الجمعة، 16 شوال 1445| 2024/04/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز9 نومبر 2018


۔ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ فوجی اتحاد اور مشقوں  کی اسلام اجازت نہیں دیتا
- ہاؤسنگ  اسکیم غریبوں کو بے گھر ہی رکھے گی اور چند لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے
- آئی ایم ایف اور سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی خوشحالی کے خلاف ہیں

تفصیلات:


غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ فوجی اتحاد اور مشقوں کی اسلام اجازت نہیں دیتا


5 نومبر 2018 کو پاکستان آرمی کی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کی تعریف کی  اور کہا کہ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیےمشترکہ تربیت ایک زبردست فورم ہے۔  آرمی چیف کا یہ بیان اس و قت سامنے آیا جب روس کی زمینی افواج اور پاکستان کی اسپیشل فورسز کی مشترکہ مشقیں "دروزوبہ -111 "اختتام پزیر ہوئیں۔ مشترکہ فوجی مشقوں کا محور و مرکز  انسداد ہشت گردی اور دونوں ممالک کا اس حوالے سے اپنے تجربات کا تبادلہ کرنا تھا۔


پاکستان کے قیام کے و قت سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ، سیاسی و فوجی قیادت، بھارت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بڑی طا قتوں کا سہارا لیتی آئی ہے۔ پاکستان 1955 میں بغداد پیکٹ کا رکن بنا، جسے بعد میں سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سینٹو) کہا گیا، تا کہ پاکستان فوجی سازوسامان حاصل کرسکے۔ لیکن اس تنظیم کا ہدف  سوویت یونین کے پھیلاؤ کو روکنا تھا جس کا برطانیہ مخالف تھا۔ امریکا نے 1958 میں اس تنظیم کی فوجی کمیٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس تنظیم نے 1965 کی پاک-بھارت جنگ میں پاکستان کی مدد نہیں کی جس کی برطانیہ نے حمایت کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی پاکستان کی فوجی امداد معطل کردی تھی۔  بھارت نے 1971 میں سابقہ مشر قی پاکستان پر حملہ کیا لیکن بھارت کو مشر قی پاکستا ن میں اپنی فوجیں داخل کرنے سے روکنے کے لیے امریکا نے اپنا ساتوں بحری بیڑہ نہیں بھیجا ۔ اس کے نتیجے میں مشر قی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔  امریکا نے پہلے افغان جہاد کے دوران سوویت یونین  کوشکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی اور معاشی معاونت کی۔ لیکن جیسے ہی 88-1987 میں سوویت یونین نے افغانستان سے پسپائی اختیار کی امریکا نے یہ کہتے ہوئے پاکستان پر پریسلر ترمیم کے تحت پابندیاں عائد کردیں کہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔ پھر 2001 میں جب امریکا کو افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت گرانے کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس نے ایک بار پھر پاکستان  پر انحصار کیا  اور یہ وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کے معاشی اور فوجی مفادات کو یقینی بنائے گا۔ لیکن پاکستان کے مفادات کو یقینی بنانے کے بجائے امریکا نے افغانستان میں بھارت کو اپنی مدد کے لیے بلالیا اور اس طرح پاکستان کے مفادات شدید خطرے کا شکار ہوگئے۔  ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بڑی طا قتوں کے ساتھ اتحاد سے صرف بڑی طا قتوں کے مفادات کی ہی نگہبانی ہوتی ہے۔


راحیل-نواز حکومت کے و قت سے پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت پاکستان کے مسلمانوں کواپنے اس دعوے کے ذریعے دھوکہ دینے میں مصروف ہےکہ پاکستان اپنی سمت بدل رہا ہے اور امریکا کی غلامی سے نکل کر روس اور چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔ لیکن روس اور چین کے ساتھ کسی بھی قسم کا فوجی یا معاشی اتحاد  پاکستان کے لیے نہیں بلکہ صرف روس اور چین کے لیے فائدہ مند  ثابت ہوگا۔ سی پیک کے مثال سامنے ہے۔  چین کے نقطہ نظر سے پاکستان کی معاشی و فوجی معاونت اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی مضبوطی کی وجہ سے  بھارت اپنی مغربی سرحدوں پر مصروف رہے گا۔  اسی طرح روس اور پاکستان کے درمیان اختتام پزیر ہونے والی فوجی مشقوں کی مثال ہی لے لیجئےجن کا مقصد "انسداد دہشت گردی" کی تربیت حاصل کرنا اور اس حوالے سے ایک دوسرے کی تجربات سے سیکھنا تھا۔  روس  کی نظر میں ہر وہ مسلمان "دہشت گرد ہے" جو اس کے سیکولر نظام اور اسلامی علا قوں جیسا کہ چیچنیا وغیرہ پر اس کے قبضے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ اس طرح روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کا مقصد پاکستان کو اس قابل کرنا نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کراسکے بلکہ ان فوجی مشقوں سے روس کی مدد کرنا مقصود ہے تاکہ وہ مسلما علا قوں پر اپنا قبضہ بر قرار  اور شام میں مداخلت جاری رکھ سکے۔


رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے اسلام غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ فوجی معاہدوں کو حرام قرار دیتا ہے:

 

لا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِينَ

"اور مشرکوں کی آگ سے روشنی مت لو"(احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے)۔

 

کسی قوم کی آگ کنایہ ہے جنگ کے دوران ان کے اپنے جداگانہ ریاستی وجود سے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ

"میں کبھی کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا" اور یہ کہ، إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ "ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے"(ابن ماجہ، ابو داود)۔


لہٰذا نبوت کے طریقے پرآنےوالی خلافت روس،چین، امریکا یا کسی بھی غیر مسلم ریاست کے ساتھ فوجی مشقیں نہیں کرے گی  بلکہ مسلم علا قوں کو یکجا اورانہیں ایک طا قتور ریاست میں تبدیل کرکے مسلم علا قوں کو دشمنوں کے قبضے سے آزاد کرائے گی۔ 

           

ہاؤسنگ اسکیم غریبوں کو بے گھر ہی رکھے گی اور چند لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے


وزیر اعظم عمران خان کی ہاؤسنگ اسکیم  "نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام"(این پی ایچ پی) کی بے تہاشا تشہیر کرنے کے بعد حکومت نے 5 نومبر 2018 کو انکشاف کیا کہ درخواست گزاروں کو  اپنے خوابوں کے گھر کی کُل قیمت کا بیس فیصد ڈاون پیمنٹ کی طور پر دینا ہوگا۔  حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے ہاؤسنگ کی ٹاسک فورس کے چیرمین زیغم رضوی اور پنجاب کے صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ، اربن ڈویلپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ محمودالرحمان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ"ہر  فرد کو گھر کی لاگت کا بیس فیصد ادا کرنا ہے۔۔"۔ جناب نقوی نے کہا کہ، "اگر سب سے کم درجے کے گھر کی قیمت تیس لاکھ روپے ہے تو درخواست گزار کو ڈاون پیمنٹ کی مدد میں چھ لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے"۔  جناب نقوی  نے کہا      کہ این پی ایچ پی کی بنیاد مارگیج ہاؤسنگ نظام پر رکھی گئی ہے جس کے تحت گھر کا مالک پورے گھر کی قیمت بیس سال میں ادا کرے گا۔اس کے علاوہ سود ی قرضے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ گھر کی اصل قیمت سے زیادہ لوگ ادا کرے جو کہ ایک قسم کی معاشی  غلامی ہے۔


اگر درخواست گزار کو ابتدائی طور پر چھ لاکھ روپے دینا لازمی ہے تو پھر غریب بلکہ زیادہ تر مڈل کلاس  طبقہ  بھی اس ہاؤسنگ اسکیم کا بوجھ کیسے اٹھا سکے گا؟ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق 39 فیصد سے زیادہ پاکستانی طرح طرح  کی غربت کا شکار ہیں اور فاٹا اور بلوچستان میں اس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ جہاں تک مڈل کلاس کا تعلق ہے تو وہ ویسے ہی سکڑ رہی ہے۔  02-2001 میں پاکستان کی آبادی کا 43 فیصد مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ 16-2015 میں مڈل کلاس  سکڑ کر 38 فیصد ہوگئی۔  یہ 38 فیصد طبقہ پاکستان میں موجود جائداد کے صرف 28 فیصد کا مالک ہے۔ ایسی صورتحال میں غریب اور مڈل کلاس کس طرح سے اس حکومتی اسکیم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟ اس کے علاوہ اگر ان طبقات سے تعلق رکھنے والا  کسی طرح سے اس اسکیم کے تحت گھر حاصل کر بھی لےگا  تو یہ اسکیم اسے سودی قرض کے بوجھ دلے دبا دے گی۔ لہٰذا جمہوریت میں حکمران لوگوں کی زندگیوں کو مزید مشکلات کا شکار کردیتے ہیں۔  پی ٹی آئی  حکومت انہیں سکون سے رہنے نہیں دے گی کیونکہ قسطوں کی ادائیگی  اور اس کی ادائیگی میں ناکامی کی صورت میں  گھر کی ملکیت کے چھن جانے کی تلوار ہمیشہ ان کے سروں پر لٹکی رہے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے  گھر خریدنے کی اہلیت سے محروم ہونا یا کسی کے سر پر گھر کی چھت کاموجود نہ ہونا بہت ہی عام بات ہے۔ مثال کے طور پر دنیا موجود کُل بے گھروں کی تین چوتھائی تعداد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں رہتی ہے۔ غربت کو بے گھر ہونے کی سب سے بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے  جبکہ بھارت میں دولت کی کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ اس کے 100امیر ترین افراد  250 ارب ڈالر کے مالک  ہیں۔  


لہٰذا ایک بار پھر جمہوریت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ایک چھوٹے سے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا خیال رکھتی اور تحفظ کرتی ہے۔ عام آدمی کو سودکی وجہ سے گھر کی اصل قیمت سے کئی گنا زائد رقم ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام نے ہاؤسنگ  کو انسانیت کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لَيْسَ لابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ:

 

بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ

"ان چیزوں کے علاوہ کسی چیز پر ابن آدم کا حق نہیں: رہنے کے لیے گھر، ستر چھپانے کے لئے کپڑا، بھوک مٹانے کے لیے روٹی اور پانی "۔

 

لہٰذا ریاست خلافت میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شہری کے پاس گھر ہو۔  گھر کی تعمیر کی لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے ریاست بنیادی سہولیات پورے ملک میں فراہم کرے گی۔ ریاست گھروں کی تعمیرکو موجودہ شہروں تک ہی محدود نہیں رکھے گی جس کی وجہ سے شہروں پر آبادی کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہاں زمینوں کی قیمتیں آسمان کو پہنچ جاتی ہے جبکہ پاکستان کی آبادی کے 60 فیصد کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے۔  ریاست خلافت اسٹاک شیئر کمپنی  کو ختم کردے گی جس کی وجہ سے نجی شعبہ بڑی تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ خلافت بڑے تعمیراتی منصوبوں کو اپنی نگرانی میں چلائے گی اور تعمیراتی لاگت کو کم سے کم سطح پر لائے گی کیونکہ اس کا  مقصد ان منصوبوں سے نفع کمانا نہیں ہوگا۔ اگر اس کے بعد بھی ریاست کے کچھ شہری اپنے لیے گھر کابندبست نہیں کرسکیں گے تو پھر ریاست کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ اس کا بند بست کرے اور اس کے پاس یہ کام کرنے کے لیے مناسب وسائل بھی موجود ہوں گے  کیونکہ وہ اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کررہی ہو گی۔

 

آئی ایم ایف اور سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی خوشحالی کے خلاف ہیں


وزیر خزانہ اسد عمر نے 7  نومبر 2018 کوکہا کہ حکومت آئی ایم ایف سے کم ازکم 5 سے6 ارب ڈالر کی مالیاتی مدد کی درخواست کررہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا حکومت ایسی شرائط کو تسلیم نہیں کرے گی جو ملک کی خوشحالی کے خلاف ہوں۔


اسد عمر کی یقین دہانی آئی ایم ایف کی حقیقت کے برخلاف ہے۔ قرضے سود پر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف قرضوں میں ڈوبے ممالک کومزید قرضوں میں ڈبو دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کرنسی کی قدرمیں کمی کا مطالبہ کرتی ہے جس کا آغاز پی ٹی آئی حکومت نے کردیا ہے۔ روپے کی مسلسل گرتی قدر کمر توڑ مہنگائی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زرعی اور صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ مہنگی ہوجاتی ہیں۔  اس کی وجہ سے ضروری درآمدی اشیاء  مزید مہنگی ہوجاتی ہیں  جبکہ مقامی صنعتوں پر پہلے ہی بہت زیادہ ٹیکس لگے ہوئے ہیں اور زیادہ جدید بھی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف قرضے دیتے ہوئے نجکاری کی شرط بھی عائد کرتی ہے جس کی وجہ سے ریاست بڑی صنعتوں، توانائی اور معدنیات سے حاصل ہونے والی دولت سے محروم ہوجاتی ہے۔ پھر اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام، زرعی و صنعتی شعبے پرمزید ٹیکس عائد کرنے کامطالبہ کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ آئی ایم ایف کبھی بھی غربت کا خاتمہ نہیں کرتی  اور نہ ہی پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ یقیناً جس ملک میں بھی آئی ایم ایف نے اپنے پاوں جمائے وہ معاشی لحاظ سے  تباہ برباد ہوگیا۔


اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے قیام سے کم کوئی بھی کوشش پاکستان کی معیشت کو سنبھال نہیں سکتی۔ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت  سودی قرضوں کے بغیر ، جس کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ  اور اس کے رسول ﷺ نے ممانعت کی ہے،اربوں ڈالر کے مساوی وسائل ریاست کےخزانے کے لیے پیدا کرے گی ۔ خلافت توانائی اور معدنیات کے حوالے سے اسلامی احکامات نافذ کرے گی جو یہ ہے کہ یہ عوامی اثاثے ہیں جن سے حاصل ہونے والے فائدے پر پوری امت کا حق ہے۔ خلافت کمپنی کے ڈھانچے کے حوالے سے اسلامی احکامات نافذکرے گی جس کی وجہ سے ایسے شعبوں میں بڑی نجی  کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ مواصلات، بھاری صنعتیں، ٹیلی کمپیو نیکیشن وغیرہ، اور اس طرح ان شعبوں میں ریاستی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کریں گی اور خزانے کے لیے وسیع وسائل کی فراہمی کا ذریعہ بنیں گی۔  خلافت ریاستی خزانے میں وسائل کی فراہمی کے لیے اسلامی احکامات نافذ کرے گی جس کے بعد ظالمانہ ٹیکسوں، جیسا کہ انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی،  کا خاتمہ ہوگاکیونکہ ان کی وصولی کے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا جس سے یہ وصول کیا جارہاہے وہ غریب تو نہیں ہے۔ خلافت کرنسی کے حوالے سے اسلامی احکامات نافذ کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس کی پشت پر سونے اور چاندی کی قدر ہو اور اس طرح مہنگائی کی بنیادی وجہ کاہی خاتمہ ہوجائے گا۔ خلافت  حکمرانوں کی دولت میں ہونے والے اچانک اضافے کے حوالے سے اسلام کے احکامات  نافذ کرے گی جو یہ ہے کہ ایسی دولت ناجائز تصور کی جاتی ہے لہٰذا اسے قبضے میں لے لیا جائے گا اور بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔  تو کیا وہ وقت آنہیں گیا کہ مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی وحی کی بنیاد پر ہونے والی حکمرانی کے قیام کی جدوجہد کریں تا کہ دولت پورے معاشرے میں گردش کرے نہ کہ چند ہاتھوںمیں محدود ہوجائے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ

" دولت تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے"(الحشر:7)

Last modified onمنگل, 13 نومبر 2018 04:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک