الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    29 من ذي القعدة 1443هـ شمارہ نمبر: 73 / 1443
عیسوی تاریخ     منگل, 28 جون 2022 م

پریس ریلیز

سونے اور چاندی کو خلافت کی کرنسی کی بنیاد کے طور پر اختیار کرنا ایک شرعی حکم ہے، جو قیمتوں میں استحکام لائے گا اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو ختم کرے گا

 

آج پاکستان کے مسلمانوں کو جس زبردست مہنگائی کا سامنا ہے، اس کے حل کے حوالے سے اسلام کے اس حکم پر بحث شروع ہو گئی ہےکہ خلافت کی کرنسی سونے اور چاندی کی بنیاد پر جاری کی جائے گی، جس سے یہ مسئلہ اپنی بنیاد سے ہی ختم ہوجائے گا، اور یقیناً یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے سونے اور چاندی کی کرنسی کی حمایت میں یہ بحث شروع ہوئی اور پھر اس میں سرمایہ داری اور کمیونزم کی وکالت کرنے والے بھی شامل ہوگئے جو کہ  فیاٹ پیپر کرنسی کی حمایت کرتے ہیں۔  ہم دو دھاتی کرنسی کے نظام کے بارے میں کچھ الجھنوں کو دور کرنے کے لیے درج ذیل نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، جس کوان شاء اللہ جلد ہی قائم ہونے والی خلافت نافذ کرے گی۔

 

1۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور فیاٹ کرنسی ہے جس نے دنیا کو معاشی سائیکل کے عروج و زوال(Booms and Busts) کے مصائب سے روشناس کرایا ہے۔عظیم کساد بازاری (Great Depression، 1939-1929) سونے کے معیار پر جاری ہونے والی کرنسی کی وجہ سے نہیں آیا تھا۔ اس عظیم کساد بازاری کی بنیاد ضرورت سے بہت زیادہ پیداوار بنی، اور یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ مارکیٹ وسائل کو مؤثر طریقے سے مختص کرنے میں ناکام رہی ۔  بین الاقوامی ٹیرف، اسٹاک مارکیٹوں میں قیاس آرائی پر مبنی تجارت، فریکشنل ریزرو بینکنگ اور امریکی حکومت کی منڈیوں میں کم سے کم حکومتی مداخلت کا گمراہ کن تصور ہی تھا، جو سب سرمایہ دارانہ نظام کے اصول ہیں، جس کے باعث یہ کساد بازاری آئی۔  اسی طرح اس عظیم کساد بازاری  کی طوالت کی وجہ بھی سونے کے معیار پر جاری ہونے والی کرنسی (گولڈ اسٹینڈرڈ) نہیں تھا، بلکہ زیادہ ٹیکس لگانا اور ایک غیر مستحکم مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر تھا ۔

 

2۔ سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ معیشت، دونوں میں  فیاٹ کرنسی کی وجہ سے افراط زر یعنی مہنگائی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔ اسلامی سونے اور چاندی کی کرنسی کے برعکس، فیاٹ پیپر کرنسی مسلسل اپنی قوت خرید کھو تی رہتی ہے، کیونکہ حکومتیں بڑھتے ہوئے سود پر مبنی قرض کی ادائیگی کے لیے مسلسل  زیادہ رقم چھاپتی جاتی  ہیں۔ امریکہ کا 1934ء میں اپنے ڈالر کو سونے کے معیار سے جدا کرنے کے 67 سال بعد، افراط زر کے پیمانے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی)میں 625 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس سے پہلے کے 67 سالوں میں، سی پی آئی انڈیکس  میں صرف 10 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ سونے کے معیار سے جدا کرنے سے جو کچھ امریکی ڈالر کے ساتھ ہوا، وہی کچھ کمیونزم کے خاتمے سے پہلے اور بعد میں روسی روبل اور چینی یوآن کے ساتھ بھی ہوا ۔

 

3۔ جوں جوں  فیاٹ کرنسی کی طاقت ختم ہوتی  گئی، اسی طرح افراط زر میں اضافہ ہوتا رہا، جبکہ سونے اور چاندی نے اپنی ذاتی قدر برقرار رکھی ہے۔1771  سے 1971کے درمیانی عرصے میں، سونے کی قیمت 20 اور35  ڈالر فی اونس کے درمیان مستحکم رہی۔ لیکن جب نکسن ، امریکی صدر،نے 1971 میں ڈالر کو سونے سے مکمل طور پر منقطع کر دیا، تو نومبر 2021 میں سونے کی قیمت تقریباً 1,800 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی۔ جبکہ چاندی کی قیمت بھی مضبوط ہوئی ہے، کیونکہ فیاٹ کرنسیاں مسلسل کمزور ہوئی ہیں۔

 

4۔ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ فیاٹ کرنسی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے، تو درحقیقت فیاٹ کرنسی بذات خود قیمتوں میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔ لہٰذا بیماری کو علاج کے طور پر بیان کرنا ایک سنگین غلطی ہے اور اسے مسترد کر دینا چاہیے۔

 

5۔ مسلم دنیا میں حقیقی معیشت، زراعت اور صنعت، کو سہارا دینے کے لیے یقیناً کافی سونا اور چاندی موجود ہے۔ مزید برآں، اسلام کی کرنسی صرف سونے پر مبنی نہیں ہے، یہ دو دھاتی کرنسی ہے جس میں چاندی بھی شامل ہے۔ جب سونے کی کمی ہوتی ہے تو چاندی پیسے کی فراہمی کو بڑھاتی ہے۔ چاندی اور سونے کے درمیان تبادلے کی شرح مارکیٹ میں ان کی سپلائی سے متعین ہوتی ہے، سونا بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے، جبکہ چاندی کی سپلائی بڑھ سکتی ہے، تاکہ اشیا اور خدمات کی پیداوار میں اضافے کو ایڈجسٹ کیا جا سکے، اور اس طرح قیمتیں مستحکم رہتی ہیں۔

 

6۔ اسلام طفیلی معیشت کو ختم کرتا ہے جو مالیاتی توسیع (کرنسی کے حجم میں پھیلاؤ) کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالتی ہے۔ اسلام سود (ربا)، سود پر مبنی قرضوں، فرکشنل ریزرو بینکنگ اور کیپیٹل مارکیٹس بشمول اسٹاک مارکیٹس اور ڈیریویٹو(Derivative) مارکیٹس کو حرام قرار دیتا ہے جس کیلئے درکار رقم کے حجم کے لحاظ سے اصل ،حقیقی معیشت کی حیثیت ایک بونے جیسی بچ جاتی ہے۔   ایک بار پھرہم یہ کہتے ہیں کہ، مسلم دنیا میں زرعی پیداوار، مینوفیکچرنگ اور ملکی اور بین الاقوامی تجارت جیسی حقیقی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کافی سے زیادہ سونا اور چاندی دستیاب ہے۔

 

7۔ درآمدی ضروریات کے پیش نظر سونے اور چاندی کے ذخائر کو برقرار رکھنا خلافت کے لیے عملی طور پر ممکن ہے۔ اسلامی ممالک میں سونا اور چاندی، جو بینکوں اور حکومتی خزانوں میں جمع ہے، خلافت کو دو دھاتی کرنسی  واپس لاگو کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ مسلم دنیا میں گھرانوں کی نجی طور پر رکھے گئے سونے اور چاندی کے علاوہ ہے۔ امت کو درکار تمام خام مال اسلامی ممالک کے پاس موجود ہے۔ اس  صورتحال کی وجہ سے مسلمانوں کے علاقوں  کو دوسرے علاقوں کے سامان (امپورٹس/درآمدات)کی تھوڑی یا سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس طرح ریاستِ خلافت غیر ملکی اشیاء درآمد کرنے کے بجائے اپنی ضروریات کو  مقامی سامان کے ذریعے سے پورا کرنے میں خود کفیل ہوگی۔ اس طرح سونے اور چاندی کی بیرون ملک پرواز میں کمی آئے گی اور اسے ریاست کے اندر رکھا جائے گا۔

 

8۔ سونے اور چاندی کے ذخائر کو بڑھانے کے حوالے سے اسلامی سرزمین میں تیل، گیس اور معدنیات جیسی اہم اشیاء موجود ہیں جن کی دنیا کی تمام اقوام کو ضرورت ہے۔لہٰذا، ریاستِ خلافت ایسی اشیاء، یا تو سونے کے عوض، یا اپنی ضرورت کی اشیاء کے ساتھ بارٹر کے عوض، یا ضروری سامان اور خدمات کی درآمد کے لیے درکار رقم کے عوض فروخت کر سکتی ہے۔ خلافت اہم اشیاء کی برآمد کو بھی روک سکتی ہے، جب تک کہ سونے اور چاندی میں قیمت ادا نہ کی جائے، اس طرح ریاست کے سونے اور چاندی کے ذخائر میں یقینی  اضافہ ہوگا۔

 

9۔ اگر سونے اور چاندی کی مقدار کو بڑھانے کیلئےلئے جانے والے ریاست خلافت کے ان تمام اقدامات کے بعد بھی  اگر یہ مقدار کم ہو اور اس سے اشیاء کی قیمتوں میں  عارضی طور پر کچھ  کمی (deflation) آئے ، جو کہ کاروباری افراد کو پیداوار کی کمی پر مائل کرے، تو خلافت اس کو بڑی سرمایہ کاری والے صنعتی شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری اور اس کی حوصلہ افزائی کے ذریعے سنبھال سکتی ہے۔سود پر مبنی مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر ، کیپٹل مارکیٹوں اور ان مارکیٹوں میں تجارت کی جانے والی مختلف مالیاتی مصنوعات کے خاتمے کے نتیجے میں، مالیاتی شعبے میں لگایا گیا تمام سرمایہ بھی بہرحال حقیقی معیشت  کی جانب ہی جائے گا  جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی کا مسئلہ نہیں اٹھے گا۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ قیمتوں میں کمی (deflation) اُن کاروباروں کے لیے ایک چیلنج ہے جہاں متوقع مہنگائی کے باعث ہمیشہ ہی اجرتوں، کرایوں اور ریٹس کے بڑھنے کی توقع کی جاتی ہے،یا اسی سطح پر مستحکم رہنے کی توقع ہوتی ہے، وہاں ان کو کم کیسے کیا جائے گا،  تو دو دھاتی کرنسی، اپنی اندرونی قدرو قیمت کی وجہ سے، مختلف کاروباری اسٹیک ہولڈرز کو قائل کر لے گی کہ انھیں اپنے معاہدات اور توقعات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

 

10۔ صرف خلافت ہی امریکی تسلط کو ختم کر سکتی ہے، جو کمیونسٹ ریاست اپنے خاتمے سے پہلے کرنے میں ناکام رہی۔ سونے اور چاندی کے نظام کی طرف واپسی استحکام کو بحال کرے گا، اور ایک ریاست کی دیگر ریاستوں پر مالیاتی بالادستیکا خاتمہ کرےگا۔ درحقیقت، مہنگائی کی موجودہ لہر کے پیچھے ایک عنصر یہ ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو نے شرح سود میں اضافہ کیا، جس سے دنیا بھر کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کو تقویت ملی، اور دنیا بھر میں کرنسی کا بحران پیدا ہوا۔ بین الاقوامی اور ملکی تجارت میں سونے اور چاندی کو اپنانے سے خلافت ڈالر کے تباہ کن انحصار کو ختم کر دے گی۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو! 

ہمارے معاملات کے متعلق اسلام کے احکام کے حوالے سے شدید بحث بذات خود ہماری ریاست، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کی یقینی آمد کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کے ذریعے حکمرانی کی بحالی کے لیے کوشش کریں اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ اللہ سبحانہ  و تعالیٰ نے فرمایا،

 

اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ

"بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانے گا؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔"(الملک، 67:14)

 

#GoldSilver_NotDollar

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: [email protected]

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک