الأربعاء، 02 جمادى الثانية 1446| 2024/12/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  • فیس بک پر براہِ راست خطاب
  • "یمن چیخ کر پکار رہا ہے، کوئی ہے جو جواب دے؟!"


میرے عزیز بھایئو اور بہنو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت یمن کے مسلمان انسانوں کے تخلیق کردہ ایک عظیم سانحے سے دوچار ہیں، جسکی وجہ وہ ۳ سالہ بے معنی جنگ ہے جسکے ایک طرف سعودی قیادت تَلے مسلم ریاستیں اور حکومت کے حمایتی فوجی دستے ہیں، اور دوسری طرف وہ حوثی باغی ہیں جنکی پشت پناہی ایران کر رہا ہے۔ ایک ایسی جنگ جو اِس خطے میں امریکی و برطانوی استعماری حکومتوں کے مابین طاقت اور غلبے کے حصول کی جدّو جہد کی وجہ سے پیدا ہوئی، جو کہ (دونوںممالک) اِس وحشیانہ جنگ میں اپنے اپنے علاقائی نمائندے کی حمایت اسلحے اور آگاہی کی فراہمی کے ذریعے کر رہے ہیں۔


بھائیو اور بہنو، اِس بے ضمیر استعماری کھیل کے سبب، یمن میں ہماری اُمّت  بمباری اور لڑائی کی وجہ سے،  اور خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کی آمدو رفت پر ناکہ بندی کے سبب ناقابلِ تصور حد تک ظلم برداشت کر رہی ہے، اور اِس خونخوار بے معنی جنگ کے اوّلین شکار یمن کے بچے ہیں۔ انہیں بھوکا مارا جا رہا ہے،  انہیں قتل کیا جا رہا ہے، اورانہیں اِس جنگ کے ہر کھلاڑی کے خودغرض سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ یونیسیف کے علاقائی ناظم گیرت کاپیلیرا نے کہا ۔۔یمن بچوں کے لئے "جہنم" ہے۔  حَسبُنَا اللّٰہُ وَ نِعمَ الوَکِیل !


یمن سے اُبھرنے والی اُن کمزور، ڈھانچہ نما، مرتے ہوئے بچوں کی تصاویر ناقابلِ دید ہیں۔ وہ اعصاب پر چھا جاتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کی بےبس کوششوں کے باعث اُنہیں گلی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے یا پودوں کے اُبلے ہوئے پتے کھلانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اِس دوران انکی بھوک سے بے قرار چیخیں دل چِیر دیتی ہیں۔ ایک ماں ہونے کے ناتے، میں اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ضائع ہوتے ہوئے اور اُسکی مدد کرنے یا اُسکی تکلیف دور کرنے سے قاصر ہونے کا تصور تک نہیں کر سکتی۔


اقوامِ متحدہ کے مطابق، ہر سال یمن میں اِس امّت کے ۳۰ُ۰۰۰ بچے  اِس مصنوعی  قحط کی بناء پر خوراک کی کمی کے باعث موت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یمن میں ۵ سال سے کم عمر کے  بچوں کی نصف تعداد خطرناک حد تک کم خوراک کا شکار ہے، اور ان میں سے ۴۰۰ُ۰۰۰  بچے فوری امداد کے بغیر ہلاک ہو جائیں گے، اور ہر ۱۰ منٹ کے وقفے پر ایک بچہ قابلِ علاج بیماریوں یا جنگی قحط سالی کے باعث موت کی نذر ہو جاتا ہے۔ امدادی ایجنسیوں کے مطابق اگر جنگ جاری رہی تو قحط پورے ملک کو ۳ ماہ کے اندر  اپنی لپیٹ میں لے لیگا، جس سے ملک کی تقریباً آدھی آبادی فاقہ کشی کی زد میں آ جائے گی، جوکہ پوری صدی کا بدترین قحط ثابت ہو سکتا ہے۔ لَا حَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا اللّٰہ !


جنگی حالات نے یمن میں صاف پانی کی قلّت اور ٹِیکوں اور طبّی نظام کو درہم برہم کر کے خسرا، خناق اور ہیضے جیسی مہلک بیماریوں کو جنم دیا ہے، جس کی زَد میں زیادہ تر بچے آتے ہیں۔ فقط ہیضے کے پھوٹنے سے ہی ۱۲ کروڑ لوگ بیمار اور ۲۴۰۰ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، یونیسیف نے آگاہ کیا ہے کہ شدید جھڑپیں اب حدیدہ شہر کے "الثورہ ہسپتال کے خطرناک حد تک قریب پہنچ چکی ہیں"، جس سے ہسپتال میں زیرِعلاج درجنوں بچے  "ہلاک ہونے کی شدید زَد میں ہیں"۔ لَا حَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا اللّٰہ ! وہ بچے جو خوراک کمی  کے باعث مَر رہے ہیں، وہ اِس ہولناک صورتِ حال کی وجہ سے علاج تک نہیں کروا سکتے۔ اِس عظیم سانحے کے ساتھ ساتھ، ہزاروں معصوم شہری اور بچے بحیرۂ احمر کے بندرگاہی شہر حدیدہ میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں فی الحال جھڑپیں اپنے عروج پر ہیں۔ جس کے ایک طرف وہ اتحادی فوجیں ہیں جو سعودی قیادت کے زیرِدست ہیں اور دوسری طرف حوثی باغیوں کی توپیں ہیں۔

 

عزیز بھائیو اور بہنو، موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ناصرف انسانیت کے خلاف اِس جُرم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے، بلکہ اِس سےغفلت برت کر اِس میں شریک بھی ہوا ہے۔ یہ ہولناک اعداد و شمار اور بھوک سے لاغر بچوں کی یکے بعد دیگرے اُبھرتی ہوئی تصاویر اُن کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے ئے ناکافی رہی ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے، کہ آج کوئی ایک بھی حکومت موجود نہیں ہے، صرف ایک بھی، اور نہ ہی ایک حکمران  موجود ہے، جو یمن کے بچوں اور مسلمانوں کی تہہِ دل سے پرواہ کرتا ہو۔۔انہیں پرواہ ہی نہیں! بالکل اسی طرح، جسطرح انہیں شام کے مسلمانوں، یا میانمار، یا مقدس سرزمینِ فلسطین، یا کشمیر کے مسلمانوں کی پرواہ نہیں۔۔لیکن وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ اُن کے ٹیڑھے سرمایہ دارانہ حساب کے مطابق، معصوم بچوں اور شہریوں کی جانیں بچانے میں انکے لئے کوئی سیاسی یا اقتصادی فائدہ موجودنہیں ہے۔

 

یقیناً امریکہ و برطانیہ کی مغربی استعماری طاقتیں اپنے خودغرض سیاسی و اقتصادی مقاصد کی خاطر اس وحشیانہ جنگ میں یمن کے بچوں کی جانوں سے کھیل کھَیل رہی ہیں، کیونکہ ان کی سرمایہ دارانہ خارجی پالیسی ایک ہی قاعدے پہ قائم کی گئی ہے – "مال کا تعاقب کرو!"  وہ ایک طرف تو جنگ کی ملامت کرتے ہیں، جبکہ  دوسری طرف اُسے اسلحے سے لَیس کرتے ہیں۔ سراسر منافقت! اس دوران سعودی عرب کی غلامانہ حکومت اور متحدہ عرب امارات، کویت، اُردن، مصر اور دیگرخون آلود اتحادی ریاستوں نے اِس امّتِ مسلمہ کے بچوں کو اپنے مغربی آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں اِس جنگ میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ یقیناً اِس بے معنی جنگ میں حکومتِ ایران اور حوثی دستوں سمیت تمام جماعتوں کے ہاتھ یمن کے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں!


اَستَغفِرُاللّٰہ! یہ ایک ناقابلِ یقین اَمر ہے کہ اکیسویں صدی میں لاکھوں کی تعداد میں مرد، عورتیں اور بچے پوری دنیا کی نظروں کے سامنے بھوکے مارے جا رہےہیں اور بمباری سے فنا کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کے دفاع کے لیے ایک بھی حکومت حرکت میں نہیں آئی۔ بلکہ، جنگ بندی کا ذکر سنتے ہی دونوں طرفین سے جھڑپوں میں اور بھی زیادہ شدت کا مظاہرہ ہوتا ہے، اِس امید سے کہ مستقبل میں کسی بھی ممکن مذاکرات سے قبل مزید سیاسی سہولتیں حاصل کی جا سکیں، یہ جانتے ہوئے کہ آج کوئی بھی ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو انہیں یمن کے مسلمانوں کے خلاف سر زَد جرائم کی سزا دلا سکے۔ اور شدید المیہ تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں ہماری افواج دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین ہیں لیکن انہیں یا تو غدار حکمران اپنے مغربی آقاؤں کی رضاحاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یا پھر وہ امّتِ مسلمہ کے دفاع کے بجائے اپنی چھاؤنیوں میں حلقہ بگوش ہیں۔


عزیز بھائیو اور بہنو، عالمی برادری یمن کے مسلمان بچوں سے دست بردار ہو چکی ہے، مسلم ممالک کے مجرم و نااہل حکمرانوں نے بھی یمن کے مسلمان بچوں کو ترک کر دیا ہے، لیکن ہم اُنکی امّت ہونے کے ناتے اسطرح نہیں کر سکتے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا اور نا ہی اُسے ترک کرتا ہے"۔


اپنی امّت کو ترک نا کرنے کا مطلب ہے کہ ہمیں بطورِمسلمان، یمن میں اپنے بہن بھائیوں کی خون ریزی کا مسئلہ اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا، نا کہ ہم اُن مسلمانوں کے لہو کی حفاظت  کی بے محل آسں اقوامِ متحدہ، یا خود مطلب مغربی طاقتوں ، یا مسلم ممالک کی بزدل حکومتوں سے لگائے رکھیں – کیونکہ اُنہوں نے ہی اِس قتلِ عام کی آگ کو چنگاری بخشی ہے،  اُسے بھڑکایا ہے اور پھر اُس سے غفلت برتی ہے!

 

بھائیو اور بہنو، اگر ہم واقعی یمن کے بچوں کو نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں لازمی اپنے دین، اسلام سے حل اخذ کرنا ہوگا، جو کہ حقیقی طور پہ اِس جہنم نما صورتِ حال کا خاتمہ کرے گا۔ بصورتِ دیگر یہ ہماری اپنے بھائیوں اور بہنوں کی جانب شدید غفلت ہو گی کیونکہ اِس سے اُن کی مصیبت میں مزید اضافہ اور خرابی پیدا ہو گی۔

محض آنسو بہانا کافی نہیں ہے۔۔ کیونکہ آنسو ہماری امّت کی حفاظت کرنے یا انہیں خوراک فراہم نہیں کر سکتے! مال و صدقہ کے عطیات کافی نہیں۔۔ کیونکہ یہ مالی امداد جنگ اور ناکہ بندی کے باعث متاثرین تک پہنچ ہی نہیں پاتی!


بھائیو اور بہنو، کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ایک ایسی قیادت و ریاست کا قیام، جو اِس امّت اور اسلام کی حقیقی ضامن ہو، صرف وہ ہی یمن کے بچوں کو اس ہولناک صورتِ حال سے بچانے اور انہیں تحفظ و خوشحالی فراہم کرنے کی اہل ہو سکتی ہے۔ یہ ریاست جسکی اساس خالصتاً اسلام ہے، جو اِسکے مقاصد کے لیے لڑتی ہے، اِسکے نصب العین کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کے خون کے دفاع سمیت، اسکے لیے تمام فرائض سرانجام دیتی ہے – صرف خلافت ہی ہے، جسکا قیام نبوّت کے نقشِ قدم پر کیا گیا ہو، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، "بے شک امام (خلیفہ) ایک ڈھال ہے جسکے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہو تا ہے۔"
صرف خلافت ہی اُس اخلاقی عزم اور سیاسی قوتِ ارادی کی حامل ہے جو اِس وحشیانہ جنگ کو ختم کر سکتی ہے اور ہماری امّت کا تحفظ کر سکتی ہے۔

 

صرف خلافت ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے تمام شہریوں کی نگہبانی کرے گی، چاہے ہو سُنّی ہوں ہوں یا شیعہ، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اور وہ انکی ضروریات پوری کرے گی، انکے لیے پُر تعظیم معیارِ زندگی فراہم کرے گی اور بِلا تخصیص انکے خون، عقیدے، عزت و مال کی حفاظت کی ضمانت دے گی، کیونکہ یہ (اسلام ہی) ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو تمام انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے، جس میں مذہب یا رنگ و نسل کی تفریق نہیں، اور جسکے تَلے تمام لوگ یکساں شہری حقوق سے مستفید ہوتے ہیں۔


مثال کے طور پر ہم یمن کی اُس عظیم تاریخ کو یاد کرتے ہیں جس میں اس نے اِس (اسلامی) ریاست کے زیرِسایہ ترقی حاصل کی تھی۔ عمر بن الخطاب ؓ  کے دورِخلافت میں انہوں نے معاذ بن جبل ؓ کو اپنا سفیر بنا کر یمن بھیجا تھا۔ ایک سال معاذ ؓ نے  یمن کے لوگوں کے لیے مختص کی ہوئی زکو ٰة میں سے ایک تہائی حصہ خلیفہ کو واپس بھیج دیا، تو اِس پر عمر ؓ ناراض ہو کر بولے "میں نے تمہیں لگان کی وصولی کے لیے نہیں (بلکہ) دولت مند سے لےکر کے غریبوں میں بانٹنے کے لیے بھیجا تھا"۔ معاذ ؓ نے جواب دیا کہ "میں کسی ایسے شخص کو تلاش نہیں کر پایا جو اسے قبول کرتا"۔ اگلے سال معاذ ؓ نے (خلیفہ کو) زکو ٰة میں سے آدھا حصہ واپس بھیجا، اور تیسرے سال انہوں نے زکو ٰة کا سارا مال واپس بھیج دیا۔ جب عمر ؓ نے پھر سے اُن کی سرزنش کی تو معاذ ؓ بولے "کوئی ایسا تھا ہی نہیں جو مجھ سےکچھ وصول کرتا"۔   سبحان اللہ !

 

بھائیو اور بہنو، صرف خلافت ہی حقیقی طور پر ایک خودمختار ریاست ہے، جسکا حاکم خودمختاری سے عوام النّاس کے امور کی دیکھ بھال کرے گا اور بیرونی طاقتوں کی خواست گاری کرنےکے بجائے، ان (شہریوں ) کے لیے تگ و دو کرے گا۔ ایک ایسی ریاست جسکے تَلے ہماری زمینوں میں استعمار کی مداخلت کا خاتمہ ہو جائے گا اور جہاں وہ اپنی سیاسی چالوں کے لیے ہماری افواج کو پیادوں کی طرح استعمال کرنے میں ناکام ہو جائیں گے!
اور صرف خلافت ہی مسلمانوں کے دِلوں میں موجود اختلافات کو رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور اسلام کے سائے تلے ان کے درمیان مواخات قائم کرے گی۔ مثال کے طور پر ہم نے دیکھا کہ کسطرح یمن، عراق و دیگر علاقوں کے سُنّی و شیعہ مسلمان صدیوں سے ایک ہی برادری میں نہ صرف امن سے رہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور خلافت کی اسلامی حکومت تلے ریاست کے دشمنوں کے خلافت جنگ بھی لڑتے تھے۔


لہذا ، اگر ہم واقعی یمن کے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں، ہمیں لازماً خلافت کے فوری قیام کےلئے اپنی تمام تر کوششیں صَرف کرنی ہوں گی۔  بھائیو اور بہنو،  ہم اس خلافت کو خواب کے طور پر نہیں تسلیم کر سکتے -  ہرگز نہیں! ہمیں اپنی امّت کو نجات دلانے کے لیے لازمی طور پہ اِس (خلافت) کو حقیقت کا جامہ پہنانا ہو گا، کیونکہ یہ اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی جانب سے حکم کیا گیا ہے! نا ہی ہم اِس (خلافت) کو مستقبل کے لیے ایک انتخاب کو طور پر تصور کر سکتے ہیں – نہیں! یہ ایک فوری اہم ضرورت ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش آفتوں سے نجات دلائی گی۔

 

لہذا،  عزیر بھائیو اور بہنو، ہم حزب التحریر، آپ کو اللہ کے اِس حکم ، ریاستِ اسلام کے قیام کی اہم دعوت میں شامل ہونے کی طرف بلاتے ہیں۔ ہم آپ کو اِس پیغام سےاپنے تمام واقف کاروں کو، خاص کر ان لوگوں کو جن کا تعلق مسلم افواج سے ہے،کو آگاہ کرنے اور انہیں ترغیب دینے کی دعوت دیتے ہیں ،کہ وہ بِلا تاخیر اِس قیامِ خلافت کے لیے اپنی نصرة ، اپنی مادّی حمایت عطا کریں، تا کہ وہ اس امّت کے لہو کا دفاع کریں، نا کہ اُن کا جنکو مجرم حکاّم یا بیرونی طاقتیں اُس لہو کو ضائع کرنے کا حکم دیتی ہیں۔


آئیے کہ ہم سب مل کر اپنی مصروف زندگیوں، اپنی نوکریوں، اپنی پڑھائیوں، اپنی اولادوں اوراپنے دیگر مشاغل کو اِس دعوت کے رستے میں رکاوٹ بننے، اور اپنی امّت کے سامنے ناکام ہو جانے اور یمن کے مرتے ہوئے بچوں پر اپنی پیٹھ موڑنے سے روکیں – کیونکہ ہمارے یہ عذر اپنے بھائیوں اور بہنوں کے حقوق سے کوتاہی کرنے میں  اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے آگے رخصت فراہم نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:


﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
"اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب وہ تمہیں اُس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشتی ہے، اور جان لو کہ اللہ انسان اور اسکے دِل کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں، اور بے شک تم سب کو اللہ کے پاس جمع ہونا ہے"۔  (سورة الانفال: آیت ۲۴)

 

ڈاکٹر نسرین نواز
ڈائریکٹر برائے مرکزی میڈیا آفس شعبۂ خواتین حزب التحریر

Last modified onجمعہ, 28 دسمبر 2018 15:51

Media

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک