بسم الله الرحمن الرحيم
اے مسلم ممالک کے حکمرانو ۔۔۔ سنو اور دھیان دو۔۔۔
(ترجمہ)
غزہ کے خلاف ایک وحشیانہ جنگ جاری ہے۔ اور یہودیوں کی طرف سے صبح و شام اس تمام تر قتل عام کے باوجود مسلمانوں کی افواج کی جانب سے اس جنگ کو روکنے کے لئے مداخلت کا شدید فقدان پایا جاتا ہےخصوصاً وہ افواج جو فلسطین کے اطراف میں موجود ہیں۔ اور اب اس وحشیانہ جنگ کے ساتھ ساتھ استعماری کفار، خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پے در پے بیانات بھی دیے جانے لگے ہیں، یہ بیانات فلسطین میں دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں۔ یہ دوریاستی حل یہ ہے کہ: فلسطین کے بیشتر علاقہ پر یہودی ریاست ہو اور فلسطین کے تھوڑے سے علاقے پر، جو کہ غیرمسلح کردیا گیا ہو، وہ فلسطینی علاقہ ہو جہاں فلسطینیوں کو پناہ مل سکے ! یہ بات مسلم ممالک بالخصوص فلسطین کے اردگرد موجود عرب ممالک کے حکمرانوں کے لبوں پر کثرت سے آتی رہی ہے اورفلسطینی اتھارٹی اس میں پیش پیش ہے۔
پھر پچاس دنوں تک مسلسل وحشیانہ ظلم و سفاکیت؛ پھر یہودی وجود کے اعتراف کے ساتھ ایک ہفتے کی جنگ بندی جس کا کہ ان کی طرف سے انحراف کر ہی دیا جانا تھا۔ اورپہلے سے بھی زیادہ شدید سفاکیت کے ساتھ دوبارہ جنگ کا آغاز۔ دوبارہ وہی سب کچھ ! جبکہ مسلم افواج کی طرف سے اس سب میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔۔۔یہ سب کچھ یہودی وجود کو ایک بھرپور طاقت کے طور پر منوانے کے لیے ہے، ایک ایسی طاقت کہ مسلم افواج جس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح ان کے ساتھ خبیث منصوبے،یعنی دو ریاستی حل کے بارے میں گفت و شنید کا سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺاور مومنین کے ساتھ خیانت ہے۔
اے مسلم ممالک کے حکمرانو:
یہودی وجود جنگ لڑنے والے اور معرکے سر کرنے والےلوگ نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ* يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ ﴾
”یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر جائیں گے پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی“ (آل عمران 3:111) ۔
اور جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ فلسطین میں چند ایک ایمان کے حامل نوجوان ہی یہودی وجود کے ساتھ لڑ رہے ہیں جو کہ یہودی وجود کے مقابلے میں تعداد میں کم ہیں اور کمتر وسائل کے حامل ہیں، اور اس کے باوجود یہود آج تک ان کو شکست نہیں دے سکے۔ تو اگر مسلمان فوجیں حرکت میں آ جائیں اور تمام افواج بھی نہیں بلکہ صرف فلسطین کے ارد گرد کی افواج میں سے کچھ افواج ہی حرکت میں آ جائیں، تو یہودی وجود کا نام ونشان بھی شاید باقی نہ رہے۔
فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے ۔۔عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فتح کیا ۔۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے آزاد کرایا۔۔ اور عبدالحمیدالثانیؒ نے اسکی حفاظت کی۔۔ یہ کوئی فروخت کا مال نہیں ہے۔ اور یہ دھرتی کبھی اس کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں کہ اس کو اپنے لوگوں اور جس نے اس پر قبضہ کیا ان کے درمیان تقسیم کیا جائے، اور اس کے لوگوں کو بے دخل کر دیا جائے ۔۔اس کا حل دو ریاستی حل نہیں ہے بلکہ اس کا حل وہی ہے جیسا کہ اللہ العزیز والجبار کا ارشادِ پاک ہے اور اس کا ارشاد برحق ہے :
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
” اور کافروں کو جہاں پاؤ ، قتل کردو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہو“۔ (البقرۃ؛ 2:191)
اے مسلم ممالک کے حکمرانو:
کیا غزہ میں لوگوں کی شہادت اور ساٹھ ہزارافراد کا زخموں سے چُور ہو جانا اس بات کے لیے کافی نہیں تھا کہ آپ ان کی حمایت کے لیے افواج کو حرکت میں لے آتے ؟! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ ؛
﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
”اور اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے“۔ (الانفال؛ 8:72)
کیا غزہ میں بچوں کی چیخ وپکار ، ماؤں کی فریادیں، اپنے بچوں سے بچھڑ جانے والی ماؤں کا درد وغم، اور بزرگ مردوں اور عورتوں کی آہ و بکا اس بات کے لیے کافی نہیں تھی کہ آپ ان کی حمایت کے لیے افواج کو حرکت میں لے آتے؟!!
کیا ظلم وبربریت کی یہ داستان ، شہداء کے لاشے ، جسموں کے کٹے پھٹے اعضاء، کھنڈرات اور ملبے تلے سے شہداء اور زخمیوں کے خون کے فواروں کا ابلنا آپ کے لیے کافی نہیں کہ آپ اہل غزہ کی مدد کریں ؟!!
ارے کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں خون نہیں جلتا کہ تم غزہ ہاشم کی حمایت کرو؟!! اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول ؐاور مومنین سے شرم آتی تو تم ان کی مدد ونصرت سے ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا، جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے، امام بخاریؒ اپنی سند سے نقل کرتے ہیں' ہم سے آدم نے ، ان سےشعبہ نے، منصور سےروایت کرکے بیان کیا، کہ انہوں نے کہا: میں نے ربعی بن حراش سے سنا، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ»
”بے شک، لوگوں نے نبوت کے الفاظ سے جو کچھ سیکھا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ: اگر تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو“۔
اے مسلم ممالک کے حکمرانو:
ہم یہ جانتے ہیں کہ کافر استعمار، بالخصوص امریکہ سے تمہاری وفاداریاں اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ہی ہے جو تمہیں غزہ اور اس کے عوام کی حمایت سے روکتی ہے۔ اور یہ سب اس لئے ہے تاکہ تم اپنے لڑکھڑاتے اور ڈانواں ڈول اقتدار کو بچا سکو۔ اور تم بھول چکے ہو یا تم نے جان بوجھ کر بھلا دیا ہے کہ ایسا کرنے سے تم گھاٹے میں جا رہے ہو ؛ نہ صرف تمہاری آخرت بلکہ تمہاری دنیا بھی تباہ ہورہی ہے۔ یقیناً یہ استعماری کفار جب تم سے اپنے مقاصد پورے کر لیں گے تو ایک دن تمہیں ہی لات مارکر باہر کر دیں گے اور تمہارے اقتدار کی کرسیاں توڑ دیں گے ۔۔۔ تم سے پہلے گزر جانے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوگزرا ہے، اس میں تمھارے لیے عبرت ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو... بے شک اللہ قادر مطلق نے سچ فرمایا ہے:
﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾
”کیا یہ لوگ زمین میں نہ چلے کہ ان کے دل ہوں جن سے یہ سمجھیں یا کان ہوں جن سے سنیں پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینو ں میں ہیں“۔ (الحج؛ 26:46)
اے مسلم افواج کے سپاہیو:
غزہ میں تمھارے لوگوں کے خلاف یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت کو تقریباً دو ماہ ہوچکے ہیں۔۔۔ اور اس قتل عام کے باوجود جس کا ارتکاب اس یہودی وجود نے کیا اور اب بھی کر رہا ہے، جس میں عورتیں، بچے، علماء اور بوڑھے مارڈالے گئے۔۔۔ اور گھروں، ہسپتالوں، مساجد اور اداروں کو تباہ وبرباد کر دیا گیا ، اس سب کے باوجود یہ حکمران تمہیں غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے سے روکے ہوئے ہیں جبکہ آپ بھی بے حرکت، بالکل ساکت اور گم صم خاموش ہیں ! کیا آپ اس بات سے نہیں ڈرتے کہ آپ پرآپکے رب کا غضب نازل نہ ہو جائے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں ؛
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ * إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
”اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ راہ ِخدا میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھے جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور دنیا کی زندگی کا اسباب آخرت کے سامنے قلیل ہے۔ اگر تم اللہ کی راہ میں نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے “۔ (التوبہ؛ 9:38،39)
کیا تمھیں دو بھلائیوں میں سے ایک نہیں چاہیے؟ یعنی فتح یا شہادت ؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ *وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
”وہ تمہیں ایسی بہشتوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور پاکیزہ مکانوں میں اورہمیشہ رہنے کے باغوں میں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور (اس اُخروی نعمت کے علاوہ) ایک دوسری (دنیوی نعمت بھی عطا فرمائے گا) جسے تم بہت چاہتے ہو، (وہ) اللہ کی جانب سے مدد اور جلد ملنے والی فتح ہے، اور (اے نبئ مکرّم!) آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیں “(الصف؛ 61:12،13) ۔
کیا تم دنیا اور آخرت کی عزت کی آرزو نہیں رکھتے؟!
اے مسلم افواج کے سپاہیو:
غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے آؤ اور اگر حکمران تمہارے خلاف کھڑے ہوں تو ان کو ہر ممکن طریقے سے دبوچ ڈا لو۔ سرزمین مبارک میں اپنے بھائیوں کی مدد کرو، اور اسے یہودیوں کے لیے فیصلہ کن شکست بنا دو، بالکل اسی طرح جیسے اس القدس شریف میں صلیبیوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی تھی، یہیں عین جالوت کے مقام پر منگولوں کو بھی فیصلہ کن شکست ہوئی تھی اور اس کے بعد فلسطین مکمل طور پر پہلے کی طرح اسلام کی سرزمین بن جائے گا۔۔ جہاں خلافت کا جھنڈا ،رایۂ ، لہرائے گا، کیونکہ فلسطین اسراء و معراج کی سرزمین ہے ۔۔ مبارک ہے خود یہ زمین اور مبارک ہیں اس کے اطراف۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجداقصیٰ لے گیاجس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے“۔ (الاسراء؛ 17:1)
اے سپاہیو! غزہ ہاشم میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے آؤ۔ اللہ کی مدد کرو، اور وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ * وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ﴾
”اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کا ساتھ دو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے بڑی خرابی ہے اور ان کے اعمال رائیگاں جائیں گے ، یہ اس لیے کہ اللہ کے نازل کردہ کو انہوں نے ناپسند کیا، اس لیے اس نے ان کے اعمال کو ضائع کر دیا“۔ (محمد؛ 47:7،9)
ہجری تاریخ :20 من جمادى الأولى 1445هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 04 دسمبر 2023م
حزب التحرير