المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 11 من جمادى الثانية 1440هـ | شمارہ نمبر: 1440/20 |
عیسوی تاریخ | منگل, 18 دسمبر 2018 م |
خلافت تعلیمی شعبے کی مشکلات کوعلامتی طور پر نہیں بلکہ جڑ سے ختم کرے گی
کسی بھی نظام کی ناکامی کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بحرانوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور اب ایک نیا بحران نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ 13 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھاری فیسیں لینے والے نجی تعلیمی اداروں کو اپنی فیسوں میں 20 فیصد کمی اور گرمی کی چھٹیوں کے حوالے سے لی جانے والی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اس عدالتی حکم سے تعلیمی شعبے کو درپیش مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ یہ فیصلہ مسئلہ کی جڑ کی بجائے صرف سطحی علامت کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی جڑ نہ تو نجی اسکول ہیں اور نہ ہی ان کی فیسیں بلکہ اصل مسئلہ معیاری سرکاری تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی ہے جوکہ ایک باوسائل مضبوط معیشت کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ موجودہ نظام میں سرکاری تعلیمی شعبہ انتہائی بُری حالت کا شکار ہے جو غیر مناسب تربیت یافتہ اساتذہ، مناسب سہولیات کی عدم فراہمی اور غیر معیاری پیمانوں جیسے مسائل کا شکار ہے۔ یہ صورتحال والدین کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجیں اور اپنی پہلے سے جھکی کمر پر مزید بوجھ ڈال لیں جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی کوئی زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ جمہوریت سرکاری سرپرستی میں تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں اس قدر بُری طرح سے ناکام رہی ہے کہ صرف پنجاب میں، جوکہ پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، 54 ہزار نجی اسکول کام کر رہے ہیں۔ یہ نجی اسکول درحقیقت کاروبار ہیں اور ایسے وقت میں جب دیگر تمام کاروبار بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی کی وجہ سے شدید مندی کا شکار ہیں یہ اسکول تب بھی منافع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تو اب اس حکم کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان یا تو سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہے ہیں یا سہولیات اور تنخواہوں میں کمی کر رہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
"تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام بھی نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا"۔ (بخاری)۔
جمہوریت کے برخلاف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت نجی شعبے کے پیچھے بھاگنے کی بجائے سب سے پہلے سرکاری شعبے میں موجود کمی و کوتاہیوں کا جائزہ لے گی۔ حکمران کی یہ ذمہ داری ہے کہ معیاری سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہوں جنہیں بھرپور وسائل فراہم کیے گئے ہوں۔ تعلیمی شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کے لیے درکار وسائل کے حصول کے لیے ریاست خلافت اسلام کا معاشی نظام نافذ کرے گی۔ یہ معاشی نظام عوامی اثاثوں یعنی تیل، گیس، بجلی و معدنیات کے ذریعے بھرپور مالی وسائل فراہم کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست خلافت ان شعبوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گی جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے لیکن اس پر نفع بھی بہت زیادہ آتا ہے جیسا کہ ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن، بھاری صنعتیں وغیرہ۔ خلافت استعماری قرضے نہیں لے گی جن کی وجہ سے ریاست کو اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ ہر سال اصل قرضے اور سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود قرض ختم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور تعلیم جیسے اہم ترین شعبے پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ خلافت کرنسی کو سونے اور چاندی سے منسلک کر کے تباہ کن مہنگائی کی بنیاد کو جڑ سے ختم کر دے گی۔ اس طرح خلافت زبردست اسلامی تہذیب کو ایک بار پھر زندہ کر دے گی جیسا کہ وہ ہزار سال تک ماضی میں رہی تھی۔ اُس تہذیب نے اِس امت کو ایسے شاندار بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا جنہوں نے ریاضی اور طب سے لے کر قانون اور علم السان جیسے مختلف النوع شعبوں میں مہارت کا ثبوت دیا۔ عربی، جوکہ خلافت کی سرکاری زبان تھی، دنیا بھر میں پڑھے لکھے افراد کی پہچان بن گئی تھی اور خلافت کے شہر تعلیم کے حصول کے لیے یورپی اشرافیہ کا پسندیدہ مقام بن گئے تھے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |