بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کی ستائیسویں آئینی ترمیم نے آمریت کو مستحکم کر دیا
تحریر: استاد بلال مہاجر ، ولایہ پاکستان
امریکی قیادت میں چلنے والے عالمی سیکولر نظام میں اگرچہ اقتدار کی باری (rotation of power) کے تصور کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، لیکن ایک سنگین مسئلے نے امریکہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس اصول کو ترک کر کے مختلف طریقے سے کام کرے۔ امریکہ اپنے ایجنٹ ڈکٹیٹروں کو ہی اقتدار میں برقرار رکھنے کو ترجیح دے رہا ہے کیونکہ اس کے پاس مضبوط ایجنٹوں کی قلت ہے۔ واقعات کی تیز رفتار تبدیلی اور خاص طور پر عالم اسلام میں بڑھتے ہوئے عوامی شعور کی وجہ سے، جسے قابو کرنا اور اسے تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، امریکہ اپنے پچھلے ایجنٹوں کی جگہ لینے کے لیے نئے ایجنٹوں کو تیار اور ان کی پرورش کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
امریکہ کو دمشق کی سابقہ رجیم کے ان موقع پرستوں کے لیے راستہ ہموار کرنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا، جنہیں اس نے شامی انقلاب کے اندر بٹھایا تھا، اور وہ بغاوت کے چودہ سال بعد بشار الاسد کو ان کے ہم پلہ لوگوں سے تبدیل کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ اسی طرح، امریکہ یہ سمجھ چکا تھا کہ وہ انقرہ کے موقع پرستوں کو ان کے ہم پلہ لوگوں سے تبدیل نہیں کر سکتا، لہٰذا ترک آئین کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس تبدیلی نے صدر کو وسیع اختیارات دیے، بشمول مسلسل مدتوں کے لیے انتخاب لڑنے کا امکان، اور وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا، جس سے صدر، انتظامیہ میں ، سب سے طاقتور شخصیت بن گیا۔
اسی تناظر میں، پاکستان کی ستائیسویں آئینی ترمیم ایک نازک موڑ پر سامنے آئی ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی جیو پولیٹیکل مفادات کو آگے بڑھانے میں عاصم منیر کے کردار کو دوبارہ فعال کر دیا ہے۔ جس رفتار اور وقت پر یہ ترمیم منظور کی گئی ہے، وہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان کا سیکورٹی اور حکومتی ڈھانچہ بیرونی شیڈول کے مطابق کام کر رہا ہے، جو کہ امریکی مفادات کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ ترمیم ایک بے نظیر اقدام کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس ترمیم نے ملک کی عدلیہ اور فوج کی ایسی تنظیم نو کی ہے جو امریکی اثر و رسوخ کو مضبوط کرتی ہے، کسی بھی مخالفت کو اسے چیلنج کرنے سے روکتی ہے، اور ریاستی اداروں کی بظاہر آزادی کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیتی ہے۔
متعدد ترامیم میں سب سے اہم دو تبدیلیاں ہیں: اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی تنظیم نو اور عدلیہ میں اصلاحات۔ عدلیہ میں کی جانے والی ترمیم میں "وفاقی آئینی عدالت (FCC)" کے نام سے ایک نئی آئینی عدالت کا قیام شامل ہے، جو آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے مجاز واحد ادارہ ہو گی۔ یہ تبدیلی مؤثر طریقے سے سپریم کورٹ کے کردار کو ختم کر دیتی ہےاور اس کے عہدے کو محض ایک ہائی کورٹ کے برابر کر دیتی ہے جس کے فیصلے وفاقی آئینی عدالت پر لازم (binding) نہیں رہیں گے۔ اس کے برعکس، وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ پر لازم ہوں گے جس سے سپریم کورٹ کے اختیارات نمایاں طور پر کم ہو گئے ہیں اور اس کا کردار محدود ہو گیا ہے۔ مزید برآں، یہ ترمیم آرمی چیف اور سربراہ مملکت کو تاحیات قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ (lifetime immunity from prosecution) دیتی ہے۔
فوج کے وفادار ججوں کی تقرری کے لیے، اس ترمیم نے ججوں کی تقرری اور تبادلے میں انتظامیہ کے کردار کو مضبوط کیا ہے، اورانتظامیہ نے اس آزاد عدالتی کمیشن کی جگہ لے لی ہے جو پہلے یہ کام انجام دیتا تھا۔ اس تبدیلی نے عدلیہ کی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اسے امریکہ نواز انتظامیہ کے مزید تابع بنا دیا ہے۔ یہ اصلاحات پاکستان کے عوام کے لیے حقیقی یا فوری انصاف کے حصول کے مقصد سے نہیں ہیں، بلکہ اس ملک کے اندر امریکہ کے ایجنٹوں اور اتحادیوں کے مفادات کی خدمت کے لیے عدلیہ میں ہیر پھیر کرنے اور انتظامیہ کو مستحکم کرنے کے لیے ہیں، وہ انتظامیہ جسے تاریخی طور پر برطانوی مفادات سے منسلک اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔
اعلیٰ ترین فوجی کمان کی سطح پر، اہم اصلاحات میں چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کا عہدہ تخلیق کرنا شامل ہے، جو فوج، فضائیہ اور بحریہ کی نگرانی کرے گا۔ یہ عہدہ ختم کیے گئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی جگہ لے گا۔ چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کو مسلح افواج اور تزویراتی جوہری قوتوں (strategic nuclear forces) کی مختلف شاخوں کے سربراہوں کو مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جس سے یہ قوتیں عملاً چیف آف آرمی اسٹاف کے زیرِ اثر آ جائیں گی، جو خود بھی امریکی اثر و رسوخ کے تابع ہے۔ یہ ترمیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف ہمیشہ یہ عہدہ سنبھالے گا، جس سے فضائیہ، بحریہ، یا تزویراتی جوہری قوتوں کے کسی بھی افسر کو ، جو کہ ایسے شعبے ہیں جہاں بہت سے لوگ اسلام کے وفادار ہیں اور اسلامی طرز حکمرانی کی واپسی کی حمایت کرتے ہیں ، اس عہدے تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
اس ترمیم کے تحت، جنرل عاصم منیر، جو سب سے نمایاں امریکہ نواز افسروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں، کو توسیع کے امکان کے ساتھ، پانچ سال کی مدت کے لیے دفاعی افواج کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ (NSC) کے کمانڈر کے لیے ایک نئی پوزیشن بھی بنائی گئی تاکہ پچھلے ڈھانچے کی جگہ لے سکے جو نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) کے تحت پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو چلاتا تھا، اس طرح تینوں تزویراتی جوہری قوتوں کو مرکزی طور پر جنرل منیر کی کمان کے تحت یکجا کر دیا گیا، اور کنٹرول ان کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گیا ہے۔
اس ترمیم کے مضمرات واضح ہیں: یہ جنرل منیر کے ذاتی کنٹرول کے ذریعے مسلح افواج کی مختلف شاخوں پر امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرتی ہے جو پہلے نسبتاً آزاد تھیں، اور یہ کمانڈ اور کنٹرول کو ایک ہاتھ میں مرتکز کرتی ہے۔ اگرچہ حکومت ان اصلاحات کو فوجی قیادت میں ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کے طور پر جواز پیش کر رہی ہے، لیکن چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی یکطرفہ نوعیت اور باری کے نظام (rotation system) کا خاتمہ حقیقی مقصد کو ظاہر کرتا ہے جو کہ پاکستان کے سیکورٹی ڈھانچے پر مکمل امریکی کنٹرول ہے۔
اس تنظیم نو کے وسیع تر مقاصد خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانا ہے، خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے تناظر میں، جو مسلم ممالک میں مرکزی تنازع بن چکاہے۔ امریکہ کو پاکستان کی مسلح افواج کے اندر غزہ میں یہودی مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی امن منصوبے کے حصے کے طور پر فوجیں تعینات کرنے کے خلاف مزاحمت کا سامنا ہے۔ لہٰذا، امریکی انتظامیہ اس مزاحمت کو کچلنے اور اندرونی مطالبات سے نمٹنے کے لیے جنرل منیر کے کنٹرول کو مضبوط کرنے پر انحصار کر رہی ہے۔
یہ ترامیم پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ میں ایک خطرناک موڑ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ ترامیم فوج کے اثر و رسوخ کو مضبوط کرتی ہیں اور عدلیہ کی طاقت کو کم کرتی ہیں، جس سے فوجی مداخلت میں اضافے، اہم حکومتی عہدوں پر کنٹرول، اور شہری اداروں کے کردار میں کمی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ لہٰذا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی ستائیسویں آئینی ترمیم محض ایک انتظامی یا عدالتی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ ایک بڑی جیو پولیٹیکل تبدیلی ہے جو ریاستی اداروں کو کمزور کر کےملک کے سیکورٹی اور سیاسی معاملات پر امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرے گی۔
Latest from
- خلافت کوئی "چھوٹی" چیز نہیں ہے، اے مارکو روبیو!
- چین اور اس کا اپنے محدود علاقائی نقطۂ نظر سے چھٹکارا حاصل کرنا
- ٹرمپ کی اطاعت میں، پاکستان کا حکمران مسلمانوں کو قیمتی معدنیات سے محروم کر رہا ہے
- پاکستان کی مسلح افواج کو اللہ رب العزت کے دشمنوں ٹرمپ اور یہود...
- اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے اسلام آباد کے دورے کے خلاف اپنی آواز بلند کریں