الخميس، 12 جمادى الأولى 1446| 2024/11/14
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر

ہجری تاریخ    28 من صـفر الخير 1446هـ شمارہ نمبر: 07 / 1446
عیسوی تاریخ     پیر, 02 ستمبر 2024 م

پریس ریلیز

بائیکاٹ لازم ہے، لیکن یہ حل نہیں۔ یہ صرف ایک دھوکا ہے

  تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنی تمام تر ذمہ داری پوری کر دی ہے!

)ترجمہ)

 

ایک متنازعہ بیان میں، الازہر الشریف نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے خون اور اسلامی مقدسات بالخصوص مسجد اقصیٰکے تحفظ کی خاطر، یہودیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے عمل کی تجدید کے لیے تمام سیاسی، سفارتی اور عوامی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ۔ یہ درخواست فلسطینی علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم کےواقعات کی روشنی میں سامنے آئی ہے، اور اس اقدام کو فلسطینی عوام کو ان کی جاری آزمائش میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا گیا ہے۔ الازہر الشریف نے زور دے کر کہا کہ بائیکاٹ مقبول مزاحمت کی سب سے نمایاں شکلوں میں سے ایک ہے، جو قابضینپر دباؤ ڈالنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ بیان میں ان خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا جن کا فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور ان کے منصفانہ مقصد کے ساتھ عالمی یکجہتی کی اہمیت پر زور دیا۔ الازہر کے علما نے کہا کہ بائیکاٹ کی تجدید ایک واضح پیغام ہے جو فلسطینی کاز کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار امت مسلمہ کی عکاسی کرتا ہے۔ الازہر نے اسلامی اداروں اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے بعض حکومتوں کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ (اخبار الغد 9/1/2024)۔

 

فلسطین کا مسئلہ پوری امت کے لیے ایک مرکزی مسئلہ ہے ، جس میں امت کی نمائندگی  اور قیادت  ماضی میں مصرسے ہوتی رہی ہے، جو کہ بابرکت سرزمین کی حفاظت کی ڈھال تھا، اور وہاں سے ہی صلیبیوں کے کئی دہائیوں کے قبضے کے بعد فاتحصلاح الدین مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے نکلے۔ اب اسی بابرکت سرزمین پر یہودیوں نے قبضہ کر رکھا ہے، جنہوں نے وہاں اسلام کے مقدسات کی بے حرمتی کی اور وہاں ہمارے لوگوں کا خون بہایا۔ یہ مسئلہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوا تھا بلکہ مسئلہ اس پہلے دن سے شروع ہوا تھا جب ان کے ناپاک قدم ہماری بابرکت سرزمین پر پڑ گئے ۔ تو پھر وقتاً فوقتاً بائیکاٹ کی کالیں کیوں آتی رہتی ہیں؟ کیا امت بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی؟ کیا بائیکاٹ کا کوئی فائدہ ہے؟ امت کو فلسطین میں اپنے لوگوں کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

 

بائیکاٹ مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہودی وجود کے ساتھ کوئی تجارتی، سیاسی یا ثقافتی تعلق قائم کرنا جائز نہیں۔ یہ ایک ایسا وجود ہے جو مقدس سرزمین فلسطین پر قابض ہے اور فساد برپا کرنے میں سرگرم عمل ہے۔ یہودی وجود کا بائیکاٹ کرنے کی ذمہ داری کے باوجود یہ کمزوروں کا ڈرامہ ہے۔ یہ اس امر کے خلاف ہے جو امت بالعموم اور مصر کے لوگ بالخصوص جانتے اور مانتے ہیں ،کیونکہ وہ دن کے ایک گھنٹے میں یہودی وجود کو کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصر کے لوگوں کی طرف سے بائیکاٹ اُن کی سب سے بڑی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتا ، جو کہ یہودیوں سے لڑنا اور قبلہ اول اور ہماری تیسری مقدس مسجد کو آزاد کرانا ہے۔ مزید برآں، بائیکاٹ ریاستی سطح پر بھی واجب ہے، نہ صرف عوام کے لیے۔ درآمدات اور برآمدات کو روکنے کا اختیار ریاست کے پاس ہے عوام کے پاس نہیں۔ اگر ریاست نے ایسا کیا تو قدرتی طور پر بائیکاٹ ہو جائے گا۔ تاہم، ریاست کے لیے برآمدات اور درآمدات کو جاری رکھنا، اور پھر عوام کو بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا جانا، یہ ایک ظالمانہ مذاق ہے! اور بائیکاٹ کی کالایسے پیش نہیں کرنی چاہیے ، گویا کہ وہ وقت ضروری نہیں (بلکہ صرف تب ضروری ہیں جب یہود ظلم بہت زیادہ بڑھا دیں)۔ یہودیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف ہر وقت بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ تاہم، بائیکاٹ کی کال صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب بابرکت سرزمین میں ہمارے لوگوں کے خلاف یہودیوں کی بربریت میں شدت آتی ہے، اور جب بھی وہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، امت کے مقدسات کو پامال اور ان کی بے حرمتی کرتے ہیں! یہ تب ہی ہوتا ہے جب یہودیوں کے جرائم پر عوام کا غصہ شدت اختیار کرتا ہے اور یہ غصہ غاصبوں کی حفاظت کرنے والی شرمناک حکومتوں کے سامنے آتش فشاں کی طرح پھٹنے والا ہوتا ہے، یہ کالیں لوگوں کے غصے کو جذب کرنے کے لیے آتی ہیں، تاکہ ان کا غصہ باہر نکل سکے !

 

اگرچہ بائیکاٹ واجب ہے، لیکن اس سے فلسطین میں ہمارے لوگوں کی حفاظت نہیں ہوگی اور یہ یہودیوں کے لیے مغرب کی حمایت کو نہیں روکے گا۔ یہ حقیقی معنوں میں بائیکاٹ نہیں ہے۔ مصری حکومت یہودی وجود سے قدرتی گیس درآمد کرتی ہے، جب مصر نے اپنے علاقائی پانیوں کے اندر موجود گیس فیلڈز کو یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ مصری حکومت یہودی وجود کی کلیدی حمایت اور اس کی سرحدوں کی سب سے قریبی محافظ ہے۔ اس نے مصر کی بندرگاہوں کو استعمال کیا ہے تاکہ اس یہودی وجود کی ہر طرح کی مدد کی جا سکے۔ علاوہ ازیں ، مصر عوام کے غصے کو دباتا ہے اور انہیں اور مصر کی فوج کو پورے فلسطین کو آزاد کرانے سے روکتا ہے۔

 

حقیقی معنوں میں فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے قابل افواج کو جمع کرنے کے لیے بلائے بغیر صرف بائیکاٹ کی کالوں پر توجہ مرکوز کرنا، الازہر اور اس کے علمائے کرام یا اسلام کے کسی بھی معزز عالم کا کام نہیں ہونا چاہیے۔ مقدس سرزمین فلسطین پوری امت کی ملکیت ہے۔ علمائے کرام جانتے ہیں کہ ایمان کے بعد، اس سے بڑھ کر کوئی چیز واجب نہیں ہے کہ جس نے اسلامی سرزمین کا ایک انچ بھی غصب کیا ہو، اسے ہٹایا جائے ۔ ابن عابدین اپنی تفسیر حاشیہ (3/238) میں کہتے ہیں:وفرض عين إن هجم العدو على ثغر من ثغور الإسلام فيصير فرض عين على من قرب منه، فأما من وراءهم ببعد من العدو فهو فرض كفاية إذا لم يحتج إليهم، فإن احتيج إليهم بأن عجز من كان بقرب العدو عن المقاومة مع العدو أو لم يعجزوا عنها ولكنهم تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين كالصلاة والصوم لا يسعهم تركه، وثم وثم... إلى أن يفترض على جميع أهل الإسلام شرقاً وغرباً على هذا التدريج" اور اگر دشمن اسلام کی سرحدوں میں سے کسی ایک پر حملہ کرے تو یہ فرداً فرداً فرض ہے۔ پھر جو دشمن کے قریب ترین ہوتے ہیں یہ ان لوگوں پر انفرادی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔ رہا ان کے پیچھے جو دشمن سے کچھ فاصلے پر ہوں، تو اگر ان کی ضرورت نہ ہو تو کفایہ کا اجتماعی فرض ہے ۔ اگر ان کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ جو دشمن کے قریب ہیں وہ دشمن کو پسپا کرنے سے عاجز ہیں، یا وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں لیکن وہ سست ہیں اور لڑتے نہیں ہیں، تو ان کے ساتھ رہنے والوں پر انفرادی ذمہ داری ہے۔ یہ بالکل صلوٰۃ اور روزے کے انفرادی فرض کی طرح ہے اور یہ فرض نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے بعد انفرادی ذمہ داری دوسروں تک پھیلتی اور پھیلتی ہے... یہاں تک کہ اس بتدریج تمام اہل اسلام، مشرق و مغرب پر واجب ہو جاتی ہے۔"

 

صرف بائیکاٹ کی دعوت امت کو جہاد کی فرضیت سے دور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بابرکت سرزمین کے لوگوں کی حمایت کے لیے افواج کو جمع کرنے کے مطالبے کی ضرورت ، اور وہاں ہمارے لوگوں کی حمایت میں ناکامی کے لیے حکمرانوں کو جوابدہ ٹھہرانے سے توجہ ہٹا رہا ہے ۔ لہٰذا افواج کو متحرک کرنے کی کال کے بغیر صرف بائیکاٹ کی کال، فلسطینی عوام کے لیے خطرہ ہے۔ یہ لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ انہوں نے وہ سب کچھ سرانجام دے دیاہے جو انہیں بابرکت سرزمین کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ یہ ان کی مدد نہ کرنے کے بعد ایک اور ناکامی ہے، جبکہ امت اس سے بھی بہت کچھ زیادہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عوام اس حکومت کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں جو یہودی وجودکی حفاظت کرتی ہے، اور امت مصر کی فوج سے یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ یہودی وجود کو ختم کر دے، اور ان تمام چیزوں کو ہٹا دے جو ان کے اور فلسطین کی آزادی کے درمیان حائل ہیں۔ یہ صرف اس ریاست کے قیام سے ممکن ہو گا جو ان افواج کو الله سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ان پر عائد کردہ فرائض کی پاسداری کے لئے متحرک کرے گی ، چاہے وہ جہاد ہو، غاصب وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو، اور نہ صرف فلسطین میں بلکہ تمام مقبوضہ سرزمین میں مظلوموں کی حمایت کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ الازہر اور اس کے علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ بائیکاٹ کی حالت ہی اصل حالت ہے جس میں وہ اس ہستی، اس کے حامیوں اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اصل حالت یہ ہے کہ ہمارے اور یہودی وجود کے درمیان سوائے حالتِ جنگ کے کوئی رشتہ نہیں ہونا چاہیے، جب تک کہ اسے اسلام کی سرزمین سے اکھاڑ نہ دیا جائے۔ الازہر اور اس کے علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ فلسطین، اس کی سرزمین اور اسلام کے مقدسات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے امت اور اس کی افواج پر کیا فرض کیا ہے۔ انہیں مسلمانوں کو بتانا چاہیے کہ فلسطین کی آزادی مصر کی فوج کے لیے دیگر افواج کے مقابلے میں سب سے زیادہ فرض ہے اور وہ واقعی دن کے ایک گھنٹے میں ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 

اے علمائے الازہر:

یہ آپ کا فرض ہے، لہٰذا اللہ عزوجل کے سامنے ظاہر کریں  جو وہ آپ سے پسند کرتا ہے ۔ ایسا نور بنیں جو لوگوں کو نیکی کی طرف رہنمائی کرے۔ ایسی آگ بنیں جو اس حکومت کو جلا دے جو فلسطین میں ہمارے لوگوں کو مارنے والوں کی حمایت اور شراکت دار ہے۔ حکومت کو مخاطب کریں جیسا کہ وہم پرستوں نے فرعون سے کہا،

 

﴿فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾

"تو جو چاہے کرو! تمہارا اختیار صرف اس دنیا کی عارضی زندگی کا احاطہ کرتا ہے"]سورہ طٰہٰ 20:72[۔

 

جان لیں کہ حکومت کی سازش حکومت کے خلاف ہی کام کرتی ہے۔ اس کی سازش اس کی اپنی تباہی کا باعث بنے گی۔ اللہ (عزوجل) اپنے سپاہیوں کا حامی و ناصر ہے اور اپنے دین کو عزت بخشنے والا ہے، خواہ دشمن اس سے نفرت ہی کیوں نہ کریں۔ پس حق کا مطالبہ کریں اور لوگوں کو حق کی طرف راغب کریں ۔ ثابت قدم رہیں اور لوگوں کو ثابت قدم رکھیں ، یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصر آجائے۔ جان لیں کہ جنت اللہ عزوجل کی قیمتی شے ہے۔ پس جنت کو حق سے تلاش کریں ، اور آپ کا اجر اللہ عزوجل کے پاس ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حق آپ کے ہاتھوں بیان ہو، اور کوئی آپ کو جواب دے، جو اسلام کی نصرت کرے، اور ایک ایسی ریاست قائم کرے جو اسلام کو لوگوں پر نافذ کرے، اور دعوت اور جہاد کے ذریعے جہانوں کے لیے ہدایت اور روشنی کا پیغام اسلام کو دنیا تک پہنچائے۔

 

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ﴾

"اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ ليا جنہيں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بيان کرو گے اور (جو کچھ اس ميں بيان ہوا ہے) اسے نہيں چھپاؤ گے تو انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال ديا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قيمت وصول کر لی ، سو يہ ان کی بہت ہی بُری خريداری ہے"[سورہ آل عمران [3:187

 

ولایہ مصر میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ مصر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 01015119857- 0227738076
www.hizb.net
E-Mail: info@hizb.net

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک