الثلاثاء، 21 رجب 1446| 2025/01/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

آخر کار غزہ میں یہودیوں کی ہولناک قتل و غارت اور بھیانک تباہی کے بعد... اور مسلم حکمرانوں کی گھناؤنی خاموشی کے بعد... ٹرمپ نے ایسی جنگ بندی کرائی جو کچے دھاگے سے معلق ہے۔

)ترجمہ)

 

الجزیرہ ویب سائٹ نے 16 جنوری، 2025ء کو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط شائع کیں جو کہ اتوار مورخہ 19 جنوری، 2025ء سے شروع ہو رہا ہے۔  معاہدے میں یہ بیان کیا گیا ہے: ”قطری دارالحکومت دوحہ میں اعلان کیا گیا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدے طے پا گیا ہے، جو تین مراحل میں نافذ ہوگا“:

 

پہلا مرحلہ جس کی مدت 42 دن ہے، اس میں درج ذیل کے نفاذ پر اتفاق کیا گیا ہے:

• دونوں فریقین کے درمیان عارضی طور پر فوجی کارروائیوں کا توقف، اور اسرائیلی افواج کا مشرق کی طرف انخلاء اور آباد علاقوں سے دور جانا... فوجی اور جاسوسی مقاصد کے لئے اسرائیلی فضائی سرگرمیوں کی عارضی معطلی، جو غزہ کی پٹی میں روزانہ 10 گھنٹے اور قیدیوں اور محبوس افراد کی رہائی کے دنوں میں 12 گھنٹے ہوگی... اسرائیل دونوں فریقوں کے درمیان متفقہ نقشوں کے مطابق غزہ کے فلادلفیا راہداری کے علاقے میں اپنی فوج کو مرحلہ وار کم کرے گا ... معاہدے کے ساتویں دن سے، نتساریم محور کے شمالی حصے میں گاڑیوں کو واپس آنے کی اجازت ہوگی، جنہیں دونوں پرائیویٹ کمپنی چیک کرے گی جس کا چناؤ ثالث اسرائیلی فریق کے ساتھ کوآرڈینیشن سے کریں گے، اور ایک متفقہ طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا...

• دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ (indirect) مذاکرات شروع ہوں گے، تاکہ معاہدے کے دوسرے مرحلے کے نفاذ کے بارے میں شرائط طے کی جا سکیں، اور یہ مذاکرات معاہدے کے نفاذ کے 16ویں دن تک مکمل ہونے چاہئیں، اور معاہدے کے پہلے مرحلے کا پانچواں ہفتہ ختم ہونے سے پہلے اس پر اتفاق رائے حاصل کرنا ضروری ہے۔

 

دوسرا مرحلہ جس کی مدت 42 دن ہے، اس میں درج ذیل امور کو نافذ کیا جائے گا:

 

• مستقل امن کا اعلان، جس میں فوجی کارروائیوں اور دشمنانہ سرگرمیوں کو مستقل طور پر روکنا، اور دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں اور گرفتار شدگان کے تبادلے کے عمل کو دوبارہ شروع کرنا  شامل ہے، بشمول یہ کہ اسرائیل کے تمام زندہ قیدی (شہری اور فوجی) رہا کیے جائیں گے، اور ان کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی متفق علیہ تعداد کو رہا کیا جائے گا جو اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی سے مکمل انخلاء کریں گی۔

 

تیسرا مرحلہ جس کی مدت 42 دن ہے، اس میں درج ذیل امور پر عمل کیا جائے گا:

 

• دونوں فریقوں کے پاس موجود مردہ اجسام اور ان کی باقیات کا تبادلہ، بعد یہ کہ ان تک رسائی حاصل ہو جائے اور ان کی شناخت ہو جائے... غزہ کی پٹی کی دوبارہ تعمیر کا منصوبہ شروع کیا جائے گا، جو تین سے پانچ سال کے دوران مکمل ہوگا، جس میں مکانات، شہری عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شامل ہوں گے، اور تمام متاثرین کو معاوضہ دیا جائے گا، جس کی نگرانی کچھ ممالک اور معاہدے کے معاون ادارے کریں گے... تمام کراسنگ پوائنٹس کھولے جائیں گے اور افراد و سامان کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے گی۔( ذرائع : ایجنسیز)

 

• ان مراحل سے یہ بات واضح ہے کہ پہلا مرحلہ اس معاہدے کا بنیادی حصہ ہے اور اس میں بہت سی مشکلات ہیں، اور اگر اس پر عمل درآمد میں کوئی خلل آیا تو دیگر مراحل رک سکتے ہیں۔ جیسے کہ آباد علاقوں سے انخلاء، فضائی سرگرمیوں کی معطلی، پھر فوجی افواج کی تعداد میں کمی، گاڑیوں کی چیکنگ، اور ہر شرط کو اس بات کا جواز بنایا جا سکتا ہے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے یا انہیں روک دیا جائے۔

 

اے مسلمانو:

غزہ کے اہلِ زمین نے اس فیصلے پر غم کے عالم میں ”خوشی کا اظہار“ کیا، شاید یہ ان مصیبتوں میں کچھ کمی کرے جو ان پر واقع ہوئیں، کیونکہ انہیں مسلمانوں کے حکام کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی!

 

غزہ کے اہلِ زمین نے اس فیصلے کا ”خیرمقدم“ کیا، شاید یہ ان کے لیے کچھ راحت کا سامان کرے، بعد یہ کہ قرب و جوار میں موجود اور فاصلے پر واقع مسلم افواج نے انھیں مایوس کیا۔ غزہ کے بچوں نے جنگ بندی پر ”خوشی منائی“، بعد یہ کہ ان کے لیے دنیا تنگ ہو چکی تھی، کیونکہ مسلمانوں کے حکام نے ان کے بچاؤ کے مسئلے پر قبر کی سی خاموشی اختیار کیے رکھی...  یہی حال ہے مسلمانوں کے حکام کا جو غزہ کے خلاف صیہونیوں کی دشمنی اور حملے کے لیے ایسا حصار بنائے ہوئے ہیں، جیسے کڑا کلائی کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا؛

 

﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾

اللہ انہیں مارے ،یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟ (التوبۃ؛ 9:30)۔

 

اے مسلمانو، اے مسلمانوں کی افواج!

کیا یہودیوں کی فطرت کو کچے دھاگے سے معلق وہ قول و قرار تبدیل کر سکتا ہے جو امریکہ نے ان کی عظمت کو بڑھانے کے لیے بنایا، اور جو ابھی بھی انہیں ہتھیاروں اور وسائل سے مدد فراہم کر رہا ہے؟ کیا یہودیوں کی فطرت کو وہ قول و قرار  درست کر سکتا ہے کہ جسے اس رسی نے ترتیب دیا ہے کہ جسے یہودی پکڑے ہوئے ہیں اور جس پر وہ انحصار کرتے ہیں؟ وہ رسی جو ابھی تک اس لئے قائم ہے کیونکہ کسی ہاتھ نے اسے کاٹنے کی جرات نہیں کی!

 

کیا یہودیوں کی فطرت کو کچے دھاگے سے معلق قول وقرار درست کر سکتا ہے جبکہ وہ معاہدے کو توڑ دیتے ہیں، اور جیسا کہ انھوں نے پہلے بھی معاہدے توڑے اور بار بار توڑتے ہیں، خاص طور پر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی حکمران ایسا نہیں کہ جو ان کے سامنے کھڑا ہو اور انہیں چیلنج کرے؟ کیا ان کا عہد توڑنا ایک ایسی خصوصیت نہیں ہے جو ان کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے اور وہ جہاں بھی گئے،  یہ خصوصیت ان کے ساتھ موجود رہی یے؟ کیا لبنان میں ایسا ہی نہیں ہوا، کہ جہاں انہوں نے 27 نومبر 2024ء کو ایک معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا، اور یہی حال ان کا شام کے بارے میں ہے کہ جب انہوں نے 1974ء کے معاہدے کو توڑ دیا  بلکہ انہوں نے اپنی جارحیت میں پیش قدمی کی اور جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا ؟

 

پھر کیا ایک ایسی قوم کے ساتھ معاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جن کا قابض وجود مکمل طور پر مسلمانوں کی سرزمین پر قائم ہے؟ کیا ان کے قبضے کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جا،سکتا ہے بجائے یہ کہ ان کے ریاستی وجود کو سرے سے ہی مٹا دیا جائے؟

 

اے مسلمانو!

یہود بھتان والی قوم ہے۔ یہ دغا باز اور شریر لوگ ہیں۔ وہ باز نہیں آتے ماسوائے اس طریقے سے جو اللہ نے بیان کیا ہے:

 

﴿فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ

”تو اگر تم انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی مار مارو جس سے ان کے پیچھے والے (بھی) بھاگ جائیں ، اس امید پر (مارو) کہ شاید انہیں عبرت ہو“(الانفال؛ 8:57)۔

 

اے مسلمانو! یہود بھتان والی قوم ہے۔ یہ دغا باز اور شریر لوگ ہیں۔ یہ ایک اور ”جنگ خندق“ کے علاوہ رکنے والے نہیں، جو ان کی جڑ کو اکھاڑ پھینکے، اور ”خیبر“ جیسا ایک اور محاصرہ جو ان پر حملہ کرنے کے لیے واپس آئے گا، جیسا کہ ثمود پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ ان کا وطیرہ ہے جب سے انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں اللہ عزوجل کی رسی کو کاٹ دیا۔ ان کے لیے سوائے لوگوں کی رسی کے کچھ نہیں بچا جو کہ ایک نازک اور ٹوٹی ہوئی رسی ہے، اگر وہ مسلمان سپاہیوں کو اپنے پیچھے اور سامنے سے لڑتے ہوئے پائیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

  ﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ﴾

”ان سے (خوب) لڑو۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا“ (التوبۃ، 9:14)۔

 

پھر فلسطین کی بابرکت سرزمین اسلام کے گھر (دار الاسلام) کی طرف لوٹ آئے گی، جس طرح عمر ؓ نے اسے فتح کیا، صلاح الدینؒ نے اسے آزاد کیا اور عبدالحمید ثانیؒ نے اس کی حفاظت کی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ ”اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے“(الروم؛ 30:4،5)۔

 

اے مسلمانو ! اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ  کی سنت میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے، ہمارے لوگوں کے لیے عزت اور ہمارے دشمنوں کے لیے ذلت ہے۔ یہ ایک واضح حل ہے جو حق کا اعلان کرتا ہے اور اپنے لوگوں کو عزت دیتا ہے، اور باطل کو شکست دیتا ہے اور اس کے لوگوں کو ذلیل کرتا ہے۔ اور یہ کہ ایک اسلامی ریاست،یعنی خلافت راشدہ، جو ایک بار پھر واپس آئے گی، جس کی قیادت ایک متقی اور پاکیزہ امام کریں گے، جن کی قیادت میں لڑا جائے گا، اور جو ان کی حفاظت کرے گا۔ خلیفہ اسراء و معراج  کی سرزمین، فلسطین  کو آزاد کرائے گا اور اس کی شان و وقار کو بحال کرے گا، اور یہودیوں اور ہر جارح کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کی گہری وادی میں لوٹا دے گا۔ اے مسلمانو!اللہ کے حکم سے یہ اس ظالمانہ حکومت کے بعد ہو گا جس کے تحت ہم اب رہ رہے ہیں۔ احمد نے حذیفہؓ سے روایت کیا،

 

«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِـلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»

”پھر ایک جابرانہ حکومت ہو گی اور جب تک اللہ چاہے گا باقی رہے گا۔ پھر جب وہ ہٹانا چاہے گا اسے ہٹا دے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی“۔

 

پھر وہﷺ خاموش ہوگئے۔ مسلم نے نافع کی سند سے ابن عمرؓ سے روایت کی ہے، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَـهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ»

”تم ضرور یہودیوں سے لڑو گے۔ تم انہیں ضرور مارو گے“۔

 

تاہم، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم بیٹھے رہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیجیں کہ وہ ہمارے دشمنوں سے لڑیں اور ہمارے لیے خلافت قائم کریں۔ بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے کامیابی کی خوشخبری کے ساتھ اپنے فرشتوں کو اپنی فتح کی بشارت کے ساتھ بھیجتا ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور اللہ نے ان کی رہنمائی میں اضافہ کیا۔ مسلمان سپاہی، جنگ میں صبر کرنے والے، جو اپنے امام (خلیفہ) کی حفاظت میں ہیں، اور اس کی قیادت میں دشمنوں سے لڑتے ہیں: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ﴾

”ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (اللہ سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش کے ساتھ دفعتاً حملہ کردیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مدد کو بھیجے گا“ (آل عمران؛ 3:125)۔

 

صرف اسی صورت میں ہی ہم ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو بشارت کے مستحق ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،‌

 

﴿نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾

”اللہ کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب ہوگی اور مومنوں کو (اس کی) خوشخبری سنا دو“ (الصف، 61:13)۔

 

اے مسلمانو ! حزب التحریر وہ رہنما ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی۔ حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس کی حمایت کریں اور اس کے ساتھ مل کر ایک بار پھر خلافت راشدہ  کو دوبارہ قائم کریں، تاکہ اسلام اور اس کے لوگوں کو عزت ملے، اور کفر اور اس کے لوگ ذلیل و خوار ہوں۔  یہی عظیم فتح ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾

بیشک اس میں نصیحت ہے اس کے لیے جو دِل رکھتا ہو یا کان لگائے  اور متوجہ ہو(ق؛ 50:37)۔

 

ہجری تاریخ :1 من محرم 1360هـ
عیسوی تاریخ : اتوار, 19 جنوری 2025م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک