الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر

ہجری تاریخ    30 من ربيع الاول 1438هـ شمارہ نمبر: 1438 AH/022
عیسوی تاریخ     جمعرات, 29 دسمبر 2016 م

پریس ریلیز

ہماری بیٹیاں قید میں ہیں۔۔۔۔۔اور حکمران تماشہ دیکھ رہے ہیں

 

فلسطینی قیدیوں سے متعلق تحقیق کے مرکز کی رپورٹ کے مطابق قابض عدالتوں نے بڑی تعداد میں خواتین قیدیوں کے خلاف پچھلے کچھ عرصے میں سخت اور بغض سے بھرپور فیصلے کیے ہیں جس میں خواتین قیدیوں کے خلاف چار ایسے فیصلے ہیں جس میں انہیں دس سال سے زائد کی قید سنائی گئی ہے ۔ مرکز کے ذرائع ابلاغ کے ترجمان، ریاض ال اشقر، نے عندیہ دیا کہ قابض وجود سزاؤں کو اس لیے سخت تر بنانا چاہتا ہے تاکہ خواتین اور بچیوں کو القدس میں ہونے والی بغاوت کا حصہ بننے سے روکیں اور انہیں ڈرا دیں کہ وہ چھرا گھونپنے اور قابض فوجیوں اور آبادکاروں کو روندنے جیسی کاروائیوں سے باز آ جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قابض بڑھ چڑھ کر ایسے بڑے اور بے نظیرفیصلے بہت سی خواتین کے خلاف دے رہے ہیں، ان میں کم عمر بھی شامل ہیں۔

 

سالہا سال سے یہودی وجود کے ساتھ جاری تنازعہ میں پندرہ ہزار سے زائد خواتین اور نوجوان فلسطینی لڑکیوں کو قید کیا گیا۔ قابض ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خواتین عمر رسیدہ ہیں یا نو جوان اور یا پھر وہ جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہوں۔ پہلے انتفادہ میں خواتین قیدیوں کی تعدادتین ہزار تک تھی اور دوسرے انتفادہ کے دوران یہ نو سو کے قریب تھی۔  قیدیوں اور سابق قیدیوں کی وزارت کے مطابق یہودی وجود کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد 13 جون2016 تک 61 تک پہنچ گئی۔قابض عدالتوں نے حال ہی میں چار خواتین قیدیوں کے خلاف حکم جاری کیے جو سب کے سب دس سال قید  سے زائد تھے۔ یہ جو قیدی ہیں: شروق دویات (19 برس) کو 16 سال قید کی سزا ہوئی؛ خاتون قیدی میسون الجبالی (22 برس) کو15 سال قید ہوئی؛ خاتون قیدی نورھان عواد (16 برس) کو 13 سال قید ہوئی، اور اسراٰء جعابیس (31 برس)11 سال قید کی سزا۔ مزید برآں، دیگر لڑکیوں کو  تین سے سات سال تک کی مختلف سزائیں سنائی گئیں۔

 

عمر کے اس دور میں بجائے اس کے کہ یہ لڑکیاں اپنے گھروں میں آرام اور حفاظت سے ہوں، وہ قابضین کی جیلوں میں قید ہیں! بجائے اس کے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی جگہوں پر بیٹھ کر اپنے مستقبل کی طرف دیکھیں ان کو ہتک  اور بے عزتی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی عمر کی خواتین قیدیوں کو اپنی گرفتاری کے آغاز سے ہی تشدد، ہتک اور گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ ہراساں کرنے میں اس وقت اور تیزی آ جاتی ہے جب وہ تفتیشی مراکز میں پہنچتی ہیں۔ یہاں ان پر ہر قسم کے تفتیشی حربے آزمائے جاتے ہیں جو کہ جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کے ہوتے ہیں، اس میں مار پیٹ، گھنٹوں تک نیند سے محرومی، ان کی صنف، عمر یا ضرورتوں کا خیال کیے بغیر ان کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا شامل ہے۔ خواتین قیدیوں کی سختیاں یہاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ ان کے خلاف دباؤ، خوفزدہ کرنے اور دھمکانے کے طریقے جاری رہتے ہیں، یہاں تک کہ تفتیش کے ختم ہونے کے بعد اور قیدیوں کے تفتیشی کمروں سے حراستی کمروں میں پہنچنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں جیل حکام اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ظلم اور نیچا دکھانے کے اپنے انداز میں جدت پیدا کریں اوران کی عزتِ نفس کی حدود سے تجاوز کریں۔ وہ ایسے کہ رات میں جب وہ سو رہی ہوتی ہیں یہ ان کے کمروں میں چھاپے مارتے ہیں۔ یہ اس کے علاوہ ہے کہ وہ انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم رکھتے ہیں، جیسا کہ: انہیں نوعیت اور مقدار کے حساب سے ناقص خوراک دی جاتی ہے؛ انہیں ضروری ادویات نہ فراہم کر کے علاج کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے؛ بستروں کی کمی یا مناسب اور اچھی روشنی سے محرومی، قیدخانوں کی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں جن پر سلاخوں اور باقی حفاظتی انتظامات کی وجہ سے سورج کی روشنی اندر نہیں آ پاتی۔ وہ یہ سب کسی بھی قسم کے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کرتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے مسّلہ میں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کا سامنا تمام خواتین قیدیوں کو ہے، جس میں 18 سال سے کم عمر چھوٹی بچیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے  یہودی خواتین قیدیوں سے بھی خوف کا اظہار کیا ہے، جن کے ساتھ جیل حکام انہیں جان بوجھ کر اکھٹا کرتے ہیں، تاکہ ان کو ذلیل کیا جائے اور مارا پیٹا جائے۔۔۔۔ ۔

 

اس لیے، اے امتِ مسلمہ، اے فلسطین کے لوگو:

کب تک یہ بدسلوکی کی صورتِ حال  اور شرمناک معاملات جاری رہیں گے؟ کب تک مسلمان خواتین کی عزت اور وقار کی دھجیاں بکھیری جائیں گی اور سب اس کا نظارہ کریں گے، اور جبکہ ان میں سے بہترین غم اور اداسی کو اپنا انداز بنا لیں گی؟ کب تک فلسطین اور اس کے لوگ نچلے درجے کے قیدی بن کر رہیں گے؟ کب تک ہماری بیٹیاں، بہنیں اور مائیں یہودی وجود کی جیلوں میں پڑی رہیں گی؟

 

عزت کا احساس اور حرارت آپ کے اندر جنبش پیدا کیوں نہیں کرتا جب آپ انہیں قیدی بنا  اور ہر قسم کی بے عزتی،ذلت اور مار پیٹ کا شکار ہوتا دیکھتے ہیں؟ کیا یہ آپ کی ننھی پروان چڑھتی بچیاں نہیں ہیں! کیا یہ آپ کی عزت نہیں ہیں؟ یا پھر آپ کے دلوں پر قفل پڑے ہیں؟ کبھی خواتین کو اور ان کی عزت  اور ان کے خلاف جابرانہ رویے سے بچانے کے لیے جنگیں کی جاتی تھیں۔۔۔۔اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہماری بچیوں سے جیلوں کو بھرا گیا ہے اور اس پر کوئی بھی ردِ عمل نہیں!!!۔ اس لیے، جاگ جاؤ، اور خواب غفلت سے باہر آؤ اور اپنا ذلت والا  لبادہ اتار پھینکو اور حزب التحریر کے ساتھ کام کرو جو ان پر سے اور باقی تمام مسلمانوں پر سے اس جبر کے خاتمے اور رسول االلہ کے منہج پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔۔۔ اور یہ اللہ کے لیے نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی دور کی بات ہے۔

 

شعبہ خواتین

 مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
مرکزی حزب التحریر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon
تلفون:  009611307594 موبائل: 0096171724043
http://www.hizb-ut-tahrir.info
فاكس:  009611307594
E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک