المكتب الإعــلامي
فلسطين
ہجری تاریخ | 11 من ذي القعدة 1441هـ | شمارہ نمبر: 1441 BN/013 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 02 جولائی 2020 م |
پریس ریلیز
فلسطین کی پوری زمین اسلامی سرزمین ہے، 1948 اور 1967 میں قبضہ ہونےوالے علاقوں میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے فلسطینی اتھارٹی یا اس(بابرکت ) زمین کے سوداگروں کے ذہنوں میں!
یہ فلسطین کے مسئلے کو دیکھنے کا گمراہ کن انداز ہے کہ انضمام کا معاملہ ہی فلسطین کی سرزمین کے ساتھ کی جانے والی واحد سازش ہے بلکہ انضمام کے معاملہ سازشوں کے اس طویل سلسلے میں ایک اور اضافہ ہے جو فلسطین کی سرزمین پر قبضے کے وقت سے جاری و ساری ہیں۔ یہودی وجود فلسطین کی پوری مقدس سرزمین پر قابض ہے۔ اس نے ایک د ن یا ایک گھنٹے کے لیے بھی اس سرزمین پر(یہودی) بستیوں کی تعمیر اور ان کو وسعت دینے کے کام کو معطل نہیں کیا۔ کٹھ پتلی فلسطینی اتھارٹی اور حکمران ایسی تقریریں کرتے اور بیانات دیتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ انضمام کے معاملے کو مسترد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو غیر قانونی بھی سمجھتے ہیں، لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ اس امر کی بھی تائید کرتے ہیں کہ وہ یہودی وجود کے ساتھ امن اور مذاکرات کے آپشن کےحق میں ہیں، جس نے یہودی قابض وجود قانونی حیثیت دی ہے اور اسے فلسطین کے 78 فیصد حصےسے نواز رکھا ہے ۔ انضمام کی سازش میں فلسطینی اتھارٹی بھی مکمل شریک ہے کیونکہ مذاکرات کا مطلب ہے کہ جو کچھ بچ گیا ہے اس پر مذاکرات کرنے ہیں اوریقیناً مذاکرات میں کچھ لو کچھ دو کے تحت رعایت دینا تو ضروری ہیں۔ یہ بات بی لین-عباس اور اولمرٹ-عباس کی رائے کے مطابق ہے جس کی فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے تردید نہیں کی ۔ یہودی وجود فلسطینی اتھارٹی اور کٹھ پتلی حکومتوں کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے لہٰذا وہ مقدس سرزمین پر اپنے قدم جماتا چلا جارہا ہے۔
حالیہ عرصے میں فلسطینی اتھارٹی جو کچھ کرتی رہی ہے وہ اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ ہونے والی سازش میں شریک ہے اور اس مسئلے کو قابض مجرم وجود کے حق میں طے کرنے کے لیے مسلسل کام کررہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اب قبضے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھاتی، نہ ہی 1948میں جن علاقوں پر قبضہ ہوا تھا ان پرفلسطینی اتھارٹی اور یہودی وجود کے درمیان کوئی تنازعہ موجود ہے، جو فلسطین کی سرزمین کا 78 فیصدحصہ بنتا ہے۔ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی فلسطین کی سرزمین کو اسلامی زمین قرار دینے کی ہر تجویز کو رد کرتی ہے اور اسے"اسرائیل " کہنے پر اصرار کرتی ہے۔ اسی طرح سے موجودہ یہودی بستیاں، خصوصاً وہ جو اہم ہیں، اب فلسطینی اتھارٹی کے لیے اہم مسئلہ نہیں ہیں بلکہ اسی نے تو ان بستیوں کی توسیع میں سہولت فراہم کی اور کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جس کے ذریعے دلالوں کو اس زمین کو بیچنے سے روکا جاتا۔ بلکہ کچھ زمینوں کو حوالے کرنے کے متعلق سازش کے کھرے فلسطینی اتھارٹی سے جڑتے ہیں جنہوں نے تنازعے کو ایک مخصوص زمین کے ٹکڑے پر قبضے تک محدود کیا تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے کہ بس زمین کے اسی حصے کے متعلق تنازع بچا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا یہ طرز عمل گمراہ کن اور فلسطین کے خلاف سازش ہے کیونکہ پورا کا پورا فلسطین یہودی وجود کے قبضے میں ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ کسی بھی دوسرے حصے سے مختلف نہیں ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے آج تک فلسطین کے مسئلے پر بات چیت اور ان غدارانہ معاہدوں سے منہ نہیں موڑا ہےجس میں اسے ہمیشہ ہی امریکی انتظامیہ، جسے یہ اپنا قبلہ سمجھتی ہے، اور قابض وجود کے رہنما، جنہیں یہ امن میں اپنا شراکت دار سمجھتے ہے، کی جانب سے تھپڑہی کھانے پڑےہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے ایک لمحے کے لیے بھی فلسطین کے مسئلے کو اسلامی مسئلہ قرار نہیں دیا اور نہ امت اور اس کی افواج سے فلسطین کی مقبوضہ سرزمین کو آزاد کرانے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ وہ نام نہاد امن اور غدارانہ حل سے مکمل طور پر وفادار ہے اور استعماری طاقتوں، امریکا، برطانیہ، روس، چین اور یورپ کے در پر سجدہ ریز ہے اور ان سے کہتی ہے کہ وہ یہودی وجود پر دباؤ ڈالے کہ وہ مذاکرات پر لوٹ آئے تاکہ فلسطین کے مسئلے کے غدارانہ حل کا راستہ ہموار ہو۔
اگرچہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے رہنما اپنے کردار کی حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ وہ قابض وجود کی سیکیورٹی نظام اور اس کے اسٹریٹیجک مفادات کا ایک حصہ اور وہ خادم ہیں جو قا بض کے قبضے کے اوپر غلاف چڑھاتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق عباس اور اریکات (Erekat)کے بیانات سے ہوتی ہےجس نے حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کا تعارف اس طرح کرایا کہ اس کا کام قابضین کا کچرا اٹھانا ہے۔ اس سب کے باوجودوہ اس ذلت آمیز فلسطینی اتھارٹی اور اس کے شرمناک کردار سے جڑے ہیں جب تک یہ اپنے عہدوں پر برقرار ر ہیں ، اور یہ اس اتھارٹی سے کماتے رہیں جس کو اس کے لیڈروں نے ایک مکمل انویسمنٹ کے منصوبے میں بدل کر کے رکھ دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی تسلسل سے اس گمراہ کن بات کی ترویج کرتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ فلسطین کےلوگ قبضے کے معاملے کو قبول کرتے ہوئے اس کو ایک ایسا معاملہ سمجھ لیں جو کہ "اب ہو چکا ہے، اور اس کا اب کچھ نہیں ہو سکتا"اور قابض وجود کے ساتھ اختلاف کوئی بقاء کامسئلہ نہیں ہے بلکہ سرحدوں اور اس کی تفصیلات کا ایک تنازع ہے، اور اس طرح لوگوں کو یہ سبق دیا جارہا ہے کہ وہ قابض وجود کی جانب سے اپنے قبضے کو برقرا رکھنے کے لیے کیے جانے والے بے رحمانہ طریقہ کار اور اس کے تکبر کے خلاف ایک یتیم بچے جیسی طاقت سے جواب دیں اور اس مقصد کے لیے ہر موقع کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لوگوں کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی صحت کے شعبے میں تیاری صفر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنےکاروبار و تجارت بند کردیں اور ان کی تنخوائیں روک لیں۔ اس کا سب سے اہم اور واضح ہدف یہ ہے کہ لوگوں کو کمزور کیا جائے اور قبضے کے خلاف مزاحمت سے انہیں دستبرداری پر مجبور کردیا جائے۔اس طرح لوگوں کے لیے اتنی مشکل صورتحال پیدا کردی جائے کہ لوگ وہ سنجیدہ موقف اختیار نہ کریں جس کی مسئلہ فلسطین کو ضرورت ہے ، اور وہ موقف یہ ہے کہ امت اور ان کی افواج سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے مدد مانگی جائے اور پورے فلسطین کو آزاد کرایا جائے۔
فلسطینی اتھارٹی کے نعرے اور ہل جل بس رسمی باتیں اورمصنوعی ہل جل ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے، ان کی توجہ مسئلے کی بنیادسے ہٹانا ہے، اور قبضے کے خلاف اس کے شرمناک موقف پر پردہ ڈالنا ہے۔ وہ لوگ جو قبضے کو مسترد کرنے میں سنجیدہ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ بھر پور طور پر اس بات کا اعلان کریں کہ پورے کا پورا فلسطین اسلامی سرزمین ہےجس پر یہود نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کے وجود کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس مقدس سرزمین سے ایک بالشت بھر زمین کے ٹکڑے سے دستبرداری کے لیے مذاکرات کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور یہ کہ پورے فلسطین کی آزادی کے لیے امت کی افواج کی جانب سے فوری ایکشن لیا جانا ضروری ہے، اور اس کا نعرہ یہ ہو،
﴿وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"۔۔۔اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے،وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو"(البقرۃ، 2:191)۔
اس کے علاوہ کوئی بھی قدم غداری اور دھوکہ ہوگا۔
فلسطین کی مقدس سرزمین پر حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |