المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر
ہجری تاریخ | 19 من صـفر الخير 1447هـ | شمارہ نمبر: 12/1447 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 13 اگست 2025 م |
پریس ریلیز
مصنوعی ذہانت کے دور میں ”ہدایت یافتہ مفتی“ کی تخلیق کرنا
ایسا فقہ بنانے کی کوشش ہے جو مغرب اور اس کے ایجنٹ حکمرانوں کے مطابق ہو!
(عربی سے ترجمہ)
اسلامی امت اس وقت جس سیاسی اور فکری انحطاط کا شکار ہے، اور ایسے دور میں جب اس کے دین اور اس کے احکام کے خلاف سازشیں زوروں پر اور ایک کے بعد ایک کر کے کی جا رہی ہیں، انہی حالات میں حکمران اور ان کے آلۂ کار سرکاری مذہبی ادارے ایسی کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں جو گونجتے نعروں اور پرکشش تکنیکی اصطلاحات سے مزین ہوتی ہیں، تاکہ اپنے دین بگاڑنے کے منصوبے پر ”جدت“ اور ”ترقی“ کا ملمع چڑھا سکیں۔ انہی میں سے ایک ہے ”مصنوعی ذہانت کے دور میں ہدایت یافتہ مفتی کی تخلیق“ کے عنوان سے وہ کانفرنس جو براہِ راست مصر کے صدر، عبدالفتاح السیسی کی سرپرستی میں مصر کی دارالافتاء منعقد کر رہی ہے۔
یہ عنوان بظاہر یہ تاثر دیتا ہے کہ ”ہدایت یافتہ مفتی“ سے مراد وہ شخص ہے کہ گہری شرعی بصیرت، تقویٰ اور نصوصِ شریعت کی پابندی اس کا خاصہ ہو، اور یہ کہ مصنوعی ذہانت محض اس کی معاونت کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن دراصل یہاں ”ہدایت یافتہ“ کا مطلب صرف وہ شخص ہے جو حکمران کا فرمانبردار ہو، اس کے ایجنڈے کے تابع ہو، اور ایسے فتوے دے جو اس کی پالیسیوں کے مطابق ہوں اور مغرب کے آقاؤں کے مفادات کو پورا کریں۔
مصنوعی ذہانت کا یہ دور اسلام کی خدمت کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا نہیں، بلکہ فتاویٰ کو ایک مخصوص دائرے میں قید کرنے، ان پر کنٹرول قائم کرنے اور ایسے ہر درست دینی موقف کو ختم کرنے کے لیے ہے جو حکومت کی مرضی کے خلاف ہو یا اس کی غداری کو بے نقاب کرتا ہو۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد کی جا رہی ہے جب مسلم ممالک کی حکومتوں کی پالیسیوں کے خلاف عوامی غصہ بڑھ رہا ہے، اور امت میں یہ شعور بھی پھیل رہا ہے کہ یہ حکمران اپنے بنیادی اصولوں کے ساتھ غداری کر رہے ہیں، چاہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہو، اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اتحاد ہو یا پھر کفر کے نظام کا نفاذکا معاملہ ہو۔
یہ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک مخلص شرعی فتویٰ، جو حق بیان کرتا ہو، ان کی بقا کے لیے خطرہ ہے کیونکہ ایسا فتویٰ ان کی حکمرانی کو ناجائز قرار دیتا ہے اور ان حکمرانوں کو کافر مغرب کی جمہوریت کا آلہ ہونے کو عیاں کرتا ہے۔ اسی لیے یہ لوگ ”مفتی“ کے منصب کی تعریف ہی کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اللہ کے حکم کا ترجمان نہ رہے جو وحی پر مبنی شرعی دلائل سے اخذ کیا جاتا ہے، بلکہ ایک سرکاری ملازم بن کر رہ جائے جو حکومتی فیصلوں کے لیے جواز مہیا کرے اور نصوص کو اس انداز میں ڈھالے کہ وہ ریاست کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ بالفاظِ دیگر اس مفتی کا فتویٰ اللہ کے حکم کے مطابق نہیں، بلکہ ان حکمرانوں کی خواہشات پر مبنی ہو جائے۔
اس کانفرنس کے پس منظر میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی دراصل فتاویٰ کو مرکزی سطح پر قابو میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کا ایک آلہ ہے۔ بجائے اس کے مسلمانوں کے اپنے گھروں یا مساجد میں ایک مخلص عالم ہو کہ جس سے روزمرہ کے سوال کئے جائیں، اب مسلمانوں کو ریاست کے زیرِ نگرانی ایک ”ڈیجیٹل پلیٹ فارم“ کی طرف موڑا جائے گا، جہاں الگورتھم سیاسی اور سکیورٹی معیار کے مطابق تیار کیے گئے ہوں گے، اور صرف سرکاری طور پر منظور شدہ جوابات ہی فراہم کیے جائیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فتویٰ دوہری نگرانی کے تابع ہوگا :پہلی، انسانی نگرانی جو سرکاری ادارہ انجام دے گا جو کہ حاکم کے ماتحت ہے؛ اور دوسری، ٹیکنیکل نگرانی، جو کہ ایسا ہر مواد فلٹر کر دیں گے جو حکومتی پالیسی کے خلاف ہو یا ناانصافی کو بے نقاب کرے یا قابض وجود کے خلاف جہاد کی دعوت دے، یا پھر عوام کی روزمرہ زندگی میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرے۔
ان حکمرانوں کے نزدیک ”دانشمند مفتی“ وہ ہے جو فتاویٰ کو انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ساتھ جوڑ دے اور عملی نفاذ میں اللہ کے حکم پر ان قوانین کو فوقیت دے۔ ایسا مفتی وہ ہے جو ہر اُس بات سے پہلو تہی کرے جو حکمران کو ناگوار گزرتی ہو یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہو، خواہ وہ واضح اور صریح شرعی نص ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا مفتی وہ ہے جو کفار اور قابض وجود کے ساتھ تعلقات کو مفاد اور توازن کی بنیاد پر جائز قرار دے۔ ایسا مفتی وہ ہے جو ایسے بین الاقوامی معاہدوں کو جو اسلامی قانون کے منافی ہوں، انہیں ”ضروریات“ یا ”بین الاقوامی ذمہ داریوں“ کا نام دے کر ان کی توجیہ پیش کرے۔
یہ کانفرنسیں، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، دین کو بدلنے اور مسخ کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کا اصل مقصد اللہ کے حکم کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ دین کو کمزور اور مسخ کرنا، اسے حکمرانوں کے تابع بنانا اور ایسے متبادل احکام گھڑنا ہوتا ہے جو اسلامی قانون کا بھیس تو رکھتے ہیں لیکن درحقیقت خواہشات کی پیروی اور اللہ کے طریقے سے انحراف ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ﴾
”اور آپ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ کیجیے، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ (سورۃ المائدہ: 49)۔
اللہ کے نازل کردہ احکام کے بجائے دوسرے قوانین سے فیصلے اور فتوے دینا صرف خواہشات کی پیروی کرنا ہے، حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کو خوش کرنا ہے، اور یہ اللہ نے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی ایسے فتنہ انگیز علماء کے بارے میں خبردار کیا جو دنیاوی فائدے کے لیے اپنا دین بیچ دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلُّونَ»
”مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے ائمۃ کا ہے“۔
اصولی طور پر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اسلامی فقہ کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے، کیونکہ یہ نصوص جمع کرنے، آرا کو ترتیب دینے اور محققین کو معلومات فراہم کرنے میں زبردست مدد دے سکتی ہے۔ لیکن جب حکومتیں اسے اپنے ماتحت اداروں کے ہاتھ میں دیتی ہیں تو یہ ایک خطرناک ہتھیار بن جاتا ہے، جو فتاویٰ کو محدود کرنے اور درست اسلامی آرا کو چھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس تناظر میں مصنوعی ذہانت دراصل سکیورٹی اداروں کی ہی ایک توسیع بن جاتی ہے، لیکن ایک سائنسی اور ٹیکنالوجی کے پردے میں۔ اس طرح سوال کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار مشین سے بات کر رہا ہے، جبکہ حقیقت میں اسے ایک سیاسی ایجنڈے کے مطابق پروگرام کیا گیا ہوتا ہے۔
اس کانفرنس کا اصل مقصد ہرگز فتویٰ کو ترقی دینا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ:
1۔ دنیا بھر میں فتویٰ اداروں اور اتھارٹیز کے جنرل سیکریٹریٹ کے ذریعے، فتاویٰ پر عالمی سطح پر گرفت مضبوط کی جائے، تاکہ یہ دینی مؤقف کو ایسے ہم آہنگ کرے جو حکمرانوں کے مفاد کے مطابق ہو۔
2۔ ایک ایسا مخصوص اسلام پیش کرنا جو مصنوعی سیاسی سرحدوں کو تسلیم کرتا ہو، انسان کے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی کرتا ہو، اور دشمنوں کے ساتھ تعلقات کو قبول کرتا ہو۔
3۔ فتاویٰ کو جائز سیاست سے الگ کر کے انہیں امت کے اہم مسائل سے دور رکھا جائے، جیسے فلسطین کی آزادی، جابرانہ حکومتوں کا خاتمہ، اور مغربی بالادستی کا انکار۔
4۔ حکمران کے فیصلوں کو شرعی جواز دینا، یہاں تک کہ ہر معاہدہ، ہر ڈیل یا اتحاد کے لیے پہلے سے تیار فتویٰ فراہم کرنا، چاہے وہ کسی قابض دشمن کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔
یہ کانفرنسیں ایک دوہرا خطرہ رکھتی ہیں:
اول: مفاہیم میں گڑبڑ پیدا کرنا، جہاں حق و باطل کو ”اعتدال“ اور ”راستبازی“ کے خوبصورت نعروں کے تحت خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔
دوم: ایسے مفتیان کی نسل تیار کرنا جو حق بات کہنے کی جرأت نہ رکھتے ہوں، اور اپنی ذمہ داری صرف حکمرانوں کی خواہشات کو جائز قرار دینا سمجھتے ہیں۔
سوم: اجتہاد کی روح کو ختم کرنا، کیونکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم محض ایک یکساں اور حتمی جواب فراہم کرے گا، جو بحث و تحقیق کے دروازے بند کر دے گا۔
لہٰذا امت پر، اس کے علما، داعیانِ حق اور نوجوانوں پر لازم ہے کہ وہ ان کانفرنسوں کو بے نقاب کریں، ان کی حقیقت لوگوں کے سامنے واضح کریں، اور خبردار کریں کہ دین کو ایسے سرکاری اداروں سے نہ لیا جائے جو اس کے مفہوم کو بگاڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح اجتہاد اور فتویٰ کو اس کی اصل پوزیشن پر واپس لانا ضروری ہے: یعنی جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا، نہ کہ اس کے تابع ہو جانا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ» ”سب سے افضل جہاد جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے“۔ امت کو دیندار علماء کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے ملازمین یا "پلیٹ فارم“ کی جو سیاست کے تانے بانے سے چلائے جائیں۔
اور ہم مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی چمک دمک یا خوشنما الفاظ کے دھوکے میں نہ آئیں، کیونکہ حق کا اصل معیار صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت ہے، نہ کہ حکومتی پلیٹ فارموں یا ان کی کانفرنسوں کا پیدا کردہ مواد۔ اور سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ مصنوعی ذہانت، چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے، کسی مؤمن کے اس دل کا متبادل نہیں ہو سکتی جو اللہ سے ڈرتا ہو، اور نہ ہی اس سچی زبان کا جو حق بیان کرتا ہے۔ فتویٰ صرف اسی وقت ”ہدایت یافتہ“ ہو سکتا ہے جب وہ محض اللہ کے شرع کے نفاذ پر مبنی ہو، نہ کہ حکمران کے احکامات یا اس کے تیار کردہ سافٹ ویئر پر۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ﴾
"اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تم ضرور اس کتاب کو لوگوں میں پھیلانا، اور اسے چھپانا نہیں مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں"
(سورۃ آل عمران:187)
ولایہ مصر میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ مصر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 01015119857- 0227738076 www.hizb.net |
E-Mail: info@hizb.net |