المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 29 من شوال 1441هـ | شمارہ نمبر: 71 / 1441 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 20 جون 2020 م |
پریس ریلیز
آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر گردشی قرضوں کا سارا بوجھ پاکستان کے عوام اور انڈسٹری پر منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ رہی سہی معیشت کا بھی بیڑہ غرق کیا جائے
تبدیلی سرکار، باجوہ-عمران حکومت ،نے نیپرا ایکٹ 1997 میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے تا کہ اسے وہ اختیارات مل جائیں جس کے تحت بجلی کے صارفین پرقانونی طور پر نت نئےسرچارجز لگا ئے جاسکیں ۔باجوہ عمران حکومت یہ اقدام آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر لے رہی ہے جس نے یہ شرط عائد کی ہے کہ گردشی قرض کی موجودہ سطح کو ، جو کہ اس وقت تقریباً 456 ارب روپے سالانہ ہے، 2023 تک 50 سے 75 ارب روپے سالانہ تک لانا ہے، جو اس وقت مجموعی طور پر تقریباً 1800 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس گردشی قرضے کا ایک بڑا حصہ لائن لاسز، ریکوری کا نہ ہونا، سود در سود جیسے عوامل پر مشتمل ہے، جس کا سارا بوجھ عوام اور انڈسٹری پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت پہلے ہی پچھلے دو سال کے دوران بجلی کی قیمت میں 12.5 فیصد سے 30فیصد تک اضافہ کرچکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر ایک کارخانہ دار مہنگی بجلی سے بچنے کیلئے اپنی بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو تین سال سے پہلے اپنی بجلی بنانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی، بلکہ اس کو مہنگی بجلی کے باعث لازماً مسابقتی نقصان سے اپنے کاروبار کو برباد کرنا پڑے گا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ چند معاشی غارت گروں کی خاطر اپنے عوام اور معیشت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیوں؟ حزب التحریر ولایہ پاکستان حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کی بھر پور مذمت کرتی ہےجس کا مقصدعالمی و مقامی سرمایہ داروں کے سرمایہ کاری پر بھاری منافع کو یقینی بنانا ہے۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں پیدا ہونے والا گردشی قرض کی بنیادی وجہ نجی شعبے کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے ہیں، جس کے تحت بجلی کی پیداوار کا شعبہ سیٹھوں کے حوالے کیا گیا، اور اس شعبے کا کھربوں روپوں کا منافع سرکار کے خزانے کے بجائے عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں کی تجوریوں کی جانب منتقل کیا گیا۔ اس پر مستزاداس کی قیمت کی تعین میں کرپشن کی گئی، ان معاہدوں میں کیپیسٹی چارجز کے نام پر بھی سالانہ اربوں روپے دیے جارہے ہیں۔ کیپیسٹی چارجز میں بینکوں کو واپس کیے جانے والا قرض، سود در سود اور دیگر مالیاتی اخراجات، مستقل پیداواری لاگت اور گارنٹی شدہ منافع شامل ہے۔ عام فہم الفاظ میں کیپیسٹی چارجز کا مطلب ہے کہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے کو اس وقت بھی رقم ادا کی جاتی ہے جب طلب میں کمی کی وجہ سے ان سے بجلی نہیں لی جاتی۔ جولائی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق کیپیسٹی چارجز 900 ارب روپےسالانہ تک پہنچ گئے ہیں۔ اور اب یہ سارا بوجھ عوام پر مزید لگان کے ساتھ منتقل کیا جا رہا ہے،تاکہ پاکستان کے عوام اور اس کی معیشت کی کمر ٹوٹ جائے ، لیکن حکمران خوشی کی شادیانے بجائیں گے کہ ہم نے گردشی قرض ختم کردیا۔
جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے پاکستان کے مسلمان اور اس کی معیشت کو کبھی بھی بجلی اس قیمت پر نہیں ملے گی جس کے نتیجے میں صنعت، زراعت اور تجارت میں پیداواری لاگت کم ہو اور ہماری معیشت تیزی سے ترقی کرسکے۔صرف اور صرف نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت ہی اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرسکتی ہے۔ خلافت آئی ایم ایف کی ہدایات پر نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے جس کے تحت توانائی کا شعبہ عوامی ملکیت کے ضمرے میں آتا ہے جہاں نجی شعبے کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والكلإ والنار
"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ(توانائی)"(احمد)۔
اس طرح اسلام نے توانائی کے شعبے کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی ہے کہ صرف وہی اس کے امور کو منظم کرے گی اور اس طرح بجلی عوام اور معیشت کو اس قیمت پر ملے گی جو ان پر بوجھ نہیں ہوگی اور معیشت تیزی سے ترقی کرے گی۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحريرکا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |