتے ہیں“۔

 

امام قرطبیؒ اور امام بغویؒ: انہوں نے فرمایا کہ ﴿شِيَعًا سے مراد جھگڑنے والے فرقے ہیں، جیسے یہود جو ”فریسی“ اور ”صدوقی“ فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ جو ”نسطوری“ اور ”یعقوبی“ فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور اسی طرح دیگر بھی۔

 

اور جہاں تک ﴿فَرِحُونَ کا ذکر ہے، یعنی وہ اپنے باطل نظریات پر خوش ہیں، حالانکہ وہ حق کے مخالف ہیں۔

 

سید قطبؒ (فی ظلال القرآن) میں بیان کرتے ہیں کہ، یہ آیت جاہلیت کے معاشروں (قدیم و جدید دونوں) کی حقیقت کو بیان کرتی ہے، جہاں جھوٹے ”معبود“ جیسے کہ خواہشات، طاقت، دولت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام اس کے برعکس وحدتِ مقصد اور وحدتِ راہ کی دعوت دیتا ہے، جبکہ باطل فرقے اپنی تنگ نظری اور ذاتی مفادات پر خوش ہوتے ہیں۔

 

تفسیر الوسیط: انہوں نے بیان کیا کہ ﴿فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ یعنی دین میں نئی بدعات ایجاد کرنا، جیسے فرشتوں، اولیاء یا بزرگوں کی عبادت کرنے والے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باطل پر خوش ہونا جہالت اور حق کے سامنے جھکنے سے انکار کی علامت ہے۔ آخر میں تنبیہ کی کہ: ”دین میں ہر بدعت اختلاف اور تفرقے کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت میں ہوا“۔

 

تفسیرِ آیت 53، سورہ المؤمنون :

 

﴿فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمۡرَهُم بَيۡنَهُمۡ زُبُرٗاۖ كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَ

 

”پھر انہوں نے (اپنے دین کے معاملے میں) آپس میں اختلاف کر لیا اور ٹکڑوں میں بٹ گئے، ہر حزب اس پر خوش ہے جو ان کے پاس ہے“ (سورۃ المؤمنون: آیت 53)

 

عمومی مفہوم: یہ آیت اس بات کی خبر دیتی ہے کہ پچھلی امتیں، جو ابتدا میں ایک دین پر متحد تھیں، بعد میں تفرقے اور اختلافات کا شکار ہو گئیں۔ انہوں نے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا، ہر گروہ نے اپنی الگ راہ اور عقیدہ بنا لیا اور اپنے باطل عقائد پر فخر کرنے لگا، خواہ وہ حق کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

 

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی آراء:

 

امام ابنِ کثیرؒ بیان فرماتے ہیں: "﴿فَتَقَطَّعُوٓا أَمْرَهُم بَيْنَهُم زُبُرًا : أي تفرقوا في دينهم إلى مذاهب متعددة، كما فعلت اليهود والنصارى والمجوس، فصار لكل طائفة معتقدات منحرفة." ”وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے“، یعنی انہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈال لیا اور مختلف مذاہب اور فرقوں میں بٹ گئے، جیسے یہود، نصاریٰ اور مجوس، جن کے ہر فرقے کے الگ الگ باطل عقائد ہیں“۔ مزید فرمایا: "﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ : كل فريق يغتر ببدعته ويظنها حقاً، مثل فرق الخوارج والروافض في الإسلام، أو الطوائف النصرانية كالنسطورية واليعقوبية." ”ہر حزب اس پر خوش ہے جو ان کے پاس ہے“ یعنی ہر گروہ اپنی بدعت پر مغرور ہے اور سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے، یہی حال امتِ محمدیہ ﷺ کے بعض فرقوں کا بھی ہے، جیسے خوارج اور روافض، اور اسی طرح نصاریٰ کے فرقے نسطوریہ اور یعقوبیہ، جو اپنے باطل عقائد پر خوش ہیں حالانکہ وہ گمراہ ہیں“۔

 

امام طبریؒ فرماتے ہیں: "(زُبُرٗاۖ): أي كتباً متفرقة (كالزبور، التوراة المحرفة)، حيث حولوا الدين إلى أجزاء متناقضة. يذكر أن التفرق بدأ بعد أن بعث الله الرسل، فحرف الناس الدين وتشيعوا لأهوائهم." "زُبُرًا" سے مراد ہے الگ الگ کتابیں جیسے زبور یا تحریف شدہ تورات، یعنی انہوں نے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر مختلف حصے بنا دیے جو آپس میں متضاد تھے۔ طبری کہتے ہیں کہ تفرقہ اُس وقت شروع ہوا جب اللہ نے رسول بھیجے، مگر لوگوں نے دین میں تحریف کی اور اپنی خواہشات کے مطابق فرقے بنا لیے“۔

 

امام سعدیؒ فرماتے ہیں: "الآية تحذر المسلمين من التمزق كالأمم السابقة، وتؤكد أن الفرح بالرأي دون دليلٍ شرعي من علامات الضلال." ”یہ آیت مسلمانوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ پچھلی امتوں کی طرح تفرقے میں نہ پڑیں، اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ بغیر شرعی دلیل کے اپنی رائے پر خوش ہونا گمراہی کی علامت ہے“۔ مزید فرماتے ہیں: "يدعو إلى التمسك بالكتاب والسنة وترك التعصب للمذاهب أو الأشخاص." ”یہ آیت قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور مذاہب یا شخصیات کے لیے تعصب چھوڑنے کی دعوت دیتی ہے“۔

 

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں: "يَربط الآية بالسياق العام للسورة الذي يذكر وحدة دعوة الأنبياء من نوح إلى محمد ﷺ." ”یہ آیت سورۃ المؤمنون کے عمومی مفہوم سے جڑی ہے، جو تمام انبیاء علیہم السلام، نوحؑ سے لے کر نبی کریم ﷺ تک، کی دعوتِ توحید اور دین کی وحدت کو بیان کرتی ہے“۔ مزید فرماتے ہیں: "يشير إلى أن التفرق غالباً ما ينتج عن تحريف الدين الأصلي، كما حدث في اليهودية والنصرانية." ”یعنی تفرقہ عموماً اصل دین میں تحریف کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، جیسے یہودیت اور نصرانیت میں ہوا“۔

 

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: "(فَرِحُونَ): الفرح هنا ذمٌّ لأنه ناتج عن جهلٍ بالحق، كمن يفرح بالبدعة أو الكبر على الآخرين. يضرب أمثلة بتفرق بني إسرائيل بعد موسى عليه السلام." "فَرِحُونَ" ”یعنی خوش ہونے والے، یہاں یہ خوشی ملامت کے معنی میں ہے، کیونکہ یہ خوشی حق سے جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جیسے کوئی شخص بدعت پر یا دوسروں پر برتری جتانے پر خوش ہو۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے موسیٰؑ کے بعد فرقوں میں بٹ کر یہی طرزِ عمل اختیار کیا“۔

 

لفظ «حزب» کا ذکر سنتِ نبوی اور صحابۂ کرام کے اقوال میں بھی مختلف مواقع پر آیا ہے:

 

سنتِ نبوی ﷺ میں مذموم گروہ بندی: نبی کریم ﷺ نے فرمایا،  «أَلَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ قَدْ بَرِئَ مِمَّنْ فَرَّقَ دِينَهُ وَاحْتَزَبَ» ”جان لو! بے شک تمہارے نبی ﷺ اس شخص سے بری الذمہ ہیں جس نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (اس میں) گروہ بندی کر لی“ (سنن ابی داؤد)۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے برأت کا اعلان فرمایا جو دین کو مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، جیسے کفریہ جماعتیں اور اہلِ بدعت۔

 

حزبُ اللہ کے بارے میں بشارت : قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

 

﴿أَلَآ إِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ

 

”بے شک اللہ کی جماعت (حزب اللہ) ہی کامیاب ہونے والی ہے“ (سورۃ المجادلہ: 22)۔

 

یہ وہ مؤمنین صالحین ہیں جو اللہ کے دین کی نصرت کرتے ہیں۔

 

صحابہ کرامؓ کے اقوال:

 

حضرت بلال بن رباحؓ نے وفات کے وقت فرمایا: «غَداً نَلْقَى الْأَحِبَّةَ، مُحَمَّداً وَحِزْبَهُ» ”کل ہم اپنے محبوب، محمد ﷺ اور اُن کی جماعت (حزب) سے ملاقات کریں گے“۔ یعنی اُن کا اشارہ رسولِ اکرم ﷺ اور اُن کے صحابہ کرامؓ کی طرف تھا۔

 

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو ”حزبان“ (دو جماعتیں) بتایا، ایک جماعت جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں، اور دوسری جماعت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات پر مشتمل تھی۔ یہ استعمال محض گروہ بندی کی عکاسی کرتا ہے، ضروری نہیں کہ اس میں منفی پہلو ہو۔

 

عمر بن خطابؓ نے مسلمانوں کو «الجماعة» (یعنی متحد امتِ مسلمہ) کے ساتھ رہنے کی تاکید کی اور تفرقہ سے منع فرمایا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مذموم گروہ بندی وہ ہے جو امت کی وحدت کے خلاف ہو۔

 

ابنِ تیمیہؒ کا فتویٰ ”حزب بنانے کے جائز ہونے“ کے بارے میں:

 

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: "وأما «رأس الحزب» فإنه رأس الطائفة التي تتحزب أي تصير حزبا فإن كانوا مجتمعين على ما أمر الله به ورسوله من غير زيادة ولا نقصان فهم مؤمنون لهم ما لهم وعليهم ما عليهم. وإن كانوا قد زادوا في ذلك ونقصوا مثل التعصب لمن دخل في حزبهم بالحق والباطل والإعراض عمن لم يدخل في حزبهم سواء أكان على الحق والباطل فهذا من التفرق الذي ذمه الله تعالى ورسوله أمرا بالجماعة والائتلاف ونهيا عن التفرقة والاختلاف وأمرا بالتعاون على البر والتقوى ونهيا عن التعاون على الإثم والعدوان" ’’جہاں تک’حزب کے سربراہ‘ کا تعلق ہے تو وہ اس جماعت کا رہنما ہوتا ہے جو کسی مخصوص گروہ (حزب) کی صورت اختیار کر لے۔ اگر وہ لوگ اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر جمع ہوں، نہ کسی چیز میں زیادتی کریں نہ کمی، تو وہ مؤمن ہیں، ان کے لیے وہی حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو دیگر مؤمنین کے لیے ہیں۔ لیکن اگر وہ اس میں کمی بیشی کریں، مثلاً اپنے گروہ کے لوگوں کی اندھی حمایت کریں خواہ وہ حق پر ہوں یا باطل پر، اور اُن لوگوں سے کنارہ کشی کریں جو ان کے گروہ میں شامل نہیں، خواہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں تو یہ وہ تفرقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے مذموم قرار دیا ہے۔ اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ نے اتحاد و اتفاق کا حکم دیا ہے، تفرقہ و اختلاف سے منع فرمایا ہے، اور نیکی و تقویٰ میں تعاون کا حکم دیا ہے جبکہ گناہ و زیادتی پر تعاون سے روکا ہے“۔ (مجموع الفتاوى 11/92)

 

فتویٰ پر تبصرہ:

 

یہی ابنِ تیمیہؒ کا موقف ہے کہ تمام جماعتیں یا احزاب مطلق طور پر قابلِ مذمت نہیں ہوتیں، اور نہ ہی سب بلاشرط جائز ہیں بلکہ ان کا حکم ان کے مقصد اور طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ اگر کوئی جماعت یا حزب اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر قائم ہو، نہ ان میں زیادتی کرے نہ کمی، تو وہ قابلِ قبول ہے۔ البتہ اگر کوئی گروہ اندھی تقلید اور تعصب میں مبتلا ہو جائے، یعنی اپنے حزب کے افراد کی حمایت حق و باطل دونوں میں کرے اور دیگر اہلِ حق کی بات کو رد کر دے، تو ابن تیمیہؒ کے نزدیک ایسا طرزِ عمل تفرقہ ہے، جسے اللہ ﷻ اور اس کے رسول ﷺ نے مذموم قرار دیا ہے۔

 

مفتیٔ اعظم امام ابو حنیفہؒ النعمان کا موقف:

 

یہ روایت عظیم امام ابو حنیفہ النعمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جیسا کہ أحکام القرآن میں الجصاص اور دیگر معتبر حوالوں میں مذکور ہے: الحَمّانی نے ہمیں بتایا: میں نے ابنِ مبارک کو کہتے سنا: جب ابراہیم الصائغ کے قتل کی خبر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پہنچی تو وہ اس قدر روئے کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ وہ وفات پا جائیں گے۔ میں ان کے ساتھ تنہا تھا، تو انہوں نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! وہ ایک دانشمند شخص تھا، اور مجھے ان کے معاملے میں یہی خدشہ تھا“۔ میں نے پوچھا: ’’اس کی کیا وجہ تھی؟“ انہوں نے فرمایا: ’’وہ اکثر میری طرف آتا اور مجھ سے سوال کرتا، اور وہ اللہ کی اطاعت میں اپنی جان نچھاور کرنے والا تھا، اور وہ بہت پرہیزگار تھا۔ میں کبھی کبھی اس کے لیے کوئی چیز لاتا، تو وہ اس کے بارے میں مجھ سے پوچھتا، بعض اوقات وہ اس سے مطمئن نہ ہوتا اور اسے چکھتا بھی نہیں تھا، اور بعض اوقات وہ مطمئن ہو جاتا اور اسے کھا لیتا تھا“۔ انہوں نے مجھ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں پوچھا، یہاں تک کہ ہم اس پر متفق ہو گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک شرعی فرض ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ سے بیعت کر لوں“۔ میرے اور ان کے درمیان معاملہ شدت اختیار کر گیا۔ میں نے کہا: ’’کیوں؟“ انہوں نے کہا: ’’مجھے اللہ کے حقوق میں سے کسی ایک کی دعوت دیں“۔ لیکن میں نے انہیں انکار کر دیا اور ان سے کہا: ’’اگر کوئی شخص تنہا اس کی ذمہ داری لے گا تو قتل کر دیا جائے گا، اور لوگوں کے لیے معاملہ درست نہ ہو سکے گا۔ لیکن اگر اسے نیک مددگار اور ایسا راہنما مل جائے جو اللہ کے دین میں قابل اعتماد ہو، تو معاشرہ تباہ نہیں ہوگا“۔ ابراہیم نے کہا: ’’اور یہ ضروری تھا جب تک کہ مسلسل غفلت برتنے والوں کو حساب نہ دے دیا جائے“۔ جب بھی وہ مجھے اس پر آمادہ کرنے آتے، تو میں ابراہیم سے کہتا: ’’یہ ایسا معاملہ ہے جو ایک شخص تنہا نہیں کر سکتا۔ انبیاء علیہم السلام آسمان سے عہد ملنے کی وجہ سے تنہا یہ کام کر پائے۔ یہ دیگر فرائض سے مختلف ایک شرعی فریضہ ہے، کیونکہ دیگر فرائض ایک شخص تنہا ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں، جب کوئی شخص تنہا یہ فریضہ اٹھاتا ہے تو تھک جاتا ہے اور یوں اپنے آپ کو قتل کے خطرے میں ڈال دے گا، اس لیے مجھے ان کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ بات اسے قتل کی طرف لے گئی ہوگی۔ اور اگر ایک شخص قتل کر دیا جائے گا تو کوئی دوسرا ایسی جرات نہیں کرے گا بلکہ انتظار کرے گا۔ بے شک قرآن بیان کرتا ہے کہ فرشتوں نے کہا: ﴿أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ’’کیا تو زمین میں ایسا موجود پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا، حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں؟“ قرآن بیان کرتا ہے کہ اللہ نے جواب دیا: ﴿إِنِّي أَعْلَمُ ما لا تَعْلَمُونَ ’’بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“۔ اس کے باوجود، ابراہیم مرو شہر کی طرف نکل گئے تاکہ باغی ابو مسلم عبدالرحمٰن بن مسلم الخراسانی کا سامنا کر سکے۔ ابراہیم نے ان سے درشتگی سے بات کی۔ ابو مسلم نے انہیں پکڑ لیا، لیکن خراسان کے فقہاء اور ان کے لوگ جمع ہوئے اور اُنہوں نے اُسے رہائی دلائی۔ پھر ابراہیم واپس ان کے پاس آئے اور ابو مسلم نے انہیں ڈانٹا۔ ایک بار پھر ابراہیم نے ان کے پاس آکر کہا: ’’میں اللہ کے لیے آپ کے خلاف لڑنے سے بہتر کوئی کام نہیں پاتا، اور میں اپنی زبان سے تم سے لڑوں گا۔ کیونکہ میرے ہاتھوں میں طاقت نہیں، لیکن اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کی خاطر تم سے نفرت کرتا ہوں“۔ چنانچہ ابو مسلم نے ابراہیم کو شہید کر دیا۔

 

خلاصہ:

 

خلافت کے زوال اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے مکمل نفاذ کی عدم موجودگی میں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے، اسلامی ریاست کے قیام میں جماعتی یا حزبی عمل (منظم تنظیمی کوشش) کا کیا کردار ہے اور کیا یہ شرعاً واجب ہے؟ تو ذیل میں اس حوالے سے قرآن مجید، سنتِ مبارکہ اور علماء کے مؤقف کی بنیاد پر شرعی اور عملی پہلو بیان کیا گیا ہے۔

 

خلافت کے قیام کے لیے اجتماعی عمل کی وجوبیت:

 

شرعی دلیل:

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 

﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡر وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ

 

’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے“ (سورۃ آلِ عمران: 104)۔

 

آیت میں لفظ «أمة» (امت یا جماعت) اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ کام انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہونا چاہیے، یعنی ایک منظم جماعت یا تنظیم کا قیام، جو اسلام کی دعوت اور نظامِ الٰہی کے نفاذ کے لیے کام کرے، شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ہے۔

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ» ’’بیشک امام (خلیفہ) ایک ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے“ (متفق علیہ)۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی و حکومتی قیادت (امام یا خلیفہ) کا ہونا ناگزیر ہے جو امت کو تحفظ فراہم کرے۔

 

لہٰذا، حزبی یا تنظیمی جدوجہد ایک فرضِ کفایہ ہے یعنی اگر امت کے کچھ افراد اسے انجام دیں تو باقیوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ آج جب کہ اسلامی ریاست موجود نہیں، اسلامی طرزِ زندگی کی بحالی اور خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے منظم حزبی کام ناگزیر ہے۔ اسی وجہ سے حزب کا کام اس بات پر قائم ہے کہ وہ امت کی سیاسی تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر سمجھ سکے، سیکولر نظریات کے خلاف فکری جدوجہد کرے اور ایجنٹ حکمرانوں پر پرامن سیاسی دباؤ ڈالا جائے تاکہ انہیں ہٹایا جائے کیونکہ وہ اُس سب کے مطابق حکومت نہیں کرتے جو اللہ ﷻ نے نازل فرمایا ہے۔ اور سیکولر جمہوری نظاموں میں شرکت جائز نہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں شریعتِ اللہ ﷻ کی بجائے کسی اور قانون کو حکمرانی کے طور پر جائز قرار دینا آتا ہے، جو شرعاً ممنوع ہے۔

 

آج امتِ مسلمہ کو کیا کرنا چاہیے:

 

سیاسی شعور بیدار کرنا: یہ سمجھنا کہ خلافت کا عدمِ قیام ہی کمزوری، تقسیم اور قبضے کی تمام مصیبتوں کی جڑ ہے۔

 

منظم جدوجہد کی حمایت کرنا: ایسی اسلامی جماعتوں میں شامل ہونا جو شریعت کی پابند ہوں اور بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں۔

 

سیکولر حکومتوں کو مسترد کرنا: ان میں شرکت کرنا موجودہ باطل نظام کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

 

حکمرانی کے لیے تیاری کرنا:

 

ایسے اہل افراد تیار کرنا جو خلافت کے قیام کے وقت نظامِ حکومت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

 

مفصل نتیجہ:

 

کیا حزبی کام شرعی فریضہ ہے؟ جی ہاں، اگر اس کا مقصد شریعت کے قیام کے لیے جدوجہد ہو، نہ کہ فاسد نظاموں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا۔ لازم  ہے کہ ایک ایسی حزب ہو جو اسلام کو مکمل نظامِ زندگی کے طور پر اپنائے اور تبدیلی کے لیے نبوت کے طریقہ کار پر قائم رہے۔ اس جدوجہد کا مرکز امت کو فکری طور پر قائل کرنے اور اہلِ قوت یعنی عسکری طاقت اور مادی قوت رکھنے والوں سے حقیقی نصرة (مادی مدد) حاصل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اس کے لیے واضح مقصد، منہج، مخلص قیادت اور افراد کے درمیان درست ربط ضروری ہے۔

 

خلافت ام الفرائض یعنی تمام فرائض کا تاج ہے، اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ: کیا ہم وہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جو اللہ ﷻ کو راضی کرے، یا ہم ذلت کو قبول کر لیتے ہیں؟ تو یہ معاملہ انفرادی یا جماعتی کام کے درمیان انتخاب کا نہیں، بلکہ سنجیدہ جدوجہد اور موجودہ باطل نظام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے درمیان فیصلہ کا ہے۔

 

کیا کوئی ایسی آئیڈیالوجیکل حزب موجود ہے جو اسلام کو مکمل طرزِ زندگی کے طور پر اپناتی ہو؟ جی ہاں، حزب التحریر وہ راہنما حزب (جماعت) ہے جو اپنی امت سے جھوٹ نہیں بولتی۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب التحریر کا جماعت بندی  (Partisanship) کے بارے میں کیا نظریہ ہے، اور اس نے ان لوگوں کو کیا جواب دیا جو جماعت بندی کو حرام قرار دیتے ہیں؟

 

حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کی جدوجہد کر رہی ہے۔ حزبیّت، یعنی کسی اسلامی سیاسی جماعت میں شامل ہونا، حرام نہیں بلکہ شرعی فریضہ (فرضِ کفایہ) ہے، بشرطیکہ وہ جماعت ایک ایسے معطل شدہ شرعی فریضے (مثلاً خلافت کے قیام) کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہی ہو۔ حزب اس پر قرآن کی آیت سے دلیل بیان کرتی ہے: ﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡر ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے“ (سورۃ آل عمران: 104)۔ حزب التحریر کے مطابق، یہاں "اُمَّۃ"سے مراد منظم جماعت (Organized Group) ہے، یعنی ایک منظم سیاسی حزب۔

 

اب سوال یہ ہے کہ کچھ اسلامی جماعتیں جماعت بندی  کو کیوں حرام کہتی ہیں؟ کچھ گروہ، جیسے روایتی سلفی گروہ، جماعت بندی  کو درج ذیل دو وجوہات کی بنا پر حرام سمجھتے ہیں:

 

افتراق کا خوف:

 

وہ ان احادیث پر اعتماد کرتے ہیں جن میں امت کے مختلف فرقوں میں بٹ جانے کا ذکر ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں (احزاب) اسی تفرقے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وہ اسے بدعت کے تصور کے طور پر لیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے زمانے میں ایسی سیاسی جماعتیں موجود نہیں تھیں، لہٰذا موجودہ دور کی”حزبی تنظیمات“ ایک بدعت ہیں۔

 

گمراہ فرقے اور ”حزب“ کے درمیان تذبذب کرنا :

 

قرآن میں بعض اوقات لفظ "الأحزاب" گمراہ گروہوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ”ہر گروہ اسی پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے“۔

 

ان الزامات کا جواب:

 

قرآن و سنت سے استدلال: لفظ ”حزب“ کبھی قرآن میں مثبت معنی میں بھی آیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ”یہی لوگ اللہ کی جماعت (حزب اللہ) ہیں“ (سورۃ المجادلہ: 22)

 

جبکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أحبُّ الدِّينِ إلى اللهِ الحنيفيةُ السمحةُ» ”اللہ کے نزدیک سب سے محبوب دین سیدھا اور آسان دین ہے“ (بخاری)۔ جس کے بارے میں حزب کہتی ہے کہ اس میں منظم اجتماعی کام بھی شامل ہے۔

 

حزب“ اور ”گمراہ فرقے“ میں فرق: حزب اس جماعت کو کہتے ہیں جو شرعی دلیل کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور امت کو تقسیم نہیں کرتی۔ جبکہ گمراہ فرقہ وہ جماعت ہے جو کتاب و سنت کی مخالفت کرتی ہے۔

 

جماعت بندی‘‘ اور ’’افتراق‘‘ میں فرق ہے: منظم سیاسی تنظیم بنانا ضروری نہیں کہ تفرقہ ہو، بلکہ یہ اسلامی عمل کے لیے نظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔ بعض گروہ شریعت کے دلائل کو غلط سمجھنے یا غلط لاگو کرنے کی وجہ سے، دانستہ یا نادانستہ طور پر اسے حرام قرار  دےدیتے ہیں۔

 

راجح رائے:

 

 

شریعت کے دلائل مطلق طور پر جماعت بندی کو حرام قرار نہیں دیتے، بلکہ صرف اس جماعت بندی کو ممنوع قرار دیتے ہیں جو باطل، نقصان دہ یا فتنہ پیدا کرنے والی ہو۔ وہ منظم سیاسی کام جو شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو، وہ واجب، مستحب یا مباح ہو سکتا ہے، یہ اس کے مقصد پر منحصر ہے۔ اگر اس کا مقصد کسی ترک شدہ شرعی فریضے، جیسے خلافت، کا قیام ہو تو یہ عمل واجب ہے۔ اور آج کے زمانے میں، جب اسلامی نظامِ حکومت یعنی خلافت غائب ہے، تو اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جماعتی و منظم کام کرنا فریضۂ عین ہے بلکہ یہ تمام فرائض کا تاج ہے۔

 

 

Last modified onجمعہ, 31 اکتوبر 2025 20:01

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.