بسم الله الرحمن الرحيم
- امن بات چیت میں شرکت کا نتیجہ اسلام اور مسلمانوں
- کے بدترین دشمنوں کے ساتھ معاونت کی صورت میں نکلے گا
نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف اٹھارہ سال سے جاری امریکا کی جنگ ایک اہم موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ امریکا کے لیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ فوری پسپائی اور انخلاء کی راہ اختیار کرلے کیونکہ ایسی پسپائی کا نتیجہ اُسی صورت میں نکلے گا جیسا کہ سوویت یونین کے جانے کے بعد نکلا تھا یعنی کہ پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کی خانہ جنگی اور اس سے منسلک تمام تر بدترین وا قعات۔
آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ آدھی صدی پر محیط سیاسی تعلقات ، سیاست، معیشت اور انٹیلی جنس کے میدانوں میں ہونے والی کوششوں ، اور پچھلے اٹھارہ سالوں کے دوران افغانستان پر قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے ایک کھرب ڈالر سے زائد کے اخراجات اور ہزاروں فوجیوں کی قربانیوں کے بعد امریکا ذلت آمیز شکست کے خوف سے طالبان کے ساتھ امن بات چیت پر آمادہ ہوگیا ہے۔ بظاہر اس امن بات چیت کا مقصد افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہے اور امریکا کے استعماری اثروررسوخ کو بر قرار رکھ کر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ افغانستان کے اسٹریٹیجک محل و و قوع، اس کے قدرتی وسائل ، معدنیات اورمنشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے حق میں استعمال کرتا رہے۔
یہ بات کہی جاتی ہے کہ ایک مسلح اسلامی گروہ کے لیے یہ انتہائی فخر کی بات ہے کہ اس نے دنیا کی صف اول کی طا قت کو امن بات چیت کے لیے اپنے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ یہ صورتحال اس و قت پیدا ہوئی ہے جب اس گروہ کودنیا کی صف اول کی طا قت “دہشت گرد” کہتی رہی ہے اور جس نے اس دھوکے پرمبنی بات کو جواز بنا کر جنگ کی۔۔۔۔لیکن کیا ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے امریکا کا فوجی، سیاسی اور معاشی اثرورسوخ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا؟ ۔۔۔۔۔ کم از کم امریکا کی توایسی کوئی پالیسی نہیں ہے ہاں اگر اس کو مجبور کر کے مار بھگایا جائےتو پھر یہ ممکن ہے۔
افغان سیاسی و عسکری گروہوں کی جانب سے امریکا کی طرف سے شروع کیے جانے والے امن عمل کا حصہ بننے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ ملک پر قابض دشمن کے سامنے آہستہ آہستہ طابعداری اور مغلوبیت کا شکار ہو جائیں گے، طالبان میں مزید دھڑے بندیاں بن جائیں گی اور افغانستان کے مسلمانوں کو دیے جانے والے دھوکے میں اضافہ ہوجائے گا۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام اور افغانستان کے مسلمانوں کی حقیقی خواہش اور مطالبہ یہی ہے کہ ملک سے تمام قابض افواج کا مکمل انخلا ہو ،جمہوری نظام کا خاتمہ ہو اور شریعت کا مکمل نفاذ ہو۔ یہ ہدف صرف افغانستان کے مسلمانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ پوری مسلم دنیا فوری طور پر کٹھ پتلی نظاموں اور حکومتوں کا خاتمہ، مقبوضہ علا قوں کی آزادی، اپنے علا قوں سے قابض افواج کے نام و نشان کے خاتمے اور خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے شریعت کا مکمل نفاذ چا ہتی ہے۔ مقبوضہ علا قوں میں مسلح گروہ اور عرب بہار کی تحریک امت میں آزادی کے مضبوط ارادے اور استقامت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہدف قابض افواج کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے؟
یہ ہدف کسی صورت مذاکرات کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اسلامک موومنٹ آف تاجکستان نے یہ ہدف حاصل کرلیا ہوتا جب انہوں نے ایک کٹھ پتلی اور جابر حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو شام کے انقلابی اور آزادی کے لیے لڑنے والے گروہوں نے قابض روسی،ایرانی اورترک افواج کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرلیاہوتا۔ یہ گروہ کفریہ جمہوری نظام کا حصہ بن گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے استعماری منصوبے اور اہداف کو ہی اختیار کرلیا۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد ان گروہوں کی واحد کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے امت کو مزید مایوس کیا اور مسلم امت پر کفر نظاموں کے نفاذ میں کفار کا ہاتھ بٹایا۔ کیا طالبان تحریک ان گروہوں کی مثالوں کی پیروی کرنا چاہے گی؟
اس کے علاوہ امریکا اپنی پوری تاریخ میں وعدہ شکن کے طور پر مشہور ہے اور اس کی یہ وعدہ شکنی صرف مسلح اور سیاسی گروہوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ریاستیں بھی اس کا شکار ہوئی ہیں۔ اگر اس حقیقت کو قبول کرنا مشکل لگتا ہے تو افغانستان میں سابق شمالی اتحاد کے رہنماوں سے پوچھیں ، حزب اسلامی کے رہنماوں سے پوچھیں ، ایران اور شمالی کوریا کے رہنماوں سے پوچھیں، اور برطانیہ کے رہنماوں سے پوچھیں کہ امریکا نےبریگزٹ (Brexit)پر ان کے ساتھ کیا کیا۔ حقیقت پسندی پرمبنی امریکا کی پالیسی میں کوئی مستقل دوست نہیں اور نہ ہی کوئی مستقل دشمن ہے۔ امریکا کے لیے اس کے استعماری مفادات انتہائی اہم ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی قسم کے شیطانی اور گھٹیا ہتھکنڈے اختیار کرسکتا ہے۔ افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے امریکا نے پہلے طالبان کو دہشت گرد قرار دیا اور پھر ان کی حکومت کو گرایا ۔ اور اب کئی سال کی جنگ اور تباہی کے بعد اور امریکا کی خارجہ پالیسی میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بدلی ہوئی صورتحال میں ، امریکہ نے طالبان رہنماؤں کا نام ا قوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست”یو این 1267“سے نکالنے کی حامی بھر لی ہے اور اب طالبان کو مقامی مزاحمت کار کہا جارہا ہے۔ درحقیقت امریکا نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے دروازے افغانستان میں اپنی استعماری موجودگی کو کسی نہ کسی صورت میں برقرار رکھنے کے لیے کھولے ہیں۔
2014 سے پہلے افغانستان میں جنگ کی یہ صورتحال تھی کہ افغانستان کے لوگ غیر ملکی افواج اور اُن کے اتحادیوں کے ساتھ براہ راست لڑ رہے تھے۔ لیکن شرمناک دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے(Bilateral Security Agreement) پر دستخط کے بعد سے یہ لڑائی افغانستان کے لوگوں کے درمیان ہو رہی ہے اور اس طرح امریکا نے اپنی جنگ کو مقامی لوگوں کی جنگ بنا دیا ہے۔ اس کے بعد سے قابض افواج اپنے اڈوں میں آرام سے مکمل حفاظت کے ساتھ بیٹھی ہیں اور جنگ میں ان کا کردار مشیر،تربیت فراہم کرنے اور حمایتی کا ہے جو افغان افواج کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ غیر معروف مسلح گروہ بھی سامنے آگئے ہیں جنہوں نے جنگ میں ایسے اعمال کیے جو شدید بدنامی کا باعث تھے۔ کبھی یہ جنگ مکمل طور پر فتنے کی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں مسلمان قبائلی اور نسلی بنیادوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کبھی یہ جنگ منشیات کی تجارت کے لیے استعمال ہونے والی شاہراہوں پر قبضے کی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور کبھی یہ جنگ اُن ممالک کی افغانستان میں نمائندہ جنگ (پراکسی وار) میں تبدیل ہوجاتی ہے جن کے افغانستان اور خطے میں مفادات ہیں۔
درحقیقت اس جنگ کی اصل قیمت افغانستان کے لوگ ادا کررہے ہیں۔ یہ صورتحال مخلص لوگوں کی جدوجہد کے حقیقی مقاصد پر سوالیہ نشان کھڑے کردیتی ہے اور استعماری اس کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اے افغانستان میں مزاحمت کرنے والے مخلص مسلمانو!
قابض کفار کی جانب ایک قدم کی قربت بھی ہمیں سچائی سے کوسوں دور لے جاتی ہے۔ اگر آپ نے قابض افواج کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھول دیے اور اسی طریقہ کار پر چلتے رہے تو اس کے نتیجے میں آپ آہستہ آہستہ اپنے حقیقی مقصد سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ یہ طریقہ کار آخر کار آپ کو امریکا کے بنائے ہوئے نظام میں شامل کرلے گا۔ اور یہ اُس و قت ہوگا جب خود آپ کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوگا کہ آپ اپنے راستے سے آہستہ آہستہ ہٹ چکے ہیں لیکن آپ اپنی اِس حالت کو تسلیم بھی نہیں کریں گے۔ ان مذاکرت کے نتیجے میں اگر کفار نے براہ راست اپنا قبضہ ختم بھی کردیا توبھی وہ اپنی استعماری پالیسیاں بین الا قوامی ادا روں، سفارت خانوں، سفارت کاروں، جاسوسوں اور سیاسی اداروں کے ذریعے چلاتے رہیں گے۔ اُس صورتحال میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وہ انتباہ بالکل آپ پر صاد ق آئے گا جو اُس نے غار والوں کو دیا تھا،
اِنَّهُمۡ اِنۡ يَّظۡهَرُوۡا عَلَيۡكُمۡ يَرۡجُمُوۡكُمۡ اَوۡ يُعِيۡدُوۡكُمۡ فِىۡ مِلَّتِهِمۡ وَلَنۡ تُفۡلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا
”اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا پھر اپنے مذہب میں داخل کرلیں گے اور اس وقت تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے“(کہف 18:20)۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر افغانستان میں کافر قابض افواج کے خلاف مسلح جدوجہد ختم ہوجائے تو وہ ہمیں بہت زیادہ ذلیل و رسوا کریں گے اور اپنے گھٹیا اور کرپٹ قوانین کو قبول کرنے کے لیے ہمیں مجبور کریں گے۔ اور اگر آپ نے قابض افواج کے خلاف مسلح، سیاسی و فکری جدوجہد سے اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ سے دستبرداری اختیار کی توآپ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے دنیا اور آخرت کے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔
اے افغانستان کے لوگو!
دشمن کے ساتھ امن عمل کا حصہ بن کر آپ وہ امن، تحفظ اور خوشحالی کا دور نہیں دیکھ سکتے جس کی آپ خواہش رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ عمل افغانستان میں جنگ اور سیاست کی صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دے گا اور قابض افواج اپنی فوجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی جڑیں ہمارے علاقوں میں مزید مضبوط کرتی چلی جائیں گی۔ اگر قابض افواج کے خلاف جنگ سے دستبرداری اختیار کرلی گئی تو افغانستان کے مسلمان اپنے بیوی بچوں کی پرورش، تربیت اور اُن کی حفاظت نہیں کرسکیں گے اور اس خطے کے ہر مسلمان پر ذلت و رسوائی مسلط ہوجائے گی۔ اورکچھ مسلم ممالک کی طرح پھرافغانستان میں بھی لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی تربیت، نکاح کے ذریعے خاندان کے قیام، نمازوں کی ادائیگی،مساجد میں سیاسی خطبات اور معاشرے میں اسلامی سیاسی جدوجہد کر سکیں۔
اے مسلمانو، اے امت کے مخلص بیٹوں!
امریکا اپنی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے اختتام کا اعلان کرنا چاہتا ہے تا کہ امریکا کی حکمران جماعت اس بات کو انتخابات کو جیتنے کے لیے استعمال کرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا خطے کے دیگر ممالک کو جنگ کے خاتمے کا تاثر دے کر دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ امریکا ، سلطنتوں کے قبرستان، افغانستان میں، اپنی شرمناک اور واضح شکست کو روکنا چاہتاہے ۔ حیر ت انگیز طور پر ، اِس امن عمل میں دیگر بیس “دہشت گرد“ گروہوں کے ساتھ امن کی بات نہیں کی جارہی جن کے نام مسلسل امریکی سیاست دان اور ان کی کابل میں کٹھ پتلی حکومت لیتی رہتی ہے۔لہٰذا یہ بات متو قع ہے کہ افغانستان خطے میں امریکا کا ایک جنگی منصوبہ ہی رہے گا۔ اس بدصورت اور دھوکے پر مبنی امن عمل کی تکمیل کے بعد جنگ کا صرف محل و قوع تبدیل ہوگا اور امریکا افغانستان کی اسٹریٹیجک محل و و قوع ، معدنی وسائل اور منشیات کی تجارت کو اپنے حق میں استعمال کرتا رہے گا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے بات چیت کے عمل میں معاونت اورسہولت کار کاکردار ادا کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں یا اُن سے مخلص ہیں۔ بلکہ یہ ریاستیں گھٹیا امریکی مقاصدکے حصول کے لیے طالبان پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ چین، روس، بھارت اور ایران کی جانب سے طالبان اور امریکا کو فراہم کی جانے والی معاونت معاملات کومزید پیچیدہ بناتی ہے اور اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ اس جنگ کی ایک علاقائی جہت بھی ہے، ملک میں نمائندہ جنگ (پراکسی وار) چل رہی ہے اور یہ کہ امریکا جنگ کا بوجھ دوسرے ممالک کے کندھوں پر منتقل کرنا چاہتا ہے۔ 2001میں طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان پر قبضے کے سلسلے میں پاکستان نے امریکاکے ساتھ ایک ڈیل کی تھی۔ اور اب ایک بار پھر پاکستان اسی سازش کو دہرانے اور ڈ یل کے حصول کے لیے میدان ہموار کررہا ہے۔ لہٰذا امریکا طالبان پر دباؤ ڈالنے اور امریکی امن عمل میں شمولیت کے لیے اپنے تمام اسٹریٹیجک آلہ کار استعمال کررہا ہے ۔
طالبان تحریک اور دیگر اسلامی گروہوں میں موجود امت کے مخلص لوگو!
برطانیہ کے خلاف آپ کے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیاں، اور سابق سوویت یونین کے خلاف آپ کے اہداف اور قربانیاں اور آج امریکا کے خلاف آپ کی جدوجہد اور قربانیوں کا مقصد یہ نہیں تھا اور نہ ہے کہ جمہوری نظام اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جڑیں مضبوط کیں جائیں۔ یہ قربانیاں اسلامی ریاست کے قیام اور شریعت کے نفاذ کےلیے دیں گئی تھیں اور دی گئی ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو امریکی امن عمل اور کفار اور ان کے ایجنٹوں کے دوسرے منصوبوں کو زبان سے اور عمل سے مسترد کردینا چاہیے۔ جو لوگ کفار کے خلاف مسلح جدوجہد کررہے ہیں ہمیں ان کی مدد حزب التحریر کے سیاسی نظریات سے کرنی چاہیے۔حزب التحریر وہ جماعت ہے جو آپ کے اور ہمارے دشمنوں کی ہمارے خلاف سازشوں اور حکمت عملی کو ہر قدم پر بے نقاب اور آپ کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ آئیں کہ ہم خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اپنے بھائیوں کی قربانیوں کو ایک تن آور پھل دار درخت میں تبدیل کردیں۔ صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی ہم افغانستان اور تمام اسلامی علاقوں میں خوشیاں منا سکیں گے اور حقیقی خوشحالی اور تحفظ سے لطف اندوز ہوسکیں گے جو کہ اسلامی ریاست کی سیاسی ثقافت پر ایمان اور اعتماد سے حاصل ہو گی۔ صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کے نفاذ کے ذریعے اسلام کی دعوت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے گا ۔ اور صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی مسلم امت کفار کے ہاتھوں سے دنیا کی باگ دوڑ چھین کر انسانیت کو سرمایہ دارانہ نظام کے اندھیروں سے نکال کر اسلام اور اس کی روشنی سے منور کردے گی اور یہ کہ،
لِمِثۡلِ هٰذَا فَلۡيَعۡمَلِ الۡعٰمِلُوۡنَ
”ایسی ہی (نعمتوں) کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں “(صافات 37:61)
وَّمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِيۡزٍ
”اور یہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں“(ابراہیم 14:20)
ہجری تاریخ :1 من جمادى الثانية 1440هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 06 فروری 2019م
حزب التحرير
ولایہ افغانستان