المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 28 من رجب 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 076 |
عیسوی تاریخ | منگل, 28 جنوری 2025 م |
پریس ریلیز
خلافت کے انہدام کی برسی اور اس کی جلد واپسی کے آثار پر
ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس کے قیام کی کوشش کو تیزتر کر دیں۔
)ترجمہ)
28 رجب 1342ھ (3 مارچ 1924ء) کو خلافت کے خاتمے کے بعد سے امت مسلسل مصیبتوں اور شکستوں کا سامنا کر رہی ہے؛ اس کی زمینوں کی تقسیم، اس کے وسائل کی لوٹ مار، اس کے بیٹوں کا قتل، اور اس کی مقدسات کی پامالی اور اس کی شریعت پر حملے جاری ہیں۔ تاہم، آج خلافت کی واپسی پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے، اس کا "رایہ" (جھنڈا) مسلمانوں کی زمینوں پر ایک بار پھر لہرانے کے لیے تیار ہے۔ حقیقت میں، ہم اس لمحے میں زندہ ہیں جو اُس رات کی یاد دلاتا ہے جب مدینہ کے لوگ آپس میں مشورہ کر رہے تھے، اور اس بات پر متفق ہو گئے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آقا محمد ﷺ کو اپنے سیاسی رہنما اور ریاست کے سربراہ کے طور پر بیعت دے دیں۔
صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جسے امام احمد نے اور بیہقی نے اپنی "السنن" میں روایت کیا ہے، مدینہ کے مسلمانوں کی اُس وقت کی حالت كو بیان کرتی ہے جب انہوں نے ایک عظیم فیصلہ کیا جو انہیں اسلامی تاریخ کے سنہری صفحات میں شامل کر گیا۔ انہوں نے کہا:
((...حتى لم يبق دار من دور الأنصار إلا وفيها رهط من المسلمين، يظهرون الإِسلام، ثم ائتمروا جميعاً... فقلنا: حتى متى نترك رسول الله ﷺ يطرد في جبال مكة ويخاف...))
"...حتی کہ انصار کے ہر گھر میں مسلمانوں کا ایک گروہ تھا، جو اعلانیہ طور پر اسلام کی اتباع کر رہا تھا، پھر ان سب نے مل کر مشورہ کیا... اور ہم نے کہا: کب تک ہم رسول اللہ ﷺ کو مکہ کے پہاڑوں میں، خوف کی حالت میں سرگرداں رہنے دیں گے..."۔
اس حدیث میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح انصار نے 73 مردوں اور 2 عورتوں کی تعداد میں، عقبہ کی گھاٹی میں رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی جو کہ بیعت الحرب کہلاتی ہے۔ جابر بن عبداللہ نے اس لمحے کو بھی بیان کیا ہے کہ جو بعینہ آج امت کے خدشات کی عکاسی کرتا ہے کہ جب اسعد بن زرارہ کہ جو انصار کے لوگوں میں سے سب سے کم عمر تھے، نے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ تھاما اور کہا:
((وأخذ بيده أسعد بن زرارة وهو أصغرهم فقال: فتبينوا ذلك فهو أعذر لكم عند الله. قالوا: أمط عنا يا أسعد، فوالله لا ندع هذه البيعة أبداً، ولا نسلبها أبداً، فبايعناه فأخذ علينا، وشرط، ويعطينا على ذلك الجنة))
"آہستہ ہو جاؤ، اے یثرب کے لوگو! ہم یہ سفر نہیں کر رہے اور اپنے اونٹوں کو تھکا نہیں رہے سوائے اس کے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تاہم، ان کو آج باہر نکالنا عربوں کے دشمنی کا سبب بنے گا، تمہارے بہترین لوگوں کا قتل ہوگا، اور تم پر تلواریں چلیں گی۔ تو اگر تم لوگ یہ سب برداشت کر سکتے ہو تو تمہارا انعام اللہ کے پاس ہے۔ لیکن اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے تو ابھی بتا دو، کیونکہ یہ تمہارے لیے اللہ کے سامنے زیادہ معذرت کا باعث ہوگا"۔
اس پر باقی انصار نے کہا:
((أمط عنا يا أسعد، فوالله لا ندع هذه البيعة أبداً، ولا نسلبها أبداً، فبايعناه فأخذ علينا، وشرط، ويعطينا على ذلك الجنة))
"ہم اس بیعت کو کبھی نہیں چھوڑیں گے، ہم اس بیعت سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچیں گے۔" پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، اور آپﷺ نے ان سے وعدہ لیا اور جنت کا وعدہ کیا"۔
اسی طرح ابن ہشام کی سیرت میں ایک اور روایت ہے کہ ابن اسحاق نے کہا:
وَحَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ: أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا اجْتَمَعُوا لِبَيْعَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ، أَخُو بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ: يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ، هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَايِعُونَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إنَّكُمْ تُبَايِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنَ النَّاسِ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ إذَا نُهِكَتْ أَمْوَالُكُمْ مُصِيبَةً، وَأَشْرَافُكُمْ قَتْلاً أَسْلَمْتُمُوهُ، فَمِنْ الْآنَ، فَهُوَ وَاللهِ إنْ فَعَلْتُمْ خِزْيُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَيْهِ عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَخُذُوهُ، فَهُوَ وَاللهِ خَيْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِيبَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَمَا لَنَا بِذَلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ إنْ نَحْنُ وَفَّيْنَا (بِذَلِكَ)؟ قَالَ: الْجَنَّةُ. قَالُوا: اُبْسُطْ يَدَكَ، فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعُوهُ.
"جب لوگ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے کے لیے جمع ہوئے، تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری نے کہا: 'اے خزرج کے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ تم ان شخص سے کس بات پر بیعت کر رہے ہو؟' انہوں نے کہا: 'جی ہاں۔' پھر عباس بن عبادہ نے کہا: 'تم ان سے اس بات پر بیعت کر رہے ہو کہ تم دنیا کے سیاہ و سفید سے لڑو گے، اور اگر تمہیں اپنے مال کا نقصان اور اپنے اشراف کا قتل نظر آ جائے، اور تب تم ان کا ساتھ چھوڑ دو، تو یہ تمہارے لیے دنیا و آخرت کی ذلت کا باعث ہو گا۔ لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ان کے ساتھ رہو گے، حتیٰ کہ تمہارا مال چھن جائے اور تمہارے اشراف قتل ہو جائیں، تو یہ تمہاری دنیا و آخرت کا بہترین فیصلہ ہوگا۔' انصار نے کہا: 'اگر ہم آپ ﷺ کا ساتھ دیں تو ہمارا انعام کیا ہوگا؟' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'جنت۔' تو انہوں نے کہا اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے آپ کی بیعت کی"
اور یہی وہ لمحہ ہے جس کا امت آج سامنا کر رہی ہے۔ امت خود سے سوال کر رہی ہے، اپنے آپ کو پرکھ رہی ہے، اور دنیا کو دیکھ کر اپنی طاقتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ وہ اس سوال پر پریشان بھی یے اور پرامید بھی: کیا وہ اسلام کو اپنے سیاسی منصوبے کے طور پر اختیار کر سکتی ہے؟ یا اسے مغرب اور اس کے ایجنٹوں کے سامنے جھکنا ہوگا؟
مغرب اور اس کے ایجنٹ اسے غربت، محاصرے اور موت کی دھمکیاں دے رہے ہیں! تاہم، امت کے عوام اپنے حق کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں، اسلام کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اسلامی طرزِ زندگی چاہتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔
یہ بات الشام میں بخوبی ظاہر ہے، جہاں بشار کے ظالمانہ حکومتی نظام کے خاتمے اور دمشق سے فرار کے بعد، ہم نے مغرب کو پریشان ہوتے دیکھا، بار بار سوال کرتے ہوئے: "کیا آپ اسلامی شریعت نافذ کریں گے؟ کیا آپ خلافت قائم کریں گے؟"
یہ بات اہم ہے کہ یہ مسئلہ صرف الشام کے لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ پوری امت مسلمہ الشام کے لوگوں کو دیکھ رہی ہے اور ان کے ساتھ اس معاملے پر سوچ رہی ہے، اور امت کے بیٹوں کے درمیان اس امر پر تبادلہ خیال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھر دیا ہے، جو ان انتہائی اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔
تو کیا امت - اور ہم صرف الشام کے لوگوں کی بات نہیں کر رہے - یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اسلام کو سہارا دے گی اور اسلام کا قیام کرے گی، "مال کے نقصان اور اشراف کے قتل" کے باوجود؟ یا اس فیصلے کو مزید ملتوی کر دے گی؟
عرب بہار، آپریشن سیلاب اقصیٰ، اور الشام کے ظالم حکمران کے خاتمے سے خلافت کی واپسی کی راہ میں رکاوٹیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ قومیت پر مبنی پروجیکٹس امت کے درمیان مقبولیت کھو چکے ہیں، اور یہاں الشام کے لوگ ہیں کہ جو 60 سال کی سیکولر حکمرانی کے باوجود اسلام کی واپسی کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔ ہر نیا واقعہ امت کو مغربی خیالات سے دور کر رہا ہے، اور وہ اپنے اسلامی تصورات کے ذریعے اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید برآں، ہر بڑے واقعے کے ساتھ، سائیکس پیکو معاہدے پر مبنی سرحدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ غزہ پر جنگ کے دوران، الشام کے ظالم کی حکمرانی پر منائے جانے والے جشن اور غزہ پر جارحیت کے اختتام پر منائی جانے والی خوشی کے دوران اس کا واضح طور پر مشاہدہ کیا گیا۔
اب خلافت کی واپسی کی باقی رکاوٹیں محض باقیات ہیں۔ جو لوگ معاشروں کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خلافت کے قیام اور ہمارے درمیان محض ایک فیصلے کی دوری ہے، وہ تاریخی فیصلہ جیسا انصار (رضی اللہ عنہم) نے کیا تھا کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے جئیں گے اور اللہ کی جنت کے لیے اپنی جانیں قربان کریں گے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
[قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّہ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ]
"کہہ دو: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔" [الانعام: 162-3]
حزب التحریر امت اور اس کی تمام افواج کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتی ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر دوسری خلافت راشدہ کو نبوت کے نقش قدم پر قائم کرنے کے لیے کام کرو۔ ہم اس کے لیے درکار تیاری کر چکے ہیں۔ تو ہمارے ساتھ کام کریں تاکہ یہ سال خلافت کے خاتمے کی آخری برسی کا سال ہو، اور اگلے سال ان شاء اللہ، ہم ہر سال اس کی واپسی کا جشن منائیں۔
انجینئر صلاح الدین عدادہ
ڈائریکٹر، مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |