محترم برادرانِ اسلام!
ہم بطور حزب التحریر آپ سے اس حیثیت میں مخاطب ہیں کہ حزب التحریرایک عالمی سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ آپ ہم سے بخوبی واقف ہیں اور ہمارے ایجنڈے سے بھی آگاہ ہیں، کہ حزب التحریراسلامی ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہے ۔ حزب التحریر وہ واحد عالمی جماعت ہے جو کہ امت کو ایک مضبوط ریاست کی شکل میں اللہ کے کلمہ کے سائے تلے یکجا کرنے کے لیے پورے عالمِ اسلام میں کام کر رہی ہے ،جس پرمسلمانوں کا واحد خلیفہ حکمرانی کرے گا، اور جس کے ذریعے ہی مسلمانوں کو استعماری طاقتوں کے تسلط سے نجات ملے گی کہ جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے۔
ہم آپ کی ا س حیثیت کی بنا ء پر آپ سے مخاطب ہیں کہ پاکستان کے اصل حکمران آپ لوگ ہی ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپ مسلمانوں کی سب سے بڑی ایٹمی افواج کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ آپ آئی ایس آئی کے ذریعے سِول اداروں یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ پر حتمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس ملک کے حقیقی حکمران ہونے کے ناطے ، صرف آپ ہی کے ذریعے امت موجودہ بحرانوں، مصیبتوں اور ابتری کی زندگی سے نجات حاصل کر سکتی ہے، جن سے مغربی سرمایہ دار ریاستوں نے اُمت کو دوچار کر رکھاہے ؛ جبکہ آپ کا غلط فیصلہ اس امت کو مزید تباہی کی طرف لے جا ئے گا۔
محترم برادرانِ اسلام!
2مئی 2011ء کی رات کو امریکی نیوی سیلز(US Navy SEALS)نے مبینہ طور پر ہماری فضائی حدود کو پامال کیا اور ایبٹ آباد میں ایک گھر پر حملہ کر کے اُسامہ بن لادن کو قتل کیا اور اُس کی میت کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس واقعے سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستانی افواج کو انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اندرونِ ملک یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا پاکستانی افواج ہماری خودمختاری کے تحفظ کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ جبکہ بیرونِ ملک آپ پر الزام عائد کیا گیا کہ آپ نام نہاد دہشت گردوں سے ملے ہوئے ہیں۔ امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے آپ کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی اور 18مئی 2011ء کو ایبٹ آباد حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اعلان کیا: ''اگر میں پاکستان کی جگہ ہوتا تو میں یہ کہتاکہ میں نے پہلے ہی قیمت چکا دی ہے، مجھے بے عزت کیاگیا۔ مجھے یہ دکھا دیا گیا ہے کہ امریکی یہاں آ سکتے ہیں اورکسی بھی جوابی کاروائی کے بغیر واپس جا سکتے ہیں‘‘۔ اورگویا اتنا ہی کافی نہ تھا کہ4مئی 2011ء کو بھارتی آرمی چیف جنرل وِی کے سنگھ نے کہا:''جب بھی ضرورت پڑی ،ہماری افواج کے تینوں حصے (پاکستان میں)ایسے ہی آپریشن کر سکتے ہیں‘‘۔
اگر ایک شخص امریکہ کے سٹریٹیجکاہداف کا جائزہ لے تو وہ قطعی طور پرجان سکتا ہے کہ امریکہ کے مفادات کو پورا کرنا درحقیقت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے ۔ امریکہ کے سٹریٹیجکمفادات یہ ہیں: روس اور چین کو یوریشیا (Eurasia)کے علاقے پر حاوی ہونے سے روکنا، وسط ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے وسائل کو کنٹرول کرنا، وسط ایشیاء اور کیسپین سِی (Caspian Sea) سے معدنی توانائی کی باحفاظت ترسیل کو کنٹرول کرنا اورخطے میں ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنا۔ ان اہداف کی تکمیل کے لیے پاکستان انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے ، اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی پالیسی کو کوئی بھی رُخ دینے کے لیے فوج اور آئی ایس آئی کاکردار کلیدی ہے۔
ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ،امریکہ کے لیے یہ ضروری تھا کہ پاکستان کے علاقائی اثر و رسوخ کو کم کیا جائے۔ ایسا تین وجوہات کی بناء پر تھا: اول: امریکہ افغانستان میں بذاتِ خوداپنی موجودگی قائم کرنا چاہتا تھا ،لہٰذایہ ضروری تھا کہ پاکستان کے اثر ورسوخ کو کم کیا جائے۔ جس کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان طالبان کی مددو حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ دوم: امریکہ چاہتا تھا کہ بھارت چین کے خلاف کردار ادا کرے مگرکشمیر میں جاری جہاد بھارت کو اس کردار سے دور رکھے ہوئے تھا ۔ چین کے خلاف مضبوط بھارت امریکہ کی ضرورت تھی، جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ جہادِکشمیر کو روکا جائے اور بھارت میں موجود آئی ایس آئی کی جڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ سوم: خلافت کے قیام کو روکنایا خلافت کے قیام میں ہر ممکن تاخیر پیدا کرنا۔ چنانچہ پاکستان کی فوج کو کمزور کرنا اورپاکستانی افواج کی صفوں سے مضبوط ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل اسلامی رجحان رکھنے والے افسران کو فارغ کرنا۔
11ستمبر کے واقعے سے کہ جس کے تمام راز ابھی منظرعام پر نہیں آئے، امریکہ کو یہ موقع مل گیاکہ وہ افغانستان میں ایک نرم امریکہ نواز حکومت قائم کرے ۔ مشرف کی بھرپور مدد نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ طالبان حکومت کا خاتمہ کر دے، اور اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں کو سفاکی سے قتل کرے۔ مشرف نے امریکہ کو مدد فراہم کی اور امریکہ افغانستان سے پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت کو ہٹا کر افغانستان میں ایک ایسی حکومت لے آیاجو امریکہ و بھارت نواز ہے اوراینٹی پاکستان ہے۔ مشرف کی اس غداری سے اس کے کورکمانڈر واقف تھے مگر وہ خاموش رہے اورانہوں نے مشرف کے پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور کرنے کے اقدام کو قبول کر لیا۔
مشرف کے بعد بھی یہ پالیسیاں جاری رہیں، تاہم اب یہ کردار فوجی قیادت میں اس کے جانشینوں نے سنبھال لیا کہ جن کے سرغنہ جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا ہیں، جو امریکہ کواُسی درجے کی مدد فراہم کر رہے ہیں،جو کہ اس سے قبل مشرف کر رہا تھا ،تاکہ پاکستانی افواج اور پاکستان کو مزید کمزور کیا جائے۔
محترم برادرانِ اسلام!
یہ ہے وہ پس منظر کہ جس کے تحت ہم آپ کو پکار رہے ہیں ، کہ آپ کی یہ خاموش اکثریت اپنی خاموشی کو توڑے اور اس صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے کھڑی ہو جائے۔ کیونکہ اگر آپ خاموش رہے اور غلامانہ اطاعت کرتے رہے تو نہ صرف یہ کہ قیامت کے دن آپ اللہ کے غیض وغضب کا سامنا کریں گے بلکہ فوج کا وہ ادارہ کہ جس پر آپ کو فخر ہے مزید کمزور ہوتا جائے گا اور اسے اپنے ہی لوگوں کے خلاف مزیداستعمال کیاجائے گا۔ کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ اُس کی جنگ کو قبائلی علاقوں سے آگے ملتان اور کراچی جیسے بڑے شہروں تک پھیلایا جائے اور وہ ملک کہ جس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے آپ کی آنکھوں کے سامنے امریکی منصوبے کے مطابق مزید انتشار اور خونریزی سے دوچار ہو جائے گا۔ یہ امریکی منصوبہ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکہ کے وسیع تر اقدامات کا تسلسل ہے ، جس کا آغاز صدر بش نے کیا تھا اور جو موجودہ امریکی صدر کے دور میں بھی جاری ہے ۔
آپ میں سے وہ لوگ جو اس بات کے متعلق ذرا سا بھی شک و شبہ رکھتے ہیں کہ ہمارے ملک اور افواج کو کمزور کرنے کے ذمہ دار آپ خود ہیں ، توہم ان کے سامنے مندرجہ ذیل نکات رکھتے ہیں کہ وہ ان پر غور کریں:
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت خاموش رہے جب امریکہ نے ایبٹ آباد پر کاروائی کی، اور یہ کاروائی کیانی اور شجاع پاشا کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی؟ یہ حملہ اس غیر معمولی میٹنگ کے بعد ہی ہوا ،جو افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ جنرل پیٹریاس(Patraeus) اور جنر ل کیانی کے درمیان 25اپریل2011ء کو چکلالہ ائیر بیس پر ہوئی تھی، اور پھر اسی رات کو جنرل پیٹریاس نے وائٹ ہاؤس میں جاری میٹنگ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی تھی، اور اس میٹنگ کی سربراہی امریکی صدر اوبامہ خود کر رہا تھا۔ پھر اگلے ہی دن آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے آرمی کی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی میٹنگ میں غیر معمولی شرکت کی تھی ، حالانکہ آئی ایس آئی کا سربراہ عام طور پر اس میٹنگ کا حصہ نہیں ہواکرتا۔ یہی وہ ملاقات ہے جس کی طرف اوبامہ نے اپنی اُس تقریر میں اشارہ کیا تھا، جس میں اس نے نہایت تکبر کے ساتھ اُسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کیا تھا۔ اوبامہ نے کہا : ''اور بالآخر پچھلے ہفتے میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمارے پاس جاسوسی کی اتنی معلومات آ گئی ہیں کہ ہم ایکشن لیں اور میں نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے آپریشن کا حکم جاری کیا ،تاکہ اسے سزا دی جائے ‘‘۔ اور آپ اُس خاموشی کے متعلق کیا کہیں گے جو آپ نے اس وقت اختیار کی جب ایبٹ آباد واقعے کے بعدکیانی نے امریکہ کے خلاف افواجِ پاکستان کے مخلص آفیسرز کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کی؟ اور انہیں امریکہ کے خلاف اُبھارنے کی بجائے اپنے ہی فوجیوں کے دلوں میں دشمن امریکہ کا خوف ڈالنے کی کوشش کی!
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کی ہدایات پر جنگ کے میدان کو افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا ؟ اور جس طرح آپ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے امریکی مطالبے کے سامنے بلا سوچے سمجھے سرنگوں ہو ئے تھے ، اسی طرح آپ نے امریکہ کی ہدایات پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے افواج کو مغربی سرحد منتقل کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی، جس کے نتیجے میں مشرقی سرحد پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ امریکی ریاست آرکنساس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ہلری کلنٹن نے کہا: ''...تو پاکستان کے ساتھ ہماری گفتگو کا ابتدائی محور یہ تھا کہ کس طرح یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ دہشت گردوں کو اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ وہ (پاکستان کے)علاقوں پر قبضہ کر لیں...پس انہوں نے بھارتی سرحد سے فوجوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا اور پاکستانی طالبان کو اپنا ہدف بنا لیا‘‘۔ سٹریٹیجکسطح پر اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بھارت مضبوط ہوا کیونکہ ہماری توجہ اب دو محاذوں پر بٹ گئی ، اورکشمیر جو ہماری شہ رگ ہے اُس سے ہماری توجہ ہٹ گئی۔ امریکی ہدایات پر کیے جانے والے فیصلے کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج اپنی سرحدوں کے اندر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانے لگیں، جس کے نتیجے میں آپ کی اپنی صفوں میں رخنے پیدا ہونے شروع ہو گئے ۔ آپ کئی مخلص فوجی افسران سے محروم ہو گئے جنہوں نے قبائلی علاقوں میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ اس لڑائی میں مارے جانے والے افسر اور فوجی جوان اس کے علاوہ ہیں۔ علاوہ ازیں کیا اس کے نتیجے میں فوج کے اندر دھڑے بندی پیدانہیں ہوئی ،کیا فوج امریکہ نواز اور اسلام پسند دھڑے میں تقسیم نہیں ہوگئی ؟ اور وہ آفیسرز جو خطے میں امریکہ نواز پالیسیوں کی حمایت کے لیے تیار تھے انہیں پروموٹ(Promote) کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس نے اس دھڑے بندی کو مزید بڑھا دیا۔ یوں وہ مسلح افواج کہ جن کی ویژن (vision)مشرقی اور مغربی سرحدوں سے کہیں آگے تھی، جنہوں نے بھارت اورر وس کی راہ روکے رکھی،اب اس فتنے کی تباہ کن جنگ میں اپنی ہی آبادی سے لڑ رہی ہیں۔ تو اے معزز افسران،آپ کیونکر خاموش تھے جبکہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پاکستان اور مسلح افواج کو کمزور کیاجا رہا تھا؟!
اورکیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ آپ کی سرزمین پر ڈرون حملے کرے ،جس کا واضح مقصد قبائلی علاقوں میں بے چینی پیدا کرنا ہے؟ یہ غداری اتنی سنگین تھی کہ ڈرون طیارے بلوچستان میں ہماری ہی شمسی ائیر بیس سے اُڑ رہے تھے جبکہ ہمارے حکمران عوامی سطح پر اس کی مذمت کر رہے تھے۔ اوریہ غداری اس وقت بے نقاب ہو گئی جب 13فروری 2009ء کو امریکی انٹیلی جنس کمیٹی کی چےئر وُومینSen Dianne Feinsteinنے واضح طور پر بیان کیا کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی شمسی ائیر بیس سے اُڑ رہے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارا کرتا ہے کہ جنرل کیانی امریکہ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور وہ نہ صرف امت کو بلکہ آپ سب کو دھوکہ دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ کیانی نے امریکہ سے ڈرون حملوں میں اضافہ کرنے کے لیے بھی کہا۔ 11فروری2008کو اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کوایک کیبل بھیجی گئی، جو کہ 22جنوری2008کویو ایس سینٹ کام (USCENTCOM)کے ایڈمرل ولیم جے فیلن اور کیانی کے درمیان خفیہ ملاقات کے متعلق تھی، جس میں بیان کیا گیا تھا:''وزیرستان کی صورتِ حال کے متعلق کیانی نے پوچھا کہ کیا فیلن اس معاملے میں مدد کر سکتا ہے کہ وہ علاقہ جہاں لڑائی ہو رہی ہے، وہاں پر لگاتار ڈرون حملوں کی سہولت مہیا کی جائے‘‘۔ ڈرون طیارے ہماری سرزمین سے ہماری قیادت کی اجازت سے اُڑ رہے ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم انہیں گرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ڈرون حملے قبائلی سرداروں کے ساتھ ہمارے امن معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کا باعث بنے ہیں۔
اور کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ پاکستان میں اپنا علیحدہ خودمختار انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرلے ، جو سی آئی اے کے ایجنٹوں اور بلیک واٹر کے کرائے کے قاتلوں پر مشتمل ہے۔ امریکی سی آئی اے اب فخر سے کہتی ہے کہ اب ہمیں آئی ایس آئی کی ضرورت نہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کو یہ معلوم نہ تھا ، کیونکہ لاتعداد عوامی جریدوں اور اخبارات میں اس کے متعلق آرٹیکل شائع ہوئے جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ یہ امریکی کرائے کے قاتل نہ صرف ہمارے شہریوں کو قتل کر رہے ہیں بلکہ بنیادی امر یہ ہے کہ وہ ہمارے حساس ترین مقامات اور اثاثہ جات کے متعلق انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ اگر مشرف، کیانی اور شجاع پاشا نے اس پر آنکھیں بند کیے رکھیں، تو آپ نے اپنا اٹھایا ہواحلف پورا کیوں نہ کیا اور انہیں رُکنے پر مجبورکیوں نہ کیا؟
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے ریمنڈ ڈیوس جیسے بلیک واٹر کے کنٹریکٹروں کو اس بات کی اجازت فراہم کی کہ وہ سکولوں، مساجد، مارکیٹوں اور جھوٹے فلیگ حملوں(false flag attack)میں بم دھماکے اور قتل و خونریزی کروائیں، جیسا کہ امریکیوں نے عراق، افغانستان اور لاطینی امریکہ میں کیا تھا؟ پس بے گناہ شہری ان حملوں میں قتل ہوتے رہے اور آپ نے چپ سادھے رکھی ، جبکہ حقیقی مجرم امریکی کنٹریکٹرز کو کھلا ہاتھ فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا بھیانک کھیل جاری رکھیں۔
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو حراست کے دوران تحفظ فراہم کیا اور پھر اسے رہا کرنے کی اجازت دی؟ اور بجائے یہ کہ اس واقعہ کو امریکی کارندوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے اور امریکہ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے خاتمے کے لیے استعما ل کیا جاتا، ریمنڈ ڈیوس کورہا کردیا گیا۔ اور امریکہ نے اگلے ہی دن پاکستان پر ڈرون حملہ کر کے پاکستان کا شکریہ ادا کیا، جبکہ شجاع پاشا نے شکریے کے طور پر مزید87امریکی کارندوں کو ویزا فراہم کرنے پر امریکہ سے اتفاق کیا۔
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے پاکستان کی سرزمین پر دنیا کی سب سے بڑی امریکی ایمبیسی کے قیام کی اجازت فراہم کی؟ جبکہ عراق میں ایسی ہی سہولت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کو بہت بڑی جنگ لڑنا پڑی اور اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے ، دوسری طرف آپ کی قیادت ہے کہ جس نے مزاحمت میں کوئی گولی چلائے بغیر ہی امریکہ کو یہ سہولت عطا کر دی۔ اگر امریکہ ایک بڑی سفارتی موجودگی کے بغیر ہی پاکستان میں یہ تمام تباہیاں لارہا ہے اور پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اُڑارہا ہے تو پاکستان میں امریکہ کی سب سے بڑی ایمبیسی کا قیام کیا گُل کھلائے گا، جبکہ پوری دنیا میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ امریکی ایمبیسیاں دراصل امریکی مداخلت کے لیے لانچنگ پیڈ کا کام کرتی ہیں؟ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بنی؟
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ ہمارے F-16طیاروں پر اپنا کنٹرول قائم کر لے؟ یہ بات معروف ہے کہ امریکہ نے F-16طیارے اپنے اہلکاروں اور الیکٹرانک کوڈز (codes)کے ساتھ مہیا کیے ہیں ، یوں پاکستانی ائیر فورس انہیں اس وقت تک استعمال نہیں کر سکتی جب تک امریکہ یہ کوڈز مہیا نہ کرے۔ پس طیاروں کواَپ گریڈ کرنے کی آڑ میں آپ کی قیادت نے ان طیاروں کو پاکستان کی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے ناکارہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی نے پاکستان اور پاکستانی افواج کو کمزور نہیں کیا؟
کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب امریکہ نے آئی ایس آئی کے خلاف اپنی مہم شروع کی کیونکہ امریکہ کے نزدیک آئی ایس آئی تیسرے فریق کے ذریعے امریکہ کے خلاف جنگ (Proxy war)کر رہی ہے جسے اب امریکہ روکنا چاہتا ہے؟ آئی ایس آئی جو کہ کسی زمانے میں روس اور بھارت کے گھٹنے ٹیکنے پر قادر تھی،آج امریکہ اسے کھلم کھلا نشانہ بنا رہا ہے اور اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے سٹریٹیجک اتحادیوں کو امریکہ کے حوالے کر دے تاکہ اوباما انتظامیہ آئندہ الیکشن جیت سکے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی نے پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور نہیں کیا ہے؟
ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ پاکستان سے گزرنے والی' یو ایس /نیٹو‘سپلائی لائن کو کاٹ دینے سے امریکہ کی صلاحیت مفلوج ہو جائے گی کہ وہ افغانستان میں فوجی آپریشن جاری رکھ سکے اور پاکستان کی سرزمین پر اپنے بدنام زمانہ ڈرون حملوں کا تسلسل برقرار رکھ سکے ۔ توکیا یہ درست نہیں کہ اس معاملے پر آپ کی خاموشی نے افغانستان اور پاکستان میں امریکہ اور نیٹوکے کرائے کے قاتلوں کو زندگی کی ضمانت فراہم کر رکھی ہے؟
علاوہ ازیں آج صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں موجود اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک، اپنے فوجی اہلکاروں اور پرائیویٹ فوجی کنٹریکٹر زکے ذریعے پاکستان کے ہر گوشے تک رسائی حاصل ہو گئی ہے اور وہ حسبِ خواہش ہمارے فوجی طیارے استعمال کر سکتا ہے۔ اس امر نے امریکہ کو اس بات پر مکمل دسترس فراہم کر دی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر یا باہر کوئی بھی آپریشن سرانجام دے۔ تاہم جب امریکہ نے ایبٹ آباد میں حملہ کیا تو کیانی نے لاعلمی و حیرت کا اظہار کیا! اِس تمام کے بعد بھی کیاآپ نہیں دیکھتے کہ یہ آپکی خاموشی ہی ہے جس نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ آپ کی غدار قیادت کے ذریعے پاکستان اور اس کے مضبوط ترین ادارے یعنی مسلح افواج کوکمزور کرے؟
اور کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی حکومت نے آپ کی فوجی قیادت کے ذریعے حزب التحریرکے ممبران کو قید،ہراساں اور تشدد کرنے کی مہم شروع کی۔ ان کا جرم محض یہی تھا کہ مندرجہ بالا غداریوں کا سدِباب کیا جائے ،جس کے لیے وہ اس حکومت کو ہٹانے کے لیے کوشاں تھے جو کفریہ قوانین کے ذریعے حکمرانی کر رہی ہے،پاکستانی حکومت جو اسلام کو نظام اور طرزِ زندگی کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اورجو محمد بن قاسم کے بیٹوں کو کشمیر کو آزاد کرانے، بھارت کو دوبارہ اسلامی حکمرانی کے تحت لانے اور امتِ مسلمہ کو ایک خلیفہ کے تحت وحدت بخشنے سے روک رہی ہے۔
معزز برادرانِ اسلام!
یہ محض فطری بات ہے کہ ایک مخلص شخص رکاوٹوں پر سوچ بچار کرتا ہے تاکہ انہیں دُور کیا جائے جبکہ غیر مخلص شخص بہانے بناتا ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ کہیں گے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے کمزور ہے، ان سے ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے اوپر نافذ پالیسیاں ہی نہیں کہ جنہوں نے ہمیں کمزور بنا رکھا ہے؟ کئی معاشی رپورٹیں یہ بیان کرتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری معیشت کو 68ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان پہنچا چکی ہے۔ شاہد جاوید برکی نے Woodrow Wilson Centreکے لیے جو سٹڈی سرانجام دی ، اس کے مطابق:''اگر امریکہ کی غیر فوجی امداد کو مکمل طور پر روک دیا جائے تو پاکستان کے GDPمیں اضافے پر اس اقدام کا اثر محض 0.14فیصد ہو گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال کیا ہے۔ پاکستان کے چاغی اور ریکو ڈِ ک کے علاقے میں موجودتانبے کا ذخیرہ دنیا میں پانچواں سب سے بڑا ذخیرہ ہے جبکہ یہاں موجود سونے کے ذخائر کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر ہے۔ اسی طرح تھر کے علاقے میں موجود کوئلے کا ذخیرہ دنیا کے وسیع ترین ذخائر میں سے ایک ہے،جس کا اندازہ 175بلین ٹن ہے ۔ پاکستان کے ثابت شدہ گیس کے ذخائر25.1ٹریلین کیوبک فٹ ہیں۔ پاکستان میں زرخیز زرعی زمین کی کوئی کمی نہیں، 2005میں پاکستان نے 21ملین میٹرک ٹن سے زیادہ گندم پیدا کی ،جو پورے افریقہ کی گندم کی پیداوار(20ملین)سے زیادہ اور پورے لاطینی امریکہ کی گندم کی پیداوار (24ملین)کے برابر ہے۔ پاکستان زرعی پیداوار کے لحاظ سے پوری دنیا میں 12ویں نمبر پر ہے، اسکی زمینیں ہر سال 32بلین ڈالر کا غلہ اُگلتی ہیں۔ اے برادرانِ اسلام! یاد رکھیں،معاشی قوت کا تعلق پالیسی اور ویژن سے ہے نہ کہ ذرائع کی کمی سے۔
جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے ، جو کہتے ہیں کہ امریکہ فوجی لحاظ سے بہت مضبوط ہے جبکہ ہم کمزور ہیں، اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ ہم امریکی ڈکٹیشن پر عمل کریں۔ آپ میں سے جو واقعی ایسا سمجھتے ہیں، ہم اُن سے کہتے ہیں: پاکستانی فوج دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوج ہے اور ایک مستحکم ایٹمی طاقت کی حامل ہے اور جدید میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہے،جس میں اس علاقے میں امریکی فوجی موجودگی کو بے اثر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور یہاں سوال یہ نہیں کہ کیا امریکہ یہ دھچکا سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس وقت کہ جب اس کی فوج اپنی استطاعت سے زیادہ پھیل چکی ہے اور امریکہ کی اپنی رائے عامہ امریکی افواج کی واپسی کے حق میں ہے اور امریکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، کیا اس وقت امریکہ ایسے نقصان کے لیے تیار ہے جو پاکستانی افواج اسے پہنچا سکتی ہیں؟ خلیج کی دوسری جنگ میں ترکی کی افواج نے شمال کی طرف سے امریکہ کوجنگی دہانا مہیا کرنے سے انکار کر دیا تو کیا امریکہ نے بمباری کرکے ترکی کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا، اورکیا امریکہ ایسا کر بھی سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ 11مارچ 2009ء کو چیئرمین امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن سمیت اوبامہ انتظامیہ کے اہم عہدیداروں کے سامنے اپنی پری زینٹیشن کے دوران 'افغانستان اِنٹر ایجنسی پالیسی ریویو‘کے چیئرمین بروس رِڈل نے کہا کہ ہم نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی انتہائی آپشن کو بھی سامنے رکھا اور ظاہر ہے کہ اِس آپشن کو فوراً مسترد کردیا کیونکہ ایک ایسے ملک پر حملہ کرنا جس کے پاس درجنوں ایٹمی ہتھیار ہوں پاگل پن سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اور اس پر سب نے اتفاق کیا‘۔ امریکہ کی کمزوری اس بات سے بھی عیاں ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کی فضاؤں، زمینی راستے ، ایندھن کی ترسیل اور انٹیلی جنس شےئرنگ کی ضرورت ہے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ مضبوط ہے؟ اور افغانستان میں دس سال جنگ لڑنے کے بعد بھی امریکیوں کو حقانی اور افغان طالبان سے ڈِیل کرنے کے لیے آپ کے سیاسی اثر رسوخ کی ضرورت ہے، تاکہ اوباما انتظامیہ اور امریکہ افغانستان کی دلدل سے نکل سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا ذَلِكُمْ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِي إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
''یہ شیطان ہی ہے جو کہ اپنے دوستوں سے تمہیں ڈراتا ہے، مگر تم ان سے مت ڈرو اورمجھ ہی سے ڈرو ،اگر تم مومن ہو‘‘(اٰل عمرٰن:175)
جہاں تک پاکستان کے سٹریٹیجک محل وقوع کا تعلق ہے،تو روس اور چین کی راہ روکنے کے لیے امریکہ کے یوریشیا(Eurasia) میں داخلے کا تمام تر دارومدار پاکستان پر ہے ، کیونکہ پاکستان کی حیثیت وسط ایشیائی ریاستوں کے دروازے کی سی ہے۔ علاوہ ازیں شمال میں وسط ایشیائی ریاستوں سے اورجنوب میں آبنائے ہرمز سے، گزرنے والے مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی محفوظ ترسیل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستانی ریاست امریکہ کے سامنے ایک نرم اور اطاعت گزار ریاست ہو۔ آج ہمیں جس کی ضرورت ہے وہ ایک مخلص قیادت ہے جو پاکستان کے سٹر یٹیجک محلِ وقوع اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کو سرحدوں سے باہر تک پھیلا دے اور خطے میں امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی بجائے امت کے مفادات کا تحفظ کرے۔
جہاں تک آپ میں سے اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ کرگزرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ خلافت کے قیام کی کوشش ان کے دنیاوی مفادات کے کھوجانے کا باعث بن سکتی ہے ، وہ مفادات جو انہوں نے اِس ادارے کے ذریعے حاصل کیے ہیں یا اپنی ریٹائرمنٹ پر حاصل کریں گے ؛توہم ان سے کہتے ہیں کہ کیاآپ لوگوں کے لیے کرپٹ حکمرانوں کو ہٹانے کی اہمیت کہ جو امت کی موجودہ ابتر صورتِ حال ،خونریزی اورپاکستان اور اس کی افواج کی تباہی کی وجہ ہیں ،ان حکمرانوں کی طرف سے مہیا کیے گئے مادی مفادات سے بھی کم ہے؟ وہ مادی مفادات کہ جنہیں آپ لوگوں کی وفاداری کو خریدنے اور برقرار رکھنے کے لیے سستی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید آپ کے دلوں میں اس وقت اللہ کا خوف امڈ آئے گا جب آپ یہ جان جائیں گے کہ آپ جو کچھ بھی کر لیں،ایک دن آپ نے لازماً اپنی قبر میں اترنا ہے۔ اور آپ کو اپنا مال و دولت،زمین و جائیداد اور باغات سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا ہو گا:
( کَمْ تَرَ کُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ o وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْھَا فٰکِھِیْنَ o کَذٰ لِکَ قف وَاَوْرَثْنٰھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ o فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ)
''وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے ۔ اور آرام کی وہ چیزیں جن میں وہ عیش کر رہے تھے ۔ اسی طرح ہوا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا ۔ سو نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ ہی زمین ، اور نہ ہی انہیں مہلت ملی‘‘(الدخان:25تا29)
محترم برادرانِ اسلام!
گذشتہ سالوں کے دوران ہم بے شمار پمفلٹوں اور پریس ریلیزوں کے ذریعے آپ کو خبردار کر چکے ہیں ،جن سے آپ بخوبی آگاہ ہیں، اس حد تک کہ آپ ہمارے نشر کر دہ پمفلٹوں اور پریس ریلیزوں کے ہر جملے اور لفظ پر نظر رکھتے ہیں۔ دس سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کو نظر انداز کر دیا تھا جب ہم نے اپنے پمفلٹوں کے ذریعے آپ کو بتایا تھا کہ آپ کی غدار قیادت مشرقی اور مغربی سرحدوں کے متعلق پالیسی کو اُلٹے رخ تبدیل کرنے کی اجازت دینے جا رہی ہے ۔ دس سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کوبھی نظر انداز کر دیا تھاجب ہم نے آپ کو خبردار کیا تھا کہ آپ کی غدار قیادت پاکستان کی سرزمین پر امریکی انٹیلی جنس کارندوں کو کھلم کھلا کام کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ پانچ سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کو نظر انداز کر دیا جب ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ کی غدار قیادت نے ڈرون حملوں کی خفیہ طور پر اجازت دے دی ہے جبکہ عوام کے سامنے وہ ان حملوں کی مذمت کرتی ہے۔ اور ایک سال قبل آپ نے ہماری وارننگ پر کان نہیں دھرا کہ امریکہ ہمارے شہروں میں یک طرفہ کاروائی کی صلاحیت رکھتا ہے ،جیسا کہ پھر ایبٹ آباد حملے میں ظاہر ہوگیا۔
توکیا آپ آج ہماری وارننگ پر دھیان نہیں دیں گے جب ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں آپ کی غدار قیادت ہمارے ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کر دے گی؟ تو اگر ایک دن امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو کنٹرول میں لینے کے لیے یک طرفہ کاروائی کا آغاز کیا ،جبکہ کیانی پہلے ہی امریکیوں کو ایسی یک طرفہ کاروائیوں کے قابل بنا چکا ہے، تو کیا آپ ایک مرتبہ پھر خاموش رہیں گے اور حیرت ظاہر کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے؟ اور کیا آپ ہماری اس وارننگ پر دھیان نہیں دیں گے کہ امریکہ نے کیانی اور شجاع پاشا کے ساتھ مل کر شہرِکراچی کو خون میں نہلا دیا ہے تاکہ امریکہ کی جنگ کو پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے شہر تک پھیلا دیا جائے ، اور پاکستانی افواج کے لیے ایک اور دہانا کھول دیا جائے۔ اور اگر ایک دن اس جنگ کو ملتان یا اس سے بھی آگے تک پھیلا دیا گیا تو کیا تب بھی آپ حیرت کا اظہار کریں گے اورچُپ سادھے رکھیں گے؟
آپ کے لیے ہرگزجائز نہیں کہ آپ خاموشی اختیار کیے رکھیں جبکہ آپ کی زبانوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ آپ اس ملک اور اس ملک کے مسلمانوں کا تحفظ کریں گے۔ تو کیا آپ اس عہد کو توڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہورہے؟ ہم جانتے ہیں اور آپ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کے درمیان ایسے مخلص عناصر موجود ہیں ،جنہوں نے اپنی ذمہ داری اور فرض کو پہچانا اور امریکی غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا اور انہیں افواجِ پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنا فرض پورا کیا بلکہ وہ قیامت کے دن آپ کے گناہوں سے بھی بری ہوں گے۔ لیکن اے بھائیو! آپ اُس بھاری دن اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے؟
محترم برادرانِ اسلام!
حل واضح ہے کہ آپ ان کرپٹ اور سیکولر حکمرانوں اور اس کفریہ استعماری نظام کو اُکھاڑنے اوران کی جگہ خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ کے قوانین کو نافذ کرنے میں ہمارے ساتھ مل کر اور ہمارے ذریعے کام کریں۔ خلافت کے ذریعے ہی آپ اس قابل ہوں گے کہ آپ امتِ مسلمہ کو وحدت بخشیں، لوگوں کے حقوق کو پورا کریں ، دولت کی عادلانہ تقسیم قائم کریں اور افواج کو واپس ان کے بنیادی کام کی طرف لائیں کہ وہ مسلمانوں کی جان اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور خطے سے بیرونی تسلط کا خاتمہ کرے۔ خلافت کا قیام آپ پر فرض ہے اور اگر آپ نے اس فرض کو پورا کیا تو ربِ کائنات کی رضامندی آپ کی منتظر ہے، جس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اور اگر آپ نے دیر کی اور منہ پھیرا تو تمام امت قیامت کے دن آپ کے خلاف گواہی دے گی کیونکہ آپ نے امت کے مسائل کے حل سے رُوگردانی کی۔
ہم جانتے ہیں کہ آپ میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے سامنے معاملے کی سچائی واضح ہے اور جن کے دل اس بات پر اللہ کے خوف سے لرزتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرض سے کوتاہی برتی ہے۔ ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ اے محترم بھائیو، ہم یہاں آپ کے درمیان پہلے سے ہی موجود ہیں، آپ اپنی صفوں میں نگاہ دوڑائیں،آپ ہمیں پا لیں گے۔ اور یہ کہ اللہ پر ہی توکل کریں ، وہ آپ کے لیے کافی ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)
''اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہا ری مدد کریگااور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘(محمد:7)
اور اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے صالح اعمال کیے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے خلافت قائم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لاَ يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ
''وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال اختیار کئے ہیں،اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں لازماً حکمرانی عطا کرے گا،جیسا کہ اُس نے اُن کو حکمرانی عطاکی تھی جو ان سے قبل تھے،اور اُن کیلئے لازماً ان کے اِس دین کو محکم کر کے جما دے گا، جسے اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے،اورضرور ان کی خوف کی حالت کوامن و بے خوفی سے بدل دے گا۔ وہ میری بندگی کریں گے،اورمیرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے،اور جو کوئی اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق
ہیں‘‘(النور:55)
اوررسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((عصابتان من امتی احرز ھما اﷲ من النار عصابۃ تغزو الھند، وعصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہما السلام))
''میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ آگ سے بچائے گا؛ ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم ؑ کے ساتھ ہوگا‘‘۔(النسائی و احمد)
اور ابوہریرۃؓ نے روایت کیا:
(( وعدنا رسول اﷲ ﷺغزوۃ الھند، فإن ادرکتھا انفق نفسی ومالی، وان قتلت کنت افضل الشہداء، و ان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر))
''رسول اﷲ ا نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، اگر میں اُس وقت موجود ہوا تو میں اپنا مال اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا۔ اگر میں قتل کیا جاؤ ں تو میں افضل شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ واپس لوٹا تو (گناہوں سے)آزاد ہونگا‘‘۔(النسائی، احمد ، الحاکم)
یہ دو احادیث آپ کے غور کرنے کے لیے ہیں اور آپ کو ان احادیث میں موجود بشارتوں کو حاصل کرنے کی تمنا کرنی چاہیے۔ ان بشارتوں کے حصول کا راستہ یہی ہے کہ آپ حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں ، کیونکہ خلافت کے علاوہ اور کون ہے جو ان اعلیٰ افواج کو ہند کی فتح کی طرف لے جائے گا۔ پس آپ جان لیں کہ اللہ نے ان تمام گناہوں کی بخشش کا راستہ بھی آپ کو دکھا دیا ہے جو آپ نے ان غداریوں پر خاموش رہ کر جمع کر لیے ہیں۔
اے اللہ گواہ رہنا کہ ہم نے پیغام پہنچا دیا!