المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان
ہجری تاریخ | 21 من ربيع الثاني 1445هـ | شمارہ نمبر: Afg. 1445 / 06 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 05 نومبر 2023 م |
پریس ریلیز
پاکستان کا بحران : بنیادی مسئلہ افغان پناہ گزین نہیں بلکہ اسلام سے پہلوتہی اور امریکہ کی چاکری ہے
)ترجمہ)
پاکستان کے وزیرِداخلہ نے اعلان کیا کہ اس وقت ملک میں تقریباً 1.7 ملین افراد غیرقانونی طور پر رہ رہے ہیں اور انہیں اکتوبر کے آخر تک ملک سے نکال دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ ان غیرقانونی افراد کی روانگی یا تو خود سے رضاکارانہ طور پر ہونی چاہئے یا اگر جہاں ضروری ہو تو جبری اقدامات کے ذریعے کی جانی چاہئے۔ ان بیانات کو پاکستان کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ایسی رپورٹیں آئی ہیں کہ جائز قانونی دستاویزات رکھنے والے ہوں یا اس کے بغیر، دونوں قسم کے افراد کو پکڑدھکڑ، بے دخلی یا قید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی شہریوں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ ان پناہ گزینوں کو پناہ دیتے پائے گئے تو انہیں بھی سزا وجرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لئے ایک اسلامی علاقے کے ایک حصے سے کسی دوسرے حصے میں پناہ گزین ہونا یا وہاں امان طلب کرنے کا تصور ایک ایسا تصور ہے جس کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی نظریے کے مطابق مسلمانوں کے تمام علاقے ایک ہی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جدید دنیا کے تناظر میں اسلام سیاسی اور سماجی حقائق سے کسی حد تک منقطع ہو چکا ہے۔ آج کے دور میں عالمی سطح پر حکومتیں قومی ریاستوں کے فریم ورک کے ارد گرد تشکیل دی گئی ہیں، اور مسلم اقوام کے بہت سے رہنما بھی انہی قومی تصورات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے حکومت کرتے ہیں۔ یہ حکمران نہ صرف قومی سرحدوں کے تصور کو تسلیم کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے امتِ مسلمہ کو ٹکڑوں میں منقسم رکھنے والی ان سرحدوں کا فعال طور پر تحفظ کرتے ہوئے قومی سرحدوں کے اس تصور کو بھی گلے لگا لیا ہے۔ نتیجتاً پاکستان، ایران اور دیگر مسلم ممالک میں ان معاملات جیسے پناہ گزینوں کی صورتحال وغیرہ کو سیکولر اور غیر اسلامی اصولوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔
ان حالیہ دنوں میں پاکستان سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے بحرانوں کا سامنا کررہاہے لیکن بجائے اس کے کہ ان بحرانوں کی اصل وجہ کو حل کیا جائے، پاکستان میں حکمران اشرافیہ رائے عامہ کا دھیان ہٹانے کے ساتھ ساتھ افغانوں اور دیگر پناہ گزینوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ افغان پناہ گزین پاکستان کے مسائل کی اصل وجہ نہیں ہیں،پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ اسلام کے نفاذ سے منہ موڑنا اور امریکہ کی مسلسل غلامی کرناہے۔ پاکستانی حکومت کئی دہائیوں سے اسلام کے نام پر پاکستانی عوام اور دنیا بھر کے دیگر مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی ہے لیکن پاکستانی عوام کا نظریاتی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے آنے والا رد عمل صاف ظاہر کرتا ہے کہ عوام اب حکومت پاکستان کا جمہوری نظام اور سیکولر سیاست مزید نہیں دیکھنا چاہتے۔ بہ الفاظِ دیگر ، پاک فوج کی قیادت نے اپنی ساری زندگی پہلے برطانیہ اور پھر امریکہ کی غلامی میں گزار دی لیکن یہ وفادارانہ غلامی بھی ہمیشہ سے پاکستان کو مختلف بحرانوں میں غرق کئے جا رہی ہے۔
پاکستان کے غدار حکمرانوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ امریکہ ، بھارت کو پاکستان پر فوقیت دیتا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اقتصادی اور عسکری سطح پر بھارت کو خطے کی بڑی طاقتوں میں سے ایک بنانے کے لئے رہنمائی کر رہا ہے لیکن امریکہ کے لیے پاکستان کی دیرینہ خدمات کے باوجود ، پاکستان امریکہ کے لیے اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ بھارت ہے۔ امریکہ بھارت کے خلاف پاکستان کو ہی ذلیل کرتا رہا ہے اور یہ ذلت کشمیر کے معاملے میں کہیں زیادہ ظاہر رہی تھی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ بھارت اپنی ترقی پر ہی توجہ مرکوز رکھے، امریکہ نے ہی پاکستان کو قائل کیا کہ وہ اپنی فوجوں کا رُخ کشمیر اور مشرقی سرحدوں سے ہٹا کر قبائلی علاقوں اور افغانستان کی سرحدوں کی جانب موڑ دے۔ یہ اقدام پاک فوج کے لیے خودکشی کے مترادف تھا کہ مودی کی ہندوتوا حکومت سے جنگ لڑنے کی بجائے اب اسے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور انہیں ایذا دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اور اب پاکستانی حکومت افغان پناہ گزینوں کے خلاف رائے عامہ کو ایک نئے انداز سے پراگندہ خیال کر رہی ہے۔ یہ اشتعال انگیزی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بھارت مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور صیہونی یہودی وجود 'اسرائیل' فلسطین میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم اور بربریت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔ اوریہ سب کچھ پاکستان کے کرائے کے حکمرانوں کی جانب سے نہایت مایوسی اور بے شرمی کے باعث ہے جو کہ اگرچہ جوہری ہتھیاروں سے لیس اتنی بڑی فوج رکھتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بھارت اور یہودی وجود کی خبر لینے کی بجائے افغان 'پناہ گزینوں' کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بدامنی کی جڑیں اس کے اپنائے ہوئے سیکولر نظام اور امریکہ کی غلامی میں پنہاں ہیں۔ اس بحران سے اسی صورت نمٹا جا سکتا ہے جب خطے میں ایک بنیادی تبدیلی وقوع پذیر ہو۔ اس خطے میں رہنے والے لوگ مشترکہ عقیدے، مشترکہ ثقافت اور یہاں تک کہ ایک مشترکہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ یہ نوآبادیاتی سرحدیں انہیں الگ کئے رکھتی ہیں۔ خطے کے مسلمانوں کے یہ مصائب تب ہی دور ہوسکتے ہیں جب پاکستان کے غدار حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا جائے، پاکستان کا جمہوری اور سیکولر نظام ختم کر دیا جائے اور اس خطے کا جغرافیہ صرف اسلام کی بنیاد پر مرتب کیا جائے۔ خطے کے ذمہ داران کو ان مسائل کے لئے اقوام متحدہ جیسے عالمی شیطانی اداروں سے رجوع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ان کا بنیادی اور شریعت پر مبنی حل یہ ہے : ڈیورنڈ لائن، جو کہ دیگر دوسری سرحدوں کی طرح قومیت پر مبنی ایک سرحد ہے، اس کولازمی توڑ دیا جائے اور خطے کی تمام نظریاتی، سیاسی اور عسکری صلاحیتوں کو پاکستان کی غدار حکومت کے خلاف متحد کر دیا جائے اور افغانستان اور پاکستان کو متحد کرکے دوسری خلافت یعنی خلافتِ راشدہ قائم کر دی جائے۔ فلسطین سے لے کر پاکستان تک سب مسلمانوں کا ایک ہی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی ایک ہی ہے۔ اور وہ مسئلہ یہ قومیت پر مبنی سرحدیں، سیکولر نظام اور غدار حکمران ہیں اور ان سب کا ایک ہی بنیادی حل ہے جو کہ صرف اسلام ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ان سرحدوں کو توڑ دیا جائے، ان ایجنٹ حکمرانوں کو اُکھاڑ پھینکا جائے اور اسلامی خلافت قائم کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے،
«ثُمّ تَکُوْنُ خِلَافَۃ عَلَی مِنْہَاجِ الْنَّبُوَۃٍ»
"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی" (مسند امام احمد)
ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ افغانستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.ht-afghanistan.org |
E-Mail: info@ht-afghanistan.org |