بسم الله الرحمن الرحيم
مجھے خوشی کے آنسو چاہیے!
(ترجمہ)
میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جب آنکھ کے شدید انفیکشن کے علاج کے لیے میں ایک پاکستانی ماہرِ امراضِ چشم سے ملنے گئی تھی۔ انہوں نے مرض کی درست تشخیص کے لیے میرے آنسوؤں کا ایک نمونہ طلب کیا۔
میں بالکنی میں بیٹھی تھی، خوف مجھ پر چھایا ہوا تھا، اور ایک ایسے شخص کی آنکھ میں بال جانے کی وجہ سے اضطراب تھا جس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔ میں نے بار بار خود سے سوال کیا! کیا اس ٹیسٹ کا نتیجہ میرے غم کو بیان کرپائے گا؟کیا ڈاکٹر کو ان قطرات میں وہ گھنگھریالے بالوں والا فلسطینی بچہ نظر آئے گا؟ کیا وہ جلے ہوئے خیموں کے پاس بچوں کی بکھری ہوئی لاشوں کا منظر دیکھ پائے گا؟کیا اسے ان میں وہ نحیف و نزار بوڑھا مہاجر دکھائی دے گا جو بھوک اور درد سے کراہتا ہوا بس ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے؟ جس کے پہلو میں اس کی بیوہ بیٹی اپنے چھ بچوں کے ساتھ بیٹھی ہے اور ریت ملا ہوا آٹا کھا رہی ہے، جو اس کے خون میں لت پت زخمی بھائی نے بمباری، آگ، اور ذلت کے درمیان حاصل کیا تھا؟ اور اگر ڈاکٹر کو ان آنسوؤں میں میرے اس غصے کی جھلک مل گئی جو ان پڑوسی ممالک پر ہے جنہوں نے محاصرے کو نہ صرف تنگ کیا بلکہ اس میں اپنا حصہ بھی ڈالا،تو کیا ہو گا؟
بلاشبہ، ان آنسوؤں میں وہ سب کچھ موجود تھا جس سے میں خوفزدہ تھی، وہ سوڈانی عورت جس نے اپنے بچے کو سینے سے لگایا ہوا ہے اور چاروں طرف درندہ صفت سائے منڈلا رہے ہیں، جو اس کے بچے کو مار ڈالنا اور اس کی عزت کو پامال کرنا چاہتے تھے۔ اور وہ بے چارہ سوڈانی مرد۔۔۔ جسے پاؤں کی ایڑی سے لے کر سر تک زندہ کچلا جا رہا ہے۔
کیا وہ ان آنسوؤں کو اقسام کے لحاظ سے تقسیم کر سکے گا؟اگر وہ انہیں غصے کے آنسوؤں سے شروع کرکے امید کے آنسوؤں تک درجہ بند کرے، تو وہ شام کے حالات پر میرے غیظ و غضب کو پڑھ لے گا، ایغور کی مظلوم عورتوں کی فریاد محسوس کرے گا، اور ہندوستان کے مسلمانوں کے گھاؤ جان لے گا۔ شاید وہ امید کے وہ آنسو، جو میں نے اللہ کے دین کی نصرت کے لیے تہجد میں بہائے، ڈاکٹر کے تکلیف دہ مشاہدے کو کچھ کم کر دیں۔
آخرکار میں رپورٹ لینے کے لیے ہسپتال پہنچی۔ڈاکٹر نے مجھے دیر تک خاموشی سے دیکھا۔۔۔یوں جیسے میں پوری اُمتِ مسلمہ کے خلاف ہونے والے جرائم کی ایک شرمناک تاریخ بن کر اس کے سامنے کھڑی ہوں۔
میں نے اچانک ڈاکٹر سے ایک سوال کیا: کیا پاکستان کے پاس تعداد اور تیاری کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک نہیں ہے؟ کیا اس کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں جو اسے رعب اور دبدبہ فراہم کرتے ہیں؟ کیا اس کی جغرافیائی حیثیت، چین، بھارت اور ایران کے درمیان ہونے کی وجہ سے،اسے وسطی ایشیا کا دروازہ اور سیاسی و معاشی طاقت کا سرچشمہ نہیں بناتی؟ اس کے علاوہ، دفاعی صنعتوں میں اس کی خود انحصاری بھی ہے؟ اقتصادی اور فوجی طاقت کے یہ تمام پتے مسلم دشمن نظاموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ابھی تک استعمال نہیں ہوئے، کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ڈاکٹر صاحب؟کیونکہ پاکستانی حکومت بھی ہماری دوسری حکومتوں کی طرح بین الاقوامی دباؤ، خصوصاً امریکی دباؤ کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔تو کیا ہم صرف سر ہلاتے رہیں گے، جیسے آپ ابھی بس سر ہلا کر رہ گئے ہیںیں؟!
کیا اتنے سالوں تک غلط سمت کی طرف چلنے کے بعد اب وقت نہیں آگیا کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا قبلہ درست کریں اور اس راستے کی طرف چلیں جب ہم عظیم تھے اور ایک عادل خلیفہ کے سائے میں دنیا پر حکمرانی کر رہے تھے، وہ خلیفہ جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق حکومت کرتا تھا؟ ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، تو پھر ہم ایسی ذلت کیوں قبول کیے بیٹھے ہیں جبکہ آج کی یہ کھلی جنگ، دین اور مسلمانوں کے خلاف ہے؟دیکھیے! عزتیں پامال ہو رہی ہیں، خون بہ رہا ہے، "دینِ ابراہیمی" کے نام پر ایک نیا منصوبہ کھڑا کیا جا رہا ہے، معبد تعمیر ہو رہے ہیں، بت پرستی دوبارہ لوٹائی جا رہی ہے، اور ہمیں دوبارہ شرک و کفر کی تاریکیوں کی طرف دھکیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں!
معاف کیجیے گا ڈاکٹر صاحب، مجھے علاج نہیں چاہیے، کیونکہ میرے زخم نہ مصنوعی گولیوں سے بھر سکتے ہیں، نہ بے ہوشی کے ٹیکوں سے۔ مجھے اس بنیادی حل کی ضرورت ہے جو آنسوؤں کی جڑ ہی ختم کر دے۔
ہمیں رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پرقائم خلافت راشدہ چاہیے ۔ وہ خلافت جو امت کو اس کی عزت واپس لوٹائے، اس کے دشمنوں سے حساب لے، اس کے مظلوموں کی مدد کرے، اور اپنے لوگوں کے درمیان عدل قائم کرے۔ ہمیں ایسی خلافت راشدہ چاہیے جس کا اپنا رعب و دبدبہ ہو، جو ہمارے دور کے فرعونوں کے ستونوں اور تختوں کو ہلا دے۔ جی ہاں، مجھے خوشی کے آنسو چاہیے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیےتحریر کردہ
منال ام عبیدہ