المكتب الإعــلامي
ہجری تاریخ | 22 من جمادى الأولى 1437هـ | شمارہ نمبر: PR16012 |
عیسوی تاریخ | منگل, 01 مارچ 2016 م |
ممتاز قادری کی پھانسی
صرف خلافت کی اسلامی عدلیہ ہی توہین رسالت کے مسئلے کو اہمیت دے گی
29 فروری بروز پیر پاکستان بھر میں حکومت کے ہاتھوں ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ۔ ممتاز قادری کا تعلق پولیس کی ایلیٹ کمانڈو فورس سے تھا جس نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کردیا تھا۔ عدالت کے سامنے اپنے چالیس صفحات پر مشتمل بیان میں قادری نے یہ کہا تھا کہ سابق گورنر کی جانب سے توہین رسالت کی ملزمہ ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت اور توہین رسالت کے قانون کو "کالا قانون" قرار دینے کے بیانات نے اسے مشتعل کردیا تھا جس کی بنا پر اس نے سابق گورنر کو قتل کیا تھا۔
ممتاز قادری کی پھانسی کی بنیادی وجہ پاکستان میں خلافت اور اسلامی عدلیہ کی غیر موجودگی ہے۔ اسلام میں عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کرتی ہے جس میں خلیفہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آیا وہ اسلام نافذ کررہے ہیں۔ لیکن موجودہ عدلیہ نے سلمان تاثیر، جو کہ ایک وقت حکمران بھی تھا، کے ان بیانات کا کوئی نوٹس نہیں لیا جب اس نے مسلسل توہین رسالت کے قانون کو نشانہ بنایا اور ان بیانات نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو نہ صرف بھڑکایا بلکہ خود اس کے خلاف بھی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا۔ سیکولر عدلیہ نے اس وقت قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا جب مبینہ طور پر سلمان تاثیر کے بیانات توہین رسالت کا باعث بن رہے تھے بلکہ اس وقت یہ سیکولر عدلیہ بُت بنی بیٹھی رہی، لیکن قادری کے خلاف حرکت میں آگئی کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس سیکولر عدلیہ نے سلمان تاثیر سے اس کے بیانات پر وضاحت نہیں مانگی جب وہ مسلسل توہین رسالت کے قانون کے خلاف بیانات دے رہا تھا لیکن قادری کو پھانسی کی سزا دے دی کہ اس نے غیر ثابت شدہ بیانات پر یہ حرکت کی ہے۔ سیکولر عدلیہ کا یہ کردار باعث حیرت نہیں کیونکہ موجودہ عدلیہ کی بنیاد دین کی دنیا سے جدائی کے سیکولر تصور پر قائم ہے، لہٰذا توہین رسالت کوئی بڑا معاملہ نہیں۔ موجودہ عدلیہ کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور لوگوں کے اسلامی جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس عدلیہ کا بنیادی کام مغربی سیکولر نظام کی نقالی کرنا ہے جو کھلے عام اور بار بار حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور محمدﷺ کی توہین کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ اسلام مخالف قابض برطانوی استعمار کی نشانی ہے اور اسی لیے اس کو نہ تو اسلامی بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس میں اصلاحات کی جاسکتی ہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس نظام کو اکھاڑ کر خلافت قائم کی جائے جو اس کی جگہ اسلامی عدلیہ قائم کرے گی۔
جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا تعلق ہے تو انہیں صرف اس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ ان کے مغربی آقا ان سے خوش رہیں جبکہ اسلامی اقدار اور جذبات ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ حکمران خود اس عدلیہ کی کوئی عزت نہیں کرتے اور فوجی عدالتیں قائم کرتے ہیں تا کہ جو لوگ افغانستان میں امریکہ اور کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف جہاد کررہے ہیں ان کو سزا دی جاسکے۔ ان حکمرانوں نے "نیشنل ایکشن پلان" بنایا تا کہ قوت کے ذریعے اسلام اور خلافت کی پکار کو دبایا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اغوا اور تشدد کے حربے علماء اور خلافت کے داعیوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں اور ان کا یہ عمل اس عدلیہ کا مذاق اڑانے کی مترادف ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت نے اپنے آقاوں کے فائدے کے لئے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے لئے اس وقت کا انتخاب کیا جب مغرب نام نہاد جنگ بندی کے ذریعے شام کے ان مسلمانوں کے خلاف زبردست حملے کررہا ہے جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب حکومت پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ شام کے جابر بشار کو بچانے کے لئے افواج کو بھیجنے کی کوشش کیوں کررہی ہے۔
صرف خلافت ہی اسلام کی ڈھال اور اس کا قلع ہے جو اس کی حفاظت کرتی ہے۔ خلافت کی واپسی ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ نہ صرف مسلمانوں کی سر زمین پر بلکہ اس سے باہر بھی رسول اللہﷺ کی کوئی توہین کرنے کی ہمت نہ کرے۔ ہمیں یاد کرنا چاہیے وہ وقت جب انیسوی صدی کے آخر میں، یعنی 1890 عیسوی میں، جب ایک فرانسیسی ڈرامہ نگار نے ایک ڈرامہ تخلیق کیا جسے فرانس کے مذاحیہ تھیٹر میں دیکھایا جانا تھا اور یہ ڈرامہ رسول اللہﷺ کی توہین پر مبنی تھا۔ جیسے ہی خلیفہ عبدلالحمید دوئم ؒ کو اس کے متعلق آگاہی حاصل ہوئی تو اس نے فرانس سے مطالبہ کیا کہ اس کو پیش کرنے پر پورے فرانس میں پابندی عائد کی جائے۔ لہٰذا فرانس نے خلیفہ کا یہ مطالبہ پورا کیا اور خلیفہ کو خط لکھا کہ،"ہمیں اعتماد ہے کہ یہ فیصلہ، جو ہم نے آپ کے مطالبے پر لیا ہے، اس کے ذریعے ہمارے اچھے تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا"۔ اور جب ڈرامہ نگار نے یہ ڈرامہ برطانیہ کے ایک مشہور تھیٹرمیں چلانے کی کوشش کی اور سلطان کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا اور پابندی عائد ہو گئی۔ اس کے علاوہ برطانیہ ،جو اس وقت دنیا کی سپر پاور تھا، نے اس ڈرامے کو پیش کرنے کی کوشش پر معذرت بھی کی۔
ہم سب کو چاہیے کہ ہم اس بات کا عہد کریں کہ ہم خلافت کو قائم کریں گے تا کہ پھر توہین رسالت کے اہم ترین مسئلے پر کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ ہوسکے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ، وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ "بے شک امام (خلیفہ) ہی ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعےتحفظ حاصل ہوتا ہے"(مسلم) ۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |