Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ہجرت – ایک عظیم سیاسی واقعہ،

جو پہلی اسلامی ریاست کے عروج کا پیش خیمہ بنا

 

(ترجمہ)

 

اخبار الراية، شمارہ نمبر - 544

 

بدھ، 02 جولائی، 2025ء

 

تحریر : خليفة محمد

 

اقوام کی زندگی میں واقعات کی اہمیت ان کے ظہور اور راہ پر اثرات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں ہجرت سب سے عظیم واقعہ تھا۔ ہجرت کی بدولت پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، جو تیرہ سو سال سے زائد عرصے تک قائم رہی۔ اس عرصہ کے دوران مسلمان دنیا کے سرکردہ رہنما تھے اور پوری انسانیت کے لئےمشعلِ ہدایت اور عدل کے علمبردار بنے۔

 

فکرِ مستنیر کا تقاضا ہے کہ واقعۂ ہجرت کو اس کے گرد و پیش کے سیاق و سباق، یعنی وقت اور مقام، دونوں کے حوالے سے دیکھا جائے۔ ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺ نے کچھ ایسے اقدامات کیے جو ہجرت کا سبب بنے، اور ہجرت کے بعد بھی کئی اہم اعمال انجام دئیے گئے جو اس کا نتیجہ تھے۔ لہٰذا ہجرت کو اس سے پہلے یا بعد کے واقعات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی اصول مقام کے لحاظ سے بھی لاگو ہوتا ہے یعنی ہجرت سے قبل مکہ میں، اور دوران ہجرت، اور اس کے بعد مدینہ میں۔

 

 

فکرِ مستنیر سے اس واقعے کو دیکھنا ہم پر واضح کرتا ہے کہ ہجرت کو اس کے اسباب، نتائج، اور حالات و واقعات سے جدا کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہی درست اور گہری بصیرت والا نکتہ ہے کہ ہجرت کو ایک عظیم واقعے کے طور پر دیکھا جائے جو بہت سی کوششوں کا ثمر اور عظیم نتائج کا پیش خیمہ تھا۔

 

بدقسمتی سے، بعض خطیب اور معلم حضرات مساجد میں یا سیٹلائٹ چینلز پر، واقعۂ ہجرت کو اس انداز سے پیش نہیں کرتے کہ جو اس کی اصل اہمیت کو اجاگر کرے۔ اکثر وہ اس موضوع پر سطحی بات کرتے ہیں، یا پھر کبھی وہ ایک روشن فکر کے نکتۂ نظر کے بغیر ہجرت کے واقعات اور جزئیات میں اتنا گہرائی سے چلے جاتے ہیں کہ اصل مقصد نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہجرت کی اہمیت اور نوعیت کا حق ادا نہیں کر پاتے، اور نہ ہی مسلمانوں کے ذہنوں میں اس کی حقیقی تصویر پیش کر پاتے ہیں۔ یوں واقعۂ ہجرت کی سالانہ یاد محض ایک معمول کی تاریخ بن کر گزر جاتی ہے، چہ جائیکہ لوگ اس سے کوئی سبق حاصل کریں، یا دوسری اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد  پر آمادہ ہوں۔

 

ہجرت ایک عظیم سیاسی واقعہ ہے، جسے ایک بصیرت افروز نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ جب ہم فکرِ مستنیر کے ساتھ (گہرے اور ہمہ گیر انداز میں) اس واقعے کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہجرت نے ایک باکمال امت کو جنم دیا، جس نے ایک ایسی ریاست اور معاشرہ قائم کیا جو ایک آئیڈیالوجی پر مبنی تھا، ایک عقلی عقیدہ جس سے ایک نظام پھوٹتا ہے، اور وہ ہے دینِ اسلام بطور ایک آئیڈیالوجی۔ اور اسی کے ذریعے، ہجرت نے تاریخ کے محور اور دھارے کو ہی پلٹ کر رکھ دیا۔

 

رسول اللہ ﷺ کی ہدایت سے اسلام کے نظریے پر تیار ہونے والی امت مسلمہ، تاریخ کا تاج بن گئی اور وہ امت صدیوں تک خود اپنی تاریخ رقم کرنے والی امت بن گئی۔

 

وہ تمام مخصوص اعمال جو رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے دوران انجام دیے، اور وہ معجزات جو آپ کے ساتھ پیش آئے اور ان سب نے مل کر ”واقعۂ ہجرت“ کو تشکیل دیا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان سب کو قرآنِ کریم میں نہایت واضح الفاظ میں اپنی طرف سے مدد و نصرۃ قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:

 

﴿إلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾

”اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کی مدد فرما چکا ہے، جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا۔ جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے“۔ [سورۃ التوبہ؛ 9:40]

 

یہ اللہ تعالیٰ کے اُس وعدے کی تصدیق ہے جس میں اُن لوگوں کی مدد کا یقین دلایا گیا ہے جو اُس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾

”اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا“۔ [سورۃ محمد؛ 47:7]

 

اور یہ اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اُس کی مدد کرتا ہے جو اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے،  جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

”جو کوئی اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک وہ زبردست قوی (اور) غالب آنے والا ہے“۔ [سورۃ الحج؛ 22:40]

 

اس سے ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وہ تمام اعمال جو آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل مکہ میں انجام دئیے، دراصل اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرۃ والے اعمال تھے۔ یہ وہ اعمال تھے جن کے ذریعے آپ ﷺ اور آپﷺ کے اولین عظیم صحابہؓ  اللہ کی مدد کے مستحق بنے۔ اللہ کی یہ مدد ہجرت کی صورت میں ظاہر ہوئی، اور مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

 

رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اُس کا پیغام لوگوں تک پہنچایا، اس پر ثابت قدم رہے، اسی لئے آپ ﷺ اللہ کی نُصرۃ کے حقدار ٹھہرے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی حق پر ثابت قدمی دکھائی، لہٰذا وہ بھی اللہ کی مدد کے مستحق بنے۔

 

ایک ذی شعور مشاہدہ کرنے والا اگر اللہ تعالیٰ کی نصرۃ حاصل کرنے کے لئے کی گئی کوششوں کا موازنہ خود نصرۃ (یعنی فتح) کی عظمت و وسعت سے کرے، تو وہ جان لے گا کہ ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ یعنی، وہ تمام کوششیں جو انجام دی گئیں، خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کی حامل کیوں نہ ہوں، وہ اس حاصل شدہ فتح کے مقابلے میں تھوڑی نظر آتی ہیں۔

 

یہ حقیقت نہ صرف پچھلے انبیاء علیہم السلام اور رسولوں علیہم السلام کی زندگیوں پر صادق آتی ہے، بلکہ ہمارے آقا محمد ﷺ، آپؐ کے عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قیامت تک ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کی زندگیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

 

یہ نتیجہ اس ایمانی حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ حقیقی مدد و نصرۃ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے فتح دیتا ہے، اور وہی زبردست، بہت مہربان ہے۔

 

یہ نتیجہ اور یہ حقیقت، دونوں آج کے مسلمانوں کو آمادہ کرتی ہیں کہ وہ دوسری اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کریں۔ ایسا کرنے میں، ان کا پیش کردہ عمل اس نتیجہ کے مقابلے میں کم ہے، یعنی زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم دوبارہ نافذ کرنے کی جدوجہد اور اس کے صلے میں ایک واضح اور فیصلہ کن فتح۔

 

یقیناً اللہ عزّوجل نے اپنے ان مؤمن بندوں پر احسان فرمایا، جو گرچہ ایک زمانہ میں زمین پر تعداد میں قلیل اور کمزور تھے، اپنے کفار حاکموں کے ظلم و ستم سے ستائے گئے تھے، اور ڈرتے تھے کہ لوگ انہیں اچک نہ لیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان پر یہ انعام کیا کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نئی اسلامی ریاست میں انہیں پناہ دی، اپنی نُصرۃ سے ان کی مدد فرمائی، اور پاکیزہ چیزوں سے انہیں روزی عطا فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے،

 

﴿وَاذْكُرُواْ إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾

” اور یاد کرو جب تم زمین میں تھوڑے تھے، کمزور دبے ہوئےتھے، ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں، تو اللہ نے تمہیں پناہ دی، اپنی مدد سے تمہیں قوت دی، اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا“۔ [سورۃ الانفال؛ 8:26]

 

یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی سنت ہے، جو اُس نے اپنی مخلوق میں مقرر کی ہے،  ایسی سنت جو نہ کبھی بدلتی ہے اور نہ ہی اس میں انحراف ہوتا ہے۔ یہی سنت گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ * وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ﴾

”اور ہم یہ چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو  زمین میں کمزور کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں وارث بنائیں، اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں“۔ [سورۃ القصص؛28: 5–6]

 

یہ سنت قیامت تک جاری رہے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ زمین اور اس پر موجود تمام چیزوں کا وارث کر دے۔ اور یہی سنت آج ہم مسلمانوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ساری دنیا میں مظلوم ہیں، ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور استعماری کافرانہ طاقتوں کے زیرِ کنٹرول کمزور ریاستوں میں تقسیم ہیں۔

 

پھر بھی، ہماری طاقت کا اصل سرچشمہ،  اللہ رب العزت ہمیشہ موجود ہے۔ ہمارا مددگار، پاک اور بزرگ و برتر ہے، وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ اور اُس کی سنت ہمارے بارے میں بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے، جیسے وہ ہم سے پہلے لوگوں پر لاگو ہوتی تھی۔

 

آج ہم پوری صلاحیت رکھتے ہیں کہ اسلامی اُمت کے نئے احیاء کے لئےکام کریں۔ ہم اس قابل ہیں کہ دوسری اسلامی ریاست کے قیام کی ویسے ہی جدوجہد کریں، جیسے رسول اللہ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔

 

اللہ کا وعدہ نصرۃ (فتح) کا آج بھی برقرار ہے۔ تو اے مسلمانو! تم کس بات کا انتظار کر رہے ہو؟

 

یقیناً، ہجرت نے تاریخ کا رخ بدل دیا، اور دنیا کی ہئیت کو بھی اس رنگ میں رنگ دیا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چاہا تھا،

 

﴿صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدون﴾

”ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے، اور ہم اسی کے عبادت گزار ہیں“۔ [سورۃ البقرۃ؛ 2:138]

 

لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ناجائز یہودی وجود کا وزیرِ اعظم تکبر کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل دے گا، اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر بلند آواز میں کہہ رہا ہے کہ وہ ایسے معاہدے کرے گا جو مشرقِ وسطیٰ، یعنی اسلامی سرزمینوں کا نقشہ بدل ڈالیں گے۔ ان معاہدوں میں سب سے نمایاں، یہ نام نہاد ابراہام معاہدہ (Abraham Accords) ہے، جو ایک خودساختہ "ابراہیمی مذہب" کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے۔

 

 

اس سے ایک نہایت اہم اور فوری توجہ کا متقاضی سوال اُٹھتا ہے: اے مسلمانو! جو کچھ آپ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو، اُس کے مقابلے میں آپ کہاں ہو؟

 

کیا آپ ہی اس سرزمین، اس کے وسائل، اور اس کے اہم جغرافیائی مقام کے جائز مالک نہیں ہیں؟

 

کیا آپ وہ لوگ نہیں ہیں جن کے نظریاتی احیاء ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے، جس کے ذریعے آپ نے انسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف پہنچایا؟

 

کیا آپ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے ہجرت کی، جس کے ذریعے پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی، اور جس کے ذریعے آپ نے تاریخ اور دنیا کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا؟

 

کیا آپ کے  درمیان حزب التحریر موجود نہیں ہے جو ایک سچی اور قابلِ اعتماد رہنما جماعت ہے، جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر احیاء کا عَلم اٹھائے ہوئے ہے؟

 

کیا آپ اپنی افواج اور اپنی طاقت کے ساتھ حزب التحریر کی نصرت کرنے کے قابل نہیں، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو اسی طرح فتح عطا فرمائے جیسے اُس نے اپنے رسول ﷺ اور اُن کے جلیل القدر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہجرت اور پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ذریعے فتح عطا فرمائی تھی؟

 

تو اے مسلمانو، اس عظیم بھلائی کی طرف آؤ! حزب التحریر کے ساتھ مل کر خلافت کے دوبارا قیام کے لئے کام کرو اور اس میں اس کی مدد کرو۔

 

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.