المكتب الإعــلامي
روس
ہجری تاریخ | 19 من رجب 1440هـ | شمارہ نمبر: 1440 / 06 |
عیسوی تاریخ | منگل, 26 مارچ 2019 م |
سونغاتوف رسلان کی عدالت میں تقریر
جنہیں 22 سال قید کے سزا سنائی گئی
بسم لله الرحمن الرحيم، الحمد لله رب العالمين، نحمده سبحانه ، ہم اللہ کی مدد اور معافی کے طلبگار ہیں۔ ہم اپنی ذات کے شیطان سے اور اپنے گناہوں کے نتائج سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جس کی اللہ رہنمائی کرے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا، اور جسے اللہ گمراہ کرے وہ کبھی بھی ہدایت نہیں پائے گا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی رب نہیں سوائے اللہ کے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ۔۔
وہ وقت آگیا ہے جب ایمان والوں کو اپنے دین اسلام پر ایمان کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہر نعمت میں اس کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ عدالت نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہمیں سزا نہیں دے رہی، نہ ہی حزب التحریر کو سزا دے رہی ہے بلکہ آج وہ اللہ کے دین اسلام کو سزا دے رہی ہے۔
یہ جھوٹا مقدمہ اس لیے چلایا گیا ہے تا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ یہ عدالت ہمارے مذہب اور سیاسی نظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ جرائم پر ہمیں سزا دے رہی ہے۔ اس مقدمے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ روس میں اسلام پر مکمل پابندی ہےسوائے کچھ حصے کے اور اسلام کے اُس چھوٹے سے حصے سے بھی حکمران خوفزدہ رہتے ہیں۔
انہوں نے ہمیں مجرم قرار دے دیا کیونکہ ان کے مطابق حزب التحریر ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ روس کی سپریم کورٹ نے 14 فروری 2003 کو اپنے ایک فیصلے میں حزب التحریر کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لہٰذا اب انہیں اس بات کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہم نے جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ہم حزب التحریر کے رکن ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے کہ انہوں نے حزب کو کالعدم قرار دے دیا اور یہ ثابت بھی نہیں کیا کہ حزب کے اراکین معاشرے کے لیے خطرہ ہیں، بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے حزب کے رکن ہونے کا اعتراف کیا ہے لہٰذا آپ مجرم بن گئے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حزب التحریر کے اراکین کا پیچھا کرنا ایک سیاسی عمل ہے نا کہ جرم کو تلاش کرنا۔ لہٰذا وہ کسی مخصوص جرم کی وجہ سے ہمارا پیچھا نہیں کررہے بلکہ ہمارے افکار کی وجہ سے ہمارا پیچھا کررہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسا کہ اسٹالن کے زمانے میں اس کی رائے سے اختلاف کرنے والوں پر ظلم کیا جاتا تھا۔ ہماری آج کی موجودہ صورتحال بالکل بھی اس وقت سے مختلف نہیں جب لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد اور سیاسی نظریات کی وجہ سے سوویت یونین کے آئین کی دفعہ 58 کے تحت "لوگوں کا دشمن" قرار دے کر 10 سے 15 سال کے لیے قید خانوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ آج کی طرح اس وقت بھی سزا مکمل ہونے پر چھوڑا نہیں جاتا تھا بلکہ اس میں اضافہ کردیا جاتا تھا۔ آج حزب التحریر کا رکن ہونے پر قید کی سزا 24 سال تک پہنچ گئی ہے۔ آج کے دور اور اسٹالن کی دہشت گردی میں کیا فرق ہے؟ آج ہمارے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسا کہ مجرموں کے لیے بنائے گئے قید خانوں(internment camps) کے دور میں خفیہ مقدمے چلتے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اعلان شدہ جنگ اسلام کے خلاف ہے۔
جنہوں نے ہمیں یہاں پر پہنچایا ہے وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کا طرز عمل خلافِ قانون ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ کیسے انہوں نے الزامات لگائے اور کیا کیا طریقہ کار ان مقدمات میں استعمال کیے گئے، انہوں نے رشین فیڈریشن کے قوانین کی پاسداری نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف دانشوروں کے خلاف محاذ کھڑا کرنے اور انہیں طویل عرصے کے لیے قید میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے،اور یہ لوگ اپنے سربراہ کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔ یہ قانون نافذ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ اپنے سربراہ کے خدمت گزار ہیں۔ یہ اپنے کام اور مقدمات کے متعلق سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے رتبے اور آمدنی میں کمی آتی ہے۔
جنہوں نے ہمیں یہاں پرپہنچایا ہے ، وہ ماؤں، بیویوں اور بیٹوں کے مصائب اور آنسو وں کے بدلے پیسہ وصول کرتے ہیں اور ترقیاں پاتے ہیں۔ ہاں یہ ان لوگوں پر بھاری بوجھ ہے، وہ تمام لوگ جنہوں نے ہمیں یہاں پہنچانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے وہ سچ نہیں بول سکتے کیونکہ وہ آزاد نہیں ہیں۔۔۔۔ہم سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی آزاد ہیں، اور اسی لیے ہم سچ بولتے ہیں اور کھلم کھلا اب بھی سچ بول رہے ہیں، کیونکہ سچ بولنا ہمارے رب ، العظیم، کا حکم ہے۔
تمام تعریفیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہیں، جس نے مجھے پیدا کیا اور سیدھی حق و سچ کی راہ دیکھائی۔ میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں، اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھتا ہوں، میں جنت و جہنم پر ایمان رکھتا ہوں، میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ ہر فرد کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور روز آخرت اُس سے اُس کے اعمال کا حساب لیاجائے گا۔ میرے لیے زندگی کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہے۔ میں یہ ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ کی خوشنودی اس صورت میں حاصل ہوسکتی ہےاگر اس کی مکمل اطاعت کی جائے۔ صرف اسی صورت میں ہمیں دونوں جہانوں میں تحفظ اور خوشی ملے گی۔
اللہ کی نعمتیں سب کے لیے ہیں اور ان میں کفار بھی شامل ہیں اور یہ ہماری ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسلامی ریاست کے عیسائی شہریوں نے صلیبیوں کے خلاف مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑائی لڑی جبکہ صلیبی اس بات کی توقع کررہے تھے کہ اسلامی ریاست کے عیسائی ان کی حمایت کریں گے۔ اسلامی ریاست کے عیسائیوں نے اسلامی ریاست کے انصاف کو دیکھ رکھا تھا اور چونکہ اس کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی تھی اس لیے وہ معاشرے کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتی تھی۔ لیکن صلیبی وہاں پرصرف موت اور تباہی کا پیغام لے کر آئے تھے۔۔۔۔ خلافت کی تاریخ میں اس طرح کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔
آج یہ لوگ خلافت کے متعلق بکواس بکتے ہیں اور لوگوں کو اس سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آخر یہ فیصلہ کس نے کیا کہ خلافت بری ہے؟ یہ فیصلہ کس نے کیا کہ وہ خالق سے زیادہ ذہین ہے اور وہ خودیہ فیصلہ کرنے لگا کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے؟ کس نے فیصلہ کیا کہ سیکولرازم،سرمایہ داریت اور جاگیرداری بہتر ہے؟ کئی صدیوں تک خلافت میں کوئی دہشت گردی کے متعلق جانتا نہیں تھا، نہ ہی کوئی ایٹمی یا کیمیائی بمبوں کے متعلق جانتا تھا ، دورِ خلافت میں لوگوں نے اتنے دکھ درد نہیں دیکھے جتنے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت کے بعد سے ہونے لگا جب اسلامی ریاست کو تباہ کردیا گیا اور سیکولر ازم کا ظہور ہوا۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ انسان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خالق سے زیادہ ذہین ہے اور اسے خالق کی ضرورت نہیں ہے۔
سچ یہ ہے کہ کسی کو اسلام سے خطرہ نہیں ہے بلکہ اصل خطرہ اسلام کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہے۔ اسلام انصاف اور لوگوں کے لیے ہمدرد ہے۔ ریاست خلافت وہ ریاست ہوتی ہے جو زمین پر انصاف اور رحم پھیلاتی ہے۔
ریاست خلافت کے تصور اور شرعی احکامات پر جو مسلسل حملے ہوتے ہیں اور جو اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اس سے کچھ اچھا حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ تصورات مسلمانوں میں جڑیں پکڑ چکے ہیں اور اسلامی ریاست کا تصور مجرم سرمایہ دار ریاستوں کے دروازے پر پہنچ چکا ہے ، اور اس نے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ہاں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ خلافت کا وقت آچکاہے اور بغیر کسی شک و شبے کے خلافت آکر رہے گی چاہے اس کے دشمن کتنا ہی اس کو روکنے کے لیے زور لگا لیں۔ اسلامی ریاست رکاوٹوں اور دشواریوں کو کاٹ ڈالے گی اور دنیا اسلام کے نور سے منور ہوجائے گی۔ تو کون ہے جو یہ فیصلہ صادر کر رہا ہے کہ یہ شر ہے؟ میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے کیوں اس کی خواہش نہیں کرسکتا؟ کون مجھے اس بات سے روکتا ہے؟
میں تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ، اور ہر معاشرے کے لیے خیر کی خواہش کرتا ہوں۔ میرا اسلام کی دعوت دینا لوگوں کی مدد کرنے کا میرا طریقہ ہے جو مر نے کے بعد اپنے آپ کو جنت میں پائیں گے۔اسلام اور اسلامی طرز زندگی کی دعوت دینا ہمارے رب کی جانب سے ہم پر فرض ہےجسے ہمیں لازمی لوگوں تک پہنچانا ہے۔ کوئی مجھے میرے اس کام سے نہیں روک سکتا ۔ کوئی مجھے جیل کی سخت سزا دے کر یہ نہ سوچے کہ میں روک جاؤں گا۔
آج حکومت ہمیں مجرم اور دہشت گرد قرار دینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے اور اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت یا دلیل پیش نہیں کرتی۔ تشدد اور وحشیانہ عدالتی کارروائیاں ہمارے خلاف استعمال کی جاتی ہیں اور حکومت کا ہدف یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب اور سیاسی نظریات سے دستبردار ہوجائیں۔ مجرم وہ ہے جو ہمیں یہاں تک لایا ہے اور جو اس مقدمے میں ان کی مدد کررہا ہے۔
جنہوں نے اللہ اور اس کے دین کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے وہ ہم سے کہتے ہیں، "جو تمہارے پاس ہے اسے چھوڑ دو۔ تمہاری تکالیف،تمہارے مستقبل کے تاریک ہونے، تاریک کوٹھریوں میں تمہاری قید اورزمین پر بھاگتےچھپتے رہنے کی وجہ یہ ہے"۔ہمارا جواب یہ ہے:"اللہ اسے عزت دیتا ہے جسے وہ دینا چاہے، اور اسے ذلیل کرتا ہے جسے وہ ذلیل کرنا چاہے۔ تم اپنے کیے پر افسوس کرو گے۔ ہم اسی راہ پر صبر اور استقامت کے ساتھ چلتے رہیں گے کیونکہ یہی ہماری زندگی کا مطلب ہے"۔
ہم جانتے ہیں کہ جب ہم اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی راہ پر چلیں گے تو ہم مشکلات کا سامنا کریں گے۔ ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت میں مشکلات کا سامنا کریں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاریں۔
میں خطاکار ہونے کا اعتراف نہیں کرتا۔۔۔ خطا کار وہ ہیں جنہوں نے مجھ پر میرے عقائد کی وجہ سے دہشت گردی کا الزام لگایا۔۔۔خطا کار وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے دین اسلام پرحملہ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے بہت پہلے اپنی راہ کا تعین کرلیا تھا اور جو مجھ پرالزام لگا رہے ہیں انہوں نے بھی اپنی راہ کاتعین کرلیا ہے اور وہ جانتے ہیں کوئی جرم نہیں ہوا ۔ ہر ایک زندگی میں اپنی راہ کا تعین کرتا ہے۔ شاید جس کسی کا بھی اس معاملے سے کوئی تعلق ہے، اور اس کی ابتداء تفتیش کاروں سے ہوتی ہے، وہ اس دنیا میں اپنے فیصلے کی تلخی کامزہ چکھیں گے، اور ہر ناانصافی کا نتیجہ انسان آخرت میں اندھیرے کی صورت میں دیکھے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ﴾
"اس دن اللہ ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے گا اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ برحق (اور حق کو) ظاہر کرنے والا ہے“(النور:25)۔
آخر میں ،مَیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ،کہ میں اسلام کا سپاہی اور اس سے مخلص رہوں گا، حزب التحریر کے افکار، تصورات اور خیالات کو زبان و عمل کی صورت میں اختیار کرتے ہوئے، حزب کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ، اس کے احکامات کوپورا کروں گا چاہے وہ میری رائے سے مخالف ہی کیوں نہ ہوں اور میں جب تک اس میں موجود ہوں اس وقت تک ان اہداف کے حصول کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاؤں گا، اور میں نے جو کہا اللہ اس پر گواہ ہے۔
روس میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير روس |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 03-89201614 www.hizb-russia.info |
E-Mail: hizbuttahrir.russia@gmail.com |