المكتب الإعــلامي
فلسطين
ہجری تاریخ | 27 من ربيع الثاني 1445هـ | شمارہ نمبر: 08 / 1445 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 11 نومبر 2023 م |
پریس ریلیز
چھتیس دن کی خونریزجارحیت کے بعد بدکردار حکمرانوں کے مَکر سے بھری کھوٹی کانفرنس!
(عربی سے ترجمہ)
غزہ اور اس کے عوام کے خلاف یہودی وجود کی جانب سے نسل کشی پر مبنی گھناؤنی جنگ اور غزہ کے ہیروز کی استقامت اور ثابت قدمی کے چھتیس دن گزر جانے کے بعد جب کہ انکی امداد میں بھی تاخیر ہوتی رہی، عرب اور مسلم حکمرانوں نے ریاض میں ایک "غیر معمولی ہنگامی کانفرنس" کا انعقاد کیا! یہودی جارحیت کا عالم تو یہ ہے کہ جس وقت ان حکمرانوں کی یہ کانفرنس جاری تھی تو اس وقت بھی اسرائیلی ٹینک الشفاء میڈیکل کمپلیکس کو گھیرے میں لئے ہوئے تھے اور وہاں کے مریضوں پر حملے کر رہے تھے، شیر خوار بچے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے انکیوبیٹرز میں مر رہے تھے، اور یہودی وجود کی جنگی مشینری کے سبب غزہ کی مقدس اورمحبوب پٹی تباہ ہوئے جا رہی تھی...
یہ کانفرنس واقعی غیر معمولی نوعیت کی تھی، جس میں اس اہم واقعہ کی بابت اہانت، کمزوری، شرمندگی اور مایوسی کی بھرمار تھی۔ حالانکہ لوگ برسوں پر محیط ان حکمرانوں کی طرف سے کی جانے والی مذمت اور مذمتی الفاظ کی طویل لغت کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کی اس شرمناک کانفرنس کا نتیجہ یہی ہے کہ انہوں نے محض الفاظ کا تبادلہ کیا اور مایوسی پھیلائی۔ چنانچہ انہوں نے باری باری ان واقعات کو صرف ایسے بیان کردیا جیسا کہ صحافیوں نے انہیں بتایا تھا، اور اپنے بیان کے دوران انہوں نے "بین الاقوامی قانون" اور اس کی خلاف ورزی پر افسوس کا اظہار کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ مزید برآں ان حکمرانوں نے دونوں اطراف کے "شہریوں" کے لیے دکھ کا ایسے اظہار کیا جیسے کہ اس مبارک سرزمین کے عوام اور غاصب یہودی دونوں برابر ہیں! اور یہ کہتے ہوئے اُن کے الفاظ میں غداری، بزدلی اور امریکہ کی محکومی واضح ٹپک رہی تھی۔ اگرچہ یہ حکمران اس جنگ اور نسل کشی کی جانے والی سرزمین میں "انسانی امداد" کی بات کر رہے تھے اور عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ جنگ کو روکنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے! بلکہ وہ اپنی تذلیل کے باعث اصل میں امریکہ سے یہ التجائیں کر رہے تھے کہ جیسے یہ امریکہ اور عالمی برادری اپنے پیسوں، ہتھیاروں اور حفاظتی سامان سے یہودی وجود کی حمایت نہ کر رہے ہوں اور جارحیت میں براہِ راست شریک نہ ہوں۔ گویا کہ یہ عالمی برادری جس کی یہ حکمران منتیں کرتے پھر رہے ہیں، بذاتِ خود دشمن نہیں ہے اور نہ ہی اس یہودی وجود کو فضائی، بحری اور زمینی راستوں کے ذریعے قتل و غارت گری کے لئے سب سے طاقتور ہتھیار فراہم کرنے والی ہے تاکہ یہ یہودی وجود غزہ اور اس کے لوگوں کو تباہ کر دے۔
اسی طرح ان حکمرانوں کے الفاظ سے دھوکہ دہی اور سازش بھی ٹپک رہی تھی، کیونکہ وہ امریکی حل کے برتن میں مسلمانوں کے حرمت والے خالص خون کا جھرنا ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے، اور وہ دو ریاستی حل کے بارے میں بلنکن کی زبان بول رہے تھے اور اس حل کے نفاذ کے لئے قتلِ عام کو روکنے کی بات کر رہے تھے۔ یہ حکمران بے شرمی کے ساتھ تعمیر ِنو کی باتیں کر رہے تھے جبکہ تباہی پھیلانے والا ہاتھ مسلسل تباہی مچا رہا ہے۔ اور الیکشن کی بات کر رہے تھے جبکہ مسلمانوں کا پاک لہو بہایا جا رہا ہے؛ اور عطیات، بھیک اور پیسہ کی بات کر رہے تھے جبکہ انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ گویا وہ حکمران یہودی وجود کو قائم و دائم رہنے کا اختیار دے رہے ہیں اور ان کا رویہ یہ کہہ رہا ہے کہ، "ہمارے پاس بس یہی کچھ ہے"، تویہ سب نہایت بُرا ہے جو وہ حکمران کر رہے ہیں!
اورمصیبت کی اس انتہائی گھڑی میں فلسطینی مسلمانوں کے لئے یہی وہ زیادہ سے زیادہ امداد تھی جو اربوں ڈالر رکھنے والے اسلامی دنیا کے "رہنماؤں" نے اپنے اجلاس میں پیش کی، جن کے پاس لاکھوں فوجی ، ہزاروں ٹینک اور طیارے موجود ہیں! اسلامی عرب کانفرنس عربوں کی بہادری اور اسلام کے جوش و جذبے سے خالی تھی۔ یوں انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دے دی ہے کہ وہ اس قوم کے فاسد ترین سربراہ ہیں اور یہ کہ وہ غزہ میں برپا ہونے والی مصیبت کی شدت کے باوجود، اس امت پر، غزہ کی مصیبت سے بھی زیادہ بڑی مصیبت کی شکل میں مسلط ہیں۔ اس کانفرنس میں ان حکمرانوں کا پیغام یہ ہے کہ لاکھوں افواج رکھنے کے باوجود وہ دشمنوں کے مقابلے میں اپنے مسلمان بھائیوں کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ اورامت کے لئے اس میں سبق یہ ہےکہ اگر امت اپنے آپ سے ناانصافی کو دور کرنا چاہتی ہے تو اس کے حصول کے لیے پہلا قدم ان حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جنہوں نے اسے بیڑیوں سے جکڑ رکھا ہے اور اسے ذبح ہو جانے کے لئے باندھ دیا ہے۔
بیشک لوگوں کے لیے نکالی گئی بہترین امت (خیرا امة اخرجت للناس)، ہمت، یقین اور حوصلے والی امت ہے، اور یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ اس امت کے سروں پر ان حکمرانوں جیسے بزدل اور ایجنٹ رہنما بیٹھے ہوں۔ اس امت میں غزہ کے ہیروز، اور ان جیسے بہت سے اور ہیروز بھی ہیں، اس کے پاس اسلام کا عقیدہ ہے، اور اس کے پاس مال اور افراد بھی ہیں، اور وافر سامان اور تعداد بھی، چنانچہ اس کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ ان حکمرانوں کو اپنے رہنما کے طور پر برقرار رکھے۔ امتِ مسلمہ کو ان درجن بھر افراد کی ضرورت نہیں کہ جنہوں نےعفریت نما وجود کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کو شہید ہو جانے اور زخمی ہو جانے سے نہیں روکا، بلکہ امت کو صرف ایک ایسے مردِ حق کی ضرورت ہے جس میں مومن مردوں والی خصوصیات ہوں یعنی مسلمانوں کا خلیفہ۔ اور ایک فوج کی ضرورت ہے جو دنیا کے ظالموں کو سبق سکھائے اور اس کے ذریعے اللہ دین کو فتح دے۔
جہاں تک اس کانفرنس میں شریک سازشی حکمرانوں کا تعلق ہے، تو چونکہ انہوں نے اپنے تخت کی بقا کوایک جنون کی طرح سر پر سوار کرلیا ہے اور یہود و نصاریٰ کو اتحادی بنا لیا ہے لہٰذا ان شاء اللہ ان کا انجام محض پچھتاوا اور مزید زوال پذیر ہوجانا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑے جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر گردش آنے کا ڈر ہے تو قریب ہے کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے پھر یہ لوگ اس پر پچھتائیں گے جو وہ اپنے دلوں میں چھپاتے تھے"۔ (سورة المائدہ:52-51)
ارض ِ مبارک فلسطین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير فلسطين |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.pal-tahrir.info |
E-Mail: info@pal-tahrir.info |