السبت، 21 محرّم 1446| 2024/07/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

برطانیہ کی جانب سے حزب التحریر پر پابندی عائد ہونے میں تاخیر

خبر:

 

برطانوی حکومت نے اپنی سرکاری ویب سائٹ www.gov.uk پر بیان جاری کیا ہے کہ "حزب التحریر کو آج (یعنی 19 جنوری 2024 کو) کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اور اس جماعت سے تعلق رکھنا یا اس کی حمایت کرنا قابلِ سزا جرم ہے"۔ [ذرائع[

 

تبصرہ:

 

فساد کی جڑ برطانیہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اور خلافت کے قیام کی دعوت اور مظلوموں کی حمایت کی آواز کے خلاف اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔ اور حزب التحریر کے شباب کی برطانیہ میں آمد کے تیس سال سے زائد عرصے تک زیر التواء رہنے کے بعد برطانیہ نے بالآخر حزب التحریر پر پابندی لگا ہی دی۔ مگر برطانیہ نے یہ پابندی عائد کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ جبکہ برطانیہ نے صدیوں تک خلافت کے خلاف سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ وہ 1342 ہجری میں رجب کے ان ہی دنوں میں خلافت کو منہدم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

 

حزب التحریر پر تمام سابقہ برطانوی کالونیوں اور اس کے زیرِنگرانی علاقوں (Protectorates) میں پابندی عائد ہے جس کا آغاز اردن سے ہوا جہاں اردن کے اصل حکمران جان باگوٹ گلوب ("گلوب پاشا") نے تقریباً ستر سال قبل حزب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی اس وقت فوراً عمل میں لائی گئی جب گلوب کو شیخ تقی الدین النبھانیؒ کے ہاتھوں حزب کے قیام کا علم ہوا۔ حزب پر آج بھی انگریز عورت کے بیٹے عبداللہ جونیئر کی حکمرانی میں پابندی عائد ہے اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات میں بھی، جس پر انگریزوں کے حامی زید کے بیٹوں کی حکومت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مغربی عرب اور مشرق بعید میں ملائیشیا تک ہر جگہ پابندی عائد ہے اور یہ جزب کے خلافت کے قیام کے منصوبے کے بارے میں برطانیہ کے خوف کی وجہ سے ہے۔ انگریز چاہے کہیں بھی نوآبادیات بنائے یا آباد ہو وہ خلافت کا محض ذکر تک سننے کا متحمل نہیں ہے۔ وہ ریاستِ حق کا تذکرہ سننے کا بھی متحمل نہیں جو لوگوں پر انصاف کے ساتھ حکمرانی کرتی ہو۔ انگریز قومِ لوط کی مانند ہیں جنہوں نے کہا، جیسا کہ اللہ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے،

 

﴿أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ﴾

"لوط کے پیروکاروں کو اپنی سرزمین سے نکال دو! وہ ایسے لوگ ہیں جو نیک اور پاکیزہ رہنا چاہتے ہیں!" (سورہ النمل؛27:56 (

 

یہ بالکل بھی حیرت کی بات نہیں ہےکہ برطانیہ نے حزب التحریر پر پابندی عائد کردی ہے بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پابندی آج تک التوا کا شکار کیوں تھی۔ تاہم اگر اس التوا کی وجہ کو کھلے عام بیان کیا جائے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہ رہے گی۔  برطانیہ کی طرف سے اپنے جزیرے میں حزب کی کارروائیوں کو نظر انداز کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ حزب کی موجودگی سے بے فکر تھی۔ بلکہ اس کی وجہ یہ خیال تھا کہ حزب کی سوچ صرف اس کے شباب اور حامیوں تک محدود ہے۔ اور برطانیہ کو پابندی لگا کر حزب کو امت کا زیادہ اعتماد دینے، اس کے ارد گرد جمع ہونے اور اس کے خیالات کو اپنانے کی طرف دھکیلنے کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم، جب کافی دیر بعد ان پر یہ واضح ہوا کہ حزب امت مسلمہ بشمول برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی کی حقیقی رہنما ہے اور ان کے مطالبات کی موثر نمائندگی کر رہی ہے، تو برطانیہ غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نفرت میں جل بھن گیا۔ چنانچہ، برطانیہ نے اپنے ہی بت توڑ دیے، جن کا ذکر نام نہاد آزادی اور قانون کی رٹ جیسے باطل اقدار سے کیا جاتا ہے۔

 

جس چیز نے برطانیہ کو حزب پر پابندی لگانے پر اکسایا وہ غزہ کی جنگ کے بارے میں حزب کا مؤقف تھا اور وہاں کے مسلمانوں کی حمایت کرنے کا مطالبہ اور اسلام کو پوری دنیا کے لیے ایک متبادل تہذیب کے طور پر پیش کرنا اور حزب کا مظلوموں کا دفاع کرنے والے ایک عظیم رہنما کے طور پر ابھرنا اور مصیبت زدہ لوگوں کے لیے ریلیف کا مطالبہ کرنا۔ یہ خاص طور پر اس لیے کہ یہودی وجود کے خاتمے کا مطالبہ درحقیقت خود برطانیہ کے وجود کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ امت اور یہودی وجود کے درمیان جنگ درحقیقت امت کے خلاف صلیبی مغرب کی ایک صلیبی جنگ ہے۔ یہودی وجود اسلامی امت کے خلاف جنگ میں مغرب کی فرنٹ لائن ہے۔ یہ ایک زہر آلود خنجر ہے جو امت کے پہلو میں پیوست ہے، جو اسے نشاۃِ ثانیہ اور خلافت راشدہ کے قیام سے روکے ہوئے ہے۔ اگر یہودی وجود کو مٹا دیا جائے تو امت کا برطانوی جزیرے کی طرف ایک فاتح کی حیثیت سے مارچ محض کچھ وقت کی بات ہو گی۔

 

برطانیہ دنیا میں کفر کا سرغنہ اور سازشوں کا سرچشمہ ہے۔ اسے حزب التحریر کی دعوت کے خطرے سے پوری طرح آگاہی ہے جو اس کی تہذیب کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ ہمیں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ دوسرے مغربی ممالک اور ان کے پیروکار حزب پر پابندی لگانے میں اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ حزب اور مغرب کے درمیان کشمکش اپنے آخری فیصلہ کن دور میں پہنچ چکی ہے۔ اور یہ وہ وقت ہے جب امت نے اپنے دین کو پہچان لیا ہے اور مغرب اور اس کی تہذیب کو ترک کر دیا ہے۔ یہ تب ہو رہا ہے جب مغربی دنیا کے بہت سے لوگ دنیا میں ہونے والے تہذیبوں کے تصادم کی تفصیلات اور مغربی تہذیب کے جھوٹ، اس کے بدنیتی پر مبنی استعماری طریقوں اور اس کے جاری جرائم، جو اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ مسلم ممالک میں حکومتوں کی غداری، ملی بھگت اور کرپشن بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ ان حکومتوں کو جواز فراہم کرنے والوں کی منافقت جن میں تحریکیں، علما، میڈیا کی شخصیات اور دیگر شامل تھے، بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں... چنانچہ برطانیہ کے ان حقائق کے بدنیتی پر مبنی احساس نے اسے اکسایا کہ اس بار اپنے عرب اور غیر عرب ایجنٹوں کو ذمہ داری سونپنے کے بجائے وہ خود یہ گھناؤنا کام سر انجام دے۔ اس نے دنیا میں یہودی وجود اور برطانوی اثر و رسوخ کے تحفظ کے لیے اپنی باطل اقدار کی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنے کے لیے من گھڑت الزامات لگائے اور جھوٹ بولے۔

 

چارلس III کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ وجوہات، جن کو برطانوی وزیراعظم سوناک (Sunak) نے پیش کیا، جس کے دل میں اسلام کے خلاف صلیبیوں اور ہندوؤں دونوں کی نفرت یکجا ہے، وہ وجوہات حزب کے لیے تو اعزاز ہیں، نہ کہ سوناک کے لیے۔ مسلم افواج کو فلسطین کی بابرکت سرزمین کو آزاد کروانے اور اسے مجرم یہودیوں کی غلاظت سے پاک کرنے کے لیے جہاد کے لیے آگے بڑھنے کی دعوت دینا، نہ صرف حزب کے لیے قابلِ فخر ہے بلکہ یہ ہر اس شخص کے لیے قابلِ فخر ہے جو ایسا ہی کام کرتا ہے اور اس کی دعوت دیتا ہے۔ عام طور پر جہاد کی دعوت اسلام کے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کے لیے شیطانی قوتوں سے لڑنے اور ان سے انسانیت کو آزاد کروانے کی دعوت ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جسے صرف عظیم لوگ، انبیاء، رسول اور ان کی پیروی کرنے والے ہی انجام دے سکتے ہیں۔ جہاد انگریزوں کی طرح استعمار کی لڑائی کے مترادف نہیں ہے، جس کے جرائم کا دنیا کا کونا کونا گواہ ہے، جس میں برصغیر پاک و ہند سے لے کر براعظم افریقہ تک قتل و غارت، غلامی اور دولت کی لوٹ کھسوٹ شامل ہے۔

 

اسلام، جس کی نمائندگی حزب التحریر کی قیادت زمین پر اسلامی ریاست کے قیام کے مطالبے سے کرتی ہے، اور کفر، جس کی نمائندگی دنیا کی بڑی طاقتیں کرتی ہیں، کے درمیان تصادم بہت واضح اور شدید ہو چکا ہے۔ امت منتظر ہے کہ اس کی افواج میں موجود اہلِ نصرة، انگریزوں اور امریکیوں کے اتحادی ایجنٹوں کے تختوں کو الٹ دیں۔ یہ اس بات کی منتظر ہے کہ افواج نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو اپنی نصرۃ (مادی مدد) فراہم کریں اور عالمی برائی کی قوتوں کو آخری ضرب لگائیں۔ اسی مقصد کے لئے امت کے مخلصین کی دعوت مرکوز ہونی چاہیے۔ اس کے لیے امت کی افواج کو فوری طور پر حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نےارشاد فرمایا:

 

﴿انْفِرُواْ خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾

"نکلو ہلکے اور بوجھل اور لڑو اپنے مال سے اور جان سے اللہ کی راہ میں یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے" (سورة التوبہ؛ 9:41)

 

حزب التحریر کے میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا

بلال المہاجر – ولایہ پاکستان

Last modified onبدھ, 13 مارچ 2024 06:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک