الأحد، 27 صَفر 1446| 2024/09/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

ہندوستان "دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک" اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گیا

جمعہ، 28 دسمبر 2012 کو 23 سالہ ہندوستانی میڈیکل سٹوڈنٹ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، جسے 16 دسمبر کو دہلی کی ایک بس میں چھ آدمیوں نے بدترین تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے نے پورے ہندوستان میں، ہندوستانی پولیس اور حکومت کی غفلت اور خواتین کے جنسی تشدد سے بچائو کے معاملے پر ان کی سست روی کے خلاف مظاہروں کی آگ بھڑکا دی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندوستان میں زنا بل جبر ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ درندگی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے اور ہندستان میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا جرم ہے۔ لاتعداد جنسی حملوں کی تو رپورٹ ہی درج نہیں کرائی جاتی کیونکہ خواتین اپنی عزتوں کے تحفظ کے سلسلے میں اس نظام پر بالکل اعتماد نہیں کرتیں۔ اسکی ایک وجہ تو اتنے بڑے پیمانے پر اس مسئلے کا پایا جانا ہے، دوسرا یہ کہ عموماً پولیس کی جانب سے مجرموں کو تحفظ دیا جاتا ہے، نیز یہ مقدمے سالہاسال عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں اور سزاؤں کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، ہندوستان میں ہر 20 منٹ کے بعد ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور صرف گزشتہ سال میں ہی زیادتی کے 24,000 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی ذرائع ابلاغ کے ادارے نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ دہلی کی 80% خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں کے دوران زیادتی کے واقعات میں حیرت انگیز طور پر 792% اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر نسرین نواز، ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر، نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ایک طرف تو مغرب مسلسل 'جمہوریت ' کو خواتین کے حقوق اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے بہترین نظام قرار دے کر اسے مسلم ممالک کو برآمد کر رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک اپنی خواتین کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں ظالمانہ اضافہ، پولیس کی طرف سے ان کی عزت کی حفاظت کے بارے میں لاپرواہی برتنا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں حکومتی بے حسی دراصل اس لبرل ثقافت کاشاخسانہ ہے جسے بالی ووڈ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی صورت میں ریاستی سطح پر خوب اچھالا جاتا ہے اور اس کے گن گائے جاتے ہیں؛ کیونکہ اسی کے نتیجے میں خواتین کو ہر روز منظم طریقے سے بے وقعت کیا جا رہا ہے۔ اس بالی ووڈ ثقافت اور انٹرٹینمنٹ کے دیگرذرائع مثلاً اشتہاروں اور پورنوگرافی انڈسٹری نے، جس کی ہندوستان کے سیکولر لبرل جمہوری نظام نے اجازت دے رکھی ہے، عورت کو مردوں کی خواہشات پر ایک کھلونا بنا کر پیش کیاہے۔ انہوں نے معاشرے کو جنسی ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے اور افراد کو اپنی جنسی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ غیر ازدواجی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں اور عورت اور مرد کے مابین رشتوں کو سستی شے بنا کر فحاشی کومزید پھیلا رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے بے شمار مردوں کو بے حس کر دیا ہے یہاں تک کہ انہیں خواتین کی عصمت دری پر جو غم وغصہ محسوس ہونا چاہئے، وہ اس سے کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ یہ ہرگز باعث حیرت نہیں یہ ملک اب امریکہ اور برطانیہ جیسی لبرل ریاستوں کی برابری کرتا دکھائی دیتا ہے جو خواتین کے خلاف تشدد میں عالمی رہنما ہیں۔ یہ جمہوری سیکولر لبرل نظام جہاں کی نصف آبادی خوف میں زندگی گزار رہی ہے، مسلم دنیا کے لیے ہرگز قابل قبول نمونہ نہیں۔"

"یہ اسلام ہی ہے، جسے نظام خلافت کے تحت مکمل اور ہمہ گیر طورپر نافذ کیا جاتا ہے، جو خواتین کے عزت و وقار کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور درست نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ اسلام لبرل آزادیوں کو مسترد کرتا ہے اور معاشرے میں تقویٰ (خدا خوفی) کو فروغ دیتا ہے جس کے نتیجے میں مردوں کے خواتین کے ساتھ سلوک اور رویے سے متعلق جوابدہی کی ذہنیت اورفضا پیدا ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں جنسی مظاہر پھیلانے، نیز عورت کے استحصال اور کسی بھی طریقے سے اسے ایک شے کی حیثیت دینے کو حرام قرار دیتا ہے، چنانچہ عورت اور مرد کے مابین رشتے نہ تو بے وقعت ہوتے ہیں اور نہ ہی عورت کی قدر میں کوئی کمی آتی ہے۔ اسلام ایک مکمل اور ہمہ گیر معاشرتی نظام پیش کرتا ہے جو عورت اور مرد کے تعلق کو منظم کرتا ہے اور جس میں ایک باحیا لباس، دونوں صنفوں کے درمیان علیحدگی اور غیر ازدواجی تعلقات کے حرام ہونے کے قوانین شامل ہیں۔ پس جنسی خواہشات کو نکاح تک محدود کرنے سے عورت اور معاشرے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اس نظام خلافت کے سائے تلے نافذ کیا جاتا ہے جہاں ایک مستعد عدالتی نظام اپنا فرض سمجھ کر جرائم کو تیزی سے نمٹاتا ہے اور سخت ترین سزائیں نافذ کرتا ہے مثلاً خواتین کے خلاف بہتان کی سزا دُرے لگانا ہے، یہاں تک کہ اسکی عصمت دری پر سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں عورت پر ایک غلط نظر ڈالنا، اسکے خلاف غلط لفظ زبان سے نکالنا یا کوئی حرکت کرنا بھی سنگین جرم سمجھاجاتا ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاتا، نتیجتاً ان کی تعلیم، ملازمت، سفر اور زندگی گزارنے کے لیے ایک محفوظ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا ہم مسلم دنیا کی خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خلافت کو بحیثیت نظام اپنائیں جو ان کی دیکھ بھال اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے قابل اعتماد اصولوں، پالیسیوں اور قوانین پر مشتمل ہے"۔

 

ڈاکٹر نسرین نواز

ممبر مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر

 

Read more...

طالبان کو لازمی طور پر ''ذلت آمیز مذاکرات‘‘کو مسترد اور پاکستان اور افغانستان میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی حمائت کا اعلان کرنا چاہیے

گذشتہ ہفتے تحریک طالبان نے موجودہ دسمبر کے مہینے میں پیرس میں ہونے والی افغانستان کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا نہیں۔تحریک طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا''اس کانفرنس میں طالبان عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے اورہم اپنے دو نمائندے بھیجیں گے ۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔یہ ایک تحقیقی کانفرنس ہے ،طالبان کے نمائندے اس کانفرنس میں شرکت صرف دنیاکے سامنے ہمارا نقطہ نظر براہ راست پیش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اورامریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''طالبان کوئی چھوٹی موٹی تحریک نہیں بلکہ اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔امریکہ طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے‘‘(The International News 11/12/2012)۔

افغانستان کے حوالے سے یہ بین الاقوامی کانفرنس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پریشان کن صورت حال میں منعقد ہو رہی ہے،کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔'' امن کے عمل کا روڈمیپ2015‘‘ کے نام سے اس منصوبے کے پانچ مراحل ہیں،یہ وہی تجاویز ہیں جو پاکستان اور افغانستان نے امریکہ کی سرپرستی میں پیش کیں تھیں۔اس منصوبے کا بنیادی مقصد طالبان اور ان سے منسلک دوسرے مسلح گروہوں کو مزاحمت سے مکمل دستبر دار ہونے کی شرط پر حکومتی ڈھانچے میں شامل ہونے کی طرف مائل کرناہے۔McClatchy News نے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ''امن مذاکرات کے نتیجے میں افغان دستور کی قبولیت کا اعلان لازمی ہے۔۔۔اور مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دوسرے مسلح گروپوں کو القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے مکمل قطع تعلق کرنا پڑے گااورممکن حد تک تشدد سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑے گا۔۔۔ امن کی کوششوں کے لیے علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری لازمی حمائت کرے گی‘‘(افغانستان میں امن کا عمل اور 2015 کا روڈمیپ McClatchy News Online 13 دسمبر2012)۔

اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ طالبان کی قیادت کوئی ایک گروہ نہیں کررہالہذاکوئی ایک گروہ پوری تحریک کا نمائندہ ہونے کا دعوی بھی نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ سب نہیں تو تحریک کے اکثر گروہ استعماری مغربی ریاستوں سے ہر قسم کے مذاکرات کو رد کرچکے ہیں،تاہم یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ وقت،سرمایہ اور لاکھوں لوگوں کا خون دینے یعنی اتنا کچھ قربا ن کردینے کے بعد بھی بعض طالبان اس قسم کے امن مذاکرات کے متعلق سوچنا بھی گوارا کریں گے۔ ہرلحاظ سے اس امن منصوبے کا واحد مقصد خطے میں امریکہ کی لڑکھڑاتی بالادستی اور افغان حکومت میں اس کی کٹھ پتلیوں کی حفاظت کرنا ہے ۔

لہذااس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ ان لاتعداد افغان شہریوں کے خون کی توہین ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کی محبت میں اپنی زندگیاں قربان کیں۔یہ ان ہزاروں شہداء اور مجاہدین کی بھی توہین ہے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے وہ آج چہرہ چھپا کر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔اس لیے ان مذاکرات میں شرکت ، بات چیت کرنااوراس منصوبے پر دستخط کرنا جس میں افغان دستور کے احترام کو لازمی قرار دیا گیا ہو اللہ سبحانہ وتعالی،اس کے رسول ﷺ اور امت کے ساتھ خیانت ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے

(فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُم)

''تم ہمت مت ہارواور صلح کی طرف مت بلاو ٗ تم ہی غالب رہو گے اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہر گز برباد نہیں کرے گا‘‘(محمد :35)۔


اس قسم کے مذاکرات میں نہ صرف شرکت کرنا حرام ہے بلکہ یہ سیاسی نافہمی کی بھی انتہا ہے کیونکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں صرف دشمن طاقتور ہوتا ہے اور کفار کو افغانستان پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں

( وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا)

''اور اللہ کافروں کو ہرگز مسلمانوں پر غلبہ نہیں دے گا‘‘(النساء :141)۔

ہم حزب التحریر کامرکزی میڈیا آفس دین کے نصیحت ہونے کی بنیاد پر طالبان بھائیوں اور ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والی دوسری جماعتوں کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہیں:

افغانستان کا موجودہ دستور اور حالیہ افغان حکومت اور اس کا سیاسی ڈھانچہ غیر شرعی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔اس دستور کو استعماری طاقتوں نے اسلام کو نیچا دکھانے ، لوگوں کا استحصال کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے۔

1۔ واحد سیاسی ہدف صرف خلافت راشدہ کا قیام ہونا چا ہیے جس کے تحت خلیفہ کو اس بات پر بیعت دی جائے گی کہ وہ قرآن،سنت ،اجماع الصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا سیاسی حل جو اس مقصد سے عاری ہو وہ غیر شرعی ہے۔
2۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یعنی معیشت، سیاست،معاشرت اور خارجہ امور میں،صرف اسلام کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلام کا جزوی نفاذ کسی بھی شکل و صورت میں مسترد کردینا چاہیے۔
3۔افغان حکومت کے کسی بھی عہدہ دار سے کسی بھی سمجھوتے کے لیے کسی قسم کے مذاکرات حق کو باطل کے ساتھ خلط ملت کر تا ہے،کیونکہ یہ افغانستان میں امریکہ کی ایجنٹ حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تویہ حق سے پیچھے ہٹنے اور باطل کی جانب پیروی کا پہلا قدم ہے،خواہ یہ پیرس میں''تحقیقی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے پردے میں ہی کیوں نہ ہو جس میں افغان حکام اور طالبان کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔اس قسم کی کانفرنسیں ہی خطرناک سیاسی گڑھے میں گرنے کی جانب پہلا قدم ہو تی ہیں۔۔۔
مذکورہ تجاویز کی پیروی کر کے طالبان بیک وقت دو پیغام دے سکتے ہیں:

پہلا:دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان حق پر ثابت قدم ہیں،وہ حق کے مقابلے میں کسی چیز پر راضی نہیں ہو ں گے۔دنیا یہ بھی جان لے گی کہ استعماری کفار کے منصوبوں سے طالبان کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔
دوسرا:امت مسلمہ کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان خلافت کے لیے کام کررہے ہیں تا کہ اسلام اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جائے۔

(ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)
''یہ لوگوں کے لیے واضح پیغام ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور ان کو جاننا چاہیے کہ وہی اکیلا معبود ہے اور عقل والوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے‘‘۔(ابراھیم:52)

عثمان بخاش
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر

 

Read more...

حزب التحریربین الاقوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے ''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس حزب التحریرانڈونیشیا کے اشتراک سے ہفتہ 22دسمبر2012کوجکارتہ ،انڈونیشیا میں ایک یاد گار خواتین کانفرنس منعقد کررہا ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ہے:''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے پندرہ سو بااثر اور مقرر خواتین شرکت کریں گی اور مسلم دنیا میں اور عالمی سطح پر خواتین کو درپیش قابل مذمت غربت اور ان کے معاشی استحصال پر گفتگو کریں گی۔اس کے علاوہ خلافت کے نظام کو ایک ایسے حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا جو دنیا بھر کی خواتین کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔یہ کانفرنس حزب التحریرکی جانب سے پچھلے چند ہفتوں سے اس مسئلہ پر جاری عالمی مہم کا نقطہ عروج ہوگی۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''پوری مسلم دنیا میں کڑوڑوں خواتین روزانہ معاشی بقأ کی جنگ لڑتی ہیں۔بے انتہا غربت نے کئی خواتین کو بیرون ملک ملازمت کی تلاش پر مجبور کردیا ہے اور اس دوران اکثر انھیں انتہائی برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے اور سڑکوں پر بھیک مانگنے سے بچنے کے لیے اکثر خواتین کو ایسی ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں جس میں ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔دراصل یہ ایک خودساختہ غربت ہے۔یہ خواتین مسلم دنیا کی بدعنوان اورنااہل حکومتوں کے ظلم کا شکار ہیں جنھوں نے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ مسلم دنیا کے وسائل کو لوٹ کر کیا ہے۔ یہ خواتین اس خراب اور ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہیں جنھیں یہ حکمران اپنے ملکوں میں نافذ کرتے ہیں‘‘۔


انھوں نے کہا کہ ''اس زہریلے سرمایہ دارانہ نظام نے، جس کی بنیاد آزاد منڈیوں کی معیشت اور سود پر مبنی مالیاتی نظام پر ہے ،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بے تہاشا فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کی خواتین، جس میں مغربی ممالک میں رہنے والی کڑوڑوں خواتین اور زیادہ شرح پیداوار کو حاصل کرنے والے ممالک جیسے چین،بھارت،ترکی اور برازیل کی خواتین بھی شامل ہیں ،غربت اور معاشی غلامی کا شکار ہوگئیں ہیں۔مسلم دنیا میں مغربی ممالک نے گلوبلائزیشن،آزاد معیشت اور آئی۔ایم۔ایف اور عالمی بینک سے قرضوں کی سرمایہ دارانہ استعماری پالیسیاں تھوپی ہیں اور مسلم دنیا کی معیشتوں کو مغربی ممالک اور ملٹی نیشنلز کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی بے حال،مقامی منڈیاں تباہ اور لوگوں سے ان کی دولت اور وسائل کو چھینا گیا ہے‘‘۔


ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''اس کے ساتھ ساتھ اس تباہ کن مادی سرمایہ دارانہ نظریہ حیات نے،جو زندگی میں دولت کو تمام دوسری اقدار پر فوقیت دیتا ہے،خواتین کے ملازمت کرنے کے حق کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے ماں ہونے کی ذمے داری اور مرد اور ریاست کی جانب سے عورت کی معاشی سرپرستی اورنگہبانی کا تصور ایک فرسودہ سوچ ہے۔اس طرح یہ سرمایہ دارانہ نظام خواتین کو کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔اس صورتحال نے خواتین پر ایک معاشرتی دباؤ کو جنم دیا ہے کہ وہ بھی ملازمت تلاش کریں تا کہ انھیں اپنی قدرو قیمت کا احساس ہو اور اس ظلم کو قبول کر لیں جس میں ایک ہی وقت میں وہ پیسہ کمانے اور گھر چلانے کی ذمہ دار ہوں اور اس کے نتیجے میں اپنے لازمی اور انتہائی ضروری ماں کے کرادر کو فراموش کردیں جس کے تحت انھوں نے مستقبل کی نسلوں کی پرورش اور کردار سازی کرنی ہوتی ہے۔اس نظام نے خواتین کو غیر انسانی کردار اپنانے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ صرف ایک معاشی ضرورت کی چیز ہیں جس کے ذریعے ریاستیں معاشی فوائد حاصل کرتی ہیں اور جو خواتین یہ نہیں کرپاتیں انھیں اور ان کے بچوں کو بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔


انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ یادگار کانفرنس پوری دنیا سے خواتین کو اکٹھا کرے گی تا کہ خلافت کے حکومتی نظام کوایک ایسے نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو اس قابل مذمت معاشی مشکلات اور استحصال کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس نظام کی اس خوبی کو واضع کیا جائے گا کہ یہ انسانوں کی ضروریات کو معاشی فوائد پر فوقیت دیتا ہے اور خواتین کو ایک قابل عزت انسان کے طور پر دیکھتا ہے جنھیں ہمیشہ ان کے مرد رشتہ داروں اور ریاست کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ نظام انھیں دولت پیدا کرنے کی مشین کے طور پر نہیں دیکھتا لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی پسند کی ملازمت اختیار کرسکتی ہیں۔اس کانفرنس میں خلافت کی زبردست اور منفرد اسلامی معاشی پالیسیاں بھی پیش کی جائیں گی جو کہ غربت کے خاتمے اور معاشی تحفظ کی فراہمی کے لحاظ سے ثابت شدہ ہیں۔یہ ایک ایسی ریاست ہوگی کہ جسے دنیا بھر کی خواتین ایک ایسے ماڈل کے طور پر دیکھ سکیں گی جہاں وہ خود کو غربت اور استحصال سے محفوظ رکھ سکیں گی۔ہم ان تمام خواتین کو اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جوایک ایسے حقیقی حل کی تلاش میں ہیں جو موجودہ معاشی جبر اور استحصال کا خاتمہ کرسکے‘‘۔


أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
''کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو‘‘(الملک:14)

ایڈیٹرز متوجہ ہوں:
1۔ معلومات کے لیے رابطہ کریں:media_info@hizbut-tahrir,or.id
2۔ مہم سے متعلق معلومات:http://women.hizb-ut-tahrir.info

 

ڈاکٹر نظرین نواز
مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ

 

ٹیلی فون/فیکس:009611307594
موبائل:0096171724043

Read more...

پریس ریلیز روس نے اللہ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکادی ہے اور حزب التحریرکے شباب کو گرفتار کر لیا ہے

روسی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ''پیر 12نومبر2012کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اراکین برائے وزارت عمومی اختیارات نے وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر مذہبی جماعت حزب التحریر، جس کو سپریم کورٹ نے ایک دہشت گرد جماعت ہونے کی بناء پر روس میں کا لعدم قرار دیا ہے، کے ایک گروپ کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ آپریشن کیا۔تنظیم کے چھ اراکین کی گرفتاری کے بعد ان کے گھروں کی تلاشی کے دوران نو عددگرنیڈز،ہتھیار،اسلحہ اوراس کے علاوہ انتہاپسندی اور نئے لوگوں کو کس طرح تنظیم میں شامل کیا جائے پر مبنی کتابیں بھی برآمد ہوئیں‘‘۔ یہ تمام الزامات کہ اسلحہ اور بم برآمد ہوئے ہیں ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے۔روس کے حکمران یہ جانتے ہیں کہ یہ کہانی ایک جھوٹ ہے سوائے اس صورت کے کہ اگر اسلامی کتب کو ''اسلحہ کی بڑی مقدار‘‘ مان لیا جائے جس کی برآمدگی کا وہ دعوی کرتے ہیں!قاتلھم اللہ انی یوفکون ''اللہ ان سے لڑتا ہے کیونکہ وہ جھوٹ گھڑتے ہیں‘‘۔


روسی حکام نے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ گھڑا ہے بلکہ انھوں نے اپنی شیطانی حرکات کا نشانہ ان لوگوں کو بنا لیا ہے جو اسلام کی دعوت دیتے ہیں خصوصاً حزب التحریر۔لہذا روسی حکام کے ہاتھوں اسلام سے عداوت پر مبنی واقعات کا ایک تسلسل واضع ہونا ایک لازمی امر ہے۔چیچنیا میں ہمارے بھائیوں کے قتل عام کے بعد ان لوگوں کے خلاف جواخلاص سے اسلام کی دعوت دیتے ہیں مظالم کاایک سلسلہ شروع کردیا گیا جس میں گرفتاری،قتل اور زبردستی مال لے لینا شامل ہے۔وہ ایسے ایسے قابل مذمت کام کرتے ہیں جسے کوئی ہوش مند انسان نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم شباب کی بیویوں،بہنوں اور ماؤں کا پیچھا کرتے ہیں تا کہ اسلام کے مخلص داعی اپنے کام سے رک جائیں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا!


سٹالن کے نظام کی شیطانیت بغیر کسی وقفے کے جاری و ساری ہے اور ہمیں مظالم کی وہ صورتیں بھی نظر آتی ہیں جو فرانس،بیلجیم اور دوسرے ممالک نے اختیار کر رکھی ہیں جیسے سکارف پر پابندی یا مساجد پر چھاپے۔روس کے جنوب میں واقع سٹاوروپول (Stavropol)میں اسکولوں میں سکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی اور پھر 17اکتوبر کو کازان میں واقع ایک مسجد الاخلاص پر روسی فورسز نے چھاپہ مارا۔اس کے علاوہ امام مسجد کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ حزب التحریرکے لیڈروں سے تعلق رکھتا ہے۔ان جرائم کی طویل فہرست میں تازہ اضافہ حزب التحریرسے تعلق رکھنے والے بیس افراد کی گرفتاری ہے جن میں سے چھ افراد پر اس الزام کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور ان سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے یہاں تک کہ روسی حکومت بھی یہ جانتی ہے کہ حزب التحریرنبوت کے طریقے کے مطابق خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کے دوبارہ احیأ کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تشدد کا رستہ اختیار نہیں کرتی۔روس خلافت کی واپسی کو کسی صورت بھی روک نہیں سکتا۔


یہ ہے روس کے دھوکہ دہی پر مبنی نظام کی حقیقت جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور انتقام سے بھر پور ہے۔روس اسلام کے جھنڈے کو دوبارہ بلند اور مسلمانوں کو متحد ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے خلاف ان کی نفرت ان کے لبوں پر ہے لیکن ان کے دل اس سے بھی کہیں زیادہ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اسی لیے مکر و فریب اور ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے اس امید پر کہ چند لوگوں کو بے وقوف بنا کرانتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نعرے پر اپنا ہم نوا اور ہم خیال بنا لیا جائے۔ اس نعرے کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ جھوٹ کا ایک ایسا نقاب ہے جس کے پیچھے رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں۔


روس کا موجودہ نظام سابقہ سویت یونین سے قطعاً مختلف نہیں۔ اس نے اپنی مملکت میں موجود کمزور اورغیر محفوظ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے وہی پرانا ناانصافی ،مظالم اور جبر کا طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے جو اس کو سویت یونین سے ورثے میں ملا ہے ۔لہذا یہ ایک قدرتی امر ہے کہ سویت یونین جیسا نظام تیزی سے گر جائے کیونکہ لوگ ظلم اور جبر کی وجہ سے موقع ملتے ہی اس نظام کو خیر باد کہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں تا کہ خود کو اس جبر سے آزاد کرواسکیں۔ اور اب ہم مسلم ممالک کو یہ مشورہ دیں گے جنہیں براہ راست یا بلواسطہ اس نظام کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اٹھیں اور خود کو اس دہشت گرد ملک کے اثر سے باہر نکالیں،روسی زار کی باقیات کو اکھاڑ پھینکیں تاکہ اللہ کے حکم سے جلد قائم ہونے والی خلافت کا حصہ بن سکیں ۔


ان مسلمانوں کے لیے جو روس کے ظالمانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں!
روس کے نظام نے تمھارے رب اور تمھارے دین کی دشمنی مول لی ہے اور اس پر اسے کوئی شرم نہیں۔ یہ نظام ظلم ،جبر،گرفتاریوں اور ناانصافی پر مبنی قوانین سے بنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ظلم اور جبر کا سامنا مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کیا جائے۔حق کی راہ پر بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے مخلص اور باہمت حزب التحریرمیں موجود اپنے بھائیوں کے ساتھ چل پڑو جو مسلم ممالک میں خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور تمام بزدل آمروں کو اکھاڑ پھینکنے کے ہدف کو حاصل کر لو ۔ اسلامی ریاست خلافت لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلائی گی اور معصوم لوگوں کی عزت کو بحال کرے گی اور انصاف اورسچائی اور بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز کے حکومت کرے گی ۔


قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُون
بغض ان کے منہ سے ٹپکتا ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے(آل عمران:118)۔

 

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر

 

Read more...

پیوٹن کی بنیاد پرست سیکولر روسی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم اور اسلام دشمن پالیسیوں پر اسکی مذہبی جذبات کے احترام کی دوغلی گفتگو پردہ نہیں ڈال سکتی

22اکتوبر2012،بروز پیر اخبار ماسکو ٹائمز نے حجاب پر پابندی اور 18اکتوبر2012 ،جمعرات کے روز پیوٹن کے جاری کردہ بیان کے حوالے سے تحقیق ایک شائع کی ۔رائٹرز اور دیگر خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے روس کے جنوبی علاقے سٹاورپول کے سکولوں میں حجاب پر حال ہی میں عائد کردہ پابندی کے بارے میں کہا کہ،''ہمیں ہمیشہ لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے حد احترام کرنا چاہئے۔اس کا اظہار ریاست کی تمام ظاہر اورپوشیدہ سرگرمیوں ہونا چاہئے یہاں تک کہ کوئی شے اس کے بغیر نہ ہو‘‘۔ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے اس نے البتہ یہ بھی کہا کہ،''ہماری ریاست ایک سیکولر ریاست ہے اور ہمیں اسی بنیاد سے آگے بڑھنا ہو گا‘‘۔پیوٹن نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ یورپی ریاستیں جو سکول یونیفارم سے متعلق ایسی پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں جن کے تحت مذہبی لباس پہننا ممنوع ہے، انہیں روسی سکولوں کے لیے مثال سمجھا جائے۔خصوصاً اس سے متعلق مثال کہ وہ حجاب اپنانے والی مسلمان طالبات سے کیساسلوک روا رکھتی ہیں۔چنانچہ اس کا یہ بیان روسی اور دیگر میڈیا کے اداروں نے ملک کے سکولوں میں حجاب پر پابندی کی کھلم کھلا حمایت سے تعبیرکیا۔اس کا یہ موقف دوسری انتہا پسند سیکولر ریاستوں مثلاً فرٖانس، بیلجیم،جرمنی، کینیڈا،ترکی اور ازبکستان کے موقف کی ہی نقل ہے جنہوں نے اپنے اپنے ممالک میں حجاب یا نقاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کی نمائندہ ڈاکٹر نسرین نواز نے مسٹر پیوٹن کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
''پیوٹن کی جانب سے روسی ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد کا احترام کی دعوت دینا کھلم کھلا جھوٹ اور منافقت پر مبنی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وہی ریاست ہے جو اس سے قبل اپنی مسلم اقلیت پر جابرانہ پالیسیوں کے تحت ظلم وزیادتی کا ایک طویل ماضی رکھتی ہے، جس کی تصدیق روسی ادارہ برائے انسانی حقوق بھی کر چکا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں روسی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایسی کئی مسلمان خواتین کو جن کے رشتہ دار مرد اسلامی دعوت کی جدوجہد میں مصروف تھے،ہراساں اورگرفتار کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی ،یہاں تک کہ ان کو چھریوں کا ساتھ دھمکی دی۔تاکہ ان کے مردوں کو ان کے اسلامی فرض کی ادائیگی سے باز رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ان میں سے بعض کے بچوں کو روسی ریاست کی ''انتہا پسندی کے خلاف‘‘ پالیسیوں یعنی ''اسلام دشمن‘‘ پالیسیوں کے تحت یتیم خانوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ ان معصوم مسلمان خواتین پر ظلم کرنے کے بعد بھی پیوٹن مطمئن نہیں ہوا چنانچہ اب اس نے روسی سکولوں سے نیک مسلمان لڑکیوں کو بے دخل کرنے کی ٹھان لی ہے۔جس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق لباس پہنتی ہیں ۔اس طریقے سے پیوٹن مسلمان روسی خواتین کی اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا اور اور ان پر زبردستی باطل سیکولر عقائد ٹھونسنا چاہتا ہے۔
''ایک طرف تو پیوٹن مذہبی عقائد کے احترام کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمان لڑکیوں کی پہنچ سے تعلیم کو دور رکھ کر انہیں دوسرے درجے کاشہری ٹھہرانا چاہتا ہے؛محض اس لیے کہ وہ اپنے اسلامی فرائض پر عمل کر رہی ہیں۔وہ فخریہ اپنی ریاست کے سیکولر ہونے کا اظہار کرتا ہے جبکہ یہ وہ نظریہ حیات ہے جس نے بار ہا مذہبی اقلیتوں اور مختلف معاشرتی طبقات کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ نیز یہ نظریہ سیکولر ریاستوں میں حجاب، نقاب اور میناروں پر پابندی عائد کر کے تمام لوگوں کے حقوق کی ضمانت دینے میں بھی ناکام رہا ہے۔
مسلمان خواتین واضح طور پر سمجھ چکی ہیں کہ سیکولر ریاستوں میں ''احترام‘‘ صرف ان کا حق ہے جو ان سیکولر عقائد پر اعتقاد رکھیں جبکہ رسوائی، بدنامی، تعصب اورزیادتی ان لوگوں کا مقدر بن چکی ہے جو اپنے مذہبی عقائد سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اس سیکولر نظام تلے زندگی گزار رہے ہیں۔یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ایک طویل عرصے سے اس فکری بحث میں شکست کھا چکا ہے کہ عادلانہ، منصفانہ اور مکمل طور پر آپس میں ہم آہنگ معاشرہ کیسے تشکیل دیا جائے‘‘۔
'' مزید برآں پیوٹن کس منہ سے مسلمان خواتین کے مذہبی جذبات کے احترام کی بات کرتا ہے جب اس کی اپنی حکومت ایسی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پرعمل پیرا ہے جنہوں نے چیچنیا کی معصوم مسلمان خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جو پالیسیاں شام میں قاتل اسد کے ہاتھوں اس امت کی بیٹیوں کے قتل عام کی حمایت پر مبنی ہیں کیونکہ وہ اسلامی نظام کے تحت عزت سے زندگی گزارنے کا مطالبہ کر رہی ہیں‘‘۔

 

''نیزوہ سیکولر نظام جسے وہ فخریہ پیش کررہا ہے اس نے روسی خواتین کو درحقیقت دیا ہی کیا ہے؟آج روسی خواتین کو ایک وبائی مرض کی مانند پھیلتے استحصال،عورتوں اور بچوں کی خریدو فروخت،تشدد اور تنخواہ کے معاملے میں تعصب کا سامنا ہے۔اسی طرح ان سیکولر لبرل اقدار نے،جن کا ڈھنڈورا روسی حکومت پیٹ رہی ہے ، معاشرے میں خواتین کی شناخت محض ایک جنسی کھلونے کی حیثیت سے متعین کردی ہے۔ جسے کسی بھی دوسری اقتصادی شے (economic commodity)کی طرح استعمال کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔چنانچہ وہ سیکولر خواتین و حضرات جو اسلام پر یہ الزام لگانا پسند کرتے ہیں کہ وہ عورتوں پر جبر کرتا ہے، انہیں پہلے اپنے گھر میں جھانک کر دیکھنا چاہئے۔ اور یہ خوب اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم اور ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے والا اسلام نہیں بلکہ بنیادپرست سیکولر نظام اور مسلمان خواتین پر زبردستی جنونی لبرل نظریہ کا نفاذ ہے‘‘۔


'' بحیثیت خواتین حزب التحریر ہم روس میں اپنی دیندار بہنوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ اپنے اسلامی عقائد اوردرست اسلامی لباس پر سختی سے کاربند رہیں جو حیاء اور عفت و عصمت کی اعلیٰ ترین اقدار کا مظہر ہے۔اورحجاب پر پابندی یا دیگر اسلام دشمن پالیسیوں سے ڈر کر یا دباؤ میں آکراپنے خالق حقیقی کی اطاعت ہر گز چھوڑیں کیونکہ یہ پالیسیاں اس ریاست کی جانب سے اپنائے گئے کمزور حربے ہیں ؛جو آپ کے اسلام پر عقلی ایمان کو متزلزل کرنے میں ناکام رہی ہے؛ اور آپ کے دلوں سے آپ کے دین کی خالص محبت نہیں نکال سکی۔ پس، ان باطل سیکولر عقائد کو مسترد کر دیں اور اپنے اسلامی عقائد اور فرائض پر مضبوطی سے جمی رہیں اور یہ جان لیں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے خالقِ کائنات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہے۔ نیزاس ریاست خلافت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کریں جس کے سایے تلے آپ عزت سے اپنا اسلامی لباس پہن سکیں گی اور حقیقی احترام اور سلامتی کے ماحول میں اپنے اسلامی فرائض پورے کر سکیں گی‘‘۔


إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّواْ عَن سَبِیْلِ اللّہ فَسَیُنفِقُونَہَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْْہِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُونَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِلَی جَہَنَّمَ یُحْشَرُونَ
(ترجمہ معانی قرآن)''جولوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں) کو اللہ کے رستے سے روکیں سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا) اُن کیلئے (موجبِ ) افسوس ہو گااور وہ مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے ‘‘۔(سورۃ الانفال :36)

 

ڈاکٹر نسرین نواز
نمائندہ مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

عید الاضحی کے مبارک موقع پر حزب التحریر کی طرف سے عید مبارک

اللہ اکبر ،،،اللہ اکبر ،،،اللہ اکبر ،،،لا الہ الاّ اللہ ،،، اللہ اکبر ،،، اللہ اکبر ،،، وللہ الحمد

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ ،آپ ﷺ کے آل واصحاب اور متوالوں پر، ہر اس شخص پر جس نے آپ ﷺ کی پیروی کی اور آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلا اور اسلامی عقیدے کو ہی اپنی فکر کی اساس اور احکام شرعیہ کو ہی اپنے فیصلوں کے لیے معیار اور مصدر بنایا۔امّا بعد،

اے دنیا بھر کے مسلمانو! ہمیں خوشی ہے کہ ہم، حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کے امیر جلیل القدر عالم عطاء بن خلیل ابو رَشتہ کی طرف سے پوری امت مسلمہ کو عید الاضحی کی مبارک باد پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی مسرت ہے کہ ہم حزب التحریر کے شباب (جوانوں) اور شابات (بہنوں) کو بھی مبارکباد پہنچا رہے ہیں جو جابرانہ عہد کی حکومتوں کے تابوت میں آخر کیل ٹھوکنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اس خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ کے کلمے کو بلند کر نے کے لیے جد و جہد میں مصروف ہیں جس کی بشارت اللہ کے بندے اور رسول ﷺ نے دی ہے۔

گزشتہ سال ہم اللہ الحی القیوم کے سامنے بہت گڑگڑائے کہ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب کر دے اور اب ہم شام کے ظالم و جابرکو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

شام کے انقلاب کو مغربی ملکوں اور خاص کر ان کے سرغنہ امریکہ کی جانب سے دن رات کی سازشوں کا سامنا ہے۔ وہ دمشق کے جابر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے دن دھاڑے قتل و غارت گری اور خونریزی میں مصروف ہیں اور بشار الاسد قتل و غارت اور تباہی پھیلانے کے لیے ہر قسم کے دستیاب و سائل کو بروئے کار لا رہا ہے۔ یہ شام کے انقلاب کے کوکھ سے ریاست خلافت کے جنم لینے کے بارے میں مغربی قائدین اور غدار مسلم حکمرانوں کے خوف کی واضح دلیل ہے۔ اگر اہل شام امریکی ڈکٹیشن اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے جھکتے تو یہاں بھی وہ ایک اور کرزئی یا طنطاوی مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے جو انقلاب کو امریکی مفاد میں موڑدیتا...یوں امریکی کونسل جس کو قومی کونسل کا نام دیا گیا ہے کے داعی قصرِ مہاجرین میں شام کے انقلاب کے امین کے طور پر داخل ہو نے میں کامیاب ہو جاتے، حالانکہ یہ امریکی اور ترک حکومت کے گماشتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں...لیکن انقلابیوں کے گزشتہ جمعے کے مظاہروں میں ان کا پردہ بھی چاک کر دیا جب انہوں نے یہ نعرے بلند کیے کہ "اے امریکہ !کیا اب بھی ہمارے خون سے تمہاری پیاس نہیں بجھی" جو امریکی مکاری کی حقیقت کے بارے میں ان کی بیداری کی دلیل ہے۔

پوری امت مسلمہ کو عید الاضحی کی مبارک باد پیش کر نے کے موقعے کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہم تمام مسلمانوں ،خاص کر قائدین اور فوجی افسران اور تبدیلی لانے پر قدرت اور طاقت رکھنے ولوں کو اس شام میں موجود ان کے بھائیوں اور اپنوں کی مدد کے حوالے سے ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہیں جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "شام اسلام کا مسکن ہے"...اور ہم اپنے شامی بھائیوں کو اللہ کی اس مدد کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا اللہ وعدہ فرما چکے ہیں، ان کو چاہیے کہ انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اس کو راضی کرنے کے لیے قربانی دیتے رہیں تاکہ وہ دو کامیابیوں میں سے ایک کو حاصل کر لیں یعنی نصرت یا شہادت۔

جس وقت میں آپ کو اور پوری امت مسلمہ کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے سربراہ اور اس میں کام کرنے والوں کی طرف سے عید الاضحی کی مبارک باد پہنچا رہا ہوں وہاں میں اللہ سبحانہ وتعالی سے التجا کر رہا ہوں کہ آئندہ عید اس حال میں آئے کہ امت مسلمہ رایہ عقاب (اسلامی جھنڈے) کے سائے میں زندگی گزار رہی ہو، وحدت اور اللہ کے اذن سے کامیاب اور باعزت بن چکی ہو، اس کو اس کی قیادت دوبارہ مل چکی ہو۔ یقینا وہی کارساز اور قدرت والا ہے۔(آمین)

اے اللہ اے الحی القیوم اے رحم کرنے والے کرم کرنے والے آسمانوں کو بغیر ستون کے اٹھانے والے خلافت کے ذریعے ہماری آنکھیں ٹھنڈی کر دے، اپنے دشمنوں دمشق کے جابر، اس کی مدد اور حمایت کر نے والوں کے مقابلے میں ہماری بھر پور مدد فرما، تیری راہ میں جہاد کرنے والوں کی ہر جگہ مدد فرما، ان کو تیرے کلمے کو بلند کرنے اور تیرے دین کی مدد میں کامیاب کر دے۔ (آمین)

ہم آپ کومتوجہ کرنا پسند کرتے ہیں کہ اس مبارک عید کی مناسبت سے ایک خاص براہ راست پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جو جمعے کے دن سے شروع ہو گا جو کہ عید الاضحی کا پہلا دن ہے۔

ہمیشہ خوش اور سلامت رہو اللہ تمہاری نیکیوں کو قبول کرے

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبر کاتہ

سبحانک اللہم وبحمدک نشہد ان لا الہ الاّ انت نستغفرک ونتوب الیک

عید الاضحی کی رات 1433 ہجری

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک