الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

معزز بھائیو: القدس کی آزادی باتوں سے نہیں بلکہ مسلم افواج کی صیہونی ریاست سے جنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے

 

آج دو دن کی لاحاصل اور بے مقصد بحثوں کے بعد28 مارچ 2010ئ کو عرب حکمرانوں نے اپنی بائیسویںسمٹ کانفرنس کا اختتام سِرت ، لیبیائ میںکیا۔ جس سے پہلے 25 اور26مارچ کو ان کے وزرائِ خارجہ نے نے بھی اس کی تیاری کیلئے ملاقاتیں کی تھیںاور اس کانفرنس کیلئے ایجنڈا مرتب کیا تھا۔اس سمٹ کانفرنس میں جو قراردادیں پاس ہوئیںوہ ما ضی کی طرح قدیم اور جدید استعاروں سے بھری پڑی تھیں جیسا کہ ، 'امن process‘، 'عرب ۔اسرائیلی تصادم ‘(Arab Israeli conflict)، 'عرب کا پہل کرنے کا اقدام‘﴿the arab initiative﴾،حرمِ ابراہیم اور مسجدِ بلال کو کھولنے سے اسرائیل کا انکاراسکے ساتھ ساتھ نئی آبادکاریوں سے باز آنے سے یہودیوں کا انکار اور اس کے مزاکرات پر واسطہ یا بالواسطہ اثرات....عراق اور امارات میں صورتحال، سوڈان، سومالیہ اور کمورس کے جزائر میں امن اور ترقی کی حمایت، اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا وغیرہ وغیرہ ....اور اس کے بعد مزید ایک اورسمٹ کانفرنس کیلئے ایک اضافی قراردادبھی منظور کی گئی جس میں یہ حکمران صرف میل جول اور ایک دوسرے کو شاباشیاں دیں گے۔ یہ سب بے وقعت اور بے مقصد قراردادیں ہیںجو اصل مسئلہ کو حل نہیں کرتیں بلکہ اسے اور الجھا دیتی ہیں اور یہ صرف فضولیات ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ۔ یہاں تک کہ سمٹ کے اختتام پر اعلامیہ بھی جلدی جلدی پڑھ دیا گیا جیسے شائد یہ حکمران اس سے شرمندہ تھے۔

بہر حال وزرائِ خارجہ کی ابتدائی ملاقاتوں سے سمٹ کانفرنس کے اعلامیہ تک دو نکات توجہ طلب ہیں۔

 

پہلا یہ کہ برطانوی ایجنٹ پوری محنت کے ساتھ عرب لیگ کی قراردادوں کو متاثر اور کنٹرول کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یمن نے عرب لیگ کی جگہ عر ب یونین بنانے کی تجویز پیش کی اور جس طرح لبنانی صدر اور اس کے وفد نے فوراً اس کا خیر مقدم کیا اس سے واضح تھا کہ ان کا اس پر پہلے سے گٹھ جوڑ تھا۔ اور پھر قذافی نے کہا کہ اس پر اتفاقِ رائے ہے، دوسری طرف قذافی نے سمٹ کا صدر ہونے کی حیثیت سے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے احتساب اور خاص سمٹ کانفرنسیں طلب کرنے کے اختیارات کا بھی مطالبہ کیا۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عرب لیگ کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی عرب لیگ کی جگہ وہ کچھ اور قائم کر سکے، اور وہ اسلئے کہ عرب لیگ جسے 22مارچ 1945ئ کو برطانیہ نے قائم کیا تھا پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ کی دستِ راست بن چکی ہے جو کہ عرب لیگ کی قراردادوں سے واضح ہے.... عرب لیگ کا مرکز قاہرہ میں ہے اور مصرکا صدر امریکی ایجنٹ ہے ، وہ سپر وائزر کی حیثیت سے عرب لیگ اور سیکرٹری جنرل دونوں کی رکھوالی کرتا ہے۔اگر چہ برطانیہ اور اس کے ایجنٹ کوششیں کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں، بلکہ زیادہ امکان تو اس بات کا ہے کہ یہ کوششیں صرف پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کیلئے ہیں کہ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے تاکہ اس کے مطابق آئندہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

 

دوسرا موضوع القدس کا ہے ، قراردادوں نے کم از کم اس مو ضوع پر بات ضرور کی ہے جس کی بنائ پر پوری کانفرنس اس شیریں زبانی سے لطف اندوز ہوئی.....کانفرنس میں فاتحانہ انداز میں دعوہ کیاگیا کہ انہوں نے القدس کو آزاد کروانے کا منصونہ تشکیل دے دیا ہے جس کی بنیادتین ستونوں پر ہو گی، سیاسی، قانونی اور مالیاتی.....تو انہوں نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور عرب۔اسرائیلی تنازعہ ختم کروانے کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے ۔پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بیت المقدس میں اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ القدس کو 50کروڑ ڈالر کی رقم بھی دیں گے تاکہ وہ اسرائیل کے نئے آبادکاری کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔اور انہوں نے عرب لیگ کی سربراہی میں القدس کیلئے ایک بااختیار کمشنر کوتائنات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔اور سب سے اہم ان سب حکمرانوں نے القدس کے ساتھ اپنی محبت جتانے اور الاقصیٰ کی قدر دانی کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی سر توڑ کوششیں کیں ۔کانفرنس سے پہلے ہونے والی وزرائ کی ملاقات میں ، مصر کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم عصروں سے سبقت لیجانے کی کوشش کی اور کہا کہ مصر نے کانفرنس کا نام ''القدس کانفرنس ‘‘رکھنے کی تجویز دی تھی تو عرب لیگ کیلئے شام کے مستقل نمائندے نے احتجاج کیا کہ نہیں بلکہ یہ اس کے ملک نے دوسرے عرب ممالک کے وزرائ خارجہ سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کانفرنس کا نام القدس کانفرنس رکھ دیں....پس عربوں کا سکور برابر رہا، چاہے وہ میانہ رو ہوں یا نہیں۔ بلاشبہ امریکیوں نے اردگان کیلئے اس خطے میں بے باکی اور جوشیلی تقاریر کرنے کا کردار چن رکھا ہے، جس کی بدولت اس نے القدس اور اس کے تقدس کے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو عرب بھی نہیں کر سکے۔اور اگر اشکینازی، جو یہودی فوج کا سربراہ ہے، ابھی کل ہی اردگان کی پیشکش پر ترقی میں ایک ملٹری کانفرنس میں شامل نہ ہوا ہوتا تو لوگوں نے اس کی دھواں دار تقریر کو یہودی ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ لینا تھا

 

اے لوگو ! ان حکمرانوں کے دماغ ہیں لیکن یہ سوچتے نہیں، ان کے کان ہیں لیکن یہ سنتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے نہیں؛ یہ اندھے ہیں، آنکھوں سے نہیں بلکہ یہ دلوں سے اندھے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں! کیا القدس کو ایک ایسا کمشنر آزاد کروا سکتا ہے جس کے پاس خود کوئی اختیار نہیں؟ کیا اقوامِ متحدہ کو اسے آزاد کروانے کا کہنے سے یہ آزاد ہو سکتا ہے جس نے خوداس یہودی ریاست کو فلسطین مین قائم کیا؟اور کیا اسے عالمی عدالت کے ذریعے آزاد کروایا جا سکتا ہے جو نہ تو بھلائی کو حکم دیتی ہے اور نہ ہی منکر کو روکتی ہے؟کیا القدس کی شان میں یہ گرما گر م تقاریر اسے آزاد کروا سکتی ہیں جبکہ ان کا مقرر اپنے ملک میں یہودی سفارت خانے کا افتتاح کر رہا ہو اور القدس کے قاتلوں کی میزبانی کر رہا ہو؟

 

اے لوگو ! تمہارے درمیان وہ لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر یہ حکمران مقبوضہ فلسطین سے ناطہ توڑ بھی لیں تو بھی وہ الاقصیٰ اور القدس کو نہیں چھوڑیں گے ، اپنے تقوے کی وجہ سے نہ بھی ہو تو کم از کم شرم کی وجہ سے ہی......لیکن یہ القدس ہے جو نہ صرف ہر طرف سے ڈسا جا رہا ہے بلکہ اس کے دل پر بھی وار ہو رہا ہے، اس کے گنبد پر ، اس کی مسجد پر ، یہودی اس میں ہر طرف سے داخل ہو چکے ہیں، انہوں نے اس کے نیچے سے زمین کھود ڈالی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔انہوں نے اس کے آگے اورپیچھے آبادیاں بنا لی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوںنے کانفرنس کے افتتاح کی رات غزہ کے اوپر جارہانہ حملہ کیا اورارعلان کیا کہ انکی نئی آبادکاری کی پالیسی کسی تبدیلی کے بغیر جاری رہے گی، اور یہ حکمران اپنی ملاقاتوں، مارکبادوں ، کھانوں اور قہقہوں کے دوران چپ سادھے یہ سب دیکھتے اور سنتے رہے۔

 

ا ے مسلمانو! بے شک القدس کو صرف ایک ایسا حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جو اپنے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہو اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا ہو، جو مسلم افواج کی کما ن سنبھالے گا اور تمام اہل لوگوں کو اس میں جمع کرے گا.......اسے ایک مضبوط اور متقی حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جس میں عمرالفاروق (رض) جیسی خوبیاں ہوںجس نے القدس کو ہجرت کے پندرہویں سال میں آزاد کروایا تھا، وہ ایک ایسا حکمران ہو گا جوعمر الفاروق کے قول کو پورا کرے جس نے کہا تھا کہ القدس میں کوئی یہودی آباد نہیں ہو سکے گا۔ایسے حکمران میں صلاح الدین کی خوبیاں ہو ں گی جس نے القدس کو 583ھ میںصلیبیوں کی غلاظت سے پاک کیا تھا اور وہ قاضی محی الدین جیسا ہو گا جس نے القدس کی آزادی کے بعد پہلے جُمع کے خطبے میں اس اٰیت کی تلاوت کی تھی:


﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

ایسا حکمران سلطان عبدالحمید دوئم کی خصوصیات کا حامل ہو گا جس نے القدس کی حفاظت کی اور ہرٹزل اور اس کے ہواریوں کو 1901میںفلسطین کی زمین دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ اسکیلئے حکومت کے خزانے کو ایک خطیر رقم بھی دینے کو تیار تھے۔اس نے کہا تھا، ''فلسطین میری ملکیت نہیں ، بلکہ یہ اس کی ملکیت ان لوگوں کو پاس ہے جنہوں نے اسکیلئے اپنا خون دیا ہے۔ یہودی اپنے اربوں روپے اپنے پاس رکھیں، مجھے اپنے جسم سے ایک خنجر کو آر پار کرنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ میں فلسطین کو اپنی ریاست سے الگ ہوتا دیکھوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘

 

ان یہودیوں کے شکنجے سے القدس مسلم افواج ہی آزاد کروائیں گی جب وہ ان پر وہاں سے حملہ کریں گی جہاں سے یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور ان پر ایک ایسا حملہ کریں گی کہ یہ شیطان کی سب سر گوشیاں بھول جائیں گے اور مسلم افواج کے لشکر دونوں میں سے ایک رحمت کی طرف دوڑیں گے: فتح یا شہادت، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ:

 

﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾
اور اگر تم ان پر جنگ میں غلبہ پا لو تو انہیں ایسی سخت سزا دو کہ ان کے پچھلے دیکھ کر بھاگ جائیں ، تاکہ انہیں عبرت ہو۔ ﴿الانفال۔57:8﴾

 

﴿واخرجوھم من حیث اخرجوکم﴾....
اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے.... ﴿البقرہ۔191:2﴾

اے مسلمانو !یہ ایسے ہو گا۔

اے مسلم افواج کے جوانو!

اس سے اعتراض کرنے والوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ،اور اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں، تو ایسا نہ کہو کہ یہ حکمران تمہیں روک رہے ہیں ، بلکہ طاقت تو تمہارے ہاتھوں میں ہے، دراصل یہ تم ہو جو انہیں تحفظ دیتے ہو ان کی گردنوں کے پھندے تو تمہارے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر تم ان کے اطاعت کرو گے تو تم گناہگار اور حد سے گزرنے والے ہو جائو گے اور رسول اللہﷺ کے حوص کوثر پر نہیں جا پائو گے۔ اور اگر تم نے ان کے جرم میں ان کی معاونت نہ کی اور ان کے جھوٹ کا اعتبار نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ تم میں ہوں گے اور تم حوص کوثر تک پہنچ جائو گے، اور اچھائی کا صلہ تو صرف اچھائی ہے۔ ترمزی میں کعب ابن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

اعذک باللہ یا کعب بن عجرہ من امرائ یکونون من بعدی فمن غشی ابوابھم فصدقھم فی کذ بھم و أعائھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولا یرد علی الحوض ومن غشی ابوابھم فلم یصدقھم فی کذبھم ولم یعنھم علی ظلمھم فھو منی و انا منہ و سیرد علی الحوض
'' میں تمہارے لئے بیوقوف کی حکمرانی کی اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ پوچھا کہ وہ کون ہوں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ''میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جن کے جھوٹ پر یقین کیا جائے گا اور ان کے فرمانبردار ان کے جبر میں ان کی مدد کریں گے۔ وہ مجھ سے نہیں اور میں ان میں سے نہیںاور وہ کبھی حوص کوثر پر میرے پاس نہ آ سکیں گے۔ لیکن جنہوں نے ان کی فرمانبرداری نہ کی ، اور ان کے جھوٹ پر یقین نہ کیا اور نہ ہی ان کے جبر میں ان کی مدد کی وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ حوص کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔‘‘

 

اے مسلم افواج کے جوانو!

خلافت کے قیام میںحزب التحریر تمہاری مدد کر رہی ہے تو تم بھی اس کی مدد کرو اور یہودیوں سے جہاد کیلئے وہ تمہیں پکار رہی ہے تو اس کی پکار پر اٹھ کھڑ ے ہو، یہود سے لڑنا تو مقرر ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قراٰن میں فرماتے ہیں:

 

﴿فاذا جائ وعد الاخرۃ لیسو عوا وجوحکم ولید خلو ا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ ولیثبروا ما علو تثبیرا عسی ربکم ان یر حمکم و ان عدتم عد تا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا﴾
مسلم میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

لتُقا تِلُنَّ ال،یَھُودَ فَلَتَق،تُلُنَّھُم، حَتَّی یَقُولَ ال،حَجَرُ یَا مُس،لِمُ ھَذا یَھُودِیَّ فتَعَالَ فَاق،تُل،ہُ
''اور تم ضرور یہود سے جہاد کرو گے حتیٰ کہ پتھر کہے گا: اے مسلمان، یہا ں ایک یہودی ہے آئو اور اسے قتل کر دو‘‘

 

کیا تم میں کوئی عقلمند آدمی ہے جو اپنے جوانوں کے ساتھ اٹھے اور اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والے سب حکمرانوں کو روندھتا ہوااسلام کے حکم کو نافذ کرے، یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر خلافت، اور یوںالاقصیٰ کو آزاد کروائے اور پھراسے یہودیوں کے ناپاک ہاتھوں سے آزاد کروانے کے بعد اپنے پہلے خطبے میںوہ کہے جو قاضی محی الدین نے کہا تھا:

 

﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کا ذکراپنے ساتھ والوں سے کریں گے، اور جنتوں میں اس کے ساتھ اللہ کے ملائکہ ہوں گے اوردنیا میں اس کے ساتھ مو منین ہوں گے، اس سے اس دنیا میں بھی محبت کی جائے گی اور آخرت میں بھی، اور بے شک یہی اصل کامیابی ہے۔

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہو جس وقت وہ تمہیں اس کا م کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لئے زندگی ہے اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بیشک اسی کی طرف تم سب جمع کئے جائو گے۔ ﴿الانفال8 :24﴾

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : اتوار, 28 مارچ 2010م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک