الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    1 من شوال 1441هـ شمارہ نمبر: 63 / 1441
عیسوی تاریخ     بدھ, 27 مئی 2020 م

پریس ریلیز

یہ حکومت پاکستان ہی ہے کہ جس نے چاند کے اہم دینی مسئلے کو سنگین بنایا تاکہ چاند کے روئیت کے شرعی فریضے کو پس پشت ڈال کر اس کو سیکولرائز کیا جا سکے

 

اگرچہ پاکستان کے مسلمانوں نے  اس سال اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان کے طو ل و عرض میں ایک ہی دن عید منائی گئی تاہم اس مرتبہ بھی چاند کی روئیت کا مسئلہ اپنی بنیاد کے لحاظ سے حکومتی اداروں کے  درمیان متنازع بنا رہا ۔وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے یہ  دعویٰ کیا کہ چاند کے مسئلے پر پاکستان کے مسلمانوں میں تقسیم کی وجہ روئیت ہلال کمیٹی کا آنکھ سے چاند کی روئیت کے اصول سے چمٹے رہنا ہے اور  سائنسی اصولوں کو اپنا کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مستند شرعی اجتہادات واضح ہیں کہ چاند کو آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کا واضح حکم رسول اللہ کی احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ اور عینک یا دوربین سے دیکھنا آنکھ کے ذریعے ہی چاند کو دیکھنے کی تعریف میں داخل ہے۔ مسلمان اپنے ابتدائی دور سے ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کی صف اول کی اقوام کا حصہ تھے، بلکہ انہوں نے اپنے عروج کے دور میں دیگر اقوام کو سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔   عباسی خلافت کے دور میں بغداد، اندلس، سمرقند، بخارا، قاہرہ، اسکندریہ اور مراضہ وغیرہ میں فلکیاتی رصد گاہیں قائم تھی۔ تاہم صدیوں سے رصد گاہوں کی موجودگی اور فلکیات کے علم میں مسلسل ترقی کے باوجود مسلمانوں نے  مہینوں کے آغاز کا تعین کرنے کیلئے  ہمیشہ چاند کی روئیت کے علاوہ کسی اور طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا کیونکہ رسول اللہﷺ نے واضح احادیث میں فرمایا ہے؛

صوموا لرویتہ و افطروا لرویتہ

"اس چاند کے دیکھے جانے پر ہی روزہ رکھو اور اس چاند کے دیکھے جانے پر ہی روزے ختم کرو"(بخاری و مسلم)

اور فرمایا

" إنا أمة أمية، لا نكتب ولا نحسب، الشهر هكذا وهكذا. يعني مرة تسعة وعشرين، ومرة ثلاثين."

" ہم ان پڑھ قوم ہیں، نہ ہم لکھتے ہیں، نہ ہی حساب کرتے ہیں، مہینہ یا ایسا ہوتا ہے یا ایسا، یعنی یا 29 کا ہوتا ہے، یا 30 کا"(بخاری و مسلم)۔

 

یہ عربی کا کلاسک انداز بیان ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ روشن فکر تھے، رسول اللہ ﷺ خط بھی لکھواتے اور قرآن و احادیث بھی، اور زکواۃ و صدقات کا باریک بینی سے حساب بھی کرتے تھے، پس یہ حدیث مخصوص چاند کی روئیت  میں حساب کتاب اور فلکیاتی اندازوں کو مسترد کرنے کا بیان ہے۔ اسلئے چاند کی روئیت کے احکامات کے متعلق تاریخ میں مسلمان حکمرانوں کا ذہن بالکل واضح تھا اور مسلمانوں کی ریاستِ خلافت چاند کی روئیت کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کررہی تھی۔

 

چاند کی روئیت کے مسئلے پر پاکستانی حکومتوں  کا کردار انتہائی سنگین ہے ۔ ایک طرف حکومتِ پاکستان  دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے چاند کی روئیت کو ہر سال مسترد کر دیتی ہے تاکہ مسلمانوں میں سرحدوں کی تقسیم کو نمایاں اور پختہ کیا جائے  تو دوسری طرف اب اس مجرمانہ طرزِعمل  میں ایک اور قبیح فعل کا اضافہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی عبادات کوچاند کی روئیت کے شرعی حکم  سے پھیر کر اسے فلکیاتی حساب کتاب پر استوارکیا جائے، جبکہ اسلام نے اسے واضح طور پر منع کیا ہے۔ ان حکمرانوں نے جس طرح معاشی، معاشرتی اور حکومتی نظاموں میں اللہ کی نازل کردہ وحی کو پسِ پشت ڈال کر انسانی عقل کے تیار کردہ ناقص قوانین کو بنیاد بنا رکھا ہے ۔اسی طرح سے یہ حکمران مسلمانوں کی عبادات کو بھی مسلسل اللہ کی وحی سے پھیر کر محدود انسانی عقل پر موڑنا چاہتے ہیں۔ ان حکمرانوں کو امت کی وحدت میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ یہ حکمران ہی تو امت کو تقسیم کرنے والی استعمار کی کھینچی گئی سرحدوں کے محافظ ہیں ۔پروگریسو اسلام کے نام پر درحقیقت یہ حکمران مسلم دنیا میں وہی تناؤ اور کشمکش پیدا کرنا چاہتے ہیں جو صدیوں پہلے یورپ میں عیسائی مذہب اور سائنس کے درمیان پیش آیا جس کے نتیجے میں مغربی معاشروں نے بتدریجاًمذہب کو سیاسی معاملات سے الگ کر دیا۔ اور یہی آج اس لادین حکمران طبقہ کا اصل ہدف ہے کہ وہ پاکستان کے معاشرے کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کر سکیں۔ اس کے لیے روئیت ہلال کے مسئلہ کو صرف ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اسلام سائنس کو مسترد نہیں کرتا بلکہ اس کو پیدوار بڑھانے، میڈیکل اور انڈسٹریل ریسرچ وغیرہ جیسے معاملات تک محدود رکھتا ہے جو اس کا اصل مقام ہے۔ قانون سازی جو  لوگوں کے امور کے انتظام کے لیے کی جاتی ہے اس میں سائنس کا کوئی کردار نہیں سوائے اس کے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں معاونت کرے جس کے بارے میں قانون وضع کرنا درکار ہو۔ اسلام میں کوئی قانونی پروگریسو سوچ موجود نہیں۔ اسلام کے قوانین آفاقی ہیں اور وہ زمان اور مکان کی قید سے آزاد تمام انسانی معاشروں کے معاملات کا انتظام کر سکتے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی یا ردوبدل نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ قوانین دانا اور برتر، اس کائنات کے رب کے نازل کردہ ہیں جس نے وحی کے ذریعے ان کو اپنے حبیب ﷺ پر اتارا اور انہوں نے من وعن ان کو  ہم تک پہنچا دیا۔

 

امت مسلمہ اسلام کی طرف مکمل لوٹ چکی ہے اور وہ کسی مغرب نواز وزیر یا کسی منافق حکمران کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ اللہ کے دین اور مسلمانوں کی عبادات سے کھلواڑ کریں۔اور یقیناً امت کو پیش دیگر مسائل کی مانند ، عید اور رمضان میں بھی وحدت کا راستہ صرف خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کے قیام سےہی ممکن جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو وحدت بخشے گی اور جس کے سائے تلے تمام امتِ مسلمہ ایک ہی دن رمضان کا آغاز کرسکے گی اور ایک ہی  دن عید کی خوشیاں منائے گی اور جو مسلمانوں کے عقائد، ان کی عبادات اور ان کے دین کی حفاظت کرے گی اور دین کے معاملات کے ساتھ کھلواڑ کی جرات کرنے والوں کو قرار واقع سزا دے گی

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک