المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 20 من شـعبان 1443هـ | شمارہ نمبر: 027 / 1443 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 23 مارچ 2022 م |
پریس ریلیز
اسلامی نقطہ نظر سے ہندوستان میں حجاب کا مسئلہ
15 مارچ 2022 کوبھارتی ریاست کرناٹک کی وفاقی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ کالج کے حکام کی طرف سے جس اسکول یونیفارم کی پابندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے (جس میں حجاب/خمار کی پابندی کی اجازت نہیں تھی)، اس کے نتیجے میں ذاتی آزادی یا مذہب کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، اور گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالجز میں زیر تعلیم 9 مسلم طالبات کی جانب سے حجاب اور خمار پہننے کے لیے دائر کی گئی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا ۔ 3 رکنی جیوری بنچ نے مزید کہا کہ حجاب کو اسلام کا لازمی حصہ نہیں سمجھا جا سکتا، یہاں تک کہ عدالت نے اپنے فیصلے کے حوالے سے قرآن کی آیات کا حوالہ دیا ۔اس فیصلے کے بعد 9 درخواست گزاروں نے اپنا کیس ملک کی سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
129 صفحات پر مشتمل ہائی کورٹ کا فیصلہ مختلف وجوہات کی بناء پر بدنامی کا باعث بنا ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے کرناٹک ہائی کورٹ، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، نے مذہب کے پیروکاروں کے لیے مذہب کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلے کو ملک کی سپریم کورٹ کی طرف سے بیان کردہ لازمی ٹیسٹ کے غلط استعمال کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جہاں اس نے (سپریم کورٹ نے)پہلی بار 1954 میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ کہاں ریاستی قانون مذہبی موقف کے مقابلے میں بالاترہو گا ۔ یہ فیصلہ پڑوسی ریاست کیرالہ میں ایک اور وفاقی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بالکل برعکس تھا ( جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے)، جہاں اس نے 2016 میں ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا تھاکہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے۔ اس فیصلے کو سخت گیر ہندووں کو مطمئن کرنے کے لیے حکمراں بی جے پی کے ایک اور اکثریتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور مستقبل میں بھارت کے دیگر اداروں اور ریاستوں میں بھی اس قسم کے فیصلوں کا امکان ہے۔ اس فیصلے پر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ملک گیر جشن منایا گیا، جن میں بی جے پی کے رہنما بھی شامل تھے، جن کا موقف اسلامی حجاب کے حوالے سے صریح نفرت پر مبنی ہے، جبکہ ہندوستان اور دنیا کے مسلمانوں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہےجو اسلام میں حجاب کو ایک فرض مانتے ہیں۔
لیکن یہ فیصلہ ہندوستان اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اسلام اور کفر کے درمیان عالمی تصادم کے واقعات میں سے ایک واقع ہے۔ اس تصادم یا تنازعہ کا مظاہرہ صرف ان قوموں میں نہیں ہورہا ہے جہاں جمہوریت کی کوئی نہ کوئی قسم نافذ ہے اور وہ اس پر فخر کرتی ہیں، بلکہ مسلم دنیا میں بھی ایسے واقعات ہورہے ہیں جہاں اگر آمریت نہیں بھی ہے تو اپنی مختلف قسم کی جمہوریتیں ہیں۔ ہم اس معاملے میں چند ایسے پہلوؤں کا جائزہ لیں گے جو ہر مسلمان کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔
1۔ حجاب اور خمار مؤمن عورتوں کے لیے(بلوغت کے بعد) فرض ہے ، اور یہ حکم قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے، لہٰذا اس پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ عورتوں کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کے طور پر اس کا دفاع کیا جانا چاہیے، اور درحقیقت یہی صحیح دفاع ہے۔ ’آزادی کے اظہار‘ کے طور پر حجاب اور خمار کا دفاع کرنے کا رجحان غلط ہے اور اس سے گریز کرنا چاہیے، چاہے ارادے کتنے کی اچھے ہوں اور نتائج کتنے ہی مواقف نکل سکتے ہوں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس فرض پر عمل درآمد کسی عدالتی حکم سے متاثر نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نظر میں اس فیصلے کی کوئی اوقات نہیں ہے؛ بلکہ مسلمانوں کو اس فرض کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔
2۔ مسلمانوں کو دنیا کی جمہوریتوں کے جھوٹے دعوؤں کا ادراک کرنا چاہیے۔ جمہوریت ’سیکولرازم‘ کی بنیاد پر مذہب کی حفاظت کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم، سیکولرازم کی اقدار، جیسے کہ شراب، جوا، زنا، سود اور اس طرح کی ممانعت ، اس وقت متشدد طور پر ٹکراتی ہیں جب عوامی زندگی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے خواہ یہ مطالبہ مسلم ممالک میں ہی کیوں نہ ہو۔ جمہوریت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے لیے قوانین کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پرواہ کیے بغیر منتخب قانون ساز ادارے میں کیا جائے۔ غیر مسلم سرزمین کے لوگ مسلسل بدعنوانی اور زیادتی ، اور ان کے حقوق میں کمی اور معاشی مصائب کی وجہ سے جمہوریت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کے نفاذ کے ساتھ جوابدہی اور اخلاص کے اعلیٰ احساس سے ہی دنیا میں امن اور خوشحالی آئے گی۔
3۔ مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوریت، ریپبلک، آمر، بادشاہ ایسے قوانین بناتے ہیں جو حقیقت میں من مانی ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں، جو ووٹ بینک کی اکثریت کو منتخب ہونے کے انعام کے طور پر مطمئن کرنے کے لیے ہوتے ہیں، جو ان لابیوں کو انعام دینے کے لیے ہوتے ہیں جنہوں نے ان کو منتخب ہونے کے لیے فنڈز فراہم کیے ہوتے ہیں، اورجو ان کی (حکمران یا اراکین پارلیمنٹ کی)اپنی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد عدلیہ اپنی مرضی سے ایک ہی جیسےحالات کے لیے مختلف فیصلے دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، کشمیر کے خصوصی مراعات سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے اندر موجود شقوں کو عدلیہ نے کانگریس پارٹی کے دورِ حکومت میں برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا، لیکن بی جے پی پارٹی کے دورِ حکومت میں انہیں معطل کر دیا۔ یہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے دن ہونے والے احتساب سے بے پروا ہونے کی وجہ سے حکمران کس انتہا کی زیادتیاں اور بدعنوانیاں کررہے ہیں، جبکہ اُس دن حکمرانوں کا احتساب سب سے زیادہ سخت ہوگا۔ جبکہ اسلام میں قرآن و سنت میں تفصیلی دلائل کے ذریعہ فراہم کردہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت قانون کی بنیاد بنتی ہے، ان قوانین کے اطلاق کی تفصیلات اخذ کرنے کے لیے اصولِ فقہ ہیں، جو ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے جائز اور قابل عمل ہیں، حکمران حکمرانی کو لوگوں کے عظیم اعتماد کے طور پر دیکھتے ہیں اور قیامت کے دن اعلیٰ درجے کے احتساب کے خوف سے بدعنوانی اور زیادتی سے پرہیز کرتے ہیں۔
4۔ مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کے مختلف حصوں جیسے کہ ہندوستان، فلسطین، تیونس، اردن، برطانیہ، فرانس، امریکہ (اور مزید کئی ممالک) میں بہت سے قوانین اور عدالتی فیصلے اقوام متحدہ کی سی ای ڈی اے ڈبلیو(CEDAW) کی ہدایات کے مطابق ہیں جو کہ بنی نوع انسان کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے اطلاق کونفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جن کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ممانعت کی ہے۔ یہی صورت حال وراثت، نکاح، طلاق، حجاب وغیرہ کے حوالے سے ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کی طرف سے ظاہر کیا جانے والا اسلام مخالف موقف دنیا پر مغربی (یا سرمایہ دارانہ) تسلط کی واضح نمائندگی ہے جو ’سیکولرازم‘ کے بھیس میں (ہر قسم کی) ’لبرل ازم‘ کو اللہ کی شریعت سے بالاتر رکھتا ہے۔یہ صورتحال نہ صرف اسلام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں رکاوٹ کا باعث ہے بلکہ تمام مذاہب کے لیے خطرہ ہے۔
5۔ مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ 28 رجب 1342 ہجری کو(101 ہجری سال قبل) خلافت کی تباہی کے بعد دنیا زمین پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمرانی اور امتِ مسلمہ نےاپنی ڈھال سے محروم ہو گئی تھی۔ مزید برآں، خلافت کا نظامِ حکومت ذمی (ریاست خلافت میں غیر مسلم شہری) کے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کی ضمانت دیتا ہے جو کہ شریعت میں طے شدہ معاملہ ہے۔ اور اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کو بنی نوع انسان کے احمقوں سے خطرہ لاحق ہو تو ریاستِ خلافت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان خطرات کو ختم کرنے کے لیے کوئی خرچ، فوج اور ہتھیار نہیں چھوڑے گی۔
حزب التحریر ہندوستان اور دنیا کے حکمرانوں کو مشورہ دیتی ہےاور خبردار کرتی ہے۔ مسلمانوں کے معاملات میں دخل اندازی سوچ سمجھ کر کرو ۔ خلافت کی واپسی قریب ہے جیسا کہ حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کی ہر خلاف ورزی کا محاسبہ کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے دن جوابدہی کا تعلق ہے تو یہ روزِ روشن کی طرح واضح اور یقینی معاملہ ہے۔
﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾
"اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔"(الشعراء،26:227)
مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |