الجمعة، 27 جمادى الأولى 1446| 2024/11/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
سکینڈینیویا

ہجری تاریخ    9 من رجب 1438هـ شمارہ نمبر: 02/1438
عیسوی تاریخ     جمعرات, 06 اپریل 2017 م

پریس ریلیز

صرف اسلام کی بنیاد پر مردوزن کی علیحدگی کیوں ایک مسئلہ ہے؟

 

منگل 4 اپریل کو میڈیا نے بالعموم اور خاص طور پر ایک ٹیلیوژن نے اپنے پروگرام “Kalla Fakta)”cold facts) میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ الازہر اسکول کی اسکول بس میں بچوں اور بچیوں کے بیٹھنے کیلئے علیحدہ علیحدہ سیٹیں ہیں ، اور یہ کہ ٹینسٹا (Tensta) میں ایک کیفے ٹیریا نے مردوں اور خواتین کے بیٹھنے کی جگہ الگ الگ بنائی ہے، اور یہ بھی کہ مضافاتی علاقوں میں ’اخلاقی پولیس‘ گشت کر رہی ہے۔اسٹیفن لووین نے فوری طور پر ان اقدامات کو گھناؤنا کہا۔گستاو فریدولین نے بھی فوراً کہا کہ یہ ناقابلِ قبول ہیں۔

 

کیا اسٹیفن لووین یہ سوچتا بھی ہے کہ وہ یوتھ کلب جس کا ذکر TV4 نے اسی پروگرام میں کیا،جس کو 2015 کے آغاز میں بنایا گیا اور جو صرف خواتین کیلئے مخصوص تھا،وہ بھی گھناؤنا اقدام ہے؟جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اسی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والی اینا ہونازن اس علیحدگی کی حمایت کرتی ہے۔ گستاوفریدولین  کا اس بارے میں کیا خیال ہےکہ گرین پارٹی سے منسلک اودہر سی بھی اس سوچ کا ساتھ دیتا ہے، کیا یہ بھی ناقابلِ قبول ہے؟ شاید اسٹیفن لووین اور گستاو فریدولین یہ تجویز بھی دے دیں کہ زلاٹان ابراھیمووچ اور لوٹاشیلین کو ایک ہی جنس کے طور پر مخلوط قومی ٹیم میں کھیلنا چاہیئے۔البتہ یہ بظاہر اتنا گھناؤنا نہیں ہے کیونکہ اس کا مقصد اسلام کی بنیاد پر نہیں ہے۔یہ ایسا ہی نا قابلِ قبول ہے جیسا کہ سویڈن میں بڑے پیمانہ پر مردوں اور خواتین کیلئےالگ الگ عوامی استنجا خانے ہیں۔ فروری کے آغازمیں SVT نے ایک فیس بُک گروپ  “Honesty and the bees”  کو مثبت انداز سے پیش کیا تھا جو کہ صرف خواتین کے لیے ہے۔ یومیا یونیورسٹی کی انٹرنیٹ ریسرچر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر، ایلزا ڈنکلز نے بھی اس سوچ کی حوصلہ افزائی کی۔کیا حکومت کے پاس نمٹنے کیلئے اس سے بڑے مسائل نہیں ہیں جن کی نشاندہی ہم نے پچھلی ویڈیو میں کی تھی؟

 

سوال یہ ہے کہ کیوں صرف اسلام کی بنیاد پر مردوزن کی علیحدگی ایک مسئلہ ہے؟ اس بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے ایک شخص خودسے یہ پوچھ سکتا ہےکہ رونیبی اور تورن فرامتید کے اسکولوں میں پناہ گزینوں کے ساتھ کیا گیا گھٹیا برتاؤ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ،جبکہ اُن کے داخلےی راستے علیحدہ کر دیے گئے تھے ؟

 

ان مثالوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مردوزن کی علیحدگی بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ وہ ہے جو وہ اپنے اندر اسلام کے خلاف رکھتے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے ہم نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں سویڈن کے معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں پر روشنی ڈالی گئی جس کے دو دن بعد اسلامی اقدار کو بدنام کرنے کے لیے ایک بار پھر اس اُمید پر ایک نئی مہم چلائی گئی کہ مسلم نوجوانوں کا رشتہ اِن اسلامی اقدار سے ٹوٹ جائے۔ ان حملوں سے مسلمان اس دباؤ میں آگئے کہ مشکلات کا سامنا کیے بغیر ایک پُر سکون زندگی گزاریں یا اپنی اسلامی شناخت کی حفاظت کریں۔ جس طرح یومیا یونیورسٹی میں سماجی خدمات کے ریسرچر ڈیون ریکسوڈ نے مضافاتی علاقوں میں اخلاقی پولیس والوں کی طرف سے خواتین کو بھیجے گئے پیغام کی رپورٹ کےحوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا:"اگر آپ اُس طرح نہیں جیتے جس طرح ہم کہتے ہیں، جس طرح ہم تجویز کرتے ہیں، جس طرح ہم اُمید کرتے ہیں، تو آپ کا یہاں سے کوئی تعلق نہیں"۔ اسی طرح وہ معاشرہ بھی ان مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے جو اپنی اسلامی اقدار کو قربان کرنے سے ان کار کر دیتے ہیں کہ یا تو وہ معاشرے کے طور طریقے اپنا لیں ورنہ اُن کا اس معاشرے سے کوئی تعلق ہیں۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ پہلا پیغام حقیقت پر مبنی نہیں جیسا کہ مضافات میں رہنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ سڑکیں ، ہر قسم کے لباس پہنی ہوئی خواتین سے بھری ہوئی ہیں جبکہ دوسرا پیغام اب ایک حقیقت ہے۔

 

مسلمانوں سے ہم یہ کہتے ہیں کہ  بار بار یہ حملے صرف اس لئے ہو رہے ہیں کیونکہ اس تمام تر تضحیک کے باوجوداسلام فروغ پا رہا ہے۔ جب اُس کے دشمنوں کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں تو وہ اسلام پر حملہ کرنے اور اسے بدنام کرنے پر اُتر آتے ہیں۔یہ ہمارے لئے قوت کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے، اُس دولت کے لیے جو ہمارے پاس ہے۔ہم مسلمان ہونے پر معذرت خواہ نہیں ہیں اور ہم ہر وقت اور ہر جگہ اپنے اسلام پر مضبوط رہیں گے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بِنا کسی اضافے اور بِنا کسی تفریق کےاسلام کو اِس طرح پیش کریں جیسا وہ ہے۔اللہ نے ہمیں جہالت کے اندھیروں سے بچایا اور ہمیں اسلام کی روشنی تک پہنچایا ۔ ہم اس معاشرے کے دباؤ میں نہ آئیں اور جہالت کی طرف واپس نہ چلے جائیں۔ پریشانی کے بعد آسانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

"اور اُس شخص سے بڑھ کر خطاب کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بُلائے اورنیک  عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں"(فصلت:33)

 

سکینڈینیویا میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
سکینڈینیویا
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.hizb-ut-tahrir.dk
E-Mail: info@hizb-ut-tahrir.dk

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک