الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ     شمارہ نمبر:
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 25 اکتوبر 2014 م

ایک آرٹیکل "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کے جواب میں

پریس ریلیز

جناب محترم ایڈیٹر "العرب " ویب سائٹ
مزاج گرامی، اما بعد!
آپ نے 20 اکتوبر 2014 کواپنی ویب سائٹ پر سیف الدین العامری کا ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر"۔ آرٹیکل کے عنوان اور اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا حزب التحریر کے ساتھ عداوت اور بدخواہی کی بیماری میں مبتلاء ہے جس کی بدولت حزب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اس کی بدنیتی اور بدخواہی اس کو حزب پر بہتان تراشی کی حد تک ہانکتی چلی گئی۔
جہاں ہم جھوٹی خبروں، مغالطوں اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے پر مشتمل اس بے سروپا مضمون کی اشاعت پر افسوس کرتے ہیں، اورواقعی تعجب ہے کہ ایسے مضمون کو آپ نے شائع کیسے کیا جس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ مضمون میں راست بازی کا فقدان ہے اور سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو سے کوسوں دور ہے، وہی ہماری خواہش ہے کہ مضمون کا جواب بھی شائع کریں، اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
سب سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے تاکہ حزب التحریر کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔
حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیا لوجی (مبدا) اسلام ہے۔ یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے تاکہ امت اسلام کو ہی اپنا مسئلہ سمجھے اور زندگی میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کے از سر نو قیام میں اُمت کی قیادت کرے۔ حزب کا کام سیاسی طریقے سے اسلامی دعوت کو لے کر جانا ہے اورحزب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو مثال بناتے ہوئے دعوت کے لئے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کی دعوت میں سیاسی طریقہ اختیار کیا،نہ کہ مادی....یہ بات کہ حزب کی آئیڈیا لوجی اسلام ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ حزب افکار و احکام اخذ کرنے میں صرف اسلامی عقیدہ اور شرعی نصوص کو اساس بناتی ہے۔ یہ بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تعمیل میں کہ: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں" (آل عمران:104)۔
اب آتے ہیں آرٹیکل کی طرف.....تو یہ بہر حال حزب پر بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ ہے۔ ان سب کے جواب کا یہ موقع نہیں، اس لئے ہماری بات فقط بعض امور تک محدود ہوگی تا کہ مضمون نگار کے بغض وحسد اور حزب اور اس کی افکار پر بحث میں اس کے اندر راست بازی کے فقدان ، اور کذب بیانی کو واضح کریں۔
اولاً :مضمون نگار نے اپنے مقالے کے لئے ایک عنوان قائم کیا ہے:
مضمون نگار حزب اور اس کے افکار کو "تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کا نام دیتا ہے۔ کیا مضمون نگار یہ نہیں جانتا کہ حزب کے افکاراور آراء صرف اور صرف اسلامی ہیں؟؟؟ تو ذرا سوچئے کہ ان کو "تاریک نقطہ نظر" سے منسلک کرنا کیسا ہے؟۔ جہاں تک بندش اور جکڑ بندی کی بات ہے تو مضمون نگار نے یہ واضح ہی نہیں کیا کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے؟ .....جہاں تک تکفیر (کافر قرار دینے ) کا مسئلہ ہے تو بلا شبہ یہ اس کاافترا ہی ہے کہ حزب دیگر اسلامی تحریکوں کو کافر کہتی ہے !! مضمون نگار لکھتا ہے:"تحریریوں کےتکفیری فتووں سے شاذ ونادر ہی کوئی تنظیم، ایسویسی ایشن،یا اسلامی تحریک، یا کوئی اسلامی پارٹی بچی ہوئی ہو"۔ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے، اور ہم مضمون نگار کو چیلنج دیتے ہیں کہ حزب کی کسی کتاب، لیفلٹ یا کسی ویب سائٹ سے کوئی ایسی عبارت لا کر دکھائے جس میں کسی اسلامی تحریک کو کافر قرار دینے کا ذکر تک موجود ہو، مگر چونکہ وہ ہرگز ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کرسکتا، اور ہمیں یقین ہے کہ مضمون نگار بغیر دلیل کے تہمتیں لگاتا جاتا ہے، اس لئے ہم اس کو نصیحت کرتے ہیں کہ حزب پر جو کیچڑ اچھالا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس پر اس کا حساب لے گا ..... جہاں تک حقیقت کی بات ہے تو حزب التحریر کا ان تحریکوں کے ساتھ تعلق دعوت کی بنیاد پر اور ان کو نصیحت کی حد تک ہے، اور حزب ان کو اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے،یہ کام حزب ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی کے حیثیت سے انجام دیتی ہے جو اسلامی دعوت کی حامل ہے.....تو جب حزب اسلامی تحریکوں کو نہ ہی کافر ٹھہراتی ہےاورنہ ہی یہ تحریکیں مضمون نگار کے اس بے جا الزام سے متفق ہیں تو وہ بتائے کہ اسے کہاں سے یہ بات ملی ہے۔؟
جہاں تک اس کی اس بات کا تعلق ہے کہ حزب التحریر جمہوریت کو کفر سمجھتی ہے، تو یہ ایک اسلامی رائے ہے یہ صرف حزب کی پسندیدہ رائے نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی حقیقت صرف یہ نہیں،جیسا کہ مضمون نگار اور دیگر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی منظرکشی اس طرح کریں کہ یہ عوام کا حکمرانوں کو چننے کا عمل ہے، جبکہ جمہوریت کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے، یعنی عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے ان نظاموں کی قانون سازی کرواتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہوتی ہے اوریہ اسلام کے ان امور میں سے ہے جو کہ قطعی ہیں مگر مضمون نگار نے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا ہے۔ شرع کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ شرع ہی تمام نظاموں اور قوانین کا سرچشمہ ہے، اور عوام کے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہے جو ان نظاموں اور قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہذا جمہوری فکر ایک کفریہ فکر ہے کیونکہ اس میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے نہ کہ شرع کی...اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ "حاکمیت اللہ کےسوا کسی کو حاصل نہیں، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے" (يوسف:40) اور ارشاد ہے، وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور رسولﷺتمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"(الحشر:7)۔
ثانیاً : مضمون نگار نے حزب کے "بیانات" کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"یہ بیانات آزادی کی منطق اوراُن نظاموں سے متصادم ہیں جنہیں انسانوں نے عام انسانی ضابطوں کے مطابق زندگی کے لئے تخلیق کیا ہے"۔
مضمون نگار یہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی حزب کے بارے میں گفتگو کررہاہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اس لئے حزب نے جن احکام کی تبنی کی ہے یا جن افکار پراس کی بنیاد قائم ہے، ان کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے۔ پس جو کوئی حزب کا محاسبہ کرنا چا ہے، اُسے چاہئے کہ صرف اسلام کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرے۔ اس لئے مضمون نگار کا انسانی نظاموں کی بنیاد پر حزب یا اس کے افکار کا محاسبہ کرنا کسی طرح موزوں نہیں؟؟؟ پھر یہ کہ مضمون نگار بھول گیا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کو ہی اپنی سوچ اور عمل کے لئے اساس بنائے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پروردگار ِعالم کی بجائے انسانی قوانین کو اپنے لئے اساس یا افکار پر حکم لگانے کا پیمانہ بنائے، چہ جائیکہ وہ اُن اسلامی افکار پر جن پر حزب کھڑی ہے، لے دے کرے اور ا ن کو "تاریک خیالیوں" سے تعبیر کرے۔؟
ثالثاً : مضمون نگار حزب کے بارے میں کہتا ہےکہ "وہ بنیادی طور پر اس اُصول کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک مسلمان انسان آزادی اور حکمرانوں کے چناؤ، اپوزیشن میں شرکت اور احتجاج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے"۔
کتنا واضح بہتان ہے؟!! حزب التحریر تو اپنے قیام کے پہلے دن سے لوگوں کو مغربی استعمار کی تمام شکلوں سے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتی رہی ہے، اور اس استعمار کے تمام آلات واوزار کے خاتمے اور اسلامی زندگی کی واپسی کے لئے سرگرم عمل ہے...بلکہ حزب کثیر تعداد میں چھپنے والے اپنے لیفلیٹوں کے ذریعے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ وہ حکمرانوں کا محاسبہ کریں اور ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، ان کو تبدیل کریں اور اس راستے میں قربانی دیں، بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں کو متعدد اسالیب اختیار کرنے کی دعوت دی، مثلاً زبردست عوامی مارچوں کاانعقاد، پبلک کانفرنسیں،فکری وسیاسی سیمینار اور اہل باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے وفود کوبھیجنا وغیرہ ...اور چونکہ حکمرانوں کو حزب کی اہمیت کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حزب کی آراء لوگوں کو ان کے اور ان کے ظلم کے خلاف مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حزب کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور حزب کا تعاقب کرتے ہوئے گرفتاری، ٹارچر حتیٰ کہ بعض حالات میں حزب کے شباب کو شہید کرنے اور ان کے خلاف ظالمانہ احکامات دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ...تو مضمون نگار صاحب کس طرح ان قطعی حقائق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور حزب کوبد نام کرنے پر تلا ہوا ہے۔فیا للعجب!
رابعًا : مضمون نگار نے لکھا ہےکہ "سیکولر پارٹیاں جو قومی یا محب ِوطن کہلائی جاتی ہیں، تحریریوں کے دائرہ فکر سے خارج ہیں، یعنی یہ انفرادیت کے حامی "کفریہ" سیاست کی حامل پارٹیا ں ہیں جو الہٰی شریعت کی قائل نہیں، چنانچہ ان سے بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے نہ کئے جائیں"۔مضمون نگار کے بقول کہ "حزب کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ یہ شریعت ِالہٰی کی قائل نہیں، اور یہ انفرادی "کفر یہ"سیاست کی حامل پارٹیاں ہیں"...یہاں ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی پارٹی کا سیکولر ہونے کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کہ یہ پارٹی دین کی زندگی سے جدائی کے فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے، اور رب کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ وہ زندگی میں اسلام کی واپسی کی مزاحمت کرتی ہیں ...تو ایک سیکولر پارٹی کیونکر اسلامی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سیکولر پارٹی سے منسوب شخص کے اسلام یا کفر کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ایک سیکولر پارٹی کا رکن ہے، بلکہ اس کا دارومدار اس کے عقیدے پر ہے۔ سو اگر وہ دین کے زندگی اور ریاست سے جدائی کا نظریہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف بھی ہے، تو وہ یقیناً کافر ہوگا،اگر وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور اس کا ایمان اسلامی عقیدہ پر ہے، مگر وہ اپنی لاعلمی، گمراہی اور مفاد ات وغیرہ کی وجہ سے سیکولر پارٹی کا رکن بن کر اس سے وابستہ ہوگیا ہے، تو ایسا شخص گناہ گار مسلمان ہے۔ پھر مضمون نگار نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حزب ان پارٹیوں کے ساتھ مزاحمت کی دعوت دیتی ہے...جبکہ اس نے "مزاحمت " کا مطلب قاری پر چھوڑ دیا ہے، تاکہ ایک عام قاری خود ہی اس کا معنی ومطلب متعین کرکے یہ نتیجہ نکالے کہ حزب اسلحہ کے ساتھ ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے!! حزب کا موقف ان سیکولر پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے۔ حزب نے واضح کیا ہے کہ ان پارٹیوں نے جو افکار اپنا ئے ہوئے ہیں، یہ کفریہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد دین کی زندگی سے جدائی کا نظریہ ہے نہ کہ اسلام۔ اور حزب ان پارٹیوں کے اراکین کو یہ پارٹیاں چھوڑنے کی دعوت دیتی ہےاورمسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انہیں اتار پھینکیں۔ حزب بتاتی ہے کہ یہ پارٹیاں مسلم ممالک کو نو آبادیات بنانے والی مغربی ریاستوں کے فضلے ہیں، کیونکہ سیکولر پارٹیاں اپنی تمام شکلوں میں ایسے افکار پر قائم ہوتی ہیں جو استعماری کفار کی تہذیب سےاخذ شدہ ہوتے ہیں۔
خامساً : مضمون نگار نے مبہم بلکہ متناقض انداز میں اخوان المسلمین کےساتھ حزب کے تعلقات کی بات کی ہے، اوراپنی بات کے اختتام میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے، اور حزب کے بارے میں یہ واضح ہے، بخلاف اخوان المسلمین کے جو پیچیدہ قسم کے اسالیب پر انحصار کرتی ہے، اور اکثر سیاست وتشدد کے پیچ وتاب سے دوچار رہتی ہے"۔
مضمون نگار نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ جملہ دہرایا ہے "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے"۔ مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ حزب مسلح اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ...تو اگر چہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ حزب التحریر ایک سیاسی پارٹی ہے جو سیاسی طریقے سے دعوت لے کرجاتی ہے، مگر اس پر ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ "اقتدار تک پہنچنے کا طریقہ حزب نے اپنی کتابوں اور لیفلیٹوں میں جا بجا ذکر کیا ہے اور حقیقت کے متلاشی شخص کے لئے یہ واضح ہے۔ بلکہ دور ونزدیک کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ حزب کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عمومی بیداری پر مبنی اسلامی رائے عامہ ایجاد کیا جائے، نیز کار زارِحیات میں اسلام کے نفاذ کے لئے اہل قوت سے نصرۃ طلب کی جائے، حزب اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلحہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی، اس کی وجہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی پیروی ہے"۔ عرف عام میں تو یہ ہوتا ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہیں، تو ہم اس افترا پرداز مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ اپنے اس دعویٰ پر آپ کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرے، اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب تبدیلی کے طریقہ کار میں صرف فکری کشمکش اور سیاسی مقابلے پر انحصار کرتی ہے۔
سادساً: مضمون نگار حزب کے اندر تضادات کی بات کرتا ہے : "ادھر حزب کہتی ہے کہ "جمہوری نظام کفریہ نظام ہے" اور ادھر یہ کہ "اس کی بعض شاخیں انتخابات میں شرکت بھی کرتی ہیں، اور اتھارٹی کی طرف سے اپنی سرگرمیوں اور بھرتیوں کے لئے ان سے لائسنس بھی حاصل کرتیں ہیں۔ یہی وہ جوہری تناقض ہے جو اسلام پسندو ں کے اس صنف کے اندر پایا جاتا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اگر مضمون نگار جمہوریت کی حقیقت جانتا، جیسا کہ حزب نے بتایا ہے کہ یہ کفریہ نظام ہے، تو اس کو کوئی تناقض نظر نہ آتا ...تو حزب جمہوری نظام کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ مکمل متناقض ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا.. جہاں تک انتخابات کی بات ہے، یعنی لوگوں کا نمائندوں کو اپنی رائے کے اظہار میں وکیل بنانا، تو اس میں حزب اس اعتبار سے شرکت کرتی ہے کہ وہ اس کو ایک مباح امر سمجھتی ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ رائے کے اظہار میں اسلامی احکامات کی پابندی کرے، حزب نے ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں مغربی قانون سازی کی اساس پر شرکت قبول نہیں کی۔سابعًاٍ: مضمون نگار کہتا ہے: "....کیونکہ ان کی نظر میں اسلامی خلافت کا کوئی متبادل نہیں، اور خلافت بھی ایسی جو ان کی مطبوعات میں بالکل ہی غیر واضح ہے،اور ان میں سے ایک بھی یہ واضح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس پُر اسرار خلافت کی طرف دُنیا کیسے منتقل ہوگی؟"۔
یہ مضمون نگار بھی ایک انوکھی شخصیت ہے!! اسلامی خلافت حزب کی مطبوعا ت میں واضح نہیں؟، اور خلافت کے دور کو پُراسراریت سے تعبیر کرتا ہے؟؟ کیا اس نے حزب کی کتابوں میں یہ تفصیلات نہیں پڑھیں،جیسے نظام الحکم فی الاسلام (اسلامی نظام حکومت) اور اجھزۃ دولۃ الخلافۃ (ریاست خلافت کے حکومتی اور انتظامی ادارے)؟؟ پھر اس نے حزب پر "پُراسرار خلافت کےدور کی طرف دنیا کی منتقلی کی کیفیت کی عدم وضاحت " کی بھی تہمت لگائی ہے، باجودیکہ حزب نے اپنی کئی کتابوں اور لیفلیٹوں میں اقتدار تک پہنچنے کی کیفیت کو بہت زیادہ واضح کیا ہے، مگر مضمون نگار نے اپنے کسی خاص مقصد کی خاطر اتنی بھی زحمت گوارانہیں کی کہ تحقیق کرتا اور حزب کی کتابوں کوپڑھ کر حقیقت کاکھوج لگالیتا۔!!
ثامناً: مضمون نگار کہتا ہے کہ"پس تحقیق کار (یعنی سعید حمودہ) نے یہ ثابت کیا ہے کہ حزب فلسطینی مسئلےکے حل میں کتابوں، آرٹیکل، تھیوری اور اصول وقواعد ڈھونڈنے کے نظریاتی حل سے آگے نہیں جاتی، نہ ہی عوامی مزاحمتی تحریک یا آزادی کی قومی تحریکات میں قابل ذکر شرکت کرتی ہے، نہ ہی اس نے اب تک کوئی مسلح ونگ کی تشکیل کی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس پارٹی کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین (فلسطین) پر قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو کافر ٹھہرائے۔ جبکہ انہی اوقات میں حزب کے کچھ افراد عرب دنیا کی دیگر جگہوں میں خودمسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں"۔
ایسے شخص کی باتوں پر تعجب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا جو مسئلہ فلسطین کے اس بنیادی حل کو جو حزب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کو محض ایک تھیوری سمجھ رہا ہے ...موضوع کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے، قابض قوت نے اس میں اپنا ریاستی وجود قائم کیا ہے، تو اب اس کی آزادی کے لئے شرعاً جہاد واجب ہے ...اور عملی طور پرجو امر آزادی کے حصول کو ممکن بناتا ہے وہ فوج کشی ہے، پارٹیوں یا تحریکوں کا قیام نہیں جو انہی ریاستوں سے مدد لیتی ہیں جو یہودی موجودگی کی محافظ ہیں، جیسےارد گرد کی ریاستیں وغیرہ....فلسطین کی آزادی کے لئے مسلم افواج کے حرکت میں نہ آنے پر کئی عشرے گزرنے کے بعدفلسطینی قضیہ کی حقیقت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ لوگ جو نہر سے دریا تک فلسطین کی آزادی کی بات کرتے تھے، ان کی اکثریت یہ اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ قانونی ہے، اور کچھ اس کی تیاری کرر ہے ہیں، لیکن یہ ہوگا اس وقت جب معاون ریاستیں ان مزاحمتی تحریکوں کی پرورش سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گی اور وہ بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔
لہذا اب کس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس درست حل کے نفاذ کے لئے کس کے پیچھے چلا جائے، حزب التحریر کے پیچھے؟ جس نے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ ان پر آزادی کا راستہ واضح کیا کہ یہود ی وجود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانا ضروری ہے،اور یہ کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ان حکمرانوں کےخلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے افواج کو روکا ہوا ہے، یا ان دیگر تحریکوں کے پیچھے چلا جائے جو غلام اور زیر دست ریاستوں اور ایجنٹ حکمرانوں کے آگے جھک گئیں جنہوں نے فلسطین، اس کے لوگوں اور خود ان کا بھی سودا کیا، جبکہ آزادی کا علم بھی تھامے رکھا،اور اب لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے اچانک مکر گئے بہانہ یہ کیا کہ "جتنا کچھ ہوا اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؟؟؟
جہاں تک مضمون نگا ر کے بقول بد تر ہونے کی بات کی ہے وہ کہتا ہے "اس سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ اب حزب کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو کافر قرار دے رہی ہے"!! تو وہ بتائے کہ یہ بات کہاں سے لایا؟؟ کیا حزب التحریر نے حماس، الجہاد یا حزب اللہ اور الفتح کو کافر کہاہے؟؟!! بلاشبہ حزب التحریر نے جنوبی لبنان میں، غزہ میں، عراق میں امریکی جارحیت کے مقابلے میں اور افغانستان میں مزاحمت کاروں کی ان کاروائیوں پر شاباش دی ہے، اور کہا کہ یہ بہادرانہ کارنامے ہیں، ایسی کاروائیوں کو انجام دینے والے ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے، نہ صرف یہ کہ ان کی کاروائیوں کی اچھے انداز میں تعریف کی بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی مدد کرنا واجب ہے اور مسلم علاقوں اور انسانوں کو آزادی دلانےکے لئے فوج کی روانگی کو فرض قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنی الزام تراشیوں کی تکمیل کرتے ہوئے حزب کے افراد پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ خود مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں!! تو اس واضح بہتان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ"اے مضمون نگار خدا کا خوف کر"۔
تاسعاً: مضمون نگار کہتا ہے: صالح زہر الدین سعید حمودہ کی باتوں کو دلیل بناتے ہوئے یہ ثابت کرچکا ہے کہ حزب التحریر کی نسبت سے جہاد فقط اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے،نہ کہ آزادی، ترقی، اور خوشحالی کے اہداف کا حصول۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے! حزب التحریر پر اعتراض کے لئے ایک ایسے شخص کے مضمون کو بنیاد بنایا ہے جو مخالف ذہن رکھتا ہے، بلکہ اگر مضمون نگار صالح زہر الدین کی باتوں پر غور کرتا تو وہ جان لیتا کہ اس کی باتیں حزب کی حقیقت اور تاسیس کے دن سے لے کر آج تک اس کی روِش کے ساتھ مکمل ٹکراتی ہیں۔ حزب التحریر جس نے اپنی فکر اور طریقے سے بال برابر انحراف نہیں کیا، باوجودیکہ جن ممالک میں حزب کام کرتی ہے، ریاستی اداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کیا ہے، تو ہر قیمت پر حصول اقتدار کی کوشش کیسے ؟ ؟ تعجب ہے مضمون نگار نے ان تحریکوں کونہیں دیکھا جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا کہ کس طرح انہوں نے سمجھوتوں پر سمجھوتے کئے اور اپنے افکار سے دستبردار ہوگئیں۔
مذکورہ تفصیل کی بنا پر یہ واضح ہوا کہ مضمون نگار نے کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ذکرکیا ، جس کی اس نے کوئی دلیل یا ثبوت بھی دیا ہو بلکہ جھوٹ اور بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ بیان کیا ہے، یقین کریں کہ ایک دفعہ تو ہم نے سوچا کہ ان گھٹیا باتوں کا جواب ہی نہ دیا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ویب سائٹ کا ادارہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہے کہ ہر ایرے غیرے کا وکیل بن کر اپنی ساکھ کھو بیٹھے؟ کیا ادارہ ادنیٰ درجہ کا کوئی کاروباری اور موضوعی اخلاق بھی نہیں رکھتا جس کی بدولت ادارہ ایسی بے ہودہ باتوں کے لئے میدان کھولنے سے پہلے سوچے؟ بالخصوص جبکہ حزب کے میڈیا آفس ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے آدمی امت کے اندر موجود ہیں، ان سے ملنے اور ملاقات کرنے میں کوئی دشوار ی بھی نہیں۔

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک