الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اے مسلمانو ! اسلام کو  اختیار کرو  اور  جمہوریت کی ڈوبتی کشتی میں سوار مت ہو

 

18 جون 2015 کو  ڈنمارک میں قانون ساز اسمبلی کے  انتخابات کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اس کا  مطلب یہ ہے کہ ڈنمارک کی سیا سی پارٹیاں، جو ایک دوسرے سے اسلام اور اس کے احکامات کو  نشانہ بنا نے میں مقابلہ بازی کرتی ہیں، اب مسلمانوں کو انتخابات میں شامل ہو نے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گی۔ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ  وہ سیاست دان   جو مسلمانوں  کو دین اور  سیاست الگ رکھنے کا درس دیتے پھرتے تھے وہ  اب اپنے انتخابی منشور تقسیم کرنے کے لیے ہماری مساجد آ تے ہیں  اور مسلمانوں کو  ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

 

یقیناً یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ سیاست دان  ان  مسلمانوں کے ووٹ  حاصل کرنا  چاہتے ہیں جو شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اور سکیولرازم کو قبول نہیں کرتے۔ دوسری طرف خود ڈنمارک قوم   کا، جو کہ سکیولر ہے،   آہستہ آہستہ جمہوری نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ تمام  سروے  اس بات کا ثبوت ہیں کہ  ڈنمارک کے لوگوں  اپنے سیاست دانوں پر اعتماد  اس قدر  نچلی سطح پر آچکا ہے جس کی ڈنمارک کی  تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک طبعی اور متوقع بات ہے کیونکہ   پے در پے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ  جمہوریت ایک کھیل ہے، اس میں ہر بار وہی لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں   جو با اثر ہیں ،  کمپنی مالکان اور صنعت کار ہیں۔  ڈنمارک  کے سیاسی نظام کے بارے میں  بڑی وسیع تحقیق سے بھی اس کی تائید ہو تی ہے، اس تحقیق میں چار سال لگے، جس کو حال ہی میں سوشل سائنس کے دو ڈینش سائنسدانوں نے شائع کیا ہے ،  اس میں یہ کہا گیا ہے کہ " عوام کی حکومت"  محض ایک جھوٹ ہے۔ ان دو محققین میں سے ایک  جن کا نام کریسٹوف السگورڈ ہے، نے  یہ وضاحت کی ہے کہ ، "پار لیمنٹ میں پارلیمانی کھیل کی اس وجہ سے  کوئی قیمت نہیں کہ اہم ترین سیاسی فیصلے  ہمیشہ  ڈینش  پارلیمنٹ سے با ہر کیے  جاتے ہیں"۔ جب  غیر  مسلم اس حقیقت سے آگاہ ہیں حالانکہ  سکیولر جمہوریت ان کا عقیدہ ہے تو پھر  ہم مسلمانوں  کا کیا کہنا ؟

 

کیا  ان مکار  سیاست دانوں کو   ان کی پرو  پگینڈہ  مہم کے لیے  اپنے مراکز اور مساجد میں مدعو کر نا  شرم کی بات نہیں جبکہ  ان کو منتخب کر نے والے ڈینش لوگ  خود  اپنے سیاست  دانوں  کی دھوکہ بازی  اور  مسلسل   مکاری کو سمجھ چکے ہیں؟

 

جی ہاں  یہ بات درست ہے کہ اسلام  اس بات کی اجازت  اور ترغیب دیتا ہے کہ   لوگوں  کو اپنے  نمائندے منتخب کریں  جو حکمرانی میں ان کی نمائندگی کریں جبکہ  ووٹنگ اور انتخابات اس کام کو سرانجام دینے کے لئے ایک اسلوب ہو سکتا ہے۔ مسلمان تو اس وقت اپنے سیاسی  نمائندے چنتے تھے  جب ڈنمارک چھوٹے چھوٹے جاگیر داروں کے  استبداد کے پنچے میں پھنسا ہوا تھا۔  مگر سکیولر نظام میں  صورت  حال  اسلام سے بالکل مختلف ہے۔ سکیولر جمہوری نظام  سیاست دانوں اور لوگوں کے نمائندوں کو  ان اعمال کے لیے  نمائندگی دی جاتی ہے جو اسلامی احکام کے سراسر خلاف ہیں۔

انتخابات  نمائندہ منتخب کرنے کے اشکال میں سے ایک شکل ہے  لیکن  انتخابات میں حصہ لینے  کے مسئلے میں شریعت کے حکم کا تعلق  اس امر واقعہ  سے متعلق ہے  جس کے لیے ووٹنگ  ہو رہی ہو۔ لہذا اگر  انتخابات ایسے اعمال کے لیے ہوں  جن کی انجام دہی حرام ہے   جیسا  کہ یہاں ہے تو پھر وہ انتخابات بھی قطعاً حرام ہوں گے ، کیونکہ  یہ حرام کام کے   لیے  افراد کو منتخب کرنا اور ان کو اپنا نمائندہ بنا نا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کے لیے ہو نے والے انتخابات میں  حصہ لینا  حرام ہے  کیونکہ یہ حرام کام کے لیے  اپنا نمائندہ منتخب کرنا ہے۔

 

اس پر مستزاد یہ کہ    ووٹ دینے  والوں کا اختیار ان سکیولر پارٹیوں تک محدود ہے  جو  اسلام پر حملہ کر تے ہو ئے ہچکچاتی نہیں  اور  موقع پاتے ہی اس کے احکامات پر یلغار سے باز نہیں آتی۔ کبھی سکارف  پر حملہ کر تی ہیں اور اس  کو عورت پر ظلم قرار دیتی ہیں ،کبھی مرد اور عورت کے درمیان تعلق کے بارے میں اسلام  کے نقطہ نظر کو ظلم گردانتی ہیں  اور  بچوں کی تربیت  اور پرورش کے طریقہ کار کو نشانہ بناتی ہیں ،کبھی  شرعی حدود  پر حملہ آور ہو جاتی ہیں جیسے  کہ زنا اور  لواطت کے حدود پر۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال حکمران سوشل جمہوری جماعت(Socialdemokraterne)  کی سابقہ وزیربرائے    ادغام (Integration)  کارین ھیکروب ہیں جو نوجوان مسلمان لڑکوں اور لڑ کیوں کو    مغربی طرز زندگی سے منع کر نے کی صورت میں ماں باپ کی نافرمانی کی ترغیب دینا یا مقامی  حکام کو   مسلمان بچوں کو ان کے گھر والوں سے زبردستی دور کرنے کے احکامات دینا  کہ "اگر صرف اس بات کا   شبہ ہو کہ  گھرو الے بچوں کو  انتہا پسندانہ طریقے سے تر بیت کر تے ہیں"  جیسا کہ ادغام کے موجود ہ وزیر مانو سارین  نے  اس بات کی وضاحت کی جس کا تعلق   بائیں بازو کے لبرل پارٹی(Radikale Venstre) سے ہے۔

 

ان خبیث سیاست دانوں کی طرف جھکاؤ کیسے رکھا جاسکتا ہے اور مسلمانوں سے کیسے بائیں بازو  کے اس اتحاد کے لیے ووٹ مانگا جاسکتا ہے۔  یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ڈینش پارلیمنٹ  بائیں بازو  کے ماتحت ہے  جس نے ڈینش انٹلیجنس (PET) کے لیے  مسلمانوں کی ذاتی زندگی کی بھی جاسوسی   کو آسان بنا یا ۔  موجودہ حکومت    نے  نام نہاد انتہاء پسندی کے خلاف خونریز جنگ کے پردے میں دراصل  اسلامی  افکار اور اقدار  کے خلاف یلغار برپا کررکھی ہے ۔

 

وَلاَ تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ

"ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ آگ تمہیں چھو لے گی  اور اللہ  کے سوا  تمہارا کوئی کار ساز نہیں  پھر تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی"(ھود:113)۔

 

رہی بات یہ کہنے کی کہ مسلمانوں کی جانب سے انتخابات میں عدم شرکت  دائیں بازو کے رجحان   کی خدمت کے مترادف ہےتو  یہ ایک گمراہ کن بات ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ کیا  بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی موجود ہ حکومت     ہی ادغام کی پالیسی کو نافذ نہیں کر رہی ہے  جو کہ  اپنے سیاق وسباق  کے لحاظ سے  سابقہ حکومت  سے کوئی مختلف نہیں جس کی قیادت اندرس فوگ راسموسن  کر رہے تھے ؟ اس طرح یہ کہنا کہ  انتخابات میں عدم شر کت  کے نتیجے میں  تنہائی کا سامنا ہو سکتا ہے  اور اس سے ڈینش معاشرے  کے متوازی ایک اور معاشرہ وجود میں آسکتا ہے  یہ بات غلطیوں  کا ملغوبہ ہے،  کیونکہ معاشرے میں شامل رہنے یا  سرایت کرنے کو  ہر چار سال ہو نے والے بلٹ پیپر سے جوڑنا  درست نہیں !

 

ہمارا عظیم دین ہمیں یہ قطعی حکم دیتا ہے کہ ہم  سرگرم سیاست دان بنیں  مگر اسلام کی اساس پر  اوراسلام ہی ان  سرگرمیوں کی واضح اور منفرد تفصیل ہمیں دیتا ہے،  جس کی رو سے اصول  ( آئیڈیولوجی) کو پامال   نہیں کیا جاسکتا ، اہداف سے ہٹنے کی گنجائش نہیں اور نہ اسلوب  گڑ بڑ    کیے  جاسکتے ہیں۔  اس لیے  معاشرے کے ہر گوشے تک ہمیں پہنچنا ہے  مگر اپنی شرائط اور اپنے مقررہ اہداف کے ساتھ جن کا تعین اسلام کرتا ہے۔

 

اے مسلمانو ! جمہوریت ایک ڈوبتی کشتی ہے، جو کہ ایک کھائی کی طرف رواں دواں ہے۔  یہ ہیں یورپی اقوام جن کا جمہوریت پر سے اعتماد  مکمل ختم ہو نے والا ہے ،  وہ اب سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل  کی تلاش میں ہیں، اے مسلمانوں  تمہارے پاس ہی یہ متبادل موجود ہے۔

 

اے مسلمانو ! اس کافر جمہوری نظام پر کسی بھی طرح رضامندی کا اظہار  تمہارے شایا ن شان نہیں  چاہے  وہ قولی ہو یا عملی کیونکہ اس نے  پچھلے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انسانیت کو دھوکہ دے رکھا ہے۔ بلکہ تم سے مطالبہ یہ ہے کہ تم  مسلمانوں کی شناخت  کی حفاظت کرو  ،ان کے اقدار کو بچاؤ اور ادغام  کی اس  خونخوار پالیسی    کا مقابلہ کر و جس کی پشت پناہی اس ملک کی ہر حکومت کر تی ہے۔

یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر   اور سب مل کر  اسلامی اقدار  کی حفاظت اور اس پرپگینڈہ  مہم کو چیلنج کریں جو  اسلام کی صورت کو مسخ کر نے کے لیے چلائی جاتی ہے، اسی طرح    لوگوں کے درمیان اسلام کو پھیلانے  کے لیے دعوت میں حجت اور برھان کے ذریعے  تن من دھن  کی بازی لگانا بھی ہم پر فرض ہے۔

ہمیں اس ہدایت کی بدولت  جو ہمارے رب کی طرف سے  اشرف المرسلین  سیدنا محمد ﷺ پر نازل ہو نے   کتاب میں ہے  ہمیں   اس معاشرے کی حقیقت کے بارے میں زیادہ بیدار ہو نا چاہیے  جس میں ہم رہتے ہیں،  جہاں جمہوری نظام دم توڑ رہا ہے۔ ہمیں  سب سے پہلے بیدار ہو نا چاہیے سب سے آخر میں نہیں،اللہ فرماتا ہے :

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً

"اے ایمان والو اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے  تواللہ تمہیں فرقان عطا کرے گا"(الانفال:29) ۔

 

اے مسلمانو : ہمارا اسلام ہمیں قطعی حکم دیتا ہے کہ ہم  معاشرے میں  روشنی کے مینار بن جائیں، ہدایت کا وہ چراغ بن جائیں  جو مخلص اور  کھلے دل والے غیر مسلموں کو اپنی طرف کھینچے،  جن  لوگوں کو   خوشگوار زندگی  اور مسائل  کا حقیقی حل  درکار ہے۔   اپنے ارد گرد طائرانہ نظر دوڑانے  سے ہی  ہمیں  ایک ایسا معاشرہ نظر آتا ہے جو کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے ،  معاشرتی صورت حال پر غصہ  بڑا نمایاں ہے۔  اس لیے ہمیں اپنی  شخصیت پر محنت  کرنے کی ضرورت ہے تاکہ  وہ نمونہ بنیں جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں اورہم اسلامی دعوت کو اپنے قول و عمل سے تمام   لوگوں تک لے جائیں۔ہمارا اسلام  ہم پر یہ قطعی فرض قرار دیتا ہے کہ  ہم ان ریاستوں  کی خارجہ پالیسی کو بے نقاب کریں  اور اس سے نارضگی کا اظہار کریں۔  یہی وہ خارجہ پالیسی ہے جو عالم اسلام میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں  کا خون بہانے کا سبب ہے۔  ہم پر فرض ہے کہ ہم  عالم اسلام میں خلافت راشدہ کی عالمی تحریک  کی معاونت کریں  اور اس میں حصہ  ڈالیں   جو واحد حل اور   ہر چیلنج  اور مشکل کا عالمی سطح پر جواب ہے۔

 

مکہ مکرمہ  میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت  سے سب سے بڑے سبق کا خلاصہ  سیاسی عمل میں  اسلام کا منفرد طریقہ  ہے ،اور  وہ طریقہ یہ تھا کہ  ہر  متصادم  چیز کو چیلنج کیا جائے  اور  ہر چیز کا  واضح متبادل  سب کے سامنے پیش کیا جائے۔

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

"اے ایمان والو  اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو  اور جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو"(الانفال:27)

 
16 شـعبان 1436
ميلادی تاريخ  2015/06/03
  حزب التحرير
اسکندینیویا

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : بدھ, 03 جون 2015م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک